• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت کی پیروی اور بدعت سے نفرت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ(ح) وحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يُحَدِّثُنَا عَنِ النَّضْرِ، (ح) وحَدَّثَنَا هَنَّادُ ابْنُ السَّرِيِّ، عَنْ قَبِيصَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ، فَكَتَبَ: أَمَّا بَعْدُ، أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالاقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ، وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ ﷺ ، وَتَرْكِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ، وَكُفُوا مُؤْنَتَهُ، فَعَلَيْكَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ فَإِنَّهَا لَكَ -بِإِذْنِ اللَّهِ- عِصْمَةٌ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعِ النَّاسُ بِدْعَةً إِلا قَدْ مَضَى قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا؛ فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلافِهَا - وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ كَثِيرٍ < مَنْ قَدْ عَلِمَ >- مِنَ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ، فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لأَنْفُسِهِمْ؛ فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا، وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا، وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى؛ وَبِفَضْلِ مَا كَانُوا فِيهِ أَوْلَى، فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ، مَا أَحْدَثَهُ إِلا مَنِ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ، فَإِنَّهُمْ هُمُ السَّابِقُونَ، فَقَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَكْفِي، وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي، فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ، وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ، وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا، وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا، وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنِ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ فَعَلَى الْخَبِيرِ -بِإِذْنِ اللَّهِ- وَقَعْتَ، مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ، وَلا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا وَلاأَثْبَتُ أَمْرًا مِنَ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ، لَقَدْ كَانَ ذَكَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلاءُ، يَتَكَلَّمُونَ بِهِ فِي كَلامِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ، يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَى مَا فَاتَهُمْ، ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الإِسْلامُ بَعْدُ إِلا شِدَّةً، وَلَقَدْ ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ وَلا حَدِيثَيْنِ، وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ فَتَكَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ، يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ، وَتَضْعِيفًا لأَنْفُسِهِمْ، أَنْ يَكُونَ شَيْئٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ، وَلَمْ يُحْصِهِ كِتَابُهُ، وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ، وَإِنَّهُ مَعَ ذاَلِكَ لَفِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ: مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ، وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ: لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ كَذَا؟ لِمَ قَالَ كَذَا؟ لَقَدْ قَرَئُوا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ: كُلِّهِ بِكِتَابٍ وَقَدَرٍ، [وَكُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ]، وَمَا يُقْدَرْ يَكُنْ، وَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، وَلا نَمْلِكُ لأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلا نَفْعًا، ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِكَ وَرَهِبُوا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۵) (صحیح)
سنن ابو داؤد:4612

سفیان ثوری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خط لکھ کر عمر بن عبدالعزیز سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا :
'' اما بعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے ، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کر نے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لئے کافی ہو جانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں ، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے،اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لئے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔

پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو، اس لئے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے ، (اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم ﷺ ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے، کیا کیا غلطیاں ، لغزشیں، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں (ابن کثیر کی روایت میں ''من قد علم'' کا لفظ نہیں ہے) لہٰذا تم اپنے آپ کو اسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم (سلف) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے، اس لئے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے ، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق و برتر تھے انہوں نے جتنا کچھ بیان کر دیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی و کافی ہے، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہو گئے، اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرارکے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہو جانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں ۔
پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا، اور اس کو مسلمانوں نے آپ ﷺ سے سنا، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی، اس پر یقین کر کے ،اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آچکی ہو ، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا ، اسی سے اسے سیکھا ۔
اور اگر تم یہ کہو : اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی؟ اور ایسا کیوں کہا ( جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں)؟ تو ( جان لو) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل و تفسیر کا علم تھا جس سے تم نا واقف ہو، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو گا ، جو اللہ نے چاہا ، وہی ہوا، جو نہیں چاہا ، نہیں ہوا۔
اور ہم تو اپنے لئے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے پھر اس اعتقاد کے بعد بھی اگلے لوگ اچھے کام کرتے رہے اور برے کاموں سے ڈرتے رہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس جواب سے بدعت اور سنت کی راہ بالکل واضح ہوگئی اور یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ کسی بھی عمل سے پہلے قرآن و سنت کو دیکھنا چاہئے، اگر ان میں نہ ملے تو صحابہ کرام اور تابعین عظام کو دیکھنا چاہئے کہ ان کا عمل اس پر تھا یا نہیں، اگر ہم اس معیار کو اختیار کرلیں تو اللہ کے فضل سے سارے اختلافات دور ہوجائیں اور بے شمار بدعات ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائیں، لیکن ہم نے بعد کے لوگوں کی روش کو اپنا رکھا ہے اور بدعات کی گرم بازاری میں مگن ہیں۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
بہت خوب ۔ ماشاءاللہ ۔۔۔۔ میرے خیال میں ۔سنت کی پیروی اور بدعت سے نفرت ۔۔ عنوان زیادہ بہتر ہو گا ، کیونکہ پیروی کی ضد عدم پیروی یعنی نفرت ہے ۔۔ اور بدعتیں تو ایجاد ہوتی رہیں گی لیکن اسکے ساتھ مسلمان کا رویہ نفرت اور اجتناب کا ہوگا ۔جزاک اللہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
عنوان تبدیل کر دیا گیا ہے۔۔
جزاک اللہ خیرا!
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
نعیم صاحب ! آپکی بات ،آپکی تحریراور آپکی دعوت مجھے بھت پسند آتی ہے ۔ لگے رہئے اور توحید و اتباع نبی کی دعوت پیش کرتے رہئے ۔اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص عطا کرے اور ہم سب کے ان اعمال کو اپنی رضا کیلئے قبول فرما لے ۔آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069




القرآن|


◄ جو شخص سیدھا(ہدایت) کا رستہ معلوم ہونے کے بعد رسولﷺ کی مخالف کرے اور تمام مومنوں کے رستے چھوڑ کر اور رستے چلے، تو جدھر وہ چلتا ہے، ہم اسے ادھر ہی چلنےدیں گےاور قیامت کے دن دوزخ میں ڈال دیں گے، وه بہت ہی بری جگہ ہے۔

سورة النساء(115)
 
Top