عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
از: (مفتی) عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
ابن حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ
ابن حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ
سب دہشت گرد ہیں اور کوئی دہشت گرد نہیں!
اسلام یعنی سلامتی والا مذہب ،یعنی ایسا مذہب جس کو قبول کرنے کے بعد ہر شئی وجاندار اس سے محفوظ ومامون ہو جائے ۔ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے والے کو مومن یعنی ایمان والا کہا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں مذہب اسلام کے پیرو کار کو مومن کہا جاتا ہے ۔ مومن کا مطلب ہے’’امان والا ،امانت والا‘‘یعنی جو اسلام میں داخل ہو گیا وہ ’’امین ہوگیا‘‘’’امان دینے والا‘‘ ہوگیا اب ہر شئی وبشر اس سے مامون ہوگئی ،اس کے قرب میں رہنا گویا خود کو محفوظ کرلینا ہے ۔اب اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ۔اسی لئے اس کو سلامتی کا سبق یاد دلانے کے لئے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘کی تلقین کی گئی اور اس کو رائج کرنیکا حکم دیا گیا ،کہ لوگوں کو سلامتی اور رحمت کی دعا دو۔اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ بھی تم پر سلامتی ،رحمت ،اور برکت نازل فرمائیگا ۔قرآن پاک میں بھی یہی تاکید فرمائی گئی ہے کہ سلامتی کا راستہ اختیار کرو ،اور اسی کو رائج کرو۔اسلام تو جانوروں تک پر رحم کرنے کی ھدایت فرماتاہے۔
اور محبوب اِلٰہ حضرت محمد مصطفیٰ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کامل اور سچا مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے آپ کو مامون اور محفوظ سمجھیں ‘‘اورآپ ﷺ نے ارشادفرمایا’’تمام اولاد آدم اللہ کا کنبہ ہے ،اللہ کو سب مخلوق میں وہی محبوب ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک کرے‘‘(بیہقی)اور ایک جگہ ارشاد فرمایا’’کامل مومن اور کامل مسلمان وہ ہے کہ ہر چیز اس سے مامون ہو جائے‘‘اور ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلیٰ صورَتِہٖ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اٰدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا (گوکہ اللہ تعالیٰ صورت حقیقی سے پاک ہے)یہاں صورت سے مراد جسم نہیں بلکہ سیرت ہے ۔سیرت جتنی پاکیزہ ہوگی اتنی ہی صفت ِباری تعالیٰ سے متَّصِف ہوگی ۔اور بغیر حسن سیرت کے دخول جنت ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفت جھگڑا لو اور فسادی نہیں ۔تو اس پر ایمان لانے والے اور اس کی عبادت کرنے والے کیسے جھگڑا لو اور فسادی ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے،اسلام تو یہ سکھاتا ہے کہ دوران جنگ بھی عورتوں ،بوڑھوں ،ضعیفوں ،بچوں ،کو قتل نہ کیا جائے،اور اگر کوئی امان چاہے تو اس کو امان دو۔چنانچہ اگر مسلمان دہشت گرد ہوتا یا اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا تو آج پوری دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ،اور پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی اور اسلامی روایات وتعلیمات کا بول بالا ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے کبھی بھی اپنے نظریات کو تھوپا نہیں
اور نہ ہی کسی کو ماننے کے لئے مجبور کیا۔ذرا اسلام کے دامن امن میں آکر تو دیکھو؟۔
اسلام کی بنیاد ہی خدمت خلق پر ہے ،مسلمان خادم ہوتا ہے مخدوم نہیں ،اور یہ حقیقت ہے کہ جس سے اطاعت اور خدمت کرنی آگئی وہ کامیاب ہوگیا ۔اسلام سکھاتا ہے کہ جس نے مخلوق کی خدمت کی گویا اس نے خالق کی خدمت کی ۔اور جس نے مخلوق کو تکلیف یا اذیت دی اس نے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلیا۔اسلام کا مقصِدزمین پر حکمرانی کرنا نہیں بلکہ زمین پر امن رکھنا مقصود ہے ۔اسلام کی حکمرانی تو قلوب پر ہوتی ہے جو اس کے قریب آگیا وہ اسی کا ہوگیا ۔اسلام تو انسانی قلوب اور ارواح کی صفائی کا ایک فارمولاہے جس نے اس فارمولے پر عمل کیا وہ کامیاب ہوگیا ۔کیونکہ جب روح اور قلب پاکیزہ ہونگے تو خیالات اور اعمال بھی پاکیزہ ہونگے۔
آدمی کے اعمال اور افعال اس کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں اگر سوچ منفی ہے تو اوعمال بھی منفی سرزد ہونگے،اور اگر سوچ مثبت ہے تو اعمال بھی مُثبت ہونگے۔ ’’سوچ ابتدأًایک خیال ہوتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے یہ خیال فکر میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پھر یہ فکر ایک عمل بن جاتا ہے،اور پھر یہ عمل ایک تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جو سوچ ابتداء ہی میں تحریک کی شکل اختیار کرلیتی ہے وہ جلد ہی دم توڑ دیتی ہے۔‘‘
چنانچہ جب دشمنان اسلام کو اسلام کی پاکیزگی ،حقانیت اور مقبولیت کااندازہ ہو گیا اور ان کو اپنی حکمرانی اورعیاشی کو خطرہ لاحق ہونے لگا ،اور یقین ہوگیا کہ اب ہماری حکمرانی اور عیاشی ختم ہوا چاہتی ہے تو پھر ان انتہاپسند اور دہشت گرد حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل اور عیاشی کی حفاظت کے لئے مختلف بہانے بناکر جھوٹے خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے اور پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کرکے پہلے چند سربراہان مملکت کو اپنا ہم خیال بنایا اور ان کوجھوٹے سبز باغ دکھائے ،پھر ان سب باطل قوتوں نے اپنی رعایا کو بیوقوف بناکر ان کو بھی اپنا ہم خیال بنالیا ۔کہیں تہذب کا سہارا لیا تو کہیں مذہب کا سہارا لیا ،کہیں جمہوریت کا سہارا لیا تو کہیں امن عامہ کا۔ الغرض سب کا بیوقوف بناکر اپنا ہم خیال بنا لیا۔چنانچہ اپنے اور بیگانے سب اسلام کے خلاف کھڑے ہو گئے اور اپنی اس دہشت گردانہ تحریک کا نام ’’جنگ برائے انشداد دہشت گردی‘‘یا ’’جنگ برائے امن‘‘ رکھدیا اور اس کو اتنا اچھالا کہ سب اسلام کو اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسندکہنے لگے،اس طرح یہ چند عیاش اور مکار افراداپنی عیاشی ،عیاری اورمکاری کی پردہ پوشی میں کامیاب ہوگئے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد نہ محب وطن ہوتے ہیں اور نہ محافظ عوام اور نہ ہی مذہب پسند ۔کیونکہ کوئی بھی مذہب یا مَشرَب عیاری ،مکاری ،عریانیت،شراب نوشی،ذخیرہ اندوزی اور ظلم واستبداد کی تعلیم دیتا ہے اور نہ پسند کرتاہے۔یہ تو ان لوگوں کامذہب اور انسانیت نوازی کا لبادہ اوڑھ کر عیاشی ،مکاری اورعیاری کا دفاع کھلا کاروبارہے۔اور اسلام چونکہ ان سب چیزوں کی سخت مخالفت کرتاہے، اور مسلمان چونکہ اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرتے ہیں ،اور دوسرے مذاہب والے اس کی حقانیت اور پاکیزگی کو دیکھ کر اس کی طرف راغب ہورہے تھے اور مذہب اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ تو یہ شر پسند افراد ہاتھ دھوکر اسلام اور مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات کے پیچھے پڑ گئے۔ان کے خیال باطل کے مطابق کہ اگر اسلام زیر ہوگیا تو باقی سب خود ہی زیر ہوجائیں گے۔
(جاری ہے)