• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سقوط ڈھاکہ کے چاروں کردار "اندرا، مجیب ، بھٹو اور یحیٰی" عبرتناک انجام تک پہنچے

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
سقوط ڈھاکہ کے چاروں کردار "اندرا، مجیب ، بھٹو اور یحیٰی" عبرتناک انجام تک پہنچے​

لاہور (ضیا شاہد سے) مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے سلسلے میں 1971ء میں جو المیہ سامنے آیا اور مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست پاکستان کو جن لوگوں کے سبب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ان سب کا انجام اہل خانہ اور بیٹوں، بیٹیوں کے ساتھ انتہائی بھیانک نکلا۔

اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ادا کیا جن کے حکم سے بھارت کی باقاعدہ فوج ڈھاکہ میں داخل ہوئی اور بنگلہ دیش بننے کے بعد اندرا گاندھی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے قائداعظم کے وضع کردہ دو قومی نظرئیے کو بحرہند میں غرق کر دیا ہے۔ وہ زیادہ عرصہ اقتدار کا لطف نہ اٹھا سکیں اور اکتوبر 1984ء میں وہ اپنے گھر، 1 صفدر جنگ روڈ سے نکلی ہی تھیں کہ ذاتی محافظ سب انسپکٹر بے انت سنگھ نے سرکاری پستول سے تین گولیاں ان پر فائر کیں، جونہی وہ زمین پر گریں دوسرے باڈی گارڈ ستونت سنگھ نے سٹین گن سے 30 گولیوں کی بوچھاڑ ان پر کر دی جس سے سکھ محافظ کی نفرت اور غصے کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مردہ اندراگاندھی پر بھی مسلسل فائرنگ کرتا رہا۔

ان کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی جنہیں وہ سیاست میں لانے کیلئے تربیت دے رہی تھیں، چار سال پہلے جون 1980ء میں صرف 34 سال کی عمر میں نئی دہلی کے اڈے پر ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ ان کے ساتھ پائلٹ کیپٹن سبھاش سکسینا بھی لقمہ اجل بن گئے۔ دونوں کی لاشیں جہاز سے زمین پر گرنے کے باعث انسانی گوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔

اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے راجیوگاندھی وزیراعظم بنے تو بھانو نام کی ایک عورت نے 1991ء میں مدراس میں چنائی کے قریب خود کش حملہ کیا اور راجیوگاندھی کے پاؤں چھوتے ہوئے اپنے آپ کو اُڑا لیا۔ اس حادثے میں 14 دیگر افراد بھی مارے گئے۔ راجیوگاندھی کی لاش آگ لگا کر خاکستر کرنے سے پہلے ڈاکٹروں نے بڑی مشکل سے قیمہ ہونے والے گوشت کو سیا اور اسے بے ڈھب انسانی شکل دی تاکہ چتا پر رکھا جا سکے۔ اس طرح مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی چیمپئن خود اور اس کے دونوں بیٹے دنیا سے رخصت ہو ئے۔

سنجے کی بیوی مانیکا گاندھی سیاست میں آئیں جبکہ راجیو کی بیوی جو اٹلی کی پیدائش تھیں سونیا گاندھی کے نام سے کانگریس کی صدر بنی تاہم بھارت کی پیدائش نہ ہونے کے باعث وزیراعظم نہ بن سکیں اور انہوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو کانگریس کی طرف سے وزیراعظم بنا دیا۔ سونیا گاندھی کے بیٹے کا نام راہول گاندھی ہے جو سیاست میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بہن پریانکا گاندھی بھی کوئی نمایاں کردار ادا نہ کر سکیں۔ یوں موتی لال کی پوتی اور جواہر لال نہرو کی بیٹی اندراگاندھی خود اور اس کا خاندان اپنے انجام کو پہنچا۔

بنگلہ دیش کی تشکیل میں سب سے نمایاں نام عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کا تھا۔ وہ ایوب خان کے دور میں بھارت سے سازباز کرنے کے جرم میں گرفتار ہوئے اور ان پر اگرتلہ سازش کیس چلایا گیا جس کے جج جسٹس ایس اے رحمن تھے جو معروف صحافی راشد رحمن کے والد تھے ۔ ایس اے رحمن کا موقف تھا کہ شیخ مجیب پر یہ کیس سو فیصد درست تھا لیکن اس وقت تک ایوب خان کے بطور آرمی چیف جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے اور برسوں تک صدر کے عہدے پر قابض رہنے کے باعث مشرقی پاکستان کے عوام میں سیاسی محرومی کا احساس بہت بڑھ گیا تھا اور مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں مشرقی حصے میں برائے نام رہ گئی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کو نوابزادہ نصراللہ خان، ممتاز دولتانہ، مولانا مودودی اور ولی خان وغیرہ نے اصرار کر کے پیرول پر رہا کروایا اور دس سالہ دورحکومت کے اختتام پر ایوب خان سے جو گول میز کانفرنس ہوئی اس میں شریک کروایا۔ یہاں شیخ مجیب نے چھ نکات کے نام پر مشرقی پاکستان کی نیم خود مختاری کا فارمولا پیش کر دیا۔ ایوب خان نے چھ نکات کے بارے میں کہا کہ میں پاکستان کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہوں تاہم بعدازاں شیخ مجیب الرحمن 1970ء کے الیکشن میں بھار ی اکثریت سے مشرقی پاکستان سے منتخب ہوئے اور پورے صوبے میں صرف دو سیٹیں عوامی لیگ کےخلاف سامنے آئیں جن میں ایک سیٹ پر نورالامین اور دوسری سیٹ پر چکمہ قبائل کے اقلیتی رکن راجہ تری دیورائے کامیاب ہو گئے، باقی تمام سیٹیں عوامی لیگ نے جیتیں جن پر فوجی صدر یحییٰ خان نے انہیں متوقع وزیراعظم کے طور پر مبارکباد بھی دی تاہم مغربی پاکستان سے تمام جماعتوں سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ جو شخص قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جو ڈھاکہ میں بلایا گیا تھا شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔

بھٹو صاحب کا طرزعمل جمہوری سوچ سے یکسر برعکس تھا کیونکہ پاکستان کے دونوں حصوں سے شیخ مجیب کی پارٹی قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں لے کر جیتی تھی لیکن بھٹو صاحب نے یہ فلسفہ دیا کہ ہمارے بغیر آپ نہیں چل سکتے، لہٰذا ہم سے مذاکرات کریں۔ یہ مذاکرات ڈھاکہ میں ہوئے لیکن کامیابی نہ ہوئی اور بالآخر یحییٰ خان نے بھٹو صاحب کے ایما پر مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کیا۔ متوقع وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا اور مشرقی پاکستان میں اسلام آباد کیخلاف عوامی غیض و غضب کا سیلاب آ گیا۔ صرف مسلم لیگی اور جماعت اسلامی کے لوگوں نے حکومت پاکستان کا ساتھ دیا، بعدازاں اندرا گاندھی نے اپنی فوجیں ڈھاکہ میں داخل کر دیں۔ پاکستانی فوج کو مشکل حالات میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس موقع پر بھٹوصاحب نے سلامتی کونسل میں پاکستان کے وزیرخارجہ اور نائب وزیراعظم کے طور پر جوشیلی تقریر کی تاہم انہیں کامیابی نہ ہوئی اور وہ پاکستان واپسی پر فلو کے باعث راستے میں رُک گئے اور جب اسلام آباد پہنچے تو یحییٰ خان کیخلاف ایک طوفان اٹھا ہوا تھا اور چند فوجی جرنیلوں نے ان سے زبردستی استعفیٰ لے لیا تھا۔ بھٹوصاحب کے کہنے پر شیخ مجیب الرحمن کو میانوالی جیل سے خفیہ طور پر واپڈا کالونی کندیاں کی ایک کوٹھی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور عبوری صدر بننے کے بعد بھٹو صاحب نے شیخ مجیب الرحمن کو اسلام آباد سے نصف شب کے قریب لندن کی فلائٹ پر سوار کروا دیا۔ حال ہی میں ائیرمارشل (ر) ظفر چوہدری کی کتاب ”فضائیہ میں گزرے ماہ و سال“ میں اس منظر کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح شیخ مجیب الرحمن نے بھٹو صاحب کے رخساروں پر بوسہ دیا اور پاکستان کو دولخت کرنے والے دونوں کردار آپس میں گلے ملے۔ شیخ مجیب الرحمن پہلے صدر اور بعدازاں بنگلہ دیش کے وزیراعظم بنے۔ اسلامی کانفرنس کے موقع پر بھٹو صاحب نے شیخ مجیب کو لاہور آنے کی دعوت دی اور بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا گیا، بعدازاں اگست 1975ء میں یعنی اقتدار میں آنے کے چار سال بعد صبح چھ بجے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن کے گھر واقع دھان منڈی پر میجر فاروق الرحمن نے جو بنگلہ دیش آرمی کے افسر تھے، چند دیگر افسروں کے ہمراہ سرکاری رہائش گاہ پر حملہ کیا۔ شیخ مجیب الرحمن، اس کی بیوی فضیلت النسائ، تین بیٹے شیخ کمال، شیخ جمال اور دس سالہ بیٹے شیخ رسل جن کا نام شیخ مجیب نے عالمی شہرت یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل کے نام پر رکھا تھا، دو بہوؤں اور دیگر اہل خانہ سمیت گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شیخ مجیب کے بھانجے شیخ فضل الحق مانی بھی اپنی بیوی کے ہمراہ مارے گئے۔ برادرنسبتی عبدالرب 13 دوسرے افراد کے ساتھ منٹو روڈ والے مکان پر مارے گئے۔ تین دن تک ان سب کی لاشیں دھان منڈی والے گھر میں بے گوروکفن پڑی رہیں۔ بعدازاں کچھ لوگوں نے فوجی افسروں کی اجازت سے کیونکہ ملک میں فوجی حکومت آگئی تھی، شیخ مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کی لاشیں ڈھاکہ سے باہر ان کے گاؤں پہنچائیں اور گاو¿ں والوں کی مدد سے بنگلہ بندھو (بنگلہ کے باپ) کی تدفین بڑی کسمپرسی کے عالم میں ہوئی۔ شیخ حسینہ اس لئے بچ گئیں کہ وہ اپنی بہن شیخ ریحانہ کے ساتھ مغربی جرمنی کے دورے پر تھیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین دن تک لاشیں کمروں کے باہر برآمدوں اور صحن میں پڑی رہی تھیں اور گوشت کی بو سونگھ کر بڑے بڑے خوفناک گِدھوں نے مکان کی چھت پر بسیرا کر لیا تھا۔

بنگلہ دیش المیہ کے تیسرے کردار ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں آج تک یہ بحث جاری ہے کہ ان کا کردار اس المیے میں کیا تھا۔ ان کے حامی انہیں بیگناہ سمجھتے ہیں اور مخالف اور غیرجانبدار حلقوں کا خیال ہے کہ بھٹو صاحب نے یحییٰ خان سے مل کر اپنے اقتدار کیلئے ملک کے دو ٹکڑے ہونے دئیے اور بنگلہ دیش اس وقت بن گیا تھا جب پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ ڈھاکہ اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ بھٹو صاحب کا کتنا قصور تھا، تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے المیے میں تیسرے کردار ذوالفقار علی بھٹو کو بھی المناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے دور حکومت ہی میں احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ہوا تو بیٹے نے باپ کے قتل کی ایف آئی آر میں اصرار کرکے بھٹو صاحب کا نام شامل کروایا اور 1977ء میں جب بھٹو نے الیکشن کروائے اور نو سیاسی جماعتوں نے قومی اتحاد کے پرچم تلے ان کی حکومت کیخلاف الیکشن میں دھاندلی کی مہم چلائی تو بالآخر بھٹو صاحب نے اسے دبانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد مذاکرات کی دعوت دی اور ابھی گفتگو کسی نتیجے تک نہ پہنچی تھی کہ بھٹو صاحب ملک سے باہر چلے گئے۔ ان مذاکرات میں بھٹو صاحب کی ٹیم میں ان کے علاوہ عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثرنیازی شامل تھے جبکہ قومی اتحاد کی ٹیم میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد موجود تھے۔ جنرل ضیاءالحق نے جو کمانڈر انچیف تھے، بھٹو صاحب کو واپسی پر گرفتار کر لیا اور مری میں نظربند کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ بعدازاں بھٹوصاحب پر قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور دو ججوں نے انہیں سزائے موت سنائی۔ سپریم کورٹ میں اپیل پر تین کے مقابلے پر چار ججوں نے سزائے موت برقرار رکھی۔ اگرچہ برسوں بعد سزائے موت کے حامی ایک جج ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے جب وہ ریٹائر ہو چکے تھے یہ کہا کہ فیصلہ غلط تھا۔ بھٹو صاحب کے ٹرائل پر بہت سی کتابیں بھی لکھی گئی۔ آصف علی زرداری کے دور صدارت میں پارٹی نے ان کی سزا ختم کروانے کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل کی اور بابراعوان وکیل صفائی کے طور پر پیش ہوئے لیکن ابھی یہ مقدمہ زیرسماعت ہے۔ بھٹوصاحب کی بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بینظیر بھٹو نظربند کر دی گئی تھیں۔ بھٹو صاحب کی پہلی بیوی امیر بیگم نے رحم کی اپیل کی جسے صدر ضیاء الحق نے مسترد کر دیا اور تین اور چار اپریل 1979ء کی درمیانی رات انہیں پھانسی کی سزا دی گئی جسے جلاد تارا مسیح نے انجام دیا۔ بھٹو صاحب کی نعش فضائی راستے سے نوڈیرو پہنچائی گئی جہاں چند افراد کی موجودگی میں انہیں خاموشی سے دفن کر دیا گیا۔

بھارت سے شملہ معاہدہ کرنے، 90 ہزار فوجیوں اور سول افراد کو بھارت سے چھڑوانے، اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرنے، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی تیاریاں مکمل کرنے اور ملک میں بہت سی اصلاحات نافذ کرنے والے ذہین اور فطین لیڈر کا انجام انتہائی المناک ہوا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کو بھی انتہائی دلخراش واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی باہمت اور جرات مند بیگم نصرت بھٹو جنہوں نے شوہر کی وفات کے بعد پارٹی کو سنبھالا اور ضیائی آمریت کا مقابلہ کیا۔ عمر کے آخری حصے میں برسوں تک یادداشت سے محروم اور تکلیف دہ حالات میں زندگی بسر کرنے کے بعد فوت ہوئیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا شاہنواز بھٹو 18 جولائی 1985ء کو 30 سال کی عمر میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پراسرار حالات میں اچانک جاں بحق ہو گیا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ وفات منشیات کے زیراثر ہوئی ۔ ان کا بڑا بیٹا مرتضیٰ بھٹو جس نے بھائی سے مل کر پاکستان کی پہلی دہشت گرد تنظیم ”الذوالفقار“ بنائی تھی، بہن کے وزیراعظم بننے کے دوران جب وہ سندھ اسمبلی کا رکن بھی تھا، 20 ستمبر 1996ء کو کراچی میں اپنے گھر کے سامنے بے دردی سے قتل ہوا۔ اس قتل کے بارے میں اب تک شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ وفات کے وقت اس کی عمر 42 سال تھی۔

بھٹوصاحب کی اولاد میں سب سے ذہین ، بہترین مقرر اور پاکستانی اور عالمی سیاست کی ماہر اور عالم اسلام کی مشہور ترین منتخب جمہوری حکمران جو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہیں، فوجی حکمران پرویزمشرف سے این آر او کے ذریعے مفاہمت کرنے کے بعد پاکستان پہنچیں تو کراچی میں ان کے جلوس پر حملہ ہوا۔ وہ بال بال بچ گئیں مگر پھر 27 دسمبر 2007ء کو 54 سال کی عمر میں لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے سے فارغ ہو کر نکل رہی تھیں کہ خودکش حادثے کا شکار ہوئیں اور شہید کر دی گئیں۔ اس طرح بھٹوصاحب خود ان کے دونوں بیٹے، بیگم اور بیٹی المناک انجام سے دوچار ہوئے۔

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی داستان اس وقت تک ادھوری رہے گی جب تک سابق فوجی آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کا ذکر نہ کیا جائے۔ یحییٰ خان نے غیرقانونی طور پر ایوبی آمریت کے دس سال گزرنے کے بعد ان کی طرف سے لکھے جانے والے ایک خط کے نتیجے میں اقتدار سنبھالا حالانکہ خود ایوب خان کا آئین (1962ٰٰء) یہ کہتا تھا کہ صدر بیمار ہو جائے، کام کے قابل نہ رہے یا مستعفی ہو تو قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالجبار خان کو ان کی جگہ صدر بننا ہو گا لیکن آرمی چیف یحییٰ خان نے ایوب خان کے لکھے گئے ایک خط پر کہ آپ اقتدار سنبھالیں، صدارت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹری حاصل کی۔ عام الیکشن کروائے جن میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے تنہا اتنی سیٹیں حاصل کیں کہ وہ آئینی طور پر وزیراعظم بن سکتے تھے مگر یحییٰ خان نے درپردہ بھٹو صاحب کی حمایت شروع کر دی اور شیخ مجیب کو وزیراعظم قرار دینے کے بعد نہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا نہ حکومت ان کے سپرد کی بلکہ الٹا فوجی ایکشن کرکے شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کیا اور مغربی پاکستان لا کر جیل میں بند کر دیا۔ بعدازاں یحییٰ خان نے اکلوتے ایم این اے جو عوامی لیگ کے علاوہ مشرقی پاکستان سے کامیاب ہوئے تھے، نورالامین کو وزیراعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ مقرر کر دیا۔ 6 دسمبر 1971ء کو پاکستانی افواج نے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالے تو یحییٰ خان اور ان کا فوجی ٹولہ جو ہر وقت شراب اور عورتوں میں غرق رہتا تھا، یہ اعلان کر رہا تھا کہ ہم اب مغربی پاکستان کی سرحد سے لڑیں گے اور یہ کہ امریکی بحری بیڑہ ہماری امداد کو خلیج بنگال تک پہنچ چکا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے نیا آئین بنانے کی ”خوشخبری“ سنائی تھی۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں پاکستانی افواج کی بے قدری کے بعد انہیں کچھ جرنیلوں نے زبردستی معزول کیا اور بھٹو صاحب کے ملک پہنچنے سے پہلے ہی نظربند کر دیا جو اس وقت اقوام متحدہ میں تھے۔ بعدازاں بھٹو صاحب کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کے بعد یحییٰ خان کو زبردستی معزول کر کے ایبٹ آباد میں ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اہل خانہ کے علاوہ ان سے کوئی شخص مل سکتا تھا اور نہ وہ گھر سے باہر جا سکتے تھے۔ ان کے بیٹے علی یحییٰ نے معروف قانون دان ایس ایم ظفر صاحب کی وساطت سے پشاور ہائیکورٹ میں باپ کی نظربندی کو چیلنج کیا تو بھٹو حکومت کی طرف سے یہ تحریری بیان داخل کروایا گیا کہ ہم نے انہیں نظربند نہیں کیا بلکہ لوگوں کی شدید نفرت اور انتقامی روئیے سے بچانے کیلئے اپنی حفاظت میں لے رکھا ہے۔ 1972ء سے 1980ء تک پورے آٹھ سال تک یہ شخص ذلت اور رسوائی کی حالت میں اپنے گھر میں بند رہا اور 10 اگست 1980ءکو 63 سال کی عمر میں گمنامی کی حالت میں مر گیا۔ اس طرح سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں جو کردار سامنے آئے قدرت کی طرف سے انہیں ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔

دو قومی نظریہ کو بحرہند میں ڈبونے کی دعویدار اندراگاندھی اپنے ہی محافظوں کی گولیوں سے چھلنی ہو گئی۔ چھوٹا بیٹا سنجے ہوائی جہاز کے حادثے میں دہلی ائیرپورٹ کے پاس زمین پر اس طرح گرا کہ اس کی لاش کا قیمہ اکٹھا کرنا پڑا۔ بڑا بیٹا راجیوگاندھی ایک عورت کے ہاتھوں خودکش دھماکے میں مارا گیا جبکہ وہ وزیراعظم تھا۔

شیخ مجیب الرحمن تینوں بیٹوں اور داماد کے علاوہ برادر نسبتی اور بیوی کے ہمراہ اپنی ہی لگائی ہوئی ”بنگلہ دیشی آگ“ میں بھسم ہو گئے اور خاندان کے 13 افراد کو ان کی اپنی فوج کے کرنل نے باوردی سپاہیوں کے ہمراہ گولیوں سے بھون دیا۔ صرف حسینہ اور ریحانہ دو بہنیں بچیں جو ملک سے باہر تھیں۔

بھٹوصاحب کو قتل کے ایک مقدمے میں سزا ہوئی اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔ ان کے بیٹے شاہنواز بھٹو پیرس میں پراسرار حالات میں گھر میں مردہ پائے گئے۔ ان کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کراچی میں دن دہاڑے بہن کی وزارت عظمیٰ کے دور میں سڑک کے اوپر گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کی ذہین و فطین بیٹی بینظیر دو مرتبہ وزیراعظم رہنے کے بعد تیسری بار وزیراعظم نہ بن سکیں اور راولپنڈی میں خوفناک حملے کا شکار ہو گئیں۔ ان کا خاندان دو حصوں میں منقسم ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کی بیوی غنویٰ بھٹو نے شہید بھٹو پیپلزپارٹی بنا رکھی ہے۔ بھٹوصاحب کے چچازاد بھائی ممتاز بھٹو الگ اپنی سیاست کر رہے ہیں اور مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ جو ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی ہیں، انتہائی ذہین و فطین ہونے کے باوجود گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ صرف بینظیر کی دونوں بیٹیاں بختاور اور آصفہ اور بیٹا بلاول بھٹو بفضل خدا حیات ہیں، لیکن اکثر سننے میں آتا ہے کہ زرداری صاحب اور بلاول صاحب کے درمیان کچھ اختلافات ہیں جن کے خاتمے کی اب خبریں آرہی ہیں۔

ایسے ہی یحییٰ خان نظربندی کے بعد گمنامی کی حالت میں چل بسے۔ ان کے بیٹے کو کوئی پہچانتا بھی نہیں۔ شیخ حسینہ واجد البتہ بھارتی پشت پناہی کے سبب بنگلہ دیش میں برسراقتدار ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم بیگم خالدہ ضیاء کو نظربند اور بیسیوں برس پہلے پاکستان کی مدد کرنے کے الزام میں وہ دھڑا دھڑ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو موت کی سزائیں سنوا رہی ہیں حالانکہ گزشتہ بار وہ وزیراعظم تھیں تو یہی جماعت اسلامی ان کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل تھی اور اس کے دو وزراء حسینہ کی کابینہ میں موجود تھے۔ دو قومی نظرئیے کو ختم کرنے اور پاکستان کو دولخت کرنے کے دعویدار کس طرح اور کن حالات میں اپنے انجام کو پہنچے یہ کہانی دلخراش بھی ہے اور عبرتناک بھی۔ اور یقینا سوچنے اور عبرت پکڑنے والوں کیلئے اس داستان میں بہت سے اسباق ہیں۔

ح
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم
یہ قضیہ 1955 میں ہی شروع ہوگیا تھا جب موجودہ بنگلا دیش میں زبردستی اردو کو مسلط کیا گیا۔۔ جس پر بنگالیوں کا احتجاج شاہد ہے اور اس احتجاج کے بدلے ون یونٹ ٹھوک دیا گیا اور ملٹری اقتدار میں آگئی یہیں سے ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستان کی دوری شروع ہوئی کیوں کہ ایسٹ پاکستان کے لوگ سمجھتے تھے کہ قائد اعظم نے جو وعدے کئے ہیں وہ پورے کئے جائیں گے اور کم و پیش یہی بات اس وقت کےمسلم لیگ سندہ کے رہمنما اور برصغیر میں سب سے پہلے سندہ اسیمبلی سے پاکستان کی قرارداد پیش کرنے والے جی ایم سید سمجھتے تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ ایسا نہ ہوسکا ، قائد اعظم کو قتل کیا گیا ، لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا اور محترمہ فاطمہ جناح کو پہلے ذلیل کیا گیا پھر قتل کیا گیا۔۔ اور یہ سب کرنے والی ملٹری تھی۔ ملٹری نے پاکستان میں موجود قومیتوں کے حقوق پامال کرنا شروع کردئے جن حقوق کا زکر 1940 کی قرارداد میں موجود ہے اس کا رد عمل بنگلادیش میں مکتی باہنی اور سندہ مین جئے سندہ کے نام سے ہوا۔پنجاب کے دریاء کس نے بیچ دئے ۔ شیخ مجیب تو بہت بعد میں مکتی باہنی میں شامل ہوئے تھے جب ان کو پاکستانی ملٹری کی طرف کوئی مصالحت نہ ہونے کا یقین ہوا۔۔ بھٹو کو ملٹری نے ہی لانچ کیا تھا شیخ مجیب اور جئے سندہ کو کائونٹر کرنے کے لئے لیکن افسوس صرف سندہ میں ہی کامیابی مل سکی ، بنگلادیش میں نہیں۔۔۔۔لیکن جب بھٹو کے زریعے ویسٹ پاکستان میں حالات اچھے ہوئے تو پھر سے مارشل لا ملٹری اور ضیاء الحق نے جو اس ملک کے ساتھ کیا وہ سب آپ کے سامنے ہے اور ابھی تک بھگت رہے ہیں پھر کی سیاسی حکومتیں ملٹری کے ماتحت ہی تھیں ایک بوڑہا احمق اسحاق خان حکومتوں سے کھیلتا رہتا تھا وہ مرہ تب جان چھوٹی کیا یہ تماشہ نہیں تھا پھر مشرف صاحب نے جو کیا سب کے سامنے ہے ۔اس کے زورداری نے کوئی کسر نہین چھوڑی اور اب تو سول ملٹری گٹھ جوڑ ہے۔۔اللہ تعالی پاکستان کو حفظ امان میں رکھے اور پاکستانیوں کوسمجھ عطا کرے۔اور ان حکمرانوں اور کرپٹ ملٹری کے لوگوں سے جان چھوٹے اور وطن کے دفاع کرنے والے پیدا ہوں جو سچے و ایمان کے ساتھ ہوں۔۔۔۔ اگر بنگالیوں کوالگ ہونا ہی تھا تو وہ پہلے ساتھ کیوں ہوتے اصل ماجرہ تھا حقوق کا۔۔جو انہیں نہیں ملے
جس طرح بنگلادیش مین اپریشن کیا گیا جس طرح وہاں قتل عام کیا گیا جماعت السلامی کے لوگوں کو قتل و غارت میں استعمال کیا گیا لاکھوں بنگالی سرحد پار ہندستان میں پناھ لینے پر مجبور ہوئے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا بنگلادیش ۔۔
اب یہی صورتحال بلوچستان میں ہے اکبر بگٹی اکیلا بلوچ سردار تھا جو پاکستان بنتے وقت پاکستان میں شامل بھی ہوا اور پاکستان کا حامی بھی تھا باقی بلوچ سرداران کا پروفائیل اٹھا کہ دیکھیں سب کے سب کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان کے مخالف رہے ہیں۔۔۔۔ پھر ملٹری صرف ایک کیپٹن کے معاملے پر اکبر بگٹی سے الجھ پڑی اور اس کے ساتھ کیا ہوا سب کو پتا ہے اور اب بلوچستان میں جو تیزی سے صورتحال تبدیل ہوئے ہےوہ اکبر بگٹی کے سفاکانہ قتل کے بعد ہوئے ہے ۔اکثر بلوچ سردار پوائنٹ اف نو ریٹرن پر پھنچ چکے ہیں ۔ اب کریں تو کیا کریں۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
1972ء سے 1980ء تک پورے آٹھ سال تک یہ شخص ذلت اور رسوائی کی حالت میں اپنے گھر میں بند رہا اور 10 اگست 1980ءکو 63 سال کی عمر میں گمنامی کی حالت میں مر گیا۔
جنرل یحییٰ خان
سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و خارجہ تھے۔ بھٹو حکومت نے انہیں گھر میں نظربند رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کردی۔ دس اگست انیس سو اسّی کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔
 
Top