• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَنْ كَرِهَ أَنْ يُوطَأَ عَقِبَاهُ
۲۱- باب: اس کا ذکرجس کو یہ ناپسند ہوکہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلیں​


244- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: مَا رُئِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَأْكُلُ مُتَّكِئًا قَطُّ، وَلا يَطَأُ عَقِبَيْهِ رَجُلانِ.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۱۷ (۳۷۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۵، ۱۶۷) (صحیح)
۲۴۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی بھی ٹیک لگا کرکھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۱؎ اور نہ کبھی آپ کے پیچھے پیچھے دو آدمی چلتے تھے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اتکاء (ٹیک لگانے) سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے، صحیح یہی ہے کہ ایک جانب جھک کر کھانا اتکاء ہے جیسے دائیں یا بائیں ہاتھ پر یا دیوار کے ساتھ ٹیک لگا نا وغیرہ، ٹیک لگا کر کھانا منع ہے ، گائو تکیہ لگا کر اس پر ٹیک دے کر کھانا ،یا ایک ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھانا، غرض ہر وہ صورت جس میں متکبر ین ومکثرین (تکبر کرنے والوں ،زیادہ کھانے والوں) کی مشابہت ہو منع ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : جیسے دینی تعلیم سے غافل عام امراء اور مالداروں کے بارے میں مشاہدہ ہے کہ ان میں تکبر پایا جاتا ہے۔


[ز] 244/أ- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: وَحَدَّثَنَا حَازِمُ بْنُ يحْيَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ السَّامِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ.
[ز] 244 /ب- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، صَاحِبُ الْقَفِيزِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ۔
245- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: مَرَّ النَّبِيِّ ﷺ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ نَحْوَ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، وَكَانَ النَّاسُ يَمْشُونَ خَلْفَهُ، فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ وَقَرَ ذَلِكَ فِي نَفْسِهِ، فَجَلَسَ حَتَّى قَدَّمَهُمْ أَمَامَهُ، لِئَلا يَقَعَ فِي نَفْسِهِ شَيْئٌ مِنَ الْكِبْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۱۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۶)
(ضعیف) (علی بن یزید الألہانی ضعیف ومنکرالحدیث ہیں، نیز القاسم بھی ضعیف ہیں ، اور اس سند پر کلام کے لئے ملاحظہ ہو حدیث نمبر: ۲۲۸)
۲۴۵- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سخت گرمی کے دن میں بقیع غرقد نامی مقبرہ سے گذرے،لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے، جب آپ ﷺ نے جوتوں کی چاپ سنی تو آپ کے دل میں خیال آیا، آپ بیٹھ گئے، یہاں تک کہ ان کو اپنے سے آگے کرلیا کہ کہیں آپ کے دل میں کچھ تکبر نہ آجائے ۔


246 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا مَشَى، مَشَى أَصْحَابُهُ أَمَامَهُ، وَتَرَكُوا ظَهْرَهُ لِلْمَلائِكَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹)، حم (۳/۳۰۲، ۳۳۲) (صحیح)
۲۴۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب چلتے تو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے آگے آگے چلتے اور آپ کی پیٹھ فرشتوں کے لئے چھوڑ دیتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
22- بَاب الْوَصَاةِ بِطَلَبَةِ الْعِلْمِ
۲۲- باب: طالبانِ علم کی وصیت​


247- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ رَاشِدٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدَةَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < سَيَأْتِيكُمْ أَقْوَامٌ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَقُولُوا لَهُمْ: مَرْحَبًا مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَاقْنُوهُمْ >.
قُلْتُ لِلْحَكَمِ: مَا اقْنُوهُمْ؟ قَالَ: عَلِّمُوهُمْ۔
* تخريج: ت/العلم ۴ (۲۶۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۲) (حسن)
(سند میں ابو ہارون العبدی ضعیف ومتروک راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے،ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۲۸۰)
۲۴۷- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ علم حاصل کرنے آئیں گے، لہٰذا جب تم ان کو دیکھو تو رسول اکرم ﷺ کی وصیت کے مطابق انہیں مرحبا (خوش آمدید) کہو، اور انہیں علم سکھاؤ''۔
محمد بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حکم سے پوچھا کہ ''اقْنُوهُمْ'' کے کیا معنی ٰ ہیں، تو انہوں نے کہا: ''عَلِّمُوهُمْ''، یعنی انہیں علم سکھلاؤ ۔


248- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ هِلالٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى الْحَسَنِ نَعُودُهُ حَتَّى مَلأْنَا الْبَيْتَ، فَقَبَضَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ نَعُودُهُ حَتَّى مَلأْنَا الْبَيْتَ، فَقَبَضَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى مَلأْنَا الْبَيْتَ، وَهُوَ مُضْطَجِعٌ لِجَنْبِهِ، فَلَمَّا رَآنَا قَبَضَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: <إِنَّهُ سَيَأْتِيكُمْ أَقْوَامٌ مِنْ بَعْدِي يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَرَحِّبُوا بِهِمْ، وَحَيُّوهُمْ وَعَلِّمُوهُمْ>.
قَالَ: فَأَدْرَكْنَا وَاللَّهِ أَقْوَامًا، مَا رَحَّبُوا بِنَا وَلا حَيَّوْنَا وَلا عَلَّمُونَا، إِلا بَعْدَ أَنْ كُنَّا نَذْهَبُ إِلَيْهِمْ فَيَجْفُونَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۵۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۴۱۴) (موضوع)
(اس سند میں المعلی بن ہلال کی کئی لوگوں نے تکذیب کی ہے، اور اس پر وضع حدیث کا الزام لگایا ہے،اور اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۳۳۴۹)
۲۴۸- اسماعیل (بن مسلم) کہتے ہیں کہ ہم حسن بصری کے پاس ان کی عیادت کے لئے گئے یہاں تک کہ ہم سے گھر بھر گیا، انہوں نے اپنے پاؤں سمیٹ لیے پھر کہا:ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی عیادت کے لئے گئے یہاں تک کہ ہم سے گھر بھر گیا، تو انہوں نے اپنے پاؤں سمیٹ لئے، اور کہا کہ ہم رسول اکرم ﷺ کے پاس گئے، یہاں تک کہ ہم سے گھر بھر گیا، آپ ﷺ پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے، جب آپ نے ہمیں دیکھا تو اپنے پاؤں سمیٹ لئے پھر فرمایا: ''عنقریب میرے بعد کچھ لوگ طلب علم کے لئے آئیں گے، تو تم انہیں مرحبا کہنا، مبارکباد پیش کرنا، اور انہیں علم دین سکھانا'' ۔
پھر حسن بصری کہتے ہیں: قسم اللہ کی (طلب علم میں) ہمارا بہت سے ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا کہ انہوں نے نہ تو ہمیں مرحبا کہا، نہ ہمیں مبارکباد دی، اور نہ ہی ہمیں علم دین سکھایا، اس پر مزید یہ کہ جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ ہمارے ساتھ بری طرح پیش آتے۔


249- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ قَالَ: كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ: مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لَنَا: < إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ، وَإِنَّهُمْ سَيَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الأَرْضِ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ، فَإِذَا جَائُوكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا >۔
* تخريج: ت/العلم ۴ (۲۶۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۲) (ضعیف)
(سند میں ابوہارون العبدی ضعیف راوی ہے)
۲۴۹- ہارون عبد ی کہتے ہیں کہ جب ہم ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تووہ فرماتے: رسول اکرم ﷺ کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہ اکرم ﷺ نے ہم سے فرمایا: ''لوگ تمہارے پیچھے ہیں، اور عنقریب وہ تمہارے پاس زمین کے مختلف گوشوں سے علم دین حاصل کرنے کے لئے آئیں گے، لہٰذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
23- بَاب الانْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ
۲۳- باب: علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان​


250- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَائِ النَّبِيِّ ﷺ < اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لا يَنْفَعُ، وَمِنْ دُعَائٍ لا يُسْمَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لا تَشْبَعُ >۔
* تخريج: ن/الاستعاذۃ ۱۷ (۵۴۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۴۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۳۶۷ (۱۵۴۸)، حم (۲/۱۲۶۱) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۸۳۷) (صحیح)
۲۵۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی دعاؤ ں میں یہ دعا بھی تھی : ''اے اللہ !میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے، اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے، اور اس دل سے جو (اللہ سے) نہ ڈرے، اور اس نفس سے جو آسودہ نہ ہوتا ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : علم دین کا نفع یہی ہے کہ آدمی اس پر عمل کرے ،اور خلق کو اس کی طرف بلائے۔


251- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ >۔
* تخريج: ت/الدعوات۱۲۹(۳۵۹۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۴۳۵۶)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۸۳۳) (صحیح) ("الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ"
کا جملہ ثابت نہیں ہے ، تراجع الألبانی: رقم: ۴۶۲)۔
۲۵۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے:''اے اللہ! میرے لئے اس چیز کو نفع بخش اور مفید بنادے جو تونے مجھے سکھایا ہے، مجھے وہ چیز سکھادے جو میرے لئے نفع بخش اورمفید ہو، اور میرا علم زیادہ کردے، اور ہر حال میں ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہیں''۔


252- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَسُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالا: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ أَبِي طُوَالَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، لايَتَعَلَّمُهُ إِلا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ > يَعْنِي رِيحَهَا.
* تخريج: د/العلم ۱۲ (۳۶۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۳۸) (صحیح)
۲۵۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جس شخص نے علم دین کو جس سے خالص اللہ تعالی کی رضامندی مقصود ہوتی ہے محض کسی دنیا وی فائدہ کے لئے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا'' ۔
[ز] 252/أ - قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: أَنْبَأَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ ۔
۲۵۲/أ- اس سند سے بھی فلیح بن سلیمان نے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے ۔


253- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا أَبُو كَرِبٍ الأَزْدِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَائَ، أَوْ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَائَ، أَوْ لِيَصْرِفَ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ، فَهُوَ فِي النَّارِ> ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱) (حسن)
(تراجع الألبانی رقم: ۳۸۹، سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند میں ''حماد بن عبد الرحمن'' اور ''ابوکرب ازدی'' دونوں مجہول راوی ہیں)
۲۵۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے علم سیکھا تاکہ بے وقوفوں سے بحث ومباحثہ کرے، یا علماء پرفخر کرے،یا لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے، تو وہ جہنم میں ہوگا'' ۔


254- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوا بِهِ الْعُلَمَائَ، وَلا لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَائَ، وَلا تَخَيَّرُوا بِهِ الْمَجَالِسَ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ، فَالنَّارُ النَّارُ>۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۷۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۲) (صحیح)
(تراجع الألبانی رقم: ۳۸۸، وصحیح الترغیب: ۱۰۲ ، شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
۲۵۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تم علم کو علماء پر فخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث وتکرار کے لئے نہ سیکھو، اور علم دین کومجالس میں اچھے مقام کے حصول کاذریعہ نہ بناؤ،جس نے ایسا کیا تو اس کے لئے جہنم ہے، جہنم'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جہنم کا مستحق ہے، یا وہ علم اس کے حق میں خود آگ ہے۔


255- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْكِنْدِيِّ، عنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِي سَيَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ، وَيَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ، وَيَقُولُونَ: نَأْتِي الأُمَرَائَ فَنُصِيبُ مِنْ دُنْيَاهُمْ وَنَعْتَزِلُهُمْ بِدِينِنَا، وَلا يَكُونُ ذَلِكَ، كَمَا لا يُجْتَنَى مِنَ الْقَتَادِ إِلا الشَّوْكُ، كَذَلِكَ لا يُجْتَنَى مِنْ قُرْبِهِمْ إِلا>.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ : كَأَنَّهُ يَعْنِي الْخَطَايَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴) (ضعیف)
(حدیث کی سند میں مذکور راوی ''عبید اللہ بن أبی بردہ'' مقبول راوی ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے سے لین الحدیث ہیں، یعنی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۱۲۵۰)
۲۵۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''بیشک میری امت کے کچھ لوگ دین کا علم حاصل کریں گے،قرآن پڑھیں گے، اور کہیں گے کہ ہم امراء وحکام کے پاس چلیں اوران کی دنیاسے کچھ حصہ حاصل کریں، پھر ہم اپنے دین کے ساتھ ان سے الگ ہوجائیں گے،(آپ ﷺنے فرمایا:) یہ بات ہونے والی نہیں ہے، جس طرح کانٹے دار درخت سے کانٹا ہی چنا جا سکتا ہے ،اسی طرح ان کی قربت سے صرف... چنا جا سکتا ہے ''۔
محمد بن صباح راوی نے کہا: گویا آپ نے (گناہ) مراد لیا ۔


256 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ سَيْفٍ، عَنْ أَبِي مُعَاذٍ الْبَصْرِيِّ (ح) وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ أَبِي مُعَاذٍ الْبَصْرِيِّ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الْحُزْنِ>، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا جُبُّ الْحُزْنِ؟ قَالَ: <وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ أَرْبَعَ مِائَةِ مَرَّةٍ >، قَالَوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ يَدْخُلُهُ ؟ قَالَ: <أُعِدَّ لِلْقُرَّائِ الْمُرَائِينَ بِأَعْمَالِهِمْ، وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّائِ إِلَى اللَّهِ الَّذِينَ يَزُورُونَ الأُمَرَائَ>.
قَالَ الْمُحَارِبِيُّ: الْجَوَرَةَ ۔
* تخريج: تفرد ابن ماجہ بہذا السیاق (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۳)، وقد أخرجہ: ت/الزھد ۴۸ (۳۲۸۳)، دون قوله: ''وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّائِ إِلَى...''، وقال: ''مئة مرة''، بدل: ''أربع مئة''، والباقي نحوه، وقال: غريب (ضعیف)
(حدیث کی سند میں مذکور راوی ''عمار بن سیف'' ''وابومعاذ البصری'' دونوں ضعیف را وی ہیں، ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے، جس کا مطلب ان کے یہاں حدیث کی تضعیف ہے)
۲۵۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جُبُّ الْحُزْنِ'' سے اللہ کی پناہ مانگو''، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ''جُبُّ الْحُزْنِ'' کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسے ان قراء کے لئے تیار کیا گیا ہے جو اپنے اعمال میں ریاکاری کرتے ہیں، اور اللہ تعالی کے نزدیک بدترین قاری وہ ہیں جو مالداروں کا چکر کاٹتے ہیں''۔
محاربی کہتے ہیں: امراء سے مراد ظالم حکمراں ہیں ۔
[ز] 256 /أ- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا حَازِمُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ النَّصْرِيِّ -وَكَانَ ثِقَةً-، ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ نَحْوَهُ بِإِسْنَادِهِ.
۲۵۶/أ - اس سند سے بھی معاویہ نصری نے جوثقہ ہیں مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔


[ز] 256/ب - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ سَيْفٍ، عَنْ أَبِي مُعَاذٍ.
[ز] 256 /ج- قَالَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: قَالَ عَمَّارٌ: لا أَدْرِي مُحَمَّدٌ أَوْ أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ۔
۲۵۶ / ج- عمارکہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ ابو معاذ کے شیخ محمد ہیں یا انس بن سیرین۔
(مصباح الزجاجۃ، تحت رقم: ۱۰۳ ) د/عوض شہری کے نسخہ میں یہ عبارت نہیں ہے جب کہ مصری نسخہ میں یہ یہاں، اور بعد میں نمبر (۲۵) کے بعد ہے، یہاں پر اس نص کا وجود غلط معلوم ہوتا ہے، اس کا مقام نمبر (۲۵۷) کے بعد ہی صحیح ہے)


257- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ النَّصْرِيِّ، عَنْ نَهْشَلٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوهُ عِنْدَأَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ، وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ، فَهَانُوا عَلَيْهِمْ، سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا، هَمَّ آخِرَتِهِ، كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ، وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا، لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵) (ضعیف)
(اس سند میں نہشل متروک ہے راوی ، مناکیر روایت کرتا ہے، اس لئے حدیث کا پہلا ٹکڑا ضعیف ہے، لیکن حدیث کا دوسرا ٹکڑا: ''مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ ... '' شواہد کی وجہ سے حسن ہے، جو اسی سند سے مؤلف کے یہاں کتاب الزہد (۴۱۰۶) میں آرہا ہے، نیز ملاحظہ ہو: كتاب الزهد لوكيع بن الجراح، تحقیق دکتور عبد الرحمن الفریوائی )
۲۵۷- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر اہل علم علم کی حفاظت کرتے، اور اس کو اس کے اہل ہی کے پاس رکھتے تو وہ اپنے زمانہ والوں کے سردار ہو تے، لیکن ان لوگوں نے دنیا طلبی کے لیے اہل دنیا پر علم کونچھاور کیا، تو ان کی نگا ہوں میں ذلیل ہو گئے، میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: '' جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنالیا، تو اللہ تعالی اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہوگا، اور جس کی تمام ترسوچیں دنیا وی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالی کو کچھ پر واہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوجائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اس حالت میں اللہ تعالی اس سے اپنی مدد اٹھالے گا۔


[ز] 257 / أ- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا حَازِمُ بْنُ يَحْي، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِىْ شَيْبَةَ، ومُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ ابْنِ نُمَيْر قَالا: ثنا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ النَّصْرِىِّ -وَكَانَ ثِقَةً-، ثُمَ ذَكَرَ الْحَدِيْثَ نَحْوَهُ بِإِسْنَادِهِ.
* تخريج: (مصباح الزجاجۃ: ۱۰۵، ط، مصریہ، وط/ الجامعۃ الإسلامیۃ)
۲۵۷- ابن نمیر نے معاویہ نصری ثقہ سے اس اسناد سے اسی طرح حدیث روایت کی۔


258- حدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، وَأَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْهُنَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ الْهُنَائِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دُرَيْكٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِغَيْرِ اللَّهِ، أَوْ أَرَادَ بِهِ غَيْرَ اللَّهِ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ >۔
* تخريج: ت/العلم ۶ (۲۶۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۲) (ضعیف)
(خالد بن دریک کا سماع ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نہیں ہے، اس لئے یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے)
۲۵۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے غیر اللہ کے لئے علم طلب کیا، یا اللہ کے علاوہ کی (رضامندی) چاہی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بنالے'' ۔


259- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَاصِمٍ الْعَبَّادَانِيُّ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ مَيْمُونٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَشْعَثَ بْنَ سَوَّارٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <لاتَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوا بِهِ الْعُلَمَائَ، أَوْ لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَائَ، أَوْ لِتَصْرِفُوا وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْكُمْ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ، فَهُوَ فِي النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶) (حسن)
(سند میں''بشیر بن میمون '' متروک ومتہم اور ''اشعث بن سوار'' دونوں ضعیف ہیں، اس لئے یہ سند سخت ضعیف ہے، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: تخريج اقتضاء العلم،للخطیب البغدادی : ۱۰۰- ۱۰۲ ، وصحيح الترغيب: ۱۰۶-۱۱۰ )
۲۵۹- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:''تم علم کو علماء پرفخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث وتکرار کرنے یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے نہ سیکھو، جس نے ایسا کیا اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا''۔


260- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَائَ، وَيُجَارِيَ بِهِ السُّفَهَائَ، وَيَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ جَهَنَّمَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۳۸) (حسن)
(سند میں''عبد اللہ بن سعید المقبری'' ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کے بناء پر حدیث صحیح ہے، کما تقدم)
۲۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے علم کو علماء پرفخر کرنے، اور بیوقوفوں سے بحث وتکرار کرنے، اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے سیکھا، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ
۲۴- باب: علم چھپانے پر وارد وعید کا بیان​


261- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا عِمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا عَطاَئٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَا مِنْ رَجُلٍ يَحْفَظُ عِلْمًا فَيَكْتُمُهُ، إِلا أُتِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلْجَمًا بِلِجَامٍ مِنَ النَّارِ >.
* تخريج: د/ العلم ۹ (۳۶۵۸)، ت/ العلم ۳ (۲۶۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۲۶۳، ۳۰۵، ۳۴۴، ۳۵۳، ۴۹۵، ۴۹۹، ۵۰۸) (حسن صحیح)
۲۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص بھی علم دین یاد رکھتے ہوئے اسے چھپائے، تو اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنا کر لایا جائے گا'' ۔
[ز ] 261/أ- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ -أَيِ الْقَطَّانُ-: وَحَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ،حَدَّثَنَا عِمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ ۔
۲۶۱/أ - اس سند سے بھی عمارہ بن زاذان نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے ۔
[ز] 261/ب- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ أيضًا: وَحَدَّثَنَا إبراهيم بن نصر، قال: حدَّثَنا أبو نُعيم، قال: حدَّثنا عمارةُ بن زَاذَانَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ ۔
(یہ سند شیخ مشہور بن حسن سلمان کے نسخے میں نہیں ہے، بلکہ یہ شیخ علی حسن عبدالحمیداثری کے نسخے میں صفحہ نمبر (۱۴۷) پر موجود ہے)


262- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الأَعْرَجِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: اللَّهِ ! لَوْلا آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مَا حَدَّثْتُ عَنْهُ -يَعْنِي عَنِ النَّبِيِّ ﷺ - شَيْئًا أَبَدًا، لَوْلا قَوْلُ اللَّهِ: {إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ} إِلَى آخِرِ الآيَتَيْنِ.
* تخريج: خ/العلم ۴۲ (۱۱۸)، المزارعۃ ۲۱ (۲۳۵۰)، الاعتصام ۲۲ (۷۳۵۴)، م/الفضائل ۳۵ (۲۴۹۲)، ن/الکبری (۵۸۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴۰، ۲۷۴) (صحیح)
۲۶۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''اللہ کی قسم! اگر قرآن کریم کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں نبی اکرم ﷺ سے کبھی بھی کوئی نہ حدیث بیان کرتا،اور دو آیتیں یہ ہیں: {إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ...} إلى آخر الآيتين [سورة البقرة: 174-175]: (بیشک جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلہ میں معمولی قیمت لیتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ نہ تو ان سے بات کرے گا اور نہ ہی ان کو معاف کرے گا، اور ان کو سخت عذاب پہنچے گا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے خرید لیا اور عذاب کو مغفرت کے بدلے، پس وہ کیا ہی صبرکرنے والے ہیں جہنم پر) ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : آیت کا سیاق یہ ہے : {إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (174) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (175)} [سورة البقرة: 174-175]، یہ آیات اگرچہ یہود کے متعلق ہیں، جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی توراۃ میں موجود صفات چھپالیں،مگر قرآن کے عمومی سیاق کا حکم شریعت کے احکام کو چھپانے والوں کو شامل ہے، علماء کے یہاں مشہور قاعدہ ہے: العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب، یعنی: (اصل اعتبار الفاظ کے عموم سے استدلال کا ہے، سبب نزول سے وہ خاص نہیں ہے)۔


263- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ السَّرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا لَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا، فَمَنْ كَتَمَ حَدِيثًا فَقَدْ كَتَمَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۵۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸) (ضعیف جدًا)
(سند میں '' حسین بن أبی السر ی '' سخت ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن السری صدق وزہد سے متصف ہو تے ہوئے عجائب ومناکیر روایت کرنے میں منفرد ہیں،نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۱۵۰۷)
۲۶۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب اس امت کے خلف (بعد والے) اپنے سلف (پہلے والوں) کو برا بھلا کہنے لگیں، تو جس شخص نے اس وقت ایک حدیث بھی چھپائی اس نے اللہ کا نازل کردہ فرمان چھپایا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ "إِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاْ أَنْزَلَ اللهُ" کی آ یت جو اوپر گذری ہے اس کا مستحق ٹھہرا۔


264- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنِي عُمَرَ بْنُ سُلَيْمٍ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ؛ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ : يَقُولُ: < مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ، أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۹) (صحیح)
(اس کی سند میں یوسف بن ابراہیم ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ: ۲۲۳، ۲۲۴)
۲۶۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''جس شخص سے دین کے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگا م پہنائی جائے گی''۔


265- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ حِبَّانَ بْنِ وَاقِدٍ الثَّقَفِيُّ، أَبُو إِسْحَاقَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ ابْنُ عاصِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَابٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَتَمَ عِلْمًا مِمَّا يَنْفَعُ اللَّهُ بِهِ فِي أَمْرِ النَّاسِ، أَمْرِ الدِّينِ؛ أَلْجَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنَ النَّارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۲۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۰) (ضعیف جدًا)
(سندمیں محمد بن داب سخت ضعیف ہیں، اور أبوزرعہ وغیرہ نے تکذیب کی ہے، اور وضع حدیث سے منسوب کیا ہے)
۲۶۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے کوئی ایسا علم چھپایا جس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دینی امور میں نفع دیتا ہے، تو اللہ اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائے گا'' ۔


266- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَفْصِ بْنِ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِبْرَاهِيمَ، إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْكَرَابِيسِيُّ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۷۷) (صحیح)
۲۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص سے دین کاکوئی مسئلہ پوچھا گیا، اور جاننے کے باوجود اس نے اس کو چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی''۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 1- كِتَاب الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا }
۱-کتاب: طہارت اور اس کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَائَ فِي مِقْدَارِ الْمَائِ لِلْوُضُوئِ وَالْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ
۱- باب: وضو اور غسل جنابت کے پانی کی مقدار کابیان​


267- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ، عَنْ سَفِينَةَ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ۔
* تخريج: م/الحیض ۱۰ (۳۲۶)، ت/الطہارۃ ۴۲ (۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۷۹)، وقد أخرجہ: د/الطہارۃ ۴۴ (۹۲)، حم (۵/۲۲۲)، دي/الطہارۃ ۲۲ (۶۹۴) (صحیح)
۲۶۷- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے، اور ایک صاع پانی سے غسل ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''صاع'': ایک معروف شرعی پیمانہ ہے، یہاں مراد صاع نبوی یا صاع مدنی ہے، جس کا وزن موجودہ مستعمل اوزان سے تقریباً ڈھائی کلو گرام ہوتا ہے، اور ''مد'' : جو صاع نبوی کا چوتھاحصہ ہوتا ہے، جس کا وزن موجودہ مستعمل وزن سے تقریباً چھ سو پچیس (۶۲۵) گرام کے قریب ہوتا ہے۔


268- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ۔
* تخريج: د/الطہا رۃ ۴۴ (۹۲)، ن/الطہارۃ ۱۳ (۳۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۲۱، ۲۱۸، ۲۳۴، ۲۳۸، ۲۴۹) (صحیح)
۲۶۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے، اور ایک صاع پانی سے غسل ۔


269- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۰۷)، وقد أخرجہ: خ/الغسل ۳ (۲۵۱)، د/الطہارۃ ۴۴ (۹۳)، ن/الطہارۃ ۱۴۴ (۲۳۱)، حم (۳/۲۷۰) (صحیح)
۲۶۹- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مد پانی سے وضو، اور ایک صاع پانی سے غسل کیا کرتے ۔


270- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ بْنِ الصَّبَّاحِ، وَعَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالا: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ يَحْيَى بْنِ زَبَّانَ، حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يُجْزِئُ مِنَ الْوُضُوئِ مُدٌّ، وَمِنَ الْغُسْلِ صَاعٌ >، فَقَالَ رَجُلٌ: لا يُجْزِئُنَا، فَقَالَ: قَدْ كَانَ يُجْزِئُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، وَأَكْثَرُ شَعَرًا، يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۵، ومصباح الزجاجۃ : ۱۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۷۰) (صحیح)
(حبان بن علی اور یزید بن أبی زیاد دونوں ضعیف ہیں، اس لئے یہ سند ضعیف ہے، لیکن مدو صاع سے متعلق ٹکڑا انس رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث سے ثابت ہے، اور تابعی کی اس مسئلے میں صحابی سے گفتگو جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے، اس لئے ان شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۱۹۹۱ - ۲۴۴۷)
۲۷۰- عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: '' وضو میں ایک مُد اور غسل میں ایک صاع پانی کافی ہے''، اس پر ایک شخص نے کہا : ہمیں اتنا پانی کافی نہیں ہوتا، تو انہوں نے کہا: تم سے بہتر ذات کو، اور تم سے زیادہ بالوں والے (یعنی نبی اکرمﷺ) کو کافی ہوجاتا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے گویا یہ بتلایا کہ ایک مد اور ایک صاع پانی کا کافی نہ ہونا دو ہی وجہ سے ہوسکتا ہے، ایک تو احتیاط اور تقوی، دوسرے بالوں کی کثرت، تو اللہ تعالی کے رسول تم سے زیادہ متقی اور محتاط تھے، اور آپ ﷺ کے بال بھی تم سے زیادہ تھے، جب آپ کو اتنا پانی کافی تھا تو تم کو کافی کیوں نہیں، سوائے اس کے کہ تم شکی مزاج ہو یا وسوسہ کا شکار، کوئی اور وجہ تو ہے نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةً بِغَيْرِ طهُورٍ
۲- باب: اللہ تعالیٰ بغیر وضو کی صلاۃ کو قبول نہیں کرتا​


271- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ (ح) وَحَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، أَبُو بِشْرٍ، خَتَنُ الْمُقْرِئِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةً إِلا بِطُهُورٍ، وَلا يَقْبَلُ صَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ >.
* تخريج: د/الطہا رۃ ۳۱ (۵۹)، ن/الطہارۃ ۱۰۴(۱۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷۴، ۷۵)، دي/الطہارۃ ۲۱ (۷۱۳) (صحیح)
۲۷۱- اسامہ بن عمیر ہُذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کوئی بھی صلاۃ بغیر وضو کے قبول نہیں فرماتا، اور نہ چوری کے مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے '' ۔
271/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَشَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ شُعْبَةَ، نَحْوَهُ.
۲۷۱ - شعبہ سے دوسرے راویوں نے بھی اسی طرح روایت کی ہے ۔


272- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ مُصْعَبِ ابْنِ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةً إِلا بِطُهُورٍ، وَلاصَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ >.
* تخريج: م/الطہارۃ ۲ (۲۲۴)، ت/الطہارۃ ۱ (۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۲۰، ۳۹، ۵۱، ۵۷، ۷۳) (صحیح)
۲۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' اللہ تعالی کوئی بھی صلاۃ بغیر پاکی (وضو) کے اور کوئی بھی صدقہ چوری کے مال سے قبول نہیں کرتا '' ۔


273 - حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زُهَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <لايَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلا صَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۲) (صحیح)
(اس سند میں سنان بن سعد ضعیف اور مجہول راوی ہیں، صرف یزید بن أبی حبیب نے ان سے روایت کی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، کما تقدم، نیزمحمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن لیث بن سعد نے ان کی متابعت کی ہے)
۲۷۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: '' اللہ تعالی کوئی صلاۃ بغیر پاکی (وضو) کے اور کوئی صدقہ چوری کے مال سے قبول نہیں فرماتا'' ۔


274- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا الْخَلِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلا صَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/ ۴۶) (صحیح)
(اس سند میں خلیل بن زکریا ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے کماتقدم)
۲۷۴- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالی کوئی صلاۃ بغیر پاکی (وضو) کے اور کوئی صدقہ چوری کے مال سے قبول نہیں فرماتا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''غلول'' : مال غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں، یہاں مطلق حرام مال مراد ہے، یعنی حرام مال سے دیا ہوا صدقہ اللہ کی رضامندی کا باعث نہیں ہوتا، اور نہ اس پر ثواب ملتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مِفْتَاحُ الصَّلاةِ الطهورُ
۳- باب: صلاۃ کی کنجی وضو(طہارت)ہے​


275- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ عَقِيلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مِفْتَاحُ الصَّلاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ >۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۱ (۶۱)، ت/الطہارۃ ۳ (۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۲۳)، دي/الطہارۃ ۲۱ (۷۱۳) (حسن صحیح)
(ملاحظہ ہو: الإرواء : ۳۰۱)
۲۷۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' صلاۃ کی کنجی طہارت (وضو) ہے، اور (دوران صلاۃ ممنوع چیزوں کو) حرام کردینے والی چیز تکبیر (تحریمہ) ہے، اور (صلاۃ سے باہر) امور کو حلال کر دینے والی چیز سلام ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تکبیر اولی کہنے کے بعد وہ سارے افعال حرام ہو جاتے ہیں، جسے اللہ تعالی نے صلاۃ میں حرام قرار دیا ہے، او ر سلام پھیرنے کے بعد وہ سارے افعال حلال ہو جاتے ہیں، جنہیں صلاۃ کے باہر اللہ تعالی نے حلال قرار دیا ہے ۔


276- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ طَرِيفٍ السَّعْدِيِّ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ السَّعْدِيِّ؛ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مِفْتَاحُ الصَّلاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ >۔
* تخريج: ت/الصلا ۃ ۶۲ (۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۵۷) (صحیح)
(یہ سند ابو سفیان طریف سعدی کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث کی بناء پر یہ صحیح ہے)
۲۷۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' صلاۃ کی کنجی پاکی (وضو) ہے، اور اس کی منافی چیزیں پہلی تکبیر تحریمہ سے حرام ہو جاتی ہیں، اور اس (یعنی صلاۃ) سے باہر امور کو حلال کردینے والی چیز سلام پھیرنا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''تحریم'': صلاۃ کی حرمت میں دخول اور ''تحلیل'': صلاۃ کی حرمت سے خروج کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے، یعنی صلاۃ میں داخلہ تکبیر ہی سے اور صلاۃ سے خروج تسلیم ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلاۃ کا دروازہ بند ہوتا ہے بندہ اسے طہارت ہی سے کھول سکتا ہے، یعنی بغیر وضو اور طہارت کے صلاۃ نہیں پڑھ سکتا، اسی طرح صلاۃ میں آدمی اللہ اکبر ہی کہہ کر داخل ہوسکتا ہے، اور السلام علیکم ہی کہہ کر اس سے باہر نکل سکتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب الْمُحَافَظَةِ عَلَى الْوُضُوئِ
۴- باب: پابندی سے وضو کرنے کابیان​


277- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ ابْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلاةُ وَلا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوئِ إِلا مُؤْمِنٌ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۷۷، ۲۸۲)، دي/الطہارۃ ۲ (۶۸۱) (صحیح)
(سند میں سالم بن ابی الجعد اور ثوبان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دارمی اور ابن حبان میں سند متصل ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۴۱۲)
۲۷۷- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''راہ استقامت پرقائم رہو ۱؎ ، تم ساری نیکیوں کا احاطہ نہیں کرسکوگے، اور تم جان لو کہ تمہارا بہتر ین عمل صلاۃ ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن کرتا ہے '' ۔
وضاحت ۱؎ : راہ استقامت پر قائم رہوکا مطلب ہے کہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اسلام کے اوامرونواہی پر جمے رہو، استقامت کمال ایمان کی علامت ہے، اس لئے اس مرتبہ پر بہت ہی کم لوگ پہنچ پاتے ہیںکیونکہ یہ مشکل امر ہے ۔


278- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِد، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَعْمَالِكُمُ الصَّلاةَ، وَلا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوئِ إِلا مُؤْمِنٌ"۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ما جہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۲۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۵) (صحیح)
(سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲/۱۳۷)
۲۷۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: '' راہ استقامت پرقائم رہو، تم ساری نیکیوں کا احاطہ نہیں کرسکتے، اور جان لو کہ تمہارا سب سے افضل عمل صلاۃ ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن ہی کرتا ہے''۔


279- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ أَسِيدٍ، عَنْ أَبِي حَفْصٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ -يَرْفَعُ الْحَدِيثَ- قَالَ: "اسْتَقِيمُوا، وَنِعِمَّا إِنِ اسْتَقَمْتُمْ، وَخَيْرُ أَعْمَالِكُمُ الصَّلاةُ، وَلا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوئِ إِلا مُؤْمِنٌ"۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۶) (صحیح)
(سند میں ابو حفص دمشقی مجہول ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۲/۱۳۷)
۲۷۹- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکر مﷺ نے فرمایا: '' تم استقامت پر قائم رہو، اور کیا ہی بہتر ہے، اگر تم اس پر قائم رہ سکو، اور تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل صلاۃ ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن ہی کرتا ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب الْوُضُوئشَطْرُ الإِيمَانِ
۵- باب: وضو آدھا ایمان ہے​


280- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلامٍ، عَنْ أَخِيهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلامٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِسْبَاغُ الْوُضُوئِ شَطْرُ الإِيمَانِ، وَالْحَمْدُلِلَّهِ مِلْئُ الْمِيزَانِ، وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ مِلْئُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ، وَالصَّلاةُ نُورٌ، وَالزَّكَاةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَائٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو، فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا، أَوْ مُوبِقُهَا >۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۱(۲۴۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۳)، وقد أخرجہ: م/الطہارۃ ۱ (۲۲۳)، ت/الدعوات ۸۶ (۳۵۱۷)، حم (۵/۳۴۲، ۳۴۳)، دي/الطہارۃ ۲ (۶۷۹) (صحیح)
۲۸۰- ابو مالک ا شعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: '' مکمل وضو کرنا نصف ایمان ہے ۱؎ ، اور ''الْحَمْدُللهِ'' میزان کو (ثواب سے) بھر دیتا ہے، اور سبحان اللہ، اللہ اکبر آسمان و زمین کو (ثواب سے) بھر دیتے ہیں، صلاۃ نور ہے، اور زکاۃ برہان (دلیل وحجت) ہے، اور صبر(دل کی) روشنی ہے، اور قرآن دلیل وحجت ہے، ہر شخص صبح کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کو بیچنے والا ہوتا ہے، پھر وہ یا تو اسے (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کردیتاہے '' ۔
وضاحت ۱؎ : وضو نصف (آدھا) ایمان ہے کیونکہ اس سے ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے، اور یہ طہارت صلاۃ کے لئے شرط ہے اس لئے اسے آدھے ایمان یا آدھی صلاۃ سے تعبیر کیا گیا اور باطنی طہارت ایمان واقرار تو حید سے حاصل ہوتی ہے، زکاۃ کی ادائیگی سے ایمان کی سچائی کا پتہ چلتا ہے، صبر باعث نور وضیاء ہے، اور ممکن ہے صبر سے مراد یہاں صوم ہو، کیونکہ شہوات کے توڑنے میں اس کی تاثیر قوی ہے، اور یہ دل کی نورانیت کا باعث ہوتا ہے، قرآن پر عمل کرنے سے نجات، اور اس کو چھوڑ دینے سے ہلاکت کا قوی اندیشہ ہے، ہر شخص اپنے کردار وعمل سے اپنے نفس کواللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا کر اس کو عذاب سے آزاد کرانے والا ہے، یا شیطان کی فرمانبرداری سے اس کے عذاب میں گرفتار کرنے والا ہے، اس حدیث سے حمد باری تعالی اور تسبیح وتحمید کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ اس کے اجر وثواب سے اعمال کی میزان بھاری ہوجائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب ثَوَابِ الطُّهُورِ
۶- باب: وضو (طہارت) کا ثواب​


281- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوئَ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ لا يَنْهَزُهُ إِلا الصَّلاةُ، لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلا رَفَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً، حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۵۲(ألف)، وقد أخرجہ: خ/ الصلاۃ ۸۷ (۴۷۷)، د/الصلاۃ ۵۲ (۵۶۴)، حم (۲/۲۵۲، ۴۷۵)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۷۷۴) (صحیح)
۲۸۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے جب کوئی وضو کرتا ہے، اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد آتا ہے، اور اس کے گھر سے نکلنے کا سبب صرف صلاۃ ہی ہوتی ہے، تو اس کے ہر قدم کے بدلے اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند کرتا اور ایک گناہ مٹاتا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجائے '' ۔


282- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ؛ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ تَوَضَّأَ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ فِيهِ وَأَنْفِهِ، فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ وَجْهِهِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَشْفَارِ عَيْنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ يَدَيْهِ، فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ رَأْسِهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أُذُنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ رِجْلَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ رِجْلَيْهِ، وَكَانَتْ صَلاتُهُ، وَمَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ نَافِلَةً >۔
* تخريج: ن/الطہارۃ ۸۵ (۱۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۷۷)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۶ (۳۰)، حم (۴/۳۴۸، ۳۴۹) (صحیح)
۲۸۲- عبداللہ صنابحی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے وضو کیا، کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تو اس کے گناہ ناک اور منہ سے نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنا منہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں پاؤں سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، اور اس کی صلاۃ اور مسجد کی جانب اس کا جانا ثواب مزید کا باعث ہوتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد صغائر (گناہ صغیرہ) ہیں کیونکہ کبائر (گناہ کبیرہ) بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اسی طرح حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے متعلق گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک ان کے حقوق کی ادائیگی نہ کردی جائے، یا ان سے معاف نہ کرالیا جائے، نیز اس حدیث سے گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانے کی فضیلت ظاہر ہو تی ہے۔


283- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، مُحَمَّدُ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا تَوَضَّأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ يَدَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ وَجْهِهِ، فَإِذَا غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ ذِرَاعَيْهِ وَرَأْسِهِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ رِجْلَيْهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۶۳)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۵۲ (۸۳۲)، ن/الطہارۃ ۱۰۸ (۱۴۷)، حم (۴/۱۱۲، ۱۱۳، ۱۱۴) (صحیح)
۲۸۳- عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب بندہ وضو کرتا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے ہاتھوں سے جھڑ جاتے ہیں، جب وہ اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے چہرے سے جھڑ جاتے ہیں، اور جب اپنی باہیں دھوتا ہے اور سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ باہوں اور سر سے جھڑ جاتے ہیں، اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے پاؤں سے جھڑ جاتے ہیں '' ۔


284- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ تَرَ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: < غُرٌّ مُحَجَّلُونَ، بُلْقٌ مِنْ آثَارِ الْوُضُوئِ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۰۳، ۴۵۱، ۴۵۳) (حسن صحیح)
۲۸۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو قیامت کے دن کیسے پہچانیں گے جن کو آپ نے دیکھا نہیں ہے؟ آپﷺنے فرمایا: ''وضو کے اثر کی وجہ سے ان کی پیشانی، ہاتھ اور پاؤں سفید اورروشن ہوں گے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات کی صریح علامت ہے کہ صحابہ کرام رسول اکرمﷺ کو ہروقت، ہرجگہ حاضر وناظر نہیں سمجھتے تھے، اور خود رسول اللہ کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا، ورنہ صحابہ یہ سوال کیوں کرتے اور آپ جواب یہ کیوں دیتے ؟
[ز ] 284/ أ- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ: حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ۔
۲۸۴/أ- اس سند سے بھی ایسی ہی حدیث مروی ہے۔


285- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي حُمْرَانُ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ؛ قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَاعِدًا فِي الْمَقَاعِدِ، فَدَعَا بِوَضُوئٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي مَقْعَدِي هَذَا تَوَضَّأَ مِثْلَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ: <مَنْ تَوَضَّأَ مِثْلَ وُضُوئِي هَذَا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ>، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <وَلاتَغْتَرُّوا>.
* تخريج: ن/الطہارۃ ۶۸(۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۹۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۸)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۲۴ (۱۵۹)، ۲۸ (۱۶۴)، الصوم ۲۷ (۱۹۳۴)، م/الطہارۃ ۳ (۲۲۶)، د/الطہارۃ ۵۰ (۱۰۶) ط/الطہارۃ ۶ (۲۹)، حم (۱/۶۶)، دي/الطہارۃ ۲۷ (۷۲۰)، (اور ان میں ''وَلا تَغْتَرُّوا'' کا لفظ نہیں ہے) (صحیح)
۲۸۵- عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حمران کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مسجد کے قریب چبوترے پہ بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے وضو کا پانی منگایا، اور وضو کیا، پھر کہنے لگے میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اسی بیٹھنے کی جگہ پر دیکھا کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا جس طرح میں نے کیا، پھر آپﷺ نے فرمایا: '' جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے''، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم اس بشارت سے دھوکے میں نہ آجانا (کہ نیک اعمال چھوڑدو)''۔
285/أ- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي حُمْرَانُ، عَنْ عُثْمَانَ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ۔
۲۸۵/أ- اس سند سے بھی ایسا ہی مروی ہے ۔
 
Top