- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
بڑی ہی عجیب اصطلاح ہے یہ..
زمان ومکان..
شاید یہ سطور لکھنے تک بھی ہماری حواسِ خمسہ کبھی اس اصطلاح کی عادی نہ ہوسکی حالانکہ یہ ایک خالصتاً علمی اصطلاح ہے جو 1905ء سے مستعمل ہے..
یقیناً تاریخ پڑھنے میں آپ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے اور نا ہی یہاں طباعت کی غلطیوں کا کوئی امکان ہے، یہ اصطلاح واقعی ایک صدی سے زائد عرصہ سے مستعمل ہے..
اُس سال مشہورِ زمانہ سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے ایک نیا علمی نظریہ پیش کیا جسے طبیعات اور ریاضی میں انقلابی حیثیت حاصل ہوئی اور جسے “خصوصی نظریہ اضافیت” کا نام دیا گیا..
اس نظریہ میں شاید پہلی بار آئن سٹائن نے یہ عجیب وغریب اصطلاح استعمال کی..
زمان ومکان..
آسان لفظوں میں اس اصطلاح کا مطلب ہے زمان ومکان میں ایک ساتھ سفر کرنا..
اس اصطلاح نے سائنسدانوں کے خیال کو ایک ایسی نئی جہت بخشی جہاں آئن سٹائن کے نظریہ سے پہلے کوئی نہیں پہنچ سکا تھا..
اس زمانے میں صرف زمان میں سفر ہی ایک ایسا سائنس فکشن تھا جسے لندن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل انگریز صحافی اور ادیب “ہربرٹ جارج ویلز” نے اپنی شہرہ آفاق تخلیق “ٹائم مشین” میں 1895ء میں متعارف کرایا تھا..
اس کہانی میں ویلز کا ہیرو اپنی عجیب مشین کے ذریعے مستقبلِ بعید میں چلا جاتا ہے جسے مصنف نے ایک انتہائی مثالی معاشرے کے طور پر بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا جہاں لوگ بڑے امن وسکون سے ایک خوبصورت دنیا میں رہتے ہیں جس کے چاروں طرف باغ، خوبصورت نہریں اور دولت کے انبار ہیں، لیکن ہیرو زمین کے نیچے ایک اور بالکل مختلف دنیا دریافت کرتا ہے جس کے رہائشی درندے دن رات اوپر کی دنیا کو قائم رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں جو درحقیقت ان کی خوراک کے لیے ایک کھیت کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو اغواء کرکے انہیں جانوروں کی طرح کھا جایا کرتے تھے..
اس تصویر نے انیسویں صدی کے آخر کی دنیا کو ڈرا دیا اور بیک وقت حیران بھی کردیا، خاص طور سے جبکہ ویلز نے سب سے پہلے صنعتی معاشروں میں مزدوروں کی برتری کی طرف شارہ کیا..
اور سب سے پہلے ٹائم مشین کا ذکر بھی..
ایک ایسی معجزاتی مشین جس نے ویلز کے زمانے سے لے کر آج تک کے ادیبوں کو حیران کر رکھا ہے، یہ مشین ہی ایسی ہے، اس میں ایک حیران کن خوبی ہے، یہ زمانے کو چیرتے ہوئے ایک لمحے میں آپ کو کسی بھی زمانے میں پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے..
ویلز کے بعد ادیبوں اور فنکاروں کا تخیل گویا پھٹ پڑا، اور ایسے ہی تخیلات کے انبار لگنے لگے اور عوام نے بھی اس تصور کے مزے لینے شروع کردیے اور..