• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلفی منہج کی جانب انتساب کرنا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تصوف کی جانب انتساب
شیخ صالح الفوزان رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ’’ صوفی مذہب کی جانب انتساب کا کیا حکم ہے؟ کیا ہم صوفیوں کی تکفیر کرتے ہیں؟
جواب: کسی بھی بدعتی مذہب کی جانب انتساب جائز نہیں خواہ وہ صوفیہ ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور، ناہی کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی بدعتی کی پیروی کرے چاہے صوفی ہوں یا کوئی اور۔ بلکہ اسے چاہیے کہ مذہب اہل سنت کی اتباع کرے اور یہ اس کے لیے ممکن نہیں جب تک وہ اہل سنت کے مذہب کا علم حاصل نہ کرے اور بدعتی مذاہب کے بارے میں جانکاری نہ رکھتا ہو۔ یہ سب کچھ علم کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ جاہل کے لیے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان بدعتی مذاہب سے بچے کیونکہ وہ تو جانتا ہی نہیں، شاید کہ وہ اسے اچھا خیال کرتا ہو اور اسے خیر تصور کرتا ہو۔ پس یہ جہالت ایک بڑی آفت ہے۔
اور تمام صوفی گمراہی میں ایک ہی حد تک پہنچے ہوئے نہیں بلکہ ان میں سے کچھ شرک تک پہنچے ہوئے ہیں تو کوئی فقط بدعتی ہیں۔ ان میں سے مشرک وہ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر فوت شدگان کو پکارتے اور قبروں سے فریاد کرتے ہیں۔ اپنے مشائخ کو پکارتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ نفع ونقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ کائنات میں تصرف فرماتے ہیں۔
چناچہ یہ صوفیہ مختلف اصناف کے ہوتے ہیں ناکہ صرف ایک صنف کے۔ بعض ان میں سے صرف بدعتی ہوتے ہیں اور بعض تو مشرک تک ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح سے بعض ملحد (بے دین) ہوتے ہیں اور وہ وہ ہوتے ہیں جو وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں اور منصور الحلاج وابن عربی وابن سبعین والتلمسانی کے مذہب پر ہوتےہیں۔ یہ لوگ اس زمین پر سب سے بڑے کافر ہیں جو وحدۃ الوجود کے قائلین ہیں۔ اور ان میں سے بعض مشرکین ہوتے ہیں کہ جو فوت شدگان ، اپنے مشائخ اور پیروں کو پکارتے ہیں اور قبروں مزاروں سے استغاثہ کرتے ہیں۔ اور یہ سب شرک ہے۔([32])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صوفی سلسلوں کی جانب انتساب کے بارے میں علماء اہل سنت والجماعت کا مؤقف
سعودی عرب فتوی کمیٹی کے علماء کرام سے یہ سوال پوچھا گیا:
سوال: ایک صوفی طریقہ ہے جو کہ شیخ عبدالقادر جیلانی " اور ابوالحسن الشاذلی کی جانب منسوب ہے، کیا اس میں کوئی حرج ہے کہ اگر کوئی ان میں شمولیت اختیار کرتا ہے اور ان کی جانب منسوب ہوتا ہے، کیا یہ سنت ہے یا بدعت؟
جواب: امام ابو داود " نے اپنی سنن میں اور ان کے علاوہ دیگر نے سیدنا عرباض بن ساریہ رض سے روایت بیان فرمائی ہے کہ:
’’وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ‘‘ ([33])
’’ رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیں دوپہر کی نماز کے بعد ایک بلیغ قسم کا وعظ فرمایا جس سے آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور دل دہل گئے، پس ایک شخص نے کہا لگتا ہے کہ گویا یہ کسی الوداع کہنے والے کا وعظ ہے تو اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ ہم سے کیا عہد لیتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور(حکومت کی بات) سننے اور اطاعت کرنے کی اگرچہ (تمہارا حاکم) کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا۔ جو کوئی ایسے حالات پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے اور اسے اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام لے، اور دین میں نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ ہر بدعت (دین میں نیا کام) گمراہی ہے)۔
رسول اللہ ﷺ نے نشاندہی فرمائی کہ اس امت میں بہت سے اختلافات جنم لیں گے، جو مختلف راہوں اور مناہج میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اور ان لوگوں میں بہت سی بدعات وخرافات در آئیں گی۔ان حالات میں نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو اللہ کی کتاب اور اپنی سنت سے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے۔ چمٹے رہنے کا حکم فرمایا اور انہیں تفرقہ واختلاف اور بدعات وخرافات کی پیروی سے خبردار فرمایا۔ کیونکہ یہ سب گمراہی ہے۔ اور جو کوئی ان پر چلتا ہے وہ اللہ تعالی کی راہ سے جدا ہوجاتا ہے ۔
پس اللہ تعالی نے انہیں نصیحت فرمائی :
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
’’ اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو‘‘
اور فرمان الہی ہے:
﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾(الانعام: 153)
’’ اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو، دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالٰی نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو‘‘
پس ہم آپ کو نصیحت الہی اور نصیحت نبوی ﷺ کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں کہ منہج اہل سنت والجماعت سے تمسک اختیار کریں۔ اور ہم آپ کو ان صوفی طریقوں سے خبردار کرتے ہیں جنہوں نے یہ تصوف کی بدعت ایجادکی، اور اس کے علاوہ دیگر من گھڑت اوراد واذکار ایجاد کیے۔ ساتھ ہی ایسی دعائیں جن میں شرک کی آمیزش ہوتی ہے یا جو شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ جیسا کہ غیراللہ سے استعاذہ (پناہ طلب) کرنا، اللہ اللہ (یا اللہ ھو) کا مفرد ذکر، اور اللہ کو "آہ، آہ" کہہ کر یاد کرنا جوکہ اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں سے نہیں۔ اور اپنے مشائخ کے وسیلے سے دعائیں کرکےان کا تقرب حاصل کرنا ، ساتھ ہی ان کایہ اعتقاد ہےکہ ان کے مشائخ وپیروں کو دلوں کے حالات تک پتہ ہوتے ہیں اورجو کچھ مستقبل میں ہونے والا ہے وہ بھی۔ ان کا اجتماعی گروپ کی صورت میں بیک آواز ذکر الہی کرنا اور اس میں سروں کو ہلانا اور رقص کرنا اور اناشید، نظمیں وترانے پڑھنے(جن میں موسیقی بھی ہوتی ہے)۔ اور اس کے علاوہ بھی ایسی بہت سے خرافات ان میں پائی جاتی ہے جن کا وجود کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں نہیں ملتا)([34])

الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
[1] کیسٹ "الدعوۃ السلفیۃ"۔
[2] اس حدیث کی جانب اشارہ ہے: سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ﷜ سے روایت ہےکہ فرماتے ہیں، نبی کریم (ﷺ) ہمارے درمیان کھڑے یہ فرمارہے تھے:
’’ أَلَا إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ: ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ ‘‘حدیث صحیح لغیرہ ہے، اور بعض نے اس کی تواتر ہونے کے احتمال کی جانب ارشاہ فرمایا ہے۔ أخرجه أحمد في المسند (4/102)، و أبو داود في كتاب السنة، باب شرح السنة، حديث رقم (4597)، والآجري في الشريعة (الطبعة المحققة) (1/132، تحت رقم 31).وصحح إسناده محقق جامع الأصول (10/32)، والألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة حديث رقم (204)، وذكر جملة من الأحاديث تشهد له. وانظر نظم المتناثر ص32-34.)
’’ خبردار ! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے وہ بّہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے اوریہ امت بھی عنقریب تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے بّہتر (72) جہنم میں جائیں گےاور صرف ایک جنت میں جائے گا اور وہ جماعت ہوگا‘‘
اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر ﷜ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
’’ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي ‘‘ (صحیح ترمذی 2641)
’’ میری امت پر بھی وہی حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جیسا کہ ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے،یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدکاری کی ہوگی تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا ہوگا جو ایسی حرکت کرجائے گا۔ اور بنی اسرائیل بّہتر (72) فرقوں میں متفرق ہوگئے تھے اور میری یہ امت تہتر (73) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ صحابہ﷢نے عرض کی وہ (نجات پانے والی) جماعت کونسی ہوگی؟ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: جس چیز پر میں ہوں اور میرے صحابہ﷢‘‘۔
[3] کیسٹ "الدعوۃ السلفیۃ"۔
[4] صحیح بخاری 2652، صحیح مسلم 2536۔
[5] تحریر المقالۃ فی شرح الرسالۃ ص 207-208 ط۔ مؤسسۃ المعارف، بیروت۔
[6] کتاب لوامع الانوار البھیۃ وسواطع الاسرار الاثریۃ لشرح الدرۃ المضیۃ فی عقد الفرقۃ المرضیۃ للشیخ محمد بن احمد السفارینی ج 1 ص 20۔
[7] ایضاً۔
[8] النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر۔
[9] صحیح البخاری مع الفتح 6/66۔
[10] الآجری فی الشریعۃ ص 58۔
[11] مجموع الفتاوی 4/149۔
[12] سیر الاعلام 21/6۔
[13] الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ ص 155 سوال 125۔
[14] لقاء الباب المفتوح سوال: 1322۔
[15] الفتاوی الحمویۃ تحقیق دکتور احمد التویجری۔
[16] سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ رقم 848۔
[17] اُصُول وَقَوَاعِدْ فِیْ الْمِنْہَجِ السَّلَفِیِّ۔
[18] سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ رقم 848۔
[19] سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ رقم 725۔
[20] الاجوبۃ المفیدۃ۔
[21] شرح عقیدۃ السفارینی ص 19-20۔
[22] صحیح مسلم 2452۔
[23] صحیح بخاری 2652، صحیح مسلم 2536۔
[24] (صحیح ترمذی 2641)
[25] النبذ الوفية في وجب الإنتساب للسلفية للشیخ سلیم الھلالی۔
[26] البھجۃ السنیۃ فی ادب الطریقۃ العلیا النقشبندیۃ ص 35، تنویر القلوب فی معاملات علام الغیوب ص ص 539۔ ماخوذ من حقائق الخطیرۃ عن الطریقۃ النقشبندیۃ ص 7۔
[27] تاریخ دارالعلوم دیوبند 1/428۔
[28] الدیوبندیۃ تعریفھا وعقائدھا للشیخ طالب الرحمن ص 21۔
[29] حالانکہ یہ ایک زندیق وملحد صوفی تھا جو ہرشیء کو ہی اللہ تصور کرتا تھا۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیہ 11/232، درء تعارض العقل والنقل 4/5، میزان الاعتدال للذھبی 3/659)۔
[30] الدیوبندیۃ تعریفھا وعقائدھا للشیخ طالب الرحمن ص 25-26۔
[31] الموجز البلیغ فی تحذیر من فرقۃ التبلیغ ص 13۔
[32] 1، رجب، 1432ھ کو پوچھا گیا سوال، ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے ماخوذ۔
[33] صحیح ترمذی 2676
[34] فتاوی لجنۃ دائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ج 2 ص 291-293۔
 
Top