• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلفی منہج کی جانب انتساب کرنا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سلفی منہج کی جانب انتساب کرنا

ترجمہ: طارق علی بروہی​
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے، اور ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں کہ جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے)
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (المتوفی سن 1420ھ) فرماتے ہیں:
’’ یہ آیت کریمہ وہ اساس ہے کہ جس سے ہر مسلمان اس دعوت حق کو کشید کرسکتا ہے جسے قدیم وجدید علماء کرام نے سلفی دعوت کا نام دیا ہے اور بعض نے اسے انصار السنۃ المحمدیۃ کا اسی طرح سے بعض نے دعوت اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور یہ سب نام ایک ہی معنی کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جس کی طرف تمام دینی جماعتوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور اگر دی بھی تو کماحقہ اس سے تمسک اختیار نہیں کیا۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ فرقۂ ناجیہ (نجات پانے والے فرقے) میں شمار ہو سوائے اس کے کہ وہ قرآن وسنت اور منہج سلف صالحین پر چلے۔یہ جو تیسری اساس یعنی منہج سلف ہے وہ تمام مسلمانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ رہنی چاہیے اگر وہ واقعی اس دن نجات پانے کے بارے میں سچے ہیں کہ جس دن نہ مال کام آئے کا نہ بیٹے۔ اسی لیے دینی مفہاہیم اور افکار وآراء کے اعتبار سے اس چیز کی طرف رجوع نہ کرنا جس پر کہ سلف صالحین تھے یہی بنیادی سبب ہے کہ مسلمان اتنے مذاہب اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جو کوئی قرآن وسنت کی جانب رجوع کرنے میں صادق ہے تو اسے اس چیز کی پیروی کرنی ہوگی جس پر اصحاب نبیﷺ، تابعین اور ان کے متبعین تھے‘‘ ([1])
فرمان الہی ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
(اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے)
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جو کوئی بھی فرقۂ ناجیہ([2]) میں سے ہونا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس چیز کی جانب نسبت کرے جس پر یہ صحابہ کرام﷢، تابعین اور ان کے متبعین تھے۔ یہ وہ سلف صالحین ہیں کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں۔
سلف صالحین کی اتباع کا مسئلہ دین میں کوئی نیا کام یا بدعت نہیں بلکہ یہ تو ایک واجب ولازم چیز ہے جو کہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں بالکل واضح طور پر ارشاد فرمائی ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
’’ اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے‘‘
بلاشبہ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے راستے کی مخالف کرنے پر شدید وعید سنائی ہے مگر اسے اس بات کے ساتھ جوڑ دیا ہے کہ: "اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے" اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہاں مومنوں سے مراد وہ مومن لوگ کہ جن کی مخالفت پر سختی کے ساتھ آیت میں ڈرایا گیا ہے وہی مومنین ہیں جن کا اس سے پہلے والی آیت میں ذکر ہوا مہاجرین وانصار صحابہ کرام ﷢ اور بھلائی کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے۔
بلاشبہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ منہج السلف ہی وہ اساس ہے کہ جو ایک ایسے مسلمان کہ جو اپنی زبان سے قرآن وسنت کی جانب منسوب تو ہوتا ہے لیکن پھر اپنے عمل سے قرآن وسنت کی پیروی کی مخالفت کرتا ہے یعنی کہ اس عصمت کی طرف نہیں لوٹتا کہ جو اسے قرآن وسنت کی مخالفت سے بچاسکے اور یہ صحابہ کرام﷢کے منہج کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں)۔([3])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سلف کون ہیں؟
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ سلف صالحین ان تین نسلوں پر مشتمل ہے کہ جن کے خیر پر ہونے کی شہادت خود نبی کریم ﷺ نے اپنی ایک متفق علیہ حدیث میں دی ہے۔ بلکہ یہ حدیث تو متواتر کے درجے کو پہنچ جاتی ہے کیونکہ اس کے کئی ایک طرق صحابہ﷢ کی ایک بڑی جماعت سے صحیحین وغیرہ میں موجود ہیں، فرمایا:
’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘ ([4])
’’ بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔پس سلف صالحین سے مراد یہ تین خیرون القرون کے لوگ ہیں کہ جن کے خیر پر ہونے کی شہادت نبی اکرم ﷺ نے دی ہے‘‘
امام قاضی احمد القلشانی (المتوفی سن 863ھ) فرماتے ہیں:
"والسلف الصالح وهو الصدر الأول الراسخون في العلم المهتدون بهدي النبي ﷺ الحافظون لسنته , اختارهم الله لصحبة نبيه وانتخبهم لإقامة دينه....."
سلف صالحین سے مراد وہ پہلی نسل ہے کہ جو راسخون فی العلم تھے، ہدایت نبویﷺ کے ساتھ ہدایت یافتہ تھے۔ جو سنت کے محافظ تھے۔ انہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا اور ان سے راضی ہوا تھا کہ وہ اس امت میں دین کے امام بنیں۔ انہوں نے امت کی نصیحت چاہنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور انہوں نے رب کی رضا کے لیے اپنے آپ کو قربان کردیا۔
اللہ تعالی نے ان کی مدح اپنی کتاب میں فرمائی:
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ﴾ (الفتح: 29)
’’ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں بہت نرم ہیں‘‘
اور فرمان الہی ہے:
﴿لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ، وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (الحشر: 8-9)
’’ (فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول(ﷺ) کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں، اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی(یعنی انصار) اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے‘‘
اللہ تعالی نے آیت میں مہاجرین اور انصار کا ذکر فرما کر ان کی پیروی کرنے والوں کی تعریف فرمائی، اور یہ کہ وہ ان سے راضی ہوا کہ جن بعد میں آنے والوں نے ان کی پیروی کی۔
اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو وعید سنائی جو سبیل المومنین کے علاوہ دوسری راہ پر چلیں:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
’’ اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ‘‘
اسی لیے جو کچھ ان سے مروی ہے ہم پر اس میں ان کی پیروی کرنا ضروری ہے، جو عمل انہوں نے کیا اس پر ان کے نقش قدم کی پیروی کریں، اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾ (الحشر: 10)
’’ اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارےرب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے‘‘ ([5])
امام محمد بن احمد السفارینی (المتوفی سن 1188ھ) فرماتے ہیں:

"المراد بمذهب السلف: ماكان عليه الصحابة الكرام رضوان الله عليهم وأعيان التابعين لهم بإحسان وأتباعهم وأئمة الدين ممن شُهد له بالإمامة وعُرف عظم شأنه فى الدين وتلقى الناس كلامهم خلفاً عن سلف دون من رُمي ببدعة أو شُهر بلقب غير مرضي مثل: الخوارج , والروافض , والقدرية , والمرجئة , والجبرية , والجهمية , والمعتزلة , والكرَّامية ونحو هؤلاء"

’’ مذہب سلف سے مراد ہے کہ جس پر صحابہ کرام﷢ اور نمایاں تابعین کرام اور بطور احسن ان کی پیروی کرنے والے اور ایسے آئمہ دین کے جن کی امامت کی شہادت دی جاتی ہے اور دین میں ان کی عظمت شان معروف ہے اور لوگ نسل در نسل ان کے کلام کو شرف قبولیت دیتے چلے آئے ہیں۔ نہ ان میں سے کسی کو بدعت یا مشہور بدعتی فرقے کی جانب نسبت سے متہم کیا جاتا ہے جیسے خوارج، روافض، قدریہ، مرجئہ، جبریہ، جہمیہ، معتزلہ اور کرامیہ وغیرہ‘‘ ([6])
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:
’’ مذہب سلف کو ظاہر کرنا اور اس کی حقیقت کو واضح کرنا، اور یہ کہ مذہب سلف دیگر مذاہب سے زیادہ محفوظ تر، علم وحکمت میں بڑھ کر ہے۔ اور یہی سلف وہ مہاجرین وانصار صحابہ کرام﷢ تھے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے میں سبقت فرمائی ، اسی طرح سے دیگر اصحاب نبی ﷺ اور وہ جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی اور آئمہ ہدایت۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے ہدایت پر ہونے اور ان کے دینی فہم کی دوسروں پر فضلیت ، ان کی اور ان کے منہج کی پیروی کرنے کے بارے میں مسلمان متفق ہیں۔بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے نبی وخلیل محمد رسول اللہ ﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ آپ ﷺ لوگوں کے رب کے حکم سےانہیں اندھیروں میں سے نور، اس عزیز وحمید اللہ تعالی کی راہ کی طرف نکال لائیں۔ اللہ تعالی نے خود اس بات کی گواہی دی کہ اس نے اپنے پیغمبر ﷺ کو اس کے اذن سے داعی الی اللہ، روشن چراغ اور اپنے احکامات کے ساتھ ارسال فرمایا، فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۷ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾ (یوسف: 108)
’’ کہو یہ دین میری سیدھی راہ ہے میں اللہ تعالی کی طرف مکمل بصیرت کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، میں اور میرے متبعین بھی‘‘([7])
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا، وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا﴾ (الاحزاب: 45-46)
’’ اے نبیﷺ! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسولﷺ بنا کر ) گواہیاں دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے‘‘
قدیم وجدید علماء کرام نے "سلف" کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سلف کا لغوی معنیٰ
امام مجدالدین ابن الاثیر (المتوفی سن 606ھ) فرماتے ہیں:
"وقيل سلف الإنسان من تقدم بالموت من آبائه وذوي قرابته , ولهذا سمي الصدر الأول من الصحابة والتابعين السلف الصالح"
’’ کسی شخص کے سلف وہ ہوتے ہیں جو اس کے آباء واجداد میں سے اس سے پہلے فوت ہوچکے ہوتے ہیں۔ اسی لیےصحابہ و تابعین کی پہلی نسل سلف صالحین کہلاتی ہے ‘‘ ([8])
امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ " (المتوفی سن 256ھ) فرماتے ہیں:
"باب الرُّكُوبِ عَلَى الدَّابَّةِ الصَّعْبَةِ وَالْفُحُولَةِ مِنَ الخَيْلِ.وَقَالَ رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ:كَانَ السَّلَفُ يَسْتَحِبُّونَ الْفُحُولَةَ لأَنَّهَا أَجْرَى وَأَجْسَر"
’’ شریر جانور اور گھوڑے پر سواری کرنے کا بیان اور راشد بن سعد کہتے ہیں، کہ سلف نر جانور پر سوار ہونا پسند کرتے تھے، کیونکہ وہ زیادہ بہادر اور دلیر ہوتا ہے‘‘ ([9])
امام مسلم بن حجاج النیشاپوری رحمہ اللہ " (المتوفی سن 261ھ) فرماتے ہیں:ابن المبارک رحمہ اللہ پورے مجمع کے سامنے کہا کرتے تھے:
"دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ "
’’ عمرو بن ثابت کو چھوڑ دو کیونکہ وہ سلف یعنی صحابہ کرام کو برابھلا کہتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ " صحیح بخاری كتاب الأطعمة میں ایک باب اس عنوان سے قائم فرماتے ہیں کہ:
"باب: مَا كَانَ السَّلَفُ يَدَّخِرُونَ في بُيُوتِهِمْ وَأَسْفَارِهِمْ مِنَ الطَّعَامِ وَاللَّحْمِ وَغَيْرِهِ"
’’ باب گوشت اور کھانے میں سے سلف اپنے گھروں اور سفر میں کیا ذخیرہ کرکے رکھا کرتے تھے کے بارے میں‘‘
امام عبدالرحمن بن عمرو الاوزاعی " (المتوفی سن 156ھ) فرماتے ہیں:
"اصبر نفسك على السنة وقف حيث وقف القوم , وقُل بما قالوا وكُفَّ عما كفوا واسلك سبيل سلفك الصالح فإنه يسعك ما وسعهم"
’’ سنت پر ثابت قدم رہو، وہیں رک جاؤ جہاں صحابہ کرام ﷢ رکے تھے، اور وہی کہو جو انہوں نے کہا تھا، اور ان چیزوں سے دور رہو جن سے وہ دور رہے تھے، اور اپنے سلف صالحین کے طریقے کی پیروی کرو، کیونکہ جو چیز انہیں کفایت کرتی تھی وہی تمہیں بھی کفایت کرے گی‘‘ ([10])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
منہج سلف کی جانب منسوب ہونا
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ " (المتوفی سن 728ھ) فرماتے ہیں:
"لا عيب على من أظهر مذهب السلف وانتسب إليه , واعتزى إليه , بل يجب قبول ذلك منه بالاتفاق , فإن مذهب السلف لا يكون إلا حقاً"
’’ اس شخص پر کوئی ملامت نہیں کہ جو مذہب سلف کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی جانب منسوب ہوتا ہے۔ بلکہ واجب ہے کہ اس بات کو اس سے قبول کیا جائے اس پر اجماع ہے۔ کیونکہ سلف کا مذہب حق کے سوا کچھ نہ تھا‘‘ ([11])
امام شمس الدین محمد بن عثمان الذہبی رحمہ اللہ " (المتوفی سن 748 ھ) فرماتے ہیں:
’’ سلفی وہ ہوتا ہے جو کہ مذہب سلف پر چلتا ہو ‘‘ ([12])
شیخ صالح بن فوزان الفوزان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ بلاشبہ سلفی جماعت ہی وہ حق پر قائم جماعت ہے کہ جس سے وابستہ ہونا، اس کے ساتھ کام کرنااور اس کی جانب منسوب ہونا واجب ہے۔ اور جو کوئی ان کے علاوہ جماعتیں ہیں انہیں حقیقی دعوتی وتبلیغی جماعتیں سمجھنا درست نہیں ‘‘ ([13])
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ (المتوفی سن 1421ھ) فرماتے ہیں:
’’ سلفیت کا معنی ہے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام﷢کے منہج کی پیروی، کیونکہ آپ ﷺ بھی ہمارے سلف میں سے ہیں، اور صحابہ کرام﷢ بھی ہم سے پہلے گزرے ہوئے ہمارے سلف ہیں، لہذا ان کی پیروی واتباع کرنا سلفیت ہے) ([14])
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ (المتوفی سن 1420ھ) فرماتے ہیں:
’ بلاشبہ سلف وہ ہیں جو خیرالقرون کے لوگ ہیں۔ پس جو کوئی بھی ان کے نقش قدم پر چلتا رہا تو وہ سلفی ہے۔ جو کوئی اس منہج میں سلف کا مخالف ہو تو وہ خلف ہے ‘‘ ([15])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل بدعت سے امتیاز کے لیے سلفی کہلانے کا وجوب
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ یقیناً تمام فرقوں میں سےقطع نظر اس کے کہ وہ کتنا کتاب وسنت سے قریب یا بعید ہیں ممکن نہیں کہ ان میں سے کوئی کہے کہ میں منہج السلف پر چلتا ہوں۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالی نے یہ فضلیت عطاء فرمائی کہ وہ اپنی دعوت، منہج اور سلوک میں واقعی منہج سلف پر چلتے ہیں۔۔۔‘‘ ([16])
شیخ عبید بن عبداللہ الجابری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ پس آپ کوئی بھی خلفی (جو شخص سلف کے راستے پر نہ ہو) ایسا نہیں پائیں گے خصوصاً جو ان نئی موجودہ دور کی تبلیغی، دعوتی دینی جماعتوں سے نسبت رکھتے ہیں اور اہلسنت والجماعت سے دشمنی رکھتے ہیں کہ وہ سلفیت اوراس جانب نسبت سے نفرت کرتا ہوگا۔وہ اس لئے کیونکہ سلفیت محض ایک نسبت کا نام نہیں بلکہ سلفیت اکیلے اللہ تعالی کے لئے اخلاص اوراکیلے نبی کریمﷺ کے لئے اتباع پر زور دیتی ہے ‘‘ ([17])
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ آخر آپ سلفی لوگ اپنے اس لقب (ٹائیٹل) کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟
آپ رحمہ اللہ نے جواب ارشاد فرمایا:
’’ اگر آپ اپنے حزب (پارٹی، تنظیم، جماعت) یا کسی بھی حزب کی جانب نسبت کرنا چھوڑ دیں اسی طرح سے کسی بھی مذہب ومکتبۂ فکر کی جانب نسبت کرنا چھوڑ دیں تب جاکر ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم مسلمان ہیں۔
لیکن جہاں تک ان ناموں کا تعلق ہے تو یہ موجودہ افکار اور مذہبی تعصب کے وجہ سے امت میں تفرقہ در تفرقہ کا سبب بنتے ہیں ‘‘
لہذا اس میں کوئی حرج نہیں اگر ہم کہیں کہ ہم ان تمام نسبتوں کو ایک ہی نسبت میں ضم کردیتے ہیں ۔ اور ان (حزبی) لوگوں کے لیے بالکل بھی ممکن نہیں کہ وہ اس بات کا انکار یا اس سے اختلاف کرسکیں کہ سلفی دعوت ہی حق کی دعوت ہے یا نہیں؟ اس کے لیے بطور دلیل ہم اللہ تعالی کا یہ فرمان پیش کرتے ہیں کہ:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
(اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ‘‘ ([18])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا سلفی نسبت کو استعمال کرنا اپنے آپ کی پارسائی بیان کرنا نہیں؟
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وہ شخص سلفیت کے معنی سے ہی آگاہ نہیں کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ سلفی کہلانا اپنی تعریف آپ کرنا ہے۔ سلفیت کا معنی ہے صحیح اسلام، پس جو کوئی یہ کہتا ہے کہ: میں مسلمان ہوں یا میرا دین اسلام ہے یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں سلفی ہوں۔۔۔‘‘ ([19])
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’ سلفی دعوت حزبیت کے خلاف اس کی ہر شکل میں اعلان جنگ کرتی ہے۔ اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت کی نسبت عصمت کی جانب ہے یعنی رسول اللہ ﷺ (اور آپ کے صحابہ﷢ جو گمراہی پر کبھی بھی جمع نہیں ہوسکتے) لہذا جو ان سلف کی راہ سے گمراہ ہو تو ہم اسے سلفی نہیں کہتے ‘‘ ([20])
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ کیا ہمارے اس دور میں سلفیت کا ہونا ممکن ہے؟ جی ایسا ممکن ہے، ہم اسے عقیدے کی سلفیت کہیں گے اگرچہ زمانے کے اعتبار سے یہ سلفیت نہ ہو ، کیونکہ سلف تو ان کو کہتے ہیں جوزمانے کے اعتبار سے ہم سے پہلے گزر چکے ہیں، چناچہ یہ موجودہ سلفی لوگ وہ ہیں جو فی الواقع عقیدے اور عمل کے اعتبار سےسلفیت پر گامزن ہیں۔ اور یہ ان کی نسبت سے جو بعد میں آئیں سلف کہلائیں گے‘‘ ([21])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہم سلفیت کی جانب نسبت کیوں کریں؟ کیا یہ بھی کسی حزب یا جماعت کی جانب نسبت ہے؟
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ: ہم سلفیت کی جانب نسبت کیوں کریں؟ کیا یہ بھی کسی حزبیت ، فرقے، مذہب یا اسلام میں کسی نئے گروپ کی جانب دعوت ہے؟
جواب: بلاشبہ لفظ "السلف" عربی زبان میں معروف ہے اور شریعت میں بھی، اور جو چیز ہمیں فی الحال مقصود ہے وہ اسے شرعی لحاظ سے جاننا ہے۔ یہ بات نبی کریم ﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے مرض الموت میں فرمایا:
’’فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ‘‘ ([22])
’’ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو، اور صبر سے کام لو، میں تمہارا کتنا اچھا سلف ہوں ‘‘
علماء کرام لفظ "السلف" کا اس قدر کثرت سےاستعمال کرتے رہے ہیں کہ ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں۔ یہی کافی ہے کہ ہم اس کی ایک مثال بیان کردیں یہ وہ جملہ ہے کہ جو ہم بدعت کے رد میں استعمال کرتے ہیں:
"وكل خير في اتِّباع من سلف وكل شر في ابتداع من خلف"
’’ ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعات میں ہے‘‘
بہرحال بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو علم کے دعویدار ہیں مگر وہ اس نسبت کا رد کرتے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ:
کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کہے میں سلفی ہوں۔ یہ تو گویا ایسے ہی ہوگیا کہ یہ لوگ کہیں کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کہے میں عقیدے، عبادت اور سلوک (معاملات) میں سلف صالحین کی پیروی کرتا ہوں!۔
بلاشبہ اس نسبت کا اس قسم کا رد اگر وہ اس سے واقعی یہ مراد لیتے ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہم اس صحیح اسلام سے دستبردار ہوجائیں جس پر کہ سلف صالحین قائم تھے۔ جن میں سرفہرست ہمارے نبی کریم ﷺ ہیں کیونکہ یہ بات اس متواتر حدیث میں وارد ہے کہ جو بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘ ([23])
’’ بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں‘‘
لہذا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ سلف صالحین کی جانب نسبت سے دستبردار ہو، جبکہ اس کے برخلاف جتنی دوسری نسبتیں بنائی ہوئیں ہیں ان میں سے کسی بھی دستبردار ہونے پر کسی بھی اہل علم کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ایسے شخص پر کفر یا فسق کا فتوی لگا سکیں۔
اور جو کوئی اس سلفی نسبت کا انکار کررہا ہے کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وہ بھی تو اتنے مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی جانب نسبت کررہا ہوتا ہے؟! خواہ وہ مذہب عقیدے سے متعلق ہو یا فقہ سے؟
پس ان لوگوں میں سے جو اہل سنت والجماعت میں شامل سمجھے جاتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ یا تووہ اشعری ہوگا یا ماتریدی یا پھر اہل حدیث اسی طرح سے وہ حنفی ہوگا یا شافعی یا مالکی یا حنبلی۔ جو اشعری مذہب یا مذاہب اربعہ کی جانب نسبت کرتا ہے تو وہ ایسی شخصیات کی جانب نسبت کرتا ہے جو کہ بلاشبہ معصوم عن الخطاء نہیں اگرچہ شاید ان میں سے کوئی عالم صحیح راہ پر بھی ہو۔ بہرحال میری خواہش ہے کہ کاش وہ لوگ ان نسبتوں کا بھی انکار کرتے جو غیرمعصوم شخصیات کی جانب منسوب ہیں۔
جہاں تک سلف صالحین کی جانب انتساب کا تعلق ہے تو وہ ایسوں کی طرف انتساب ہے جو مجموعی اعتبار سے غلطی سے پاک ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرقۂ ناجیہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بتلائی کہ:
’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘ ([24])
’’ وہ اس چیز سے تمسک اختیار کریں گے کہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں‘‘
پس جو کوئی بھی اس سے تمسک اختیار کرتا ہے یقیناً وہ اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہے۔​
بلاشبہ بالکل واضح ،ظاہروباہر اور ممتازدلیل اس انتساب کی یہ ہے کہ ہم کہیں: میں ایک مسلمان ہوں جو کہ کتاب وسنت پر منہج سلف صالحین کے مطابق چلتا ہوں۔ اور اس جملے کو مختصر الفاظ میں یوں کہہ سکے ہیں کہ: میں ایک سلفی ہوں ([25])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری جماعتو ں کی جانب انتساب کا حکم

نقشبندی فرقے کی جانب انتساب کا حکم
یہ صوفی طریقہ اپنی نسبت محمد بہاء الدین اویسی نقشبند کی طرف کرتا ہے۔ اس فرقے کی نسبت ان کے نام کی وجہ سے ہے اسی لیے یہ نقشبندی کے نام سے پہنچانے جاتے ہیں۔اور یہ بخاری کے ایک گاؤں میں سن 717ھ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی وفات سن 791ھ میں ہوئی۔
انہیں نقشبند کا لقب اس لیے ملا کیونکہ باکّثرت ذکر الہی سے لفظ "اللہ" ان کے دل پر نقش ہوگیا تھا۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ نقش ہوگیا تھا، اسی لیے انہیں نقشتند کہا جاتا ہے۔ ہندوستان میں احمد الفاروقی السرہندی المتوفی سن 1034ھ نے اس طریقے کا احیاء وپرچار کیا ([26])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دیوبندی فرقے کی جانب نسبت
دارالعلوم دیوبند کی تعریف ان کی اپنی زبانی:
’’دارالعلوم دین کے اعتبار سے مسلمان ہیں۔ فرقے کے اعتبار سے اہل سنت والجماعت ہیں۔ مذہب کے اعتبار سے حنفی ہیں۔ صوفی مشرب ہیں۔ فلسفہ وکلام میں ماتریدی واشعری ہیں۔ منہج میں چشتی ہیں۔ بلکہ ان تمام سلاسل (چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی) کا جامع ہیں۔ فکر میں ولی الہی (شاہ ولی کی جانب نسبت) ہیں۔ اصول میں قاسمی(قاسم ناناتوی کی جانب نسبت) ہیں۔ فروع میں رشیدی (رشید احمد گنگوہی کی جانب نسبت) ہیں۔ اور نسبت کے اعتبار سے دیوبندی ہیں) ([27])
شیخ سید طالب الرحمن شاہ ﷾ فرماتے ہیں:
’’ دیوبندی احناف کا ہی ایک گروہ ہےجو برصغیر پاک وہند اور یگر مقامات پر پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ مدرسۂ دیوبند کے مسلک پر چلتے ہیں اور ان کی دیوبندی نسبت بھی اسی مدرسے کی طرف ہے۔ اور یہ نسبت اپنے دوسرے بھائی بریلویوں سے امتیاز کے لیے ہے جو کہ انہی کی طرح حنفیوں کا ایک گروہ ہے جن کے بانی امام اہل بدعت احمد رضا خان بریلوی ہیں جو کہ ہندوستان کے صوبے اتراپردیش (یوپی) کےایک شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ سن 1272ھ میں پیدا ہوئے اور سن 1340ھ میں فوت ہوئے۔
دیوبند بھی اتراپردیش (یوپی) میں ایک شہر ہے۔ اسے شہرت اسلامی مدرسے دارالعلوم کی وجہ سے حاصل ہوئی جوکہ سن 1283ھ میں قائم ہوا اور بلاشبہ یہ یہی مدرسہ اس شہر کے لیے ایک قابل فخر وامتیاز بات ہے۔
اس مدرسے کے قیام کا اولین مقصد حنفی مذہب ومکتبۂ فکر کی تائید وپرچار ہے اور سنت نبویﷺ کی شان گھٹا کر اسے فقۂ حنفی کا پیروکار بنانا ہے۔ اور اس نکتے کے بارے میں ہم کسی قسم کا غلو نہیں کررہے بلکہ خود ان کے کئی اکابرین علماء اس کا اقرار کرتے ہیں ([28])
محمد یوسف بنوری (دیوبندیوں کے مشہور اکابرین میں سے ہیں) دیوبند کے مسلک ومذہب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اور دیوبندیوں کا طریقہ (منہج) جس پر کہ اس کے اکابرین علماء گامزن تھے وہ فقیہ امت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی امامت اورحدیث نبوی ﷺ کے بعد شریعت مطہرہ میں ان کے فقہ واجتہاد کا جو اعلیٰ مرتبہ ہے کو منوانا ہے۔
اور یہ بھی کہ علوم صوفیہ وعلوم تزکیہ قلوب جو کہ ان کے اصحاب سے منتقل ہوتا ہے سے شغف لازم ہے۔ لازم ہے کہ ان کا علوم شریعت کے ساتھ صحیح طور پر امتزاج کیا جائے۔
ایک طرف تو ہم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی جلالت شان کے معترف ہیں اور ہمہ وقت ہم شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی ([29])کے بھی کمالات کے معترف ہیں۔ پس ہمارے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید، اتباع احادیث نبویہ ﷺ اور علوم صوفیہ تینوں جمع ہوگئے ہیں۔ اور اس سہ شاخی امتزاج سے ایک عمدہ مذہب ترتیب پاتا ہے جسے دیوبندیت کہا جاتا ہے)([30])
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تبلیغی جماعت کی جانب انتساب کرنا
تبلیغی جماعت کا بانی:
شیخ عبداللہ بن مبارک القحطانی فرماتے ہیں:
’’ محمد الیاس کاندھلوی تبلیغی جماعت کے بانی مانے جاتے ہیں اور انہوں نے ہی ان کے بنیادی اصول وضع کیے ہیں۔ اور محمد الیاس صاحب نے اسے بدیع الزمان النورسی (1293ھ-1379ھ) سے ترکی میں حاصل کیا۔ پس اس فکر کی بنیاد ترکی سے آئی پھر اسے ہندوستان میں پروان چڑھایا گیا ‘‘ ([31])
 
Top