• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روحانی جائزہ۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
❄❄❄❄❄

*روحانی تجربہ*
کسی کے ساتھ رہنا محض جسمانی (مادی یا فزیکل) تجربہ نہیں بلکہ یہ ایک روحانی ( spirtual ، ماورائے بدن ) تجربہ بھی ہے۔

ہم ایک دوسرے کے ساتھ محض وقت نہیں، بلکہ جذبات، احساسات اور روح بھی بانٹتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ ہم شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے ساتھ رہنے بسنے والے لوگوں کا اثر قبول کرتے ہیں۔ ہماری سوچ اور گفتگو میں ہمارے ماحول کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔

آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں،
*علمی ماحول* میں پروان چڑھنے والے بچے عموما لائق اور پڑھنے کے شوقین ملیں گے،
*ادبی ماحول* والے بچے ادب شناس ہوں گے،
*گالی گلوچ والے ماحول* کا رنگ بھی بچوں پر ویسا ہی اثر ڈالے گا،
*لڑائی جھگڑے والے گھر* میں بچہ ضدی لڑاکا یا گھبرایا سہما ہوا نکلے گا۔

ہماری سوچ ہمارے ماحول میں ایسے ہی سرایت کرتی ہے جیسے خوشبو ایک جگہ سے چاروں طرف پھیلتی ہے۔
نمازی پرہیزگار والدین کے بچے عموما دین بیزار نہیں ہوتے،
نرم خو ماں کی بیٹی عموما ترش رو نہیں ہوتی،

*بڑے بوڑھے کہتے ہیں نا کہ رشتہ کرتے ہوئے لڑکی کی ماں کو دیکھو۔* اس کا مفہوم کیا ہے؟ کہ جس لڑکی نے آپ کے گھر کی بہو/بیوی بننا ہے اور آپ کی آئندہ نسل کی تربیت کرنی ہے، اس کی ماں کیسی بہو، کیسی بیوی اور کیسی ماں ہے؟ ایک سگھڑ ماں کی بیٹی ارادتا کچھ نہ بھی سیکھے، سگھڑاپا اس کی گھٹی میں شامل ہو ہی جاتا ہے۔

مثل مشہور ہے
*باپ پہ بیٹا، پتا پہ گھوڑا* *بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا*

بس یہی سوچ کر اپنے آپ پر نظر ڈالیں۔ آپ اپنی اولاد سے جو توقع کرتے ہیں ویسا خود بن کر دکھائیں۔ بچے آپ کا آئینہ ہیں، وہ آپ کی مثال سے سیکھتے ہیں.۔
آپ قرآن سکھائیں یا لغو گفتگو،
لطائف یا وظائف، یا گالم گلوچ
یہ آپ کے اپنے ظرف پر منحصر ہے۔

اور صرف اولاد ہی کیوں؟ زندگی کا ہم سفر بھی آپ کو جیسا درکار ہے، آپ خود ویسا ہی بن جائیں، کچھ ہی عرصے میں آپ کا ساتھی آپ کے من چاہے روپ میں آپ کے سامنے ہوگا۔

*بسا اوقات ہم جس سے کوئی خونی رشتہ نہیں رکھتے، محض اک رابطہ رکھتے ہیں، کبھی دل کا کبھی خیال کا، خواب کا یا گفتگو کا، اس کا روحانی اثر ہم قبول کرتے ہیں، اور اس رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔*

اسی طرح آپ اپنے نیٹ فرینڈز پر نظر ڈالیں، جن کے ساتھ آپ دن کا کچھ یا بیشتر حصہ گزارتے ہیں، ان کی باتوں کا جواب دیتے ہیں، ان کے سوالات پر غور کرتے ہیں، ان سے آرٹیکلز، ویڈیوز یا آڈیوز کا تبادلہ کرتے ہیں، یہ سب آپ کی شخصیت و کردار سازی کا حصہ ہے، یہ تربیت آپ خود حاصل کر رہے ہیں۔ گویا آج کا دور تربیت کے لحاظ سے تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ ذرا چوکے اور زمیں بوس ہوئے۔ غور کریں کہ آپ کی تربیت میں کس کا حصہ زیادہ
ہے؟ اور وہ آپ کی کن خطوط پر ذہن و کردار کی تشکیل کروا رہا ہے۔

بس اس ساری تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ اب ہماری ذہنی و روحانی تربیت صرف ہمارے والدین نہیں کر رہے بلکہ والدین کے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول، سکول، دوست، معاشرے اور سب سے اہم سوشل میڈیا ہماری ذہنی و روحانی تربیت کا ذمہ دار ہے۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا کا کردار 50 فیصد اور باقی تمام عوامل مل کر 50 فیصد رول ادا کر رہے ہیں۔

*انجام کار ہماری اپنی انگلی کا شعوری ٹچ ہماری تربیت کر رہا ہے۔ رکیں، ٹھہریں، اپنا احتساب کریں، اور اپنی کمپنی کا سوچ سمجھ کر انتخاب کریں۔*

*ڈاکٹر رابعہ خرم درانی*

❄❄❄❄❄
 
Top