• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زیر ناف کے بالوں کے چیک کرنے والی حدیث صحیح ہے یا نہیں؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو.(نسائی)
روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس کے بال (زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔(نسائی)
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے
عبدالملک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن منصور
حدیث موقوف
دوم:
سنن نسائی:
روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالمالک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن کثیر،
حدیث مقطوع
سوم:
سنن ابوداؤد
فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کردیتے اور جن کے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
حدیث مقطوع
سوم:
سنن ابوداؤد
ایک اعتراض:
لڑکوں کی اوسطاً عمر 11 سے 122 سال ہوتی ہے جب بال نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کے زیر ناف بال جلدی بھی نکل آتے ہیں۔ اب یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کچھ 11 سے 12 سال کے بچے بھی اس سزا کی زد میں آگئے ہونگے۔
روایات کا جائزہ:
ا - مندرجہ بالا روایات میں سے 4 احادیث مرفوع ہیں جبکہ 2 موقوف اور 2 مقطوع۔
مرفوع ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی قول، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموش رہ کر اجازت دینے) کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ یہ نسبت کسی صحابی نے بیان کی ہو یا کسی اور نے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حدیث کی سند خواہ متصل ہو یا منقطع، وہ مرفوع ہی کہلائے گی۔ اس تعریف کے اعتبار سے مرفوع میں موصول، مرسل، متصل، منقطع ہر قسم کی روایت شامل ہو جاتی ہے
ب - حدیث نمبر 2 سے لیکر حدیث نمبر 8 تک ساری روایتیں عبدالمالک بن عمیر سے ہوتی ہوئی عطیہ قرظی تک پہنچ کر رک جاتی ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ غزوہء بنو قریظہ میں کافی سارے کبار صحابہ نے شرکت کی مگر یہ زیر ناف والی روایات کسی اور صحابی سے ذخیرہء کتب میں موجود نہیں۔
ت - حضرت علی رضہ اور حضرت زبیر رضہ تو یہودیوں کو جہنم واصل کرنے کے کام پر مامور تھے پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں؟
ث - جو لوگ زیر ناف بال دیکھنے کے کام پر مامور تھے وہ کون تھے اور پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں آئی؟
ج - ان روایات کو تواتر کا درجہ بھی نہیں حاصل اور نا ہی یہ "خبر مشہور" کے درجہ میں ہیں۔ ان کو البتہ اخبار آحاد میں ضرور شامل کیا جاسکتا ہے۔
بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔
د - امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔
ذ - حضرت سعد رضہ نے بحیثیت حَکم یہ فیصلہ سنایا کہ وہ لوگ جو لڑائی کے قابل ہوں قتل کردیئے جائیں۔ یہاں پر بھی طبری نے کوئی زیر ناف والا واقعہ بیان نہیں کیا۔ دیکھیئے تاریخ طبری جلد اول صفحہ 299 مطبوعہ نفیس اکیڈمی 1970۔
ر- بعض روایتیں ایک دوسرے سے متعارض بھی نظر آتی ہیں۔
حدیث نمبر 33 میں عطیہ قرظی زیر ناف والی بات کو حضرت سعد رضہ سے جوڑ رہے ہیں اور حدیث نمبر 6 میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں روایتوں میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی ایک جیسے ہیں۔ جب راوی ایک ہی ہیں تو اتنا تضاد کیوں
ز- حدیث نمبر 77 میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی زیر ناف بالوں کا کوئی تذکرہ نہیں کررہے، آخر کیوں؟ حالانکہ یہی تین اشخاص دوسری جگہ زیر ناف بالوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
س-حدیث نمبر 11 میں وہ دو لڑکے کون تھے ان کے نام کیوں نہیں لیئے گئے؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟
ش-حدیث نمبر 11 میں لفظ احتلام بھی استعمال ہوا ہے۔ اس بات کو عقل عام (کامن سینس) قبول نہیں کرتی اور اسکی صحت کی گواہی نہیں دیتی۔ آخر کس طرح احتلام کا پتہ چلایا گیا ہوگا؟ اس بات کو نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے منسوب کرنا انتہائی نامناسب ہے۔
ص-ستر کھول کھول کر دیکھنا مناسب عمل معلوم نہیں ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اسکا حکم دیں۔
نتائج و خلاصۂ مبحث:
* مندرجہ بالا زیر ناف والی روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہے اور بعض ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔
* ان روایات کو تواتر و خبر مشہور کا درجہ حاصل نہیں۔
* ہماری رائے میں بچوں کے ستر نہیں کھولے گئے اور صرف ظاہری ہئیت (داڑھی مونچھیں، قد کاٹھ، ڈیل ڈول) دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا کہ یہ لڑکا لڑائی کے قابل ہے اسلیئے اس کو بھی سزا دی جائیگی۔
اس بات کو یوں سمجھ لیجیئے کہ ایک میٹرک کا بچہ جنگی مہم کے قابل نہیں مگر ایک یونیورسٹی کے پہلے سال والا طالب علم اس قابل سمجھا جاسکتا ہے۔
* درایت کی روشنی میں یہ روایات انتہائی ضعیف ہیں۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملحدین کا اعتراض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کے لیے بنو قریظہ کے لڑکوں کا ستر کھول کرکر بلوغت چیک کرائ تھی،غلط ہے۔
[FONT=Helvetica, Arial, sans-serif] مزید [/FONT]
بغل کے بال چیک کیوں نہ کیے؟ بغل کے بال بھی بلوغت کے لیے چیک کیے جاسکتے تھے
 
Last edited by a moderator:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
کوئی جواب
ایک جواب یہ دیا گیا ہے -

یہ بات کہ زیر ناف بال دیکھے گئے بہت سی روایات میں ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيَّ يَقُولُ: ” عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ، خُلِّيَ سَبِيلُهُ، فَكُنْتُ فِيمَنْ لَمْ يُنْبِتْ، فَخُلِّيَ سَبِيلِي


اس کو شعیب نے صحیح کہا ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيَّ يَقُولُ: «عُرِضْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ، فَكُنْتُ فِيمَنْ لَمْ يُنْبِتْ فَخُلِّيَ سَبِيلِي»


البانی نے اس کو صحیح کہا ہے

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَطِيَّةَ القُرَظِيِّ، قَالَ: «عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ، فَكُنْتُ مِمَّنْ لَمْ يُنْبِتْ فَخُلِّيَ سَبِيلِي»: [ص:146] هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ أَنَّهُمْ يَرَوْنَ الإِنْبَاتَ بُلُوغًا، إِنْ لَمْ يُعْرَفْ احْتِلَامُهُ وَلَا سِنُّهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ


احمد شاکر نے اس کو صحیح کہا ہے

اور امام ترمذی کہتے ہیں یہ بلوغت چیک کرنے کا بعض اہل علم کا طریقہ ہے

الذھبی نے مستدرک الحاکم میں اس کو صحیح کہا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ أَبُو مُسْلِمٍ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَطِيَّةُ الْقُرَظِيُّ قَالَ: «عُرِضْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ قُرَيْظَةَ، فَمَنْ كَانَ مِنَّا مُحْتَلِمًا أَوْ نَبَتَتْ عَانَتُهُ قُتِلَ، فَنَظَرُوا إِلَيَّ فَلَمْ تَكُنْ نَبَتَتْ عَانَتِي فَتُرِكْتُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “. وَلَهُ طُرُقٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ مِنْهُمُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَزُهَيْرٌ

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

4333 – صحيح

عبد الملک سے اس روایت کو ان لوگوں نے لیا ہے

هشيم ، الثوري، وابن عيينة، وشعبة، وأبو عَوَانة الوضَّاح بن عبد الله اليشكري، وجرير بن عبد الحميد، وداود الطائي


عبد الملک بن عمیر آخری عمر میں مختلط تھے

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: صَالِحُ الحَدِيْثِ، لَيْسَ بِحَافِظٍ، تَغَيَّرَ حِفْظُه قَبْلَ مَوْتِه.


لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس دور میں کس کس نے سنا

الغرض اس روایت کو اہل علم قبول کر چکے ہیں اور فقہ میں اس سے دلیل لی جاتی ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بغل کے بال بھی بلوغت کے لیے چیک کیے جاسکتے تھے
بغل کے بال بلوغت کی شرعی علامت نہیں ،
شرعی بلوغت کی تین علامتیں ہیں :
(۱) احتلام ہونا
(۲ ) زیر ناف سخت بال اگنا
(۳ ) پندرہ سال عمر ہونا
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ ، اور درج ذیل فتوی میں یہی بات بتائی گئی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

هل نزول المذي ونبات شعر الإبط من علامات البلوغ ؟
السؤال:
هل نزول المذي يدل على البلوغ ؟ وهل شعر الإبط يدل على البلوغ أيضا أم لا ؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله :
بلوغ سن التكليف يحصل بواحدة من ثلاث علامات بالنسبة للذكر ، وتزيد الأنثى بعلامة رابعة وهي الحيض .
قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : " ويحصُلُ البلوغُ بواحدٍ مِن أمورٍ ثلاثةٍ بالنسبة للذُّكورِ وهي :
1 ـ تمامُ خمس عشرة سَنَةً .
2 ـ إنباتُ العَانةِ .
3 ـ إنزالُ المَنيِّ بشهوةٍ يقظةً أو مناماً .
فإذا وُجِدَ واحدٌ مِن هذه الأمورِ الثلاثةِ صارَ الإِنسانُ بالغاً .
والمرأةُ تزيدُ على ذلك بأمرٍ رابعٍ وهو الحيضُ ، فإذا حاضت ولو لعشرِ سنوات فهي بالغة " انتهى من " الشرح الممتع" (4/224).
فإذا أنزل الصبي أو الجارية منياً بلذة ، سواء كان في اليقظة أو المنام : حكمنا ببلوغه ؛ لما سيأتي من أدلة الكتاب والسنة وإجماع العلماء .
قال الماوردي رحمه الله : " فأما الاحتلام فإنما كان بلوغاً ؛ لقول الله تعالى: ( وإذا بلغ الأطفال منكم الحلم فليستأذنوا ) النور/ 59 .
ولما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( رفع القلم عن ثلاثة ) وذكر منها : ( الصبي حتى يحتلم ).
والاحتلام تعريفه : هو إنزال المني الدافق من رجل أو امرأة ، من نوم أو جماع أو غيرهما " انتهى من " الحاوي" (6/343) وينظر : " المغني" (4/297) .
وبهذا يُعلم أن نزول المذي لا يحصل به البلوغ ؛ لعدم الدليل ، والأصل عدم التكليف ، حتى يثبت دليل ناقل عن الأصل .
جاء في " مطالب أولي النهى" (3/404) بعد أن ذَكر علامات البلوغ ـــ ومنها المني ــ قال رحمه الله: " ( ولا اعتبار ) ؛ أي : لا يحصل بلوغ ، بغير ما ذُكر.. " انتهى.
ثانياً :
نبات الشعر الخشن حو العانة : ذكر الغلام ، أو فرج الجارية علامة من علامات البلوغ ؛ لما رواه عطية القرظي رضي الله عنه قال : " عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ ، فَكُنْتُ مِمَّنْ لَمْ يُنْبِتْ ، فَخُلِّيَ سَبِيلِي " رواه الترمذي (1584) وصححه الشيخ الألباني .

قال ابن قدامة رحمه الله : " وأما الإنبات ، فهو أن ينبت الشعر الخشن حول ذكر الرجل , أو فرج المرأة , الذي استحق أخذه بالموسى , وأما الزغب الضعيف , فلا اعتبار به , فإنه يثبت في حق الصغير.." انتهى من "المغني" (9/392). وللاستزادة ينظر جواب سؤال رقم : (138738).

وأما غير شعر القُبلِ ، كشعر اللحية أو الشارب أو الإبط ، فلا حكم له ، ولو كثر ؛ لأن الشرع إنما علق الحكم بنبات شعر القُبلِ ، ولو كان غير شعر القُبل ... معتبراً ، لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم ليكشف عن عورات بني قريظة ، اكتفاء بما ظهر من الشعر في غير موضع العورة .
جاء في " مطالب أولي النهى" (3/404) : " ( ولا اعتبار ) ؛ أي : لا يحصل بلوغ بغير ما ذُكر ( بغلظ صوت ، وفرق أنف ، ونهود ثدي ، وشعر إبط ، و ) شعر ( لحية ) وغيرها " انتهى .
والله أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب

اس فتوی کے آخر میں جو لکھا ہے کہ :
وأما غير شعر القُبلِ ، كشعر اللحية أو الشارب أو الإبط ، فلا حكم له ، ولو كثر ؛ لأن الشرع إنما علق الحكم بنبات شعر القُبلِ ، ولو كان غير شعر القُبل ... معتبراً ، لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم ليكشف عن عورات بني قريظة ، اكتفاء بما ظهر من الشعر في غير موضع العورة .
یعنی شرمگاہ کے بالوں کے علاوہ کوئی بال جیسے داڑھی ، مونچھ ، اور بغل کے بالوں کا کوئی حکم نہیں ، (یعنی بلوغ کی علامت نہیں )
کیونکہ اگر شرمگاہ کے علاوہ بالوں کا اعتبار ہوتا تو نبی کریم ﷺ بنو قریظہ کے مردوں کی شرمگاہیں دیکھنے کا حکم ہی نہ دیتے ، بلکہ شرمگاہ کے علاوہ صرف ظاہری بالوں پر اکتفا کرتے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
زیر ناف کے بالوں کے چیک کرنے والی حدیث صحیح ہے یا نہیں؟
یہ حدیث سنن النسائی میں حسب ذیل ہے :
أخبرنا الربيع بن سليمان، قال: حدثنا أسد بن موسى، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن أبي جعفر الخطمي، عن عمارة بن خزيمة، عن كثير بن السائب، قال: حدثني ابنا قريظة: «أنهم عرضوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم قريظة، فمن كان محتلما، أو نبتت عانته قتل، ومن لم يكن محتلما، أو لم تنبت عانته ترك» (سنن النسائی ، کتاب الطلاق )
قریظہ رضی الله عنہ کے دونوں بیٹے روایت کرتے ہیں کہ وہ سب (یعنی بنو قریظہ کے نوجوان) قریظہ کے (فیصلے کے) دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے، تو جسے احتلام ہونے لگا تھا، یا جس کی ناف کے نیچے کے بال اگ آئے تھے اسے (جوان قرار دے کر) قتل کر دیا گیا۔ اور جسے ابھی احتلام ہونا شروع نہیں ہوا تھا یا جس کی ناف کے نیچے کے بال نہیں آئے تھے اسے چھوڑ دیا اور قتل نہیں کیا گیا ‘‘

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره)، مسند احمد (۴/۳۴، ۵/۳۷۲) (آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أخبرنا محمد بن منصور قال حدثنا سفيان عن عبد الملك بن عمير عن عطية القرظي قال: كنت يوم حكم سعد في بني قريظة غلاما فشكوا في فلم يجدوني أنبت فاستبقيت فها أنا ذا بين أظهركم ‏.‏ ‘‘(سنن النسائی ، کتاب الطلاق )
عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ جب سعد رضی اللہ عنہ نے بنو قریظہ کے مردوں کے قتل کا فیصلہ دیا تو اس وقت میں بچہ تھا، لوگوں کو میرے متعلق شبہ ہوا (کہ میں فی الواقع بچہ ہوں یا جوان؟ جب انہوں نے تحقیق کی) تو مجھے زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا اور میں بچ رہا۔ چنانچہ میں آج تمہارے درمیان موجود ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۱۷ (۴۴۰۴)، سنن الترمذی/السیر ۲۹ (۱۵۸۴)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۴ (۲۵۴۱)، مسند احمد (۴/۳۱۰، ۳۸۳، و۵/۳۱۱، ۳۱۲، سنن الدارمی/السیر ۲۶ (۲۵۰۷)، ویأتي عند المؤلف في القطع ۱۷ برقم: ۴۹۸۴، ۴۴۰۵ (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں حدیثیں بالکل صحیح ہیں ،کسی محدث نے انہیں ضعیف قرار نہیں دیا ،
اور اتنی بے شمار کتب حدیث میں مروی ہیں کہ ان کا نام نہیں لکھ سکتا ۔
اور یہ اعتراض کہ :
بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔
یہ بالکل لغو اعتراض ہے ،
دین اسلام کی بے شمار باتیں اور تاریخی حقیقتیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں ،تو کیا ان کا انکار کردیا جائے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بقیہ اعتراض بھی علم حدیث کے لحاظ سے بے بنیاد اور غیر مؤثر ہیں ۔
 
Top