• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زبیر علی زئی اور امین صفدر اوکاڑوی

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر معتدل نظر سے دیکھا جائے تو اس وضاحت کا واقعی سر پیر ہے۔ میں نے اگرچہ خود یہ کہا ہے کہ مسلکی معاملات میں یہ عبارات کو غیر مقام پر فٹ کرنے سے لے کر جرح و تعدیل میں بے اعتدالی تک کر جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود میں اس وضاحت کو قبول کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کچھ بھی کہہ لیں لیکن امین اوکاڑویؒ عقل رکھتے تھے اور ایک عاقل شخص ایسی فاش بے وقوفیاں نہیں کیا کرتا، خاص طور پر کتابت میں کیوں کہ بولنے میں تو بسا اوقات بات منہ سے نکل جاتی ہے لیکن کتاب پر ایک سے زائد بار نظر پڑتی ہے۔ یہ تو ایک عام ذہن والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ ایسی صریح غلط بات اگر میں لکھوں گا تو مخالف فورا پکڑلے گا اور خصوصا تب تو لازمی پکڑ لے گا جب مخالف کی اس کتاب (مسلم) پر اکثر نظر رہتی ہو اور وہ اسے پڑھتا پڑھاتا بھی رہتا ہو۔ تو امین اوکاڑویؒ جیسے بندے سے اس بے وقوفی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اس لیے ان کی یہ وضاحت مان لینی چاہیے کہ اس عجیب غلطی کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہونا ضروری ہے۔
پھر میں نے ان کی تجلیات ایک بار خود پڑھی ہے اور کئی مقامات پر حوالہ جات اصل کتب سے بھی دیکھے ہیں۔ تو اس قسم کی حرکتیں میں نے اس میں نہیں دیکھیں۔ حالاں کہ اگر کسی شخص کی یہ عادت ہو تو اتنی بڑی سات جلدوں کی کتاب میں وہ بار بار دہراتا ہے۔ اس سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ اس گڑبڑ کی کوئی وجہ تھی۔
یہ اس وضاحت کا سر پیر نہیں آپ کی عقیدت کا حسن ہے، سر پیر تو اس وقت ہو کہ آپ یہ دکھلاتے:
اول : ان کتب میں اس عبارت کے آگے پیچھے دیکھ کر بتلا دیجئے کہ واقعی یہ نام نہاد اہل قرآن کی جانب سے کئے گئے اعتراض ہيں؟
اور یہ کام تو امین صفدر اکاڑوی صاحب کی بہت جگہ نظر آتا ہے۔
یہ جس نعرہ کا آپ نے کہا ہے مجھے اس کے بارے میں یاد نہیں نہ ہی دیوبند والی تحریر میں اس کی جانب کوئی اشارہ کیا گیا ہے۔ البتہ میں نے اوکاڑویؒ کی ایک تحریر پڑھی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا ایک ہی جملہ کو مختلف انداز سے ادا کیا جاتا ہے تو اس کا معنی الگ ہوجاتا ہے (اس کی انہوں نے مثالیں بھی دی تھیں)۔ حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ فلاں جملہ کس قسم کے ماحول میں اور کس انداز میں ارشاد ہوا ہے۔ اس لیے سنت یعنی عمل رسول ﷺ یا عمل صحابہ اور تابعین و سلف کو دیکھا جائے گا کہ اس سے حدیث کے کس معنی کی تشریح ہوتی ہے۔
اگر آپ کی مراد یہ بات ہے تو یہ عقل میں آنے والی بات ہے۔ لیکن مجھے اس بات سے کچھ اختلاف اور کچھ اتفاق ہے۔
(الف) قرآن ہی کی طرح احادیث بھی منجانب اللہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام کو دی گئی ہیں، (ب) قرآن کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں، (ج) اور قرآن ہی کی طرح ان کی اتباع اور ان پر عمل لازم ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ، تابعین، محدثین، فقہائے مجتہدین اور تمام علماء اہل سنت والجماعت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت اور اس کی تشریعی حیثیت پر بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں، اہل اسلام کے کسی گروہ، یا فرد نے جب کبھی بھی حدیث پاک کی اس شرعی حیثیت پر ردوقدح کی ہے تو اسے یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
غرضیکہ علماء حق کا یہی جادئہ متوارثہ ہے۔ اپنے تمام اساتذہ کو بھی اسی موقف پر پایا، اور اب تک اس موضوع پر جن کتابوں کے مطالعہ کی توفیق ملی وہ تقریبا ایک درجن سے زائد ہیں ان میں صرف فرقہ قرآنیہ کے بعض مصنّفین کی دو ایک کتابوں کے علاوہ سب میں قابل قبول قوی دلائل کے ساتھ حجیت حدیث کے مذہب منصور کا اثبات اور تائید و توثیق کی گئی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہم عصر مشہور فاضل نے جو اپنی وسیع علمی خدمات کی بناء پر اوساط علمیہ میں اعتبار واستحسان کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں میرے علم کے مطابق سب سے الگ ایک جدید نقطئہ نظر پیش کیا ہے جو انھیں کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”حدیث اور سنت میں فرق (ہے) اور حجت سنت ہے حدیث نہیں“ زیر نظر تحریر میں اسی نقطئہ نظر کا اپنے علم و فہم کے مطابق جائزہ لیاگیا ہے۔
واللّٰہ ہو الملہم الصواب والسداد، وعلیہ التکلان والاعتماد.
ان شاء اللہ فرصت ملنے پر اس یہ بات بھی امین صفدر اکاڑوی کی تحریر یا کلام سے پیش کرتا ہوں،
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
البتہ جو آپ نے ناقابل عمل قرار دینے کا کہا ہے تو میں اس میں ذرا اضافہ کرتا ہوں کہ بعض صحیح احادیث کو بھی امین صفدر اوکاڑویؒ ضعیف قرار دے جاتے ہیں مسلکی اختلاف کے وقت۔ اور ایسی خطرناک اور شاندار جرح ہوتی ہے کہ انسان کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اب آپ دیکھیں ایک حدیث امام مالک روایت کریں اس میں کچھ مذکور ہو، پھر انہی سے حمیدی روایت کریں تو اس میں کچھ اضافہ ہو جائے (زیادتی ثقہ کا ذکر نہیں کر رہا) پھر ان سے بخاری روایت کریں تو اور اضافہ ہو جائے۔ اور ایک بندہ یہ تضادات سامنے رکھے تو انسان بے اختیار بخاری کی اس حدیث کو ضعیف قرار دیدے گا جس کی انتہاء اس کی ابتداء اور اساتذہ سے مختلف ہو۔
آپ غلام احمد پرویز کی مقام حدیث دیکھیں! یہی طرز نظر آئے گا!
اور یہ بات آپ کی درست ہے کہ انسان پریشان ہو جائے، اگر اسے ان کی حقیقت سے آگاہی نہ ہو!
 
Top