• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سب سے بڑا گناہ۔۔۔

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
تعویذ لٹکانا

جو شخص اس نیت سے تعویذ لٹکائے کہ یہ اس کے نفع نقصان کا مالک ہے ۔۔۔اس کے ترقی اور خوشحالی کا راز اس کو لٹکانے میں مضمر ہے اور اگر اسے نہ لٹکایا تو بڑے حادثے سے دوچار ہو جائے گا تو یہ بھی شرک ہے
آپﷺ کا ارشاد ہے
عن عقبة بن عامر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من علق تميمة، فقد أشرك
رواه أحمد والحاكم ورواته ثقات

عقبہ بن عامر آپﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے تعویذ لٹکایا تو یقینا اس نے شرک کیا
للهم إنا نعوذ بك أن نشرك بك شيئاً نعلمه، ونستغفرك لما لا نعلمه"
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
لفظِ لو کا استعمال
لفظ لو کو ایسے استعمال کرنا کہ اس سے تقدیر پر عدم اعتماد لازم آتا ہو یا اللہ کی مشیت پر زد پڑتی ہو تو ایسا کرنا بھی شرک ہے ۔۔۔۔جیسے کوئی شخص کہے
لو لا الحارس لسرق المال
لو لا فلان لضللنا الطریق
اگر چوکیدار نہ ہوتا تو مال چوری ہو جاتا یا اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہم راستہ بھٹک جاتے ۔۔۔۔لفظ لو کا اس قسم کا استعمال بھی شرک ہے

حدیث مبارکہ ہے
وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ - حديث صحيح رواه مسلم
اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو ایسا نہ کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا اور ایسا ہو جاتا لیکن تو یہ کہہ جو اللہ نے چاہا وہ کیا کیونکہ لفظ لو شیطانی عمل کو کھولنے کا باعث ہے

اگر ہم اس حدیث کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں تو ہر نا پسندیدہ صورتحال میں ہمارا پہلا اور بے ساختہ رد عمل یہی ہوتا ہے ۔۔۔۔اگر میں ایسا کر لیتا تو ایسا نہ ہوتا۔۔۔یہ اور اس سے ملتے جلتے جملے ہم سوچے سمجھے بغیر بول دیتے ہیں یہ جانے بغیر کہ یہ دراصل اللہ اور تقدیر پر ایمان کی کمزوری کا نتیجہ ہے ۔۔۔آپﷺ نے ہمیں یہ عقیدہ سکھایا ہے
اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذاالجد منک الجد


اللهم إنا نعوذ بك أن نشرك بك شيئاً نعلمه، ونستغفرك لما لا نعلمه"
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اللہ کی اور عبد کی مشیت کو حرف عطف واؤ سے بیان کرنا

شرک اصغر کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کی مشیت اور کسی عبد کی مشیت کو ایک ساتھ ایک جملے میں حرف عطف واؤ کے ساتھ ادا کرے۔۔۔۔۔مثلا وہ یوں کہے جو اللہ اور تو چا ہے ۔۔۔یا جو اللہ کی اور فلاں کی مرضی
جیسا کہ ابن عباس کے قول میں وضاحت موجود ہے ۔۔۔۔فرماتے ہیں
الشرك أخفى من دبيب النمل على صفاة - حجارة - سوداء في ظلمة الليل، وهو أن تقول: والله وحياتك يافلانة، وحياتي. وتقول: لولا كلبة هذا لأتانا اللصوص، ولولا البط في الدار لأتى اللصوص، وقول الرجل: ما شاء الله وشئت، وقول الرجل: لولا الله وفلان، لا تجعل فيها فلان (أي لا تجعل في هذه الكلمة فلان، فتقول: لولا الله وفلان، بل قل: لولا الله وحده). هذا كله به شرك.
رواه ابن أبي حاتم وسنده جيد.

شرک رات کے اندھیرے میں ایک کالے چٹیل پتھر پر چلنے والی چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ خفیف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آدمی کا یہ کہنا بھی شرک ہے جو اللہ اور تو چاہے ۔۔۔اور یہ بات بھی شرک ہے کہ کوئی شخص کہےاگر اللہ اور فلاں نہ ہوتا۔۔اور اس میں شرکیہ بات ہی ہے کہ اس جملے میں لفظِ فلاں کا اضافہ نہ کیا جائے بلکہ کہے جو اللہ وحدہ لا شریک چاہے ۔۔۔کیونکہ ایسا کہنا شرک ہے

اگر اللہ کی مشیت کے ساتھ عبد کی مشیت کا ذکر کرنا ناگزیر ہو تو حرف عطف واؤ کی بجائے حرف عطف ثم بمعنی پھر استعمال کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔۔۔۔یعنی جو اللہ کی اور پھر فلاں کی مرضی ۔۔۔حرف عطف واؤ اور ثم میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر سے مشارکت لازم آتی ہے ۔۔۔یعنی اللہ کی مشیت میں عبد کی مشارکت اور یہ سراسر شرک ہے۔۔۔لہذا حرف عطف واؤ کا استعمال ممنوع ہے ۔۔۔جبکہ حرف عطف ثممیں متابعت کا معنی پایا جاتا ہے ۔۔۔۔اور بندے کی مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہی ہے اس لیے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔۔
ارشاد باری تعالی ہے
وما تشاؤن الا ان یشاء اللہ رب العالمین

اس حوالے سے احمد‘ ابن ماجہ اور نسائی میں ایک روایت بھی موجود ہے
عن قتيلة بنت صيفي أن يهودياً أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إنكم تنددون! وإنكم تشركون! تقولون: ما شاء وشئت، وتقولون: والكعبة، فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم إذا أرادوا أن يحلفوا أن يقولوا: ورب الكعبة، ويقول أحدهم: ما شاء الله، ثم شئت،
قتیلۃبنت صیفی سے روایت ہے کہ ایک یہودی آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا۔۔۔یقینا تم لوگ شرک کرتے ہو تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور جو تو چاہےاور یہ بھی کہتے ہو کعبہ کی قسم ۔۔۔تو آپﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانے کا ارادہ کریں تو کہیں۔۔۔رب کعبہ کی قسم اور ما شاء و شئت کی جگہ ایسا کہیں
جو اللہ چاہے پھر تم چاہو

اللهم إنا نعوذ بك أن نشرك بك شيئاً نعلمه، ونستغفرك لما لا نعلمه"


 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟
آپﷺ نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا
میں نے کہا پھر کون سا؟
فرمایا یہ کہ تو اپنے بچے کو قتل کرے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ کھائے گا
میں نے کہا پھر کون سا؟
فرمایا یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ باہم زنا کاری کرے (متفق علیہ)

حدیث مبارکہ کی رو سے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتلِ ناحق اور زنا ہیں ۔۔۔اللہ تعالی فرماتے ہیں

وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِل۔هًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨
اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گا (68)

قتل ناحق اس وقت قباحت میں کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے اگر کوئی شخص اپنے ہی بچے کو اس خوف سے قتل کر دے کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گا ۔۔۔اور اللہ کے اس وعدے پر یقین نہ کرے
وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم خَشيَةَ إِملاقٍ ۖ نَحنُ نَرزُقُهُم وَإِيّاكُم ۚ إِنَّ قَتلَهُم كانَ خِطا كَبيرًا ﴿٣١
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیره گناه ہے (31)

اس قعلِ بد میں تین ذیلی گناہ پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے
قتل ناحق
اپنے لخت جگر کا قتل اور قطع رحم
اللہ کے وعدے کی تکذیب اور اس پر بدظنی

زمانہ جاہلیت میں اس گناہ کی عملی صورت بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا تھی ۔۔۔موجودہ دور ترقی یافتہ ہے ہر چیز اپنا پرانا لبادہ اتار کر ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے ۔۔۔۔اور بعض اوقات یہ نئی صورت اتنی زیادہ تبدیل ہو جاتی ہے کہ پہچان کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔۔۔زیرِ نظر گناہ بھی اپنی پرانی صورت تبدیل کر کے ایک نیا روپ دھار چکا ہے جسے آج ہم فیملی پلاننگ کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔۔مقصد پرانا ‘ لیکن انداز بدل چکا ہے ۔۔۔۔دو بچے خوشحال گھرانہ ‘ بچے دو ہی اچھے‘ یہ اور اس جیسے کئی اور نعرے اور دعوے کیا ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ”مفلسی کا خوف “ٰ ہے جو اس تصور کے پیچھے کار فرما ہے ۔۔۔۔اللہ کے رزاق ہونے پر یقین نہیں ۔۔۔یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ دراصل اپنی اولاد کے منہ میں ہم خود ڈالتے ہیں ۔۔۔اور اپنی استطاعت کے مطابق ہی فیملی پلان کریں گے۔۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون

وَكَأَيِّن مِن دابَّةٍ لا تَحمِلُ رِزقَهَا اللَّهُ يَرزُقُها وَإِيّاكُم ۚ وَهُوَ السَّميعُ العَليمُ ﴿٦٠
اور بہت سے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے، ان سب کو اور تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی دیتا ہے، وه بڑا ہی سننے جاننے واﻻ ہے (60

وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَرضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِزقُها وَيَعلَمُ مُستَقَرَّها وَمُستَودَعَها ۚ كُلٌّ فى كتاب مُبينٍ ﴿٦
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے

. إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴿الذاريات: ٥٨﴾
اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے (58)

لَهُ مَقاليدُ السَّموٰتِ وَالأَرضِ ۖ يَبسُطُ الرِّزقَ لِمَن يَشاءُ وَيَقدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿١٢
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ہیں، جس کی چاہے روزی کشاده کردے اور تنگ کردے، یقیناً وه ہر چیز کو جاننے واﻻ ہے (12)

وَجَعَلنا لَكُم فيها مَعـٰيِشَ وَمَن لَستُم لَهُ بِرٰزِقينَ ﴿٢٠ وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ مَعلومٍ ﴿٢١
اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنا دی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو (20) اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں، اور ہم ہر چیز کو اس کے مقرره انداز سے اتارتے ہیں (21)

ان حقائق کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے انسان کے ذمے جو کام ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے خزانوں سے وہ اپنا رزق تلاش کرنے کی سعی کرے ۔۔۔بالفاظ دیگررزق دینا اللہ کا کام ہے اور اسے ڈھونڈنا انسان کے ذمے۔۔۔

فَابتَغوا عِندَ اللَّهِ الرِّزقَ وَاعبُدوهُ وَاشكُروا لَهُ ۖ إِلَيهِ تُرجَعونَ﴿١٧
پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (17

اسی بنیاد پر قرآن متعدد مقامات پر ان لوگوں کو ملامت کرتا ہے جو رزق کی کمی کے خدشے سے اپنی اولاد پر زندگی کے دروازے بند کر دیتے ہیں ۔۔۔۔

وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم خَشيَةَ إِملاقٍ ۖ نَحنُ نَرزُقُهُم وَإِيّاكُم ۚ إِنَّ قَتلَهُم كانَ خِطا كَبيرًا ﴿٣١
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیره گناه ہے (31)

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
تزوجوا الولود الودود فانی مکاثر بکم المم یوم القیامۃ (ابو داؤد النسائی)
محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو۔۔۔میں روز قیامت تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ بچوں میں وقفہ کر لیا جائے ۔۔۔شیخ ابن باز کے فتوے کی رو سے ان استثنائی صورتوں میں کسی بیماری کا لاحق ہونا ‘ کمزور صحت کے مسائل یا پہلے سے موجود بچوں کی مناسب انداز میں تربیت شامل ہیں ۔۔۔۔یاد رہے کہ ان صورتوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اگر کہیں دل کے نہاں خانوں میں رزق کی کمی جیسے خدشے بھی لاحق ہوں تو پہلی فرصت میں اپنی اصلاح کر لینی چاہیے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ بچوں میں وقفہ کر لیا جائے ۔۔۔شیخ ابن باز کے فتوے کی رو سے ان استثنائی صورتوں میں کسی بیماری کا لاحق ہونا ‘ کمزور صحت کے مسائل یا پہلے سے موجود بچوں کی مناسب انداز میں تربیت شامل ہیں ۔۔۔۔یاد رہے کہ ان صورتوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اگر کہیں دل کے نہاں خانوں میں رزق کی کمی جیسے خدشے بھی لاحق ہوں تو پہلی فرصت میں اپنی اصلاح کر لینی چاہیے
کم علم لوگ آج بھی رزق کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔بلکہ وہ تو آج تک بیٹی اور بیٹا پیدا ہونے میں اپنے بدلتے تاثرات نہیں چھپا سکے ۔
تاہم مناسب انداز میں تربیت اہم ہے ، کیونکہ ایک توجہ دینے والی ماں بہترین نسل بنا سکتی ہے۔باذن اللہ!
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شرک اور اولاد کے قتل کے بعد تیسرا بڑا گناہ آپﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرے
زنا بذات خود ایک کبیرہ گناہ ہے لیکن اس کی قباحت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کوئی شخص اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ یہ غلط کاری کرے۔۔۔کیونکہ ہمسائے کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے ۔۔۔۔اس کی جان ‘ مال‘ عزت اور آبرو کی حفاظت کی جائے۔۔۔۔لیکن اس کے برعکس جب ہمسایہ ہی اپنے ہمسائے کی عزت برباد کرے ۔۔۔اس کی بیوی کو خاوند کے خلاف اپنی طرف مائل کرے ۔۔۔اس کا گھر اجاڑنے کے درپے ہو جائے تو یہ زنا کے ساتھ کئی جرائم ملنے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
زنا کے بارے میں ارشادِ باری تعالی ہے

ولا تقربواالزنا انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا
اور زنا کے قریب نہ جاؤ یقینا وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے

علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”اعلام الموقعین“میں ایک باب تدوین کیا ہے ”سد الذرائع “کے نام سے ۔۔۔۔اس میں انھوں نے برائی سے متعلق اسلام کا مزاج بیان کیا ہے ۔۔۔ان کے بقول اسلام برائی سے روکنے کے لیے برائی کی طرف جانے والے تمام راستے مسدود کرتا ہے ۔۔۔اسی لیے آیت میں بیان ہوا کہ زنا کے قریب نہ جاؤ۔۔۔یہ نہیں کہا کہ زنا نہ کرو۔۔۔اور پھر سد الذرائع کے طور پر غضِ بصر ‘ استیذان اور جحاب کے احکام بیان کیے۔۔
آج ہم اخبار اٹھا کر دیکھیں تو جرم و سزا کی 80 فیصد خبروں کا موضوع زنا‘ کورٹ میرج‘ پسند کی شادی نہ ہونے پر جوڑے کی خود کشی‘ اغوا اور پھر ریپ وغیرہ ہوتا ہے ۔۔اور اسی سے معاشرے کے عمومی رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔۔۔۔حد تو یہ ہے کہ لوگوں میں رشتوں کی حرمت بھی باقی نہیں رہی۔۔۔کہیں دیور بھابھی کے ساتھ تو کہیں ممانی بھانجے کے ساتھ۔۔۔ہمسائے کی بیوی کے ساتھ تعلقات کی خبریں تو بہت عام ہیں۔۔۔۔معاشرے کے نام نہاد مصلحین اس روش پر سیخ پا تو خوب ہوتے ہیں لیکن اس کے علاج کی طرف کوئی نہیں آتا ۔۔۔۔اور علاج وہی ہے جو علامہ صاحب نے اسلام کے عمومی مزاج کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آج سے کچھ صدیاں قبل اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں بیان فرمایا تھا۔۔۔سد الذرائع۔۔۔۔برائی کی طرف جانے والے سارے راستے بند کردو برائی ختم ہو جائے گی
 
Top