• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے ؟

شمولیت
ستمبر 29، 2013
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
43
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے ؟

محترم قارئین کرام "

لذتوں کی ہازم اور خواب غفلت سے بیدار کر دینے والی حقیقت کا وقوع نہ تو قابل حیرت ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو خلاصی اور بہار و خزاں کی کشمکش میں پھولوں کا جڑنا کوئی انوکھی چیز نہیں لیکن بعض پھول سرداروں اورملوک علی الأ سرۃ کی حیثیت رکھتےہیں جنکا جھڑ نا باغ کو یتیم کر دیتا ہے اور اس حقیقت کو ایک مخلص اور ماہر مالی ہی سمجھ سکتا ہے نہ اس میدان سے غافل کوئی شخص کہ سو نے کی قدر اور حقیقی معرفت سونے ہار کو ہی ہوتی ہے نہ کہ اجنبی شخص کو بلا شبہ اہل دل جانتے ہیں کہ شیخ عبد الحمید ازھر رحمہ اللہ کی وفات بہت بڑا صدمہ ہے اور بقول فضیلۃ الشیخ سعد الدوسری حفظہ اللہ مدیر مکتب الدعوۃ السعودیۃ : شیخ عبد الحمید ازھر رحمہ اللہ کی وفات کی تعزیت تو پوری امت سے کرنی چاہیے۔ غم اس بات پر نہیں کہ شیخ رحمہ اللہ کو وہ موت آگئ جس وقوع یقینی اور حقیقی امر ہے اورہر نفس پر آنی ہے بلکہ خلوت اور جلوت میں خون کے آنسوں بہانے کے قابل شیخ رحمہ اللہ کا وہ علم وہ فقہ وہ تقوی وہ فراست وہ حکمت و دانائی وہ اخلاق وہ برکت وہ زندہ جذبات جو ان کیساتھ اس مٹی میں مدفون ہے جہاں نہ کوئی شاگرد جو ان کا علم ہم تک منتقل کرسکے نہ کوئی سائل جو اس پرفتن دور کے متعلق ان کے جوابات اور نصائح محفوظ کرکے ہمیں ان سے آگاہ کرسکے اور نہ ہی قلم اور دوات اور نہ ہی ان کی رسا‏ئی کہ ہم ان کے مکتوب سے فا‏‏ئدہ اٹھاسکے انہیں نتائج کو سامنے رکھ کر کسی دانا شخص نے کہا تھا موت العالِم موت العالَم۔ ویسے تو شیخ رحمہ اللہ کا نام ہی ان کا صاحب صفات و کمال ہونے کی گواہی دیتا ہے اور یقیناً وہ اسم با مسمی تھے بلکہ ان کی امتیازی خوبی ہی یہ تھی کہ اللہ نے بیک وقت ان میں بہت ساری صفاتِ کمال جمع کر دی تھی مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ خوبصورتی اور خوب سیرتی کی صفات کے جامع تھے یہاں بطور مثال ہم صرف ان چند صفات کا تذکرہ کرتے ہیں جو دوسروں سے انہیں نمایاں اور ممتاز کرتی ہیں۔

خَلقی صفات

شیخ رحمہ اللہ درمیانے قد کے معتدل آدمی اور گندم گو رنگ ہنستا مسکراتا چہرہ جس پر بل کم ہی دکھائی دئیے سھل اور آسان مزاج کے مالک بچوں سے گفتگو کا انداز ایسا جیسے معزز دوستوں کی مجلس میں دل اور جان کی حاضری کیسا تھ محبوب دوستوں کی مجلس کو معطر کيا جاتا ہے ان کی خوش اور سھل مزاجی کا ہی نتیجہ تھا کہ جس کا شیخ رحمہ اللہ سے واسطہ پڑا خواں وہ دیندار ہوں یا دنیاوی محبت کا مغلوب شیخ رحمہ اللہ کے اخلاق سے متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکا شاید یہی وجہ تھی کہ آپ کی وفات پر ہر باریش اور بے ریش کو آپ کا مداح پایا گیا اور آپ کے مدرسے کے چھوٹے طلباء کی سسکیاں آپ کی چارپا‏‏ئی کے گرد سنائی دے رہی تھی محسوس ہو رہا تھا کہ شاید آج اس حقیقی اور مشفق باپ کی اپنی حقیقی اولاد سے ہمیشہ کے لیے جدائی ہورہی جس نے اپنی اولاد کو زندگی بھر پیار کی لوریاں دی اور شاید کہ طلباء کی سسکیاں یہ شعر گا رہی تھی

زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے ؟

شیخ رحمہ اللہ کی تواضع نفسی اور علما ء کے ادب کا یہ حال تھا کہ ساتھی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ شیخ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا چنانچہ دیکھا کہ شیخ رحمہ اللہ اپنی مسجد کی طرف چڑھنے والی سیڑھیوں کے پاس بیٹھے ہیں ادب کے ساتھ وجہ پوچھی تو بتلایا کہ شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ تشریف لا رہے ہیں ان کے استقبال کے لیے بیٹھا ہوں شیخ رحمہ اللہ کی علماء ربانیین سے محبت بے مثال تھی جب بھی کسی عالم کا نام لیا مکمل ادب و احترام کے ساتھ لیا اور الفاظ کا انداز نطق ہی دل کے احترام سے بھرنے کی گواہی دے کر بتا رہا ہوتا تھا کہ شیخ رحمہ اللہ انہیں اپنے سے اعلی و اعلم سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کبھی شک پڑتا کہ شاید شیخ رحمہ اللہ اپنی صلاحیتوں سے واقف نہیں یا پھر تجاھل عارفانهکی چادر اوڑھے ہوۓ ہیں علماء تو کیا بلکہ شیخ رحمہ اللہ تو اپنے شاگردوں کے نام کیسا تھ بھی احتراما صاحب کا لقب لگاتے تھے۔

تقوی اور دل کی رقة اور نرمی کا یہ حال تھا کہ چند لمحے پہلے کا ہنستا مسکراتا چہرہ آخرت کے احوال کے تذکرے پر بدل جاتا اور بسا اوقات عمومی حالت برقرار نہ رکھ پاتے تھے لگتا تھا کہ شاید شیخ رحمہ اللہ کا دل ان دلوں سے مستثنی ہے جنہیں زیادہ خوش مزاجی اور ہنسنا متاثر کر دیتا ہے یا پھر صفا‏‏ئی کی تیز صیقل نے ہر قسم کے زنگ اور آلودگی کا خاتمہ کر دیا ہے کہ اب اس قلب کی ایمانی بہاریں کبھی ختم نہ ہوں گی اور شادابی برقرار رہے گی طبیعت پر حلم کے آثار نمایاں تھے اور یہی وجہ تھی کہ بہت سے حقائق پر مبنی شکووں کا نہ عملی حل ڈھونڈا اور نہ جگہ جگہ اس کا اظہار کیا اور نہ ہی ان کو اپنے راستے میں رکاوٹ بننے دیا بلکہ حلم نے ان کے ان شکووں کو ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا شاید کہ شیخ رحمہ اللہ اس موقف کے قائل لوگوں میں سے تھے اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة ۔ شکر گزاری کا یہ حال تھا کہ طلباء کی طرف سے انتظامی یا دیگر امور کی معقول شکایت کيۓ جانے پر چند لمحات پریشانی کے سبب خاموشی اختیار کرنے کے بعد الحمد للہ کہ کر خاتمہ کر دیتے یا اگر اپنی بیمار صحت پر تبصرہ کرنے کی ضرورت پڑتی تو کثرت سے كلمة الحمدسننے کو ملتا ۔ حکمت اور فراست اس قدر تھی کہ سوال سے پہلے سائل کو پڑھتے اور اپنی تیز دانائی کے چشمے سے بغیر تکلف کے مسئلے کی تہہ تک پہنچ جاتے یہی وجہ تھی کہ بعض اوقات ایک ہی سوال کا جواب مختلف سائلین کو مختلف انداز میں دیتے اور یہی فرق ان کی گفتگو میں بھی نظر آتا کیونکہ ان کی دوران گفتگو مقام مکان اور مقتضی الحال پر خاص نظر ہوا کرتی تھی ۔ اللہ اور رسول سے محبت اس قدر خالص تھی کہ ایک ساتھی شیخ رحمہ اللہ سے راز میں سنی ہوئی بات نقل کرتے ہیں کہ شیخ رحمہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا کہ : یہ لوگ بار بار نبی کریم ﷺکی قبر کی زیارت کس طرح کر لیتے ہیں میں نے ایک دفعہ (مدینے میں پڑنے کے دوران ) نبی کریم ﷺکی قبرکی زیارت کرنے کی ہمت کی اور نکل پڑا لیکن منزل مقصود کو پہنچنے سے پہلے بے ہوش ہو کر گر پڑا یہ تھی شیخ عبد الحمید ازھر رحمہ اللہ کی کچھ وھبی صفات لیکن افسوس کہ

مکتب ناداں میں ماضی کے نقشے بنتے ہیں مستقبل میں جاکے

الہی عادت پہ احتساب نہ کرنا ہم تو قدر کرتے ہیں جنازے اٹھاکے

شیخ رحمہ اللہ کا بارسوخ علم اور لطیف فقہ

بلا شبہ وبلا مبالغہ جاننے والے جانتے ہیں کہ شیخ رحمہ اللہ نبی کریم ﷺکی حدیث : إن الله يقبض العلم بقبض العلمآء کی مصداقات میں سے ایک مصداق تھے وہ جس فن پر گفتگو شروع کرتے محسوس ہوتا کہ شاید وہ اس فن کے متخصص اور ما ہر ہیں بلکہ ان کی شخصیت تو قدوةاور شاعر کے اس قول کی ایک نظیر تھی وإن صخرًا لتأتم ّ الهداة به كأنه علم فى رأسه نار کہ وہ تو اس پہاڑ کے مانند تھے جو صرف بلند ہی نہ ہوں بلکہ اس کی چھوٹی پر آگ بھی روشن ہوں جس سے ھدایت یافتہ لوگ راہنمائی حاصل کر تے ہوں کلام اللہ قرآن مجید میں اس قدر مہارت تھی کہ اگر تفسیریں نکات بیان کرنا شروع کرتے تو اس میدان کا پیاسا اس آب شفا سے کبھی سیراب نہ ہوتا بلکہ اس باب میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات کبار مفسرین پر معقول اور متواضعانہ نقد بھی کرتے حدیث کا اس قدر ذوق سلیم رکھتے تھے کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ جیسی شخصیت اپنی کتب کی تصحیحات کے لیے ان کی طرف رجوع کر تی بلکہ ان کے ہاں شیخ رحمہ اللہ کی حیثیت تو ایک مرجع کی تھی اور شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتا بیں اس پر گواہ ہیں لغةمیں شیخ رحمہ اللہ اس دور کے نادر علماء میں سے تھے اور الفا ظ کی رشتہ داریوں پر اتنا عبور کہ لگتاتھا کہ شاید کہ وہ لغوی ماہر انساب ہیں معاشیات میں شیخ رحمہ اللہ ایک ما ہر معیشت نظر آتے تھے اور اگر سیاست کے متعلق گفتگو چل پڑتی تو شیخ رحمہ اللہ نام نہاد سیاست دانوں کے جد اعلی نظر آتے اور اگر سیر فی البلاد اور تاریخ کاموضوع ہوتا تو شیخ رحمہ اللہ اس دور کے مورخ معلوم ہوتے خاص طور پر برصغیر کی تاریخ سےخوب واقف تھے الغرض کہاوت کے مطابق ہر فن مولا تھے جس نے متداول فنون میں سے جس فن کا سوال کیا شیخ رحمہ اللہ نے یا قوت ومرجان کو سمندر کی تیہ سے ڈھونڈ کر مکمل نظافت کےبعد پیش کردیا اور صرف یہی نہیں بلکہ انہیں بیماری کی تشخیص کا خوب ملکہ تھا کہ انہوں نے پہلے بیماری کی تشخیص کی اور پھر موثر دوائی دی بلکہ وہ تو ایسے طبیب تھے کہ دوائی سے زیادہ وہ پر ہیز کی تلقین کر تے شاید ان کا یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ یا امام بخاری -رحمہا اللہ -سے لیا ہوا ترکہ اور میراث تھا جن کے وہ بہت مداح تھے اور شاگردوں سےکہا کرتے تھے کہ : بعد کے لوگوں میں اگر قرآن سمجھا ہے تو یا شیخ الاسلام نے سمجھا ہے اور یا امام بخاری - رحمہا اللہ- نے لہذا ان سے سمجھو امام بخاری اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے اس گہرے تعلق نے ہی ان کے لفظ لفظ میں فقہ اور دقةفہم کی روح پھونک دی تھی کہ مشکل سے مشکل سوال ان پر مختلط نہ ہوتا اور وہ مسئلےکی ہر صورت کو اپنے طاقچے میں رکھ کر اس کا حق ادا کرتے اور آخر ان کا علم اور فقہ میں یہ مقام کیوں نہ ہوتا کہ وہ علم کے ہر باب کے حد در جہ حریص تھے اور بوڑھے ہوکے بھی ان کے جذبات نو جوانوں سے زیادہ قوی اور ہمت ان سے زیادہ عالی تھی علم کے ہر باب سے شغف کا یہ حال تھا کہ زندگی کے آخری ایام تک ٹیوٹر سے انگلش کی کلاس لیتے رہے ۔

شیخ رحمہ اللہ ایک کامیاب مدرس

ویسے تو شیخ رحمہ اللہ دیگر میدانو ں کی طرح اس میدان کے بھی تجربہ کار سوار تھے لیکن اس میدان میں ان کی ایک خاص مزية اور خاصیت جو دوسروں میں کم نظر آتی ہے وہ یہ تھی کہ شیخ رحمہ اللہ ذہن ساز اور فکر کو ترقی کی طرف دعوت دینے والے استاد تھے کہ فکر جنگل و بیاباں صحرا میں سیر کرتے ہی اپنی موت کو دعوت نہ دے بلکہ عالی ہمت اور حریت فکری کے علمبردار بن کر اس آسمان کی طرف نگاہ دوڑانے کی ضرورت ہے جس کی طرف اللہ نے ان الفاظ سے دعوت دی وإلي السمآء كيف رفعت تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پریہی وجہ تھی جب وہ متاخرین علماء کی تعریف کرنے پر آتے تو زبر جد کی موتیاں ان کے منہ سے ٹپک رہی ہوتی لگتا تھا کہ شاید یہ لوگ علم کے حرف آخر ہیں اور جب فکر بلند کر نے کا مقام ہوتا تو وہی زبان یہ کہہ رہی ہوتی کہ تمہارے لیے ذہبی ابن حجر شیخ البانی، زبیر علی زئی اور شیخ امین اللہ عفی اللہ عنھم نہیں ہیں یہ تو کسی اور کے لیے ہیں تمہاری منزل تو اس سے آگے ہے تعریف کی مجلس میں تفسیر ابن کثیر کے متعلق کہتے تھے :کہ یہ آدمی کو کفایت کر جاتی ہے اور ہمتوں کی تربیت کی مجلس میں کہتے کہ یہ تو صرف یہ بتاتی ہے کہ فلا نی آیت کے ساتھ فلانی حدیث تعلق رکھتی ہے اور یہ ایک انداز ہے یہ وہ باریک فرق تھا جس کا احاطہ بعض ذہن نہ کر پاتے اور دن کو رات سمجھ بیٹھتے والله المستعان شیخ رحمہ اللہ اس نکتے کی طرف بعض اوقات یہ کہتے ہوئے اشارہ بھی فرماتے کہ: ہم تو صرف راستہ بتاتے ہیں کہ منزل وہ ہے ۔

تصنیف اور شیخ رحمہ اللہ

شیخ رحمہ اللہ کے قلم کو اللہ نے قوت اور اثر سے بھر دیا تھا اس چیز پر ان کی مکتوب تصانیف گوا ہ ہیں کا ش کہ وہ اس میدان میں بھر پور حصہ لیتے یا پھر زندگی ساتھ دیتی اور تصنیف کے متعلق ان کے منفرد ارادے پا یا تکمیل کو پہنچتے تو امت کے لیے یہ منفرد سرمایا ہوتا اور شاید نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کا مصداق ٹھر تا علم ينتفع به اور شیخ رحمہ اللہ کی شھرت بہت پہلے بلا مبالغہ عرب اور عجم میں ہو چکی ہوتی در اصل شیخ رحمہ اللہ کا اس میدان میں ز یادہ آگے نہ بڑھنے کی وجو ہات میں سے ایک تھی کہ تصنیف برائے تصنیف کے قائل نہیں تھے بلکہ انکا موقف یہ تھا کہ کام ایسا ہو جو پیاسوں کی پیاس بجھا سکے اور متعدد بار وہ کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں پر صرف مصنف بننے کا شوق سوار ہوتا ہے۔

میدان خطابت اور شیخ رحمہ اللہ

شیخ رحمہ اللہ کی جہاں گفتگو نکت علمية اور دلائل پر مشتمل ہو تی وہاں اللہ رب العلمین نے انہیں پر تاثیر آواز سے بھی نوازا تھا جو انکی تقریر اورعر بیت کو مزید زینت بخشتی تھی ، شیخ رحمہ اللہ اپنی زندگی کا تقریبا نصف حصہ اس میدان سے منسلک رہے اس طویل تجربے کی وجہ سے وہ خطابت کے اصولوں سے خوب واقف تھے حتی کہ بعض اسا تذہ انہیں اپنے تقاریر کے عناوین بتا کر راہ نمائی لیا کرتے تھے شیخ رحمہ اللہ اپنے تلا مذہ کو بھی اس میدان میں مہارت پیدا کر نے کا کہتے اور کہا کر تے تھے کہ : ہم اونچی آواز نکا لنے کو خطابت سمجھتے ہیں بلکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں اردو تک نہیں آتی اور یہی وجہ ہے کہ جب ہم معاشرے میں لوگو ں سے مخاطب ہو تے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے ہم رانگ نمبر سے بول رہے ہوں تو شیخ رحمہ اللہ کی تلقین اس میدان میں زیادہ سے ز یادہ مہارت پیدا کر نے کی ہو تی تھی اور زبانوں کی خشکی کو وہ رطوبت سے بدلنے کا کہا کرتے تھے

کچھ تلخ اور مؤدبانہ شکوے

(1) حکام اور ارباب اقتدار سے

شیخ رحمہ اللہ کی شخصیت صرف اس قدر نہیں تھی کہ انہیں ان کی زندگی میں عام ادب و احترام دیا جاتا اور فوت ہونے پر تجہیز و تکفین کو ان کی حق کی ادائیگی سمجھ لیا جائے بلکہ وہ تو ایسی شخصیت تھی جنہیں عالم اسلام کی اس کمیٹی کا رکن عظیم بنایا جاتا جو امت مسلمہ کے مسائل کا دینی و سیاسی حل تلاش کرتی ہیں کم از کم انہیں اس قوم کا مربی اور استاد ہونا چاہیے تھا جس کے مربی آج کے اداکار ہے یا فنکار یا سیکولر نظریات کے حامل صحافت کے الحادی قلم اور یا مغرب کی بانسری بجانے والے امراء و سلا طین یا بدعات و خرافات کی چادر اوڑھی ہوئی ضلوا فأضلوا کی مسند پر بیٹھی شخصیات ،شیخ رحمہ اللہ کو تو اس قوم کا رہنما ہونا چاہیے تھا جو رشد و ہدا یت کی پیا سی در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے جسکا ذلیل ان کا معزز بن بیٹھا ہے اور معزز کو پاؤں تلے روندھا جارہاہے جس میں بے حیائی کو فیشن کا لائیسنس دیکر حلال سمجھا جا تا ہے اور حیاء کو قدامت پسندی گردانا جاتا ہے جس میں تفریط کو اعتدال اور میانہ روی اور عبو دیت کے تقاضے کو پورا کرنے کو دہشت گردی اور انتہاء پسندی سے موسوم کیا جاتا ہے اور فطرت سے اس قدر تضاد ہے کہ صنف نازک عورت کو ساما ن تجارت باور کراکر گلی کوچوں چوکوں چراہوں میں گمانے کو عورت کی آزادی کہا جاتا ہے اور نو جوان نسل کو شہد میں تریاق دیکر خواہشات کے اس بدبودار کنویں میں پھینک دیا گیا ہے جس کی بو ہی انسانیت کی ہلاکت کے لیے کا فی ہے اور ناصح امینکی نصیحت سے صرف اعراض ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی اس نصیحت کو بنواکر موت کی رسی بنا لی جاتی ہے جو نوح کے اس تابعدار کے سفر آخرت کا زینہ بنتی ہے اور دوسری طرف ظالموں اور جابروں کو معزز عسکری القا بات سے نوازا جاتا ہے۔ الغرض ہدایت کی بھوک سے نڈھال اس قوم کی شیخ عبد الحمید ازھر اور ان جیسے معززین سے تربیت کرائی جاتی اور یقینا یہ لوگ أحق بها وأهلهاكى حیثیت رکھتے ہیں لیکن کس قدر عا جز ہے وہ معلم جو وحشی کو سونے کی قدر سکھلاتا ہے ؛زندگی میں قدر کیا کرنی بلکہ شیخ رحمہ اللہ کی وفات کا وہ دن افسوناک تھا جب شیخ رحمہ اللہ کی نماز جنازہ کے لیے راولپنڈی میں پارک نما مسلم گراؤنڈ کی انتظامیہ سے بات کی گئی تو یہ جواب دیکر متبادل ادنی گراؤنڈ دے دیا گیا کہ یہاں ان دنوں کرکٹ ٹورنامنٹ ہو رہےہیں

افسوس !

اس قوم پر جو کھیل تماشے کو دین اور اس کے حاملین پر ترجیح دیتی ہے جس دین کے لیےمسلمانوں کے بدنوں سے جاری ہونے والے خون کی ندیاں میدانو ں میں بہہ گئی عورتیں بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے یا پھر اس قوم میں دین کی حیثیت لهو و لعباور کھیل تماشے سے بھی کم رہ گئی

نادان کس منصف سے ظلم کی شکایت کرتے ہو

اس عدالت میں تو مظلوم کا سر کا ٹا جاتا ہے

(2) کچھ شکوے مسا جد اور مدارس کے متولیوں سے

مادیت پرستی کے اس دور میں وہ لوگ داد کے قابل ہیں جو اپنے مال کا رخ دین حنیف کی طرف کر کے

نبی کریم ﷺکی حدیث : لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق[1]کا مصداق بن کر خدام دین کا لقب پاتے ہیں اور بلا شبہ قدر دان ذات نے بھی ان کے اس ایثار کی خوب قدر کی ہے لیکن یہاں اس جماعت کی فضیلت بیان کر نے کی صفحات اجازت نہیں دے رہے لہذا درگزری کی اپیل کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ پوائنٹ کی طرف آتے ہیں ـ آغاز سے پہلے یہاں ایک پہلو کو سمجھنا ضروری ہےعربی کی کہا وت ہے وصديقك من صَدَقك لا من صدّقك کہ تیرا حقیقی دوست وہ ہے جو تجھے سچ بتائے نہ کہ وہ جو تیری (ہر بات کی ) تصدیق ہی کرتا جائے اور یہی خیر خواہی کا تقاضا ہے کیونکہ کبھی ترش جڑی بوٹیاں یا کڑوی کسیلی دوائیاں انسان کی صحت یابی کا ذریعہ بنتی ہے حتی کہ کبھی تندرستی کے حصول کے لیے تیز دار رکھنے والے اوزار سے آپریشن کے نام سے پیٹ چاک کیا جاتا ہے اور کوئی دانا لوگ اسے بد خواہی نہیں سمجھتے ، بے شک شیطان کا جال ہر شکار کے لیے الگ ہے اور ہر داؤ دوسرے سے مختلف پہلے تو اس کا حربہ یہ ہوتا ہے کہ انفاق کے دروازوں سے لوگوں کو دور رکھے اگر اس حر بے میں وہ ناکام ہو جائے تو پھر خرچ کرنے والے کے اس عمل میں فساد کے پہلو تلاش کر تا ہے حتی کہ کبھی خرچ کرنے والے کے ذہن سے دین اور دنیا کے مابین تفریق کا نظریہ محو کر دیتا ہے اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسے میں گھر والوں پر خرچ کرکے میں ان پر احسان کرتا ہوں شاید اللہ کےدین پر خرچ کرنے سے بھی میں دین کا محسن بنا یا جیسے سلوک کا مستحق دنیاوی ملازم ہوتا ہے وہی منبر رسول اللھ ﷺ کا وارث اور اجرت کی ادائیگی سے ا لعلمآء ورثة الانبیاء کا رشتہ ٹوٹ جا تا ہے اور اس کے بعد ادب و احترام ایک نفلی اور زائد چیز ہے يا شاید میری اس مالداری سے دین کی زندگی ہے اور اس کے بغیر اس کی موت یا میںابدالأبادکے لیے مالداری اور غناءکے تحت کا مکین رہوں گا اور فقر کو میری تقدیر سے مٹا دیا گیا ہے اور پھر اس قسم کے خیالات بعض اوقات قولی فعلی یا عملی ایذا رسائی کا ذریعہ بنتے ہیں اور ہمیں اللہ کا یہ فرمان یاد نہیں رہتا قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ [2] کہ اچھی بات اور درگزری اس صدقے سے بہترو افضل ہے جو ایذارسائی کا سبب بنے ، شیخ رحمہ اللہ کو بھی اس فقدان سے شدید صدمہ تھا اور انہیں بھی وہی شکوے تھے جو ایک عالم ربانی کو ہو تے ہیں اور بعض اوقات وہ مؤدبانہ انداز میں اس کا اظہار بھی کر تے حتی کہ کبھی تو ان کا رنج اور افسوس ان کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتا : کہ اصحاب خیر اور اگلا کلمہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ کہ دیتے : ولا خیر فيهم اور یہی وہ رکا وٹ تھی جس نے شیخ رحمہ اللہ کو ایک عرصے تک میدان تدریس سے الگ رکھا اگر وہ اس شعبے سے منسلک رہتے تو ان کی انقلابی تدریس کی تیار فصل تلامذہ کی صورت میں مشرق ومغرب میں لہرا رہی ہوتی اور پھلوں اور پھولوں کی شکل میں ماحول کو زینت اور آب و ہوا کو خوشگواری بخش رہی ہوتی ولكن قدر الله وما شآء فعل الغرض ان سطور سے کسی کے جذبات متاثر کرنا مقصد نہیں بلکہ یہ تو شاہین کی درست سمت کی طرف راہ نمائی کر کے اس کو اپنی رفتار میں مزید عمدہ کرنے کے قبیل سے ہے اور حق کے ان مخلص متلاشیوں کے لیے تنبیہ ہے جو حق کے حصول کی پیاس برداشت کر رہے ہیں فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ[3]

(3) کچھ شکوے طلباء کی عالی جماعت سے

بلاشبہ ہر دور میں اللہ کے دین کے پروانوں کی ایک جماعت ایسی رہی ہے جنہیں شمع کی محبت نے تکالیف برداشت کرنے پر کر مجبور کیا حتی کہ کبھی آگ نے ان کے کپڑے بھی جلائے ۔ لیکن ایک دور تھا کہ طلباء کے دلوں سے گل اخلاص کی پاکیزہ خوشبو مہک رہی ہوتی تھی نہ ریا تھا نہ تصنع نہ ڈگریوں کی بھوک اور شہرت کی پیاس نہ دنیا سے محبت تھی اور نہ احساس کمتری کا سیلاب نہ وہ سہولتوں کے متلاشی تھے اور نہ راحتوں کے طلب گار نہ پوسٹوں کے حریص تھے اور نہ لوگوں کی محبت کے طالب بلکہ ان کی نظروں میں دین اور اس کے حاملین سے ارفع کو ئی چیز نہ تھی اور یہ لوگ زھد و تقوی کی چادر اوڑھ کر رحلات علمیہ کے نام سے مشارق الارض ومغاربها میں راسخین فی العلم تلاش كيا کرتے تھے پھر تاریخ نے بھی ان قیمتی زیور ات سے وفا کی اور کسی کو ابن المدینی بنا دیا اور کسی کو بخاری اور کسی کو شیخ الاسلام کے لقب سے نواز دیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی ایسے طلبہ زمین پر وجود رکھتے ہیں جو مادیت پر معنویت کو ترجیح دے کر علم کے رسوخ کو فریضہ اول سمجھے اور ڈگریوں کو اس کا تابع یا شیء ثانی اور إن الله يحب العبد التقي، الغني، الخفي [4] کو شیوہ مان کر شہرت پر خفاء کو ترجیح دے اور دین کی للہ خدمت کو فرض عین اور راحت کو سنت اور نفل اور علم کی خالصا لوجه الله تلاش میں بلاد مختلفة کو روندتے چلے جائیں کہ آج امام البانی رحمه الله کی مجلس میں تلمیذ رشید کی حیثیت سے بیٹھے ہوں کل شیخ عبد الحمید ازہر رحمه الله کی مجلس میں اور اس سے اگلے دن شیخ ارشاد الحق اثری حفظه الله اور شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظه اللهاور ان جیسی کبار شخصیات کی مجلس میں اس ڈر سے کہ نہ جانے کس دن زندگی کی آخری شام ہوجائے یا نوح کا یہ قافلہ جودی پہاڑ کی طرف روانہ ہو جائے اور۔۔۔

پھر حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا [5]کے عملی مناظر گلی گلی کوچہ کوچہ نظر آنے لگے اور رجل مؤمن کی یہ بات سچ ثابت ہو فَسَتَذْكُرُونَ ما أَقُولُ لَكُمْ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبادِ [6]

اللهم اغفِرْ لِحَيِّنا وميِّتنا، وصغيرِنا وكبيرِنا، وذَكرِنا وأُنثَانا، وشاهِدِنا وغائِبِنا، اللهم مَن أحيَيته مِنَّا فأحيِه على الإيمانِ، ومَن توفيتهُ منا فتوفَّهُ على الاسلامِ، اللهم لا تَحرِمْنا أجره، ولا تُضِلَّنا بعدَه

( تلمیذ شیخ عبد الحمید ازہر رحمہ اللہ فرید اللہ صافی جامعہ سلفیہ اسلام آباد )



[1] صحيح البخارى 73

[2] البقرة 263

[3] سورة ق 45

[4] صحیح مسلم 11 (2965)

[5] صحیح بخاری 100

[6] سورة غافر 44
 

اٹیچمنٹس

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم عبد الحسیب بھائی بہترین تحریر شریک فورم کرنے پر شکریہ قبول فرمائیے ، اگر تحریر میں املائی و غیر املائی غلطیاں درست کردی جائیں ، تو اس کی اہمیت دوبالا ہو جائے گی ۔
 
شمولیت
ستمبر 29، 2013
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
43
خضر حیات بھا‏‏ئ اگر غلطیوں کی نشاندہی کر دیں۔ تو نہایت مشکور ہوں گا۔ ٹیکسٹ فائل ساتھ ہی منسلک ہے۔
abdul.hasib@msn.com
 
Top