• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدہ کرنے کا درست طریقہ کیا ہے۔ مفتی عبد القیوم ہزاروی صاحب کی علمی خیاتیں۔(ظفراقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
سجدہ کرنے کا درست طریقہ کیا ہے۔ مفتی عبد القیوم ہزاروی صاحب کی علمی خیانتیں۔
مسئلہ کی صحیح تحقیق مندرجہ ذیل ہے ۔
اسلام علیکم ہزاروی صاحب مؤدبانہ گزارش ہےکہ قرآن و حدیث میں ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے بلکہ تحقیق کی جائے:
قرآن مجید بھی ہمیں تحقیق کی طرف دعوت دیتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (6) ﴾
( سورة الحجرات)
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج علماء سوء کس قدر قرآن و حدیث میں ردو بدل کرنے کی جسارت کرتے ہوئے خواہشات نفس کی تکمیل کے لیے کس قدرالسلامی تعلیمات نظریں چراتے اور حقائق سے نظریں پھیرلیتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت سورہ الاعراف میںفرماتے ہیں۔
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿۱۷۶﴾
سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنْفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ ﴿۱۷۷﴾
مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي وَمَنْ يُضْلِلْ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴿۱۷۸﴾
1۔آپ نے فرمایا کہ بقول:’ابو سلیمان خطابی فرماتے ہیں کہ وائل بن حجر کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ رَاَيْتُ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ منسوخ ہے۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ إِذَا سَجَدَ اَحَدُکُمْ فَلَا يَبْرُکْ کَمَا يَبْرُکُ الْبَعِيرُ وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ
پہلی بات یہ ہے:آپ نے جو کہا کہ :
خلاصہ کلام یہ ہے کہ احناف کا عمل پہلی حدیث مبارکہ پر ہے، جس کے مطابق سجدہ کرتے ہوئے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے جائیں پھر ہاتھ اور اٹھتے وقت پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں پھر گھٹنے۔ یہی بہترین طریقہ ہے۔
اگرمنسوخ ہے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟
دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدث ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو [سجدہ کیلئے]ایسے مت [جھکے جیسے] اونٹ بیٹھتا ہے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے)
اس حدیث کو احمد: (2/381)، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع"(3/421) میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کو ابو داود اور نسائی نے جید سند کیساتھ روایت کیا ہے"
اس حدیث کے بارے میں البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ سند صحیح ہے، اس سند کے تمام راوی ثقات راوی ہیں اور صحیح مسلم کے ہیں ماسوائے محمد بن عبد اللہ بن حسن کے یہ راوی "نفس الزکیہ" کے لقب سے مشہور ہے، لیکن یہ بھی ثقہ ہیں "
سنن ابو داؤد: کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل (باب: (سجدوں کے لیے جھکتے ہوئے )گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے کیونکر رکھے ؟)
840 . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ بیٹھتا ہے ، چاہیئے کہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے ۔
حکم : صحیح
“ حکم التفصیلی: امام البانی ﷫ فرماتے ہیں صحیح ابو داؤد میں باب:
باب كيف يضع ركبتيه قبل يديه؟
حدیث نمبر789

قلت: إسناده صحيح، وصححه عبد الحق الاشبيلي، وقوّاه ابن سَيدِالناس، وقال النووي والزّرقاني: إسناده جيد ) .إسناده: حدثنا سعيد بن منصور: ثنا عبد العزيز بن محمد: حدثني محمدابن عبد الله بن حسن عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة... بالرواية الأولى.حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا عبد الله بن نافع عن محمد بن عبد الله بن حسن بالرواية الأُخرى. قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم تمات رجال مسلم؛ غير محمد بنعبد الله بن الحسن- وهو المعروف بـ (النَّفْس الزكيَّة) العَلَوِي- وهو ثقة كما قالالنسائي وغيره. وقال النووي في المجموع (3/421) ، والزرقا تي في شرح المواهب (7/320) : إسناده جيد .وصححه عبد الحق في الأحكام الكبرى . وقال في كتاب التهجد (ق1/56) : أحسن إسناداً من الذي قبله ؛ يعني: حديث وائل الخرج في الكتابالآخر (152) ، بلفظ:رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذا سجد؛ وضع ركبتيه قبل يديه.وهذا قد ضعفه جماعة، ذكرناهم هناك؛ منهم ابن سيد الناس، ثم قال: ويتلخص من هذا: أن أحاديث وضع اليدين قبل الركبتين أرجح من حيثالإسناد، وأصرح من حيث الدلالة؛ إذ هي قولية، ولما تعطيه قوة الكلام والتهجينفي التشبه بالبعير الذي ركبته في يده، فلا يمكنه تقديم يده على ركبته إذا برك؛لأنها في الاتصال بيده كالعضو الواحد .وقد أعل بعضهم هذا الإسناد بعلل لا تقدح في صحته، وقد ذكرتها- معِالجواب عنها- في إرواء الغليل تحت الحديث (357) ، وخرجت له هناك شاهدآمن حديث ابن عمر:أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان يضع يديه قبل ركبتيه.وإسناده صحيح.والحديث أخرجه أحمد (2/381) ... بإسنا د المصنف ولفظه؛ إلا أنه قال:ثم ركبتيه.وأخرجه النسائي في الكبرى (ق47/1- مصورة جامعة الملك عبد العزيز) ،والطحاوي في كتابيه (1/149) ، و (65- 66) ، والبيهقي من طرق أخرى عن سعيد بن منصور... به.وأخرجه النسائي (1/149) ،والدارمي(1/303)،والدارقطني(1/131)منطرق أخرى عن عبد العزيز بن محمد الدراوردي... به بلفظ المصنف. وأخرجه النسائي، والترمذي (2/57- 58) من طريق عبد الله بن نافع عنمحمد بن عبد الله بن حسن... به مختصراً بالرواية الثانية.وقد انقلب الحديث على بعض الضعفاء؛ فقال: فليبدأ بركبتيه قبل يديه اأخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (1/102/2) وغيره من طريق عبد الله بن سعيد القبري عن جده عن أبي هريرة... مرفوعاً به. قلت: وهذا إسناد واه جدّاً؛ عبد الله هذا متهم؛ قال ابن القيم في التهذيب : قلت: قال أحمد والبخاري: متروك . قلت: فلا تغتر إذاً بسكوت ابن القيم عليه في زاد المعاد ؛ بل واستدلاله به على أن حديث الباب مقلوب! وهذا من غرائبه وأخطائه العديدة في كلامه على الحديث وحديث وائل الذيأوردناه في الكتاب الآخر، وقد توليت بيانها في التعليقات الجياد
خلاصہ کلام یہ ہےکے یہ حدیث قابل عمل ہےنسخ کی جو دلیل آپ حضرات نے پیش کی ہےاس کی تحقیق کی طرف آتے ہیں۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، آپ کہتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تھے اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب کھڑے ہوتے تھے اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے" اس روایت کو ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اور دارقطنی (1/345)اس کے بارے میں کہتے ہیں:
"یہ حدیث شریک سے صرف یزید بن ہارون نے ہی بیان کی ہے، پھر عاصم بن کلیب سے شریک کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتا، جبکہ خود شریک قوی راوی نہیں ہے"
بیہقی رحمہ اللہ سنن (2/101)میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کی سند ضعیف ہے"
البانی رحمہ اللہ نے اسے مشکاۃ http://www.shamela.ws
تم إعداد هذا الملف آليا بواسطة المكتبة الشاملة
[ مشكاة المصابيح - التبريزي ]
الكتاب : مشكاة المصابيح
المؤلف : محمد بن عبد الله الخطيب التبريزي
الناشر : المكتب الإسلامي - بيروت
الطبعة : الثالثة - 1405 - 1985
تحقيق : تحقيق محمد ناصر الدين الألباني
عدد الأجزاء : 3
باب السجود وفضله :الفصل الثاني
میں،
حدیث نمبر898 - کے تحت فرماتے ہیں[ 12 ] ( ضعيف )
عن وائل بن حجر قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي
اور ارواء الغلیل: (2/75) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
مزید دیکھیں:
سنن أبي داؤد: کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ (بَابُ كَيْفَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ)
838. حدثنا الحسن بن علي وحسين بن عيسى قالا حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا شريك عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه حدثنا محمد بن معمر حدثنا حجاج بن منهال حدثنا همام حدثنا محمد بن جحادة عن عبد الجبار بن وائل عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم فذكر حديث الصلاة قال فلما سجد وقعتا ركبتاه إلى الأرض قبل أن تقع كفاه قال همام وحدثني شقيق قال حدثني عاصم بن كليب عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل هذا وفي حديث أحدهما وأكبر علمي أنه في حديث محمد بن جحادة وإذا نهض نهض على ركبتيه واعتمد على فخذه سنن ابو داؤد: کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل (باب: (سجدوں کے لیے جھکتے ہوئے )گھٹنوں کو ہاتھوں سے...)
838. سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے تھے اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے ۔
حکم تفصیلی:امام البانی الارواہ الغلیل جزء نمبر 2 حدیث نمبر 357پر فرماتے ہیں۔
قلت: إسناده ضعيف، وضعفه الدارقطني وابن سيِّدِ الناس وعفان (منشيوخ أحمد) ، فقال: حديث غريب إسناده: حدثنا الحسن بن علي وحسين بن عيسى قالا: ثنا يزيد بن هارون:أخبرنا شريك...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات. غير شريك- وهو ابن عبد الله القاضي الكوفي-، وهو ضعيف لسوء حفظه، قال الحافظ: صدوق يخطئ كثيراً، تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة .وقد تفرد به كما يأتي.والحديث أخرجه النسائي (1/165) ، والترمذي (2/56) ، والدارمي(1/303) ، وابن ماجه (1/287) ، والطحاوي (1/150) ، وابن حبان (87ا) ،والدارقطني (131- 132) ، والحاكم (1/226) ، وعنه البيهقي (2/98) من طرقعن يزيد بن هارون... به. وقال الترمذي: حديث حسن غريب، لا نعرف أحداً رواه مثل هذا عن شريك . وقالالحاكم: صحيح الإسناد على شرط مسلم، قد احتج مسلم يشريك وعاصم بن كليْب. ولعل متوهماً يتوهم أن لا معارض- لحديث صحيح الإسناد- آخر صحيح!وهذا المتوهم ينبغي أن يتأمل كتاب الصحيح لمسلم، حتى يرى من هذا النوع ماءيمل منه. فأما القلب؛ فإنه إلى حديث ابن عمر أميل؛ لروايات في ذلك كثيرة عن الصحابة والتابعين ! ووافقه الذهبي!
قلت: وفيما ذكراه من التصحيح نظر؛ لما عرفت من ضعف شريك.ثم هو ممن لم يحتج به مسلم، وإنما أخرج له متابعة، كما ذكرالذهبي نفسهفي الميزان ! وقال الدارقطني عقِبة: تفرد به يزيدعن شريك، ولم يحدث به عن عاصم بن كليب غير شريك،وشريك ليس بالقوي فيما يتفرد به . وقال ابن سيِّدِ الناس في شرح الترمذي
- محمودية-: تفرد به شريك؛ ولا يصح الاحتجاج به إذا انفرد . وقال البيهقي: قال عفان: وهذا الحديث غريب. (قال البيهقي) : هذا يعد في أفراد شريكالقاضي. وإنما تابعه همام من هذا الوجه مرسلاً... هكذا ذكره البخاري وغيره منالحفاظ المتقدمين رحمهم الله تعالى .
قلت: متابعة همام متابعة قاصرة؛ فإنه قال: حدثنا شقيق قال: حدثني عاصم بن كليب عن أبيه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... مرسلاً.أخرجه المصنف هنا، وفي باب افتتاح الصلاة ، وقد سبق تخريجه وبيانعلته هناك رقم (122) ، وكذلك استغنينا عن إبراد حديث عبد الجبار بن وائل عنأبيه الذي أورده المصنف هنا بالكلام عليه هناك (121) .
(فاثدة) : حديث ابن عمر الذي أشار إليه الحاكم: هو ما أخرجه هو،والطحاوي وغيرهما عن نافع عنه:أنه كان يضع يديه قبل ركبتيه، وقال:كان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يفعل ذلك.وقال: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي. وهو كما قالا.وقواه ابن سيد الناس في شرح الترمذي .وله شاهد من حديث أبي هريرة عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... مثله.
أخرجه الطحاوي (1/227) بإسناد صحيح.وهو عند المصنف وغيره من قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وهو في الكتاب الآخر (789) .واختلف العلماء في أي الحديثين أرجح: حديث وائل، أم حديث أبي هريرةوابن عمر؟فذهب إلى الأول الخطابي، فقال في معالم السنن (1 / 398/803) : حديث وائل أثبت من هذا . يعني: حديث أبي هريرة ! وهو الذي رجحه
ابن القيم في تهذيب للسنن ، وأطال النفس فيه في زاد المعاد !وقد رددت عليه في التعليقات الجياد ، وبينت ما فيه من الخطأ، والبعد عن الصواب بما لا يتسع المجال لبيانه هنا.والصواب الأرجح: حديث ابن عمر وأبي هريرة؛ لصحة إسنادهما، وهو الذيرجحه الحاكم كما سبق، وتبعه على ذلك جماعة، منهم ابن سيد الناس، كما هومذكور في الكتاب الآخر. ومنهم الحافظ ابن حجر، فقال في بلوغ المرام : وهو أقوى من حديث وائل بن حجر۔
خلاصہ کلام: یہ حدیث ضعیف ہے۔ لہذا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کہ سجدہ میں جاتے وقت ہاتھ گٹھنوں سے پہلے زمین پر رکھنے چاہیں ۔
یہ حدیث صحیح اور قابل حجت ہے۔
( 2) صحیح حدیث کو ضعیف حدیث کے مقابلہ میں منسوخ کہنا ہزاروی صاحب کی علمی خیانت ہے۔
اور امام کی تقلید میں یہ بھی کہہ دیا ہےکہ:
ملا علی القاری فرماتے ہیں:
بقول ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاصل یہ ہے کہ ہمارا مذہب پہلی حدیث پر عمل ہے اور امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب دوسری حدیث پر، اور ہر ایک کی کوئی وجہ ہے اور جب دونوں حدیثیں اصل صحت میں برابر ہیں تو نووی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ سنت کے اعتبار سے کسی ایک مذہب کی ترجیح مجھ پر ظاہر نہیں ہوئی اور اس میں نظر ہے۔ اس لئے کہ اگرچہ ہم اس کا منسوخ ہونا نہ بھی کہیں کیونکہ نسخ پر حدیث ضعیف دالّ ہے۔لیکن پھر پہلی حدیث اصح ہے۔ لہٰذا وہی مقدم ہوگی اس کے باوجود اکثر علماء اسی کے قائل ہیں۔ نیز نمازی کے لئے سہولت اسی میں ہے۔ اور ہیئت اور شکل میں حسین بھی ہے۔
یہاں ہزاروی صاحب ہئیت و حسین اور سہولت صرف اور صرف حدیث میں خیانت کرتے ہوئے اور اپنے مذہب کو ثابت کرنے کے لیےالفاظ لائے ہیں جبکہ حقیقت بات ہے کہ اپنے مذہب کو تبدیل نہ کرنے کی روش ہزاروی صاحب کی اور صحیح اور واضع دلائل و نصوص کو رد کرنے کے لیےان کا طریقہ کار واضع طور پر
إذا صح الحديث فهو مذهبي
(((یہ قول انہی الفاظ کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں مشہور ہے ۔ ( المجموع للنووی (1/63)
جبکہ ابن عابدین شامی اور ان سے پہلے ابن عبد البر نے اس کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف بھی منسوب کیا ہے ۔ ( حاشية ابن عابدين 1/67و مقدمۃ تحقیق التلخیص الحبیر 1/20 )))
سے بغاوت بھی ہےکیونکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تو صحیح حدیث کو اپنا مذہب کہہ رہے ہیں اور مقلد صحیح حدیث کو رد کرنے کےلیے حیلے تلاش کر رہا ہے۔
3) تیسری بات یہ ہےکہ قاعدہ ہے کہ جب قول اور فعل ٹکرا رہے ہو تو قول کو ترجیع ہو گی۔ لہذا ابو ھریرہ والی حدیث آپ کا قول بھی ہے صحیح بھی ہے اور اصول حدیث کے مطابق جب صحیح اور ضعیف حدیث ٹکرا جائیں تو ترجیع صحیح حدیث کو ہو گی۔۔ نا کے اندھی تقلید میں تحریف کر جائیں کے دوسری صحیح حدیث کو منسوخ کہہ دیں۔ حالانکہ ابو ھریرہ﷜ والی سجدے میں جاتے وقت ہاتھ زمین پر پہلے رکھے جائیں۔ یہ حدیث صحیح ہے وائل بن حجر والی حدیث کہ سجدے میں جاتے وقت گٹھنے پہلے زمین پر رکھنے چائیں۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ ظفراقبال ظفر رکن: اسلامک ریسرچ کونسل لاہور
 
Last edited:
Top