• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زلزلہ اور خود احتسابی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
زلزلہ اور خود احتسابی

روز نامہ پاکستان، 30 اکتوبر 2015، صفحہ نمبر 15

محمدہاشم یزمانی
زمین وآسمان کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے، وہ جیسے چاہے ان میں تصرف فرماتا ہے۔ چاند یا سورج کا گہنا جانا یا زمین میں زلزلوں کا رونما ہونا اللہ تعالی ہی کی منشاء اور مرضی سے ہوتا ہے۔ زلزلوں کا بکثرت آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان مبارک ہے کہ:
تب تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک علم کو اٹھا نہ لیا جائے اور بہت زیادہ زلزلے رونما نہ ہونے لگ جائیں۔
اللہ تعالی اپنے بندوں کو طرح طرح سے آزماتا بھی ہے، جن میں ایک ذریعہ زلزلے بھی ہیں ۔ بسا اوقات انسان کے اپنے اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی سزا کے طور پر اللہ تعالی زلزلے اور دیگر آزمائشوں سے لوگوں کو دوچار فرماتا ہے۔ اللہ تعالی نے سورۃ الروم کی آیت نمبر 41 میں فرمایا ہے کہ: بحر وبر میں دکھائی دینے والے بگاڑ اور فساد کا سبب لوگوں کے اپنے اعمال ہیں۔ اسی طرح سورۃ شوری کی آیت نمبر 30 میں فرمایا کہ:
تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے اللہ تعالی ویسے ہی در گزر فرما دیتا ہے۔
ترمذی شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
جب لوگ شراب پینے لگ جائیں، ناچنے گانے والیوں کو پذیرائی ملنا شروع ہو جائے اور آلاتِ موسیقی کا استعمال عام ہو جائے تو اس امت میں بھی زمیں دھنسنے، آسمان سے پتھر برسنے اور شکلوں کے مسخ ہونے کا عذاب نازل ہوگا۔
اسی طرح صحیح بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! نیک لوگوں کے ہوتے ہوے بھی ہم ہلاک ہو جائیں، کیا یہ ممکن ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! جب فسق وفجور کی گندگی زیادہ ہو جائے۔ زلزلے اور اس طرح کے دیگر حادثات انسان کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی سورۃ السجدۃ آیت نمبر 21 میں ارشاد فرماتا ہے کہ: اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا اِنہیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آ جائیں ۔نیک لوگوں کے لیے ایسی آزمائشیں خیر اور برکت کا باعث بن جاتی ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ برائی عام ہونے پر اللہ کے عذاب میں سبھی مبتلا ہو جائیں گے لیکن نیک لوگ اپنے انجام یعنی اللہ کی رحمت کی طرف منتقل ہو جائیں گے۔اسی طرح اہلِ ایمان کو کندن بنانے اور ان کے ایمان میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے بھی انہیں مختلف طریقوں سے آزماتا ہے۔ انسان کو ہمیشہ اللہ تعالی کی پکڑ اور آزمائش سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب کبھی بادل رونما ہوتے تو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو جاتے، دریافت کرنے پر فرماتے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بادل بھی ویسا نہ ہو جیسا کہ سابقہ امتوں میں ہوتا تھا اور بارش کی بجائے وہ ان پر طوفان اور عذاب کا روپ دھار لیتا تھا۔ چنانچہ بارش شروع ہونے تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھبراہٹ کے عالم میں رہتے۔اسی طرح خوشحالی اور آسانی کے دنوں میں اللہ کو یاد رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ: تم خوشحالی میں اللہ کو یاد رکھو، اللہ تعالی تمہیں مشکل حالات میں یاد رکھے گا۔ اسی طرح انسان کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں خالق اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی میں وہ کوتاہی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا۔ اگر کہیں غلطی دکھائی دے تو فوراً استغفار کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی سورۃ الأنفال آیت نمبر 32 میں فرماتا ہے:
اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دیدے ۔ صدقہ وخیرات کرنا اور اللہ تعالی سے دعا کرنا بھی ایسے مواقع پر اہل ایمان کا زبردست ہتھیار ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند اور سورج گرہن کے مواقع پر امت کو خصوصی طور پر دعا اور صدقہ وخیرات کی تعلیم فرمائی ہے۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’ صدقہ کرنے سے انسان کے گناہ ایسے ختم ہو جاتے ہیں جیسے پانی سے آگ بجھ جاتی ہے۔‘‘ اور جس قدر انسان کے گناہ کم ہون گے اتنا ہی وہ اللہ کے غضب سے دور رہے گا۔اسی طرح ذکر اذکار کا خصوصی اہتمام بھی انسان کو قدرتی آفات سے بچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ترمذی شریف میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس شخص نے شام کو تین بار یہ دعا پڑھ لی تو اسے صبح تک اور جس نے صبح کو پڑھ لی وہ شام تک کسی بھی ناگہانی مصیبت اور آفت سے محفوظ رہے گا۔ دعا کے الفاظ یہ ہیں:
بِسْمِ اللَّهِ الَّذِى لاَ يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَىْءٌ فِى الأَرْضِ وَلاَ فِى السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
گزشتہ دنوں پاکستان کی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ آیا، جس میں بہت ساری قیمتی جانیں لقمۂ اجل بن گئیں جبکہ سینکڑوں لوگ شدید زخمی ہوے۔ اللہ تعالی فوت شدگان کی مغفرت فرمائے ، ان کے لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے اور تمام متأثرین کو نعم البدل عطا فرمائے۔ زلزلے کے ایک ہی جھٹکے نے سب کی آنکھیں کھول دیں، عوام کلمے کا ورد کرتے ہوے عمارتوں سے باہر نکل آئے۔ اسی پر کسی نے کہا ہے: بھولے ہوے تھے سب رب کو!! بھٹکے ہوے تھے الجھنوں میں! اک ذرا سی زمیں کیا ہِلی! کہ سب کو رب یاد آگیا!! اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کی یہ یاد اور ڈر ہم میں کتنی دیر تک برقرار رہتا ہے ،کہیں ہم بھی ان میں سے تو نہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالی نے سورۃ یونس آیت نمبر 12 میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’ انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔‘‘
بلاشبہ جس شخص کا ضمیر مردہ نہیں ہوا وہ اس حادثے سے بہت کچھ سیکھے گا۔ اللہ تعالی کا یہی انعام کیا کم ہے کہ الحمدللہ اس نے ہمیں عافیت سے رکھا اور سنبھلنے کا ایک اور موقع عطا کیا ، ورنہ کتنے ہی لوگ اور ہمارے پیارے ہیں جو آناً فانًا لقمہ اجل بن چکے !! ایک طرح سے اللہ تعالی نے ہمیں نئی زندگی عطا کی ہے تو کیا اس پر ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اپنی زلزلے سے پہلے اور بعد والی زندگی کا جائزہ لیں ؟! اس خود احتسابی کے لیے ہمیں درج ذیل سوالات پہ ایک نظر ڈالنا ہوگی کہ اس حادثے کے بعد: کتنے لوگوں نے اپنے عقائد کی اصلاح کی کوشش کی؟ کتنے بے نمازیوں نے نمازی بننے کا رب سے پختہ وعدہ کیا؟ مساجد کی رونق اور آبادی میں کتنا اضافہ ہوا؟ لین دین اور خرید وفروخت میں ڈنڈی مارنے اور دھوکہ دینے والے کتنے مسلمانوں نے صدقِ دل سے توبہ کی؟ سود خوری اور رشوت ستانی کے رسیا ودلدادہ کتنے مسلمانوں نے کسبِ حرام کو خیرباد کہا؟ فلم بینی، موسیقی اور دیگر خرافات کے شوقین کتنے مسلمانوں کے دل میں خوفِ الہی پیدا ہوا؟ وراثت میں بہنوں کے حصے پہ قبضہ جمائے ہوےکتنے بھائیوں نے اپنی بہنوں کو ان کا حق دینے کا اعلان کیا؟کتنوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ تعالی سے معافی مانگی؟غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے والے کتنے کلمہ پڑھنے والوں نے ان گناہوں سے توبہ کی؟ کتنی بے پردہ خواتین نے حجاب اوڑھنے اور باپردہ رہنے کا اعلان کیا؟ فحاشی و عریانی اور شراب نوشی کے کتنے اڈے ہمیشہ کے لیے ویران ہوے؟ مظلوموں پر ظلم ڈھانے والے کتنے جابروں نے اپنی اس بری روش کو ترک کیا؟ دن رات معاشرے میں عریانی وفحاشی پھیلانے والے کتنے لوگوں نے راہِ استغفار کو اختیار کیا؟ دین اور شعائرِ اسلام کا مذاق اڑانے والے کتنے لبرلز اور سیکولرز نے اپنے موقف سے رجوع کیا؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو الحمدللہ خیر کی علامت ہے اور اگر خدانخواستہ جواب نفی میں ہے تو خطرہ ابھی ٹلا نہیں بلکہ سنبھلنے کا مزید ایک موقع گنوا کر ہم نے اللہ کے عذاب کو خود دعوت دے ڈالی ہے. ہمیں غور کرنا چاہیے کہ خدانخواستہ اگر اپنی ان برائیوں اور خرابیوں سمیت ہم بھی کسی عمارت کے نیچے دب چکے ہوتے تو ہمارا حشر کیا ہوتا ؟ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
اعمال کا دار ومدار انسان کے خاتمے اور آخری عمل پر ہے۔
اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم اللہ کی طرف پلٹ آئیں؛ کیونکہ قیامت کے جھٹکے اور زلزلے کے بعد لاکھ خواہش اور منت سماجت کے باوجود انسان کو سنبھلنے اور پلٹنے کا کوئی موقع نصیب نہ ہوگا! اللہ تعالی ہماری اصلاح فرمائے اور حوادث سے عبرت حاصل کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔
 
Top