• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
41- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُسْبَقَ الإِمَامُ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
۴۱ -باب: امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں جانامنع ہے​


960- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعَلِّمُنَا أَنْ لا نُبَادِرَ الإِمَامَ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۴۷) (صحیح)
۹۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمیں سکھاتے کہ ہم رکوع اور سجدے میں امام سے پہل نہ کریں اور (فرماتے) جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مطلب یہ ہے کہ مقتدی کو ہر ایک رکن امام کے بعد کرنا چاہئے، امام کے ساتھ ساتھ یا امام سے پہلے یا امام کے بعد زیادہ دیر سے کرنا درست نہیں ہے۔


961- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَلا يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ؟ >ـ۔
* تخريج : م/الصلاۃ ۲۵ (۴۲۷)، د/الصلاۃ ۷۶ (۶۲۳)، ت/الصلاۃ ۲۹۲ (۵۸۲)، ن/الإمامۃ ۳۸ (۸۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۶۲)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۵۳ (۶۹۱)، حم (۲/۲۶۰، ۲۷۱، ۴۲۵، ۴۵۶، ۴۶۹، ۴۷۲، ۵۰۴)، دي/الصلاۃ ۷۲ (۱۳۵۵) (صحیح)
۹۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے، کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالی اس کے سر کو گدھے کے سر سے بدل دے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی گدھے کی طرح اس کو بے وقوف بنادے، اور آخرت میں وہ گدھے کی طرح اٹھے، بعضوں نے کہا کہ دنیا میں بھی گدھے کی طرح مسخ ہوسکتا ہے، اس لئے کہ یہ مسخ خاص ہے اور اس امت میں وہ ہوسکتا ہے، البتہ مسخ عام نہیں ہوگا ۔


962- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ خَيْثَمَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ دَارِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنِّي قَدْ بَدَّنْتُ، فَإِذَا رَكَعْتُ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعْتُ فَارْفَعُوا، وَإِذَا سَجَدْتُ فَاسْجُدُوا، وَلا أُلْفِيَنَّ رَجُلا يَسْبِقُنِي إِلَى الرُّكُوعِ، وَلا إِلَى السُّجُودِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۹۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۴۵) (صحیح)
(دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں دارم مجہول ہیں، ملاحظہ : الصحیحۃ : ۱۷۲۵)
۹۶۲- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میرا بدن بھاری ہوگیا ہے، لہٰذا جب میں رکوع میں جاؤں تب تم رکوع میں جاؤ، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھا لوں تو تم اپنا سر اٹھاؤ، اور جب سجدہ میں چلا جاؤ ں تو تم سجدہ میں جاؤ، میں کسی شخص کو نہ پاؤں کہ وہ مجھ سے پہلے رکوع یا سجدے میں چلا جائے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نبی اکرم ﷺ کا جسم شریف جوانی میں ہلکا تھا، پھر جب عمر زیادہ ہوئی تو ذرا موٹاپا آگیا تھا، جیسے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں مذکور ہے، او رموٹا پے اور ضعف کی وجہ سے آپ ﷺ نو جوانوں کی طرح جلدی جلدی رکوع اور سجدہ نہیں کرسکتے تھے، اس لئے یہ حدیث فرمائی۔


963- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لا تُبَادِرُونِي بِالرُّكُوعِ وَلابِالسُّجُودِ، فَمَهْمَا أَسْبِقْكُمْ بِهِ إِذَا رَكَعْتُ، تدْرِكُونِي بِهِ إِذَا رَفَعْتُ، وَمَهْمَا أَسْبِقْكُمْ بِهِ إِذَا سَجَدْتُ، تدْرِكُونِي بِهِ إِذَا رَفَعْتُ، إِنِّي قَدْ بَدَّنْتُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۳۴۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۷۵ (۶۱۹)، حم (۴/۹۲، ۹۸)، دي/الصلاۃ ۷۲ (۱۳۵۴) (حسن صحیح)
۹۶۳- معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم رکوع اور سجدے میں مجھ سے سبقت نہ کرو، اگر میں رکوع تم سے پہلے کروں گا تو تم مجھ کو پالوگے جب میں رکوع سے سر اٹھا رہا ہوں گا، اور اگر میں سجدہ میں تم سے پہلے جاؤں گا تو تم مجھ کو پالو گے جب میں سجدہ سے سر اٹھا رہا ہوں گا، کیوں کہ میرا جسم بھاری ہوگیا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
42- بَاب مَا يُكْرَهُ فِي الصَّلاةِ
۴۲ -باب: صلاۃ میں کون سی چیز مکروہ ہے؟​


964- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْهُدَيْرِ التَّيْمِيُّ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ مِنَ الْجَفَاءِ أَنْ يُكْثِرَ الرَّجُلُ مَسْحَ جَبْهَتِهِ قَبْلَ الْفَرَاغِ مِنْ صَلاتِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۴۷) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں ہارون ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۸۷۷)
۹۶۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''یہ بد سلوکی اور بے رخی کی بات ہے کہ آدمی صلاۃ ختم کرنے سے پہلے اپنی پیشانی پر بار بار ہاتھ پھیرے''۔


965- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَإِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لا تُفَقِّعْ أَصَابِعَكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلاةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۵۳، ومصباح الزجاجۃ: ۳۴۸) (ضعیف)
(اس کی سند میں حارث الا ٔعور ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۳۷۸)
۹۶۵- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم صلاۃ میں اپنی انگلیاں نہ چٹخاؤ'' ۔


966- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، سُفْيَانُ بْنُ زِيَادٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ فِي الصَّلاةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۷۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۸۶ (۱۰۰۵۳) (حسن)
۹۶۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صلاۃ میں منہ ڈھانپنے سے منع فرمایاہے۔


967- حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَى رَجُلا قَدْ شَبَّكَ أَصَابِعَهُ فِي الصَّلاةِ، فَفَرَّجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ أَصَابِعِهِ۔
* تخريج: ت الصلاۃ (۳۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۵۴، ۴/۲۴۲، ۲۴۳)، دي/الصلاۃ ۱۲۱ (۱۴۴۵) (ضعیف)
(علقمہ اور ابو بکر بن عیاش کے ضعف کی وجہ سے یہ ضعیف ہے)
۹۶۷- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے صلاۃ میں تشبیک کر رکھی ہے ۱؎ ، آپﷺ نے اس کی انگلیاں الگ الگ کر دیں ۔
وضاحت ۱ ؎ : ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرنے کا نام تشبیک ہے۔


968- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا تَثَائَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ، وَلا يَعْوِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْهُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۶۸، ومصباح الزجاجۃ:۳۴۹)، قد أخرجہ: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۹)، د/الأدب ۹۷ (۵۰۲۸)، ت/الأدب ۷ (۲۷۴۸)، حم (۲/۳۹۷، ۳/۳۱)، ومن غير ذكر: ''ولا يعوي'' (موضوع)
(''ولا يعوي'' کے لفظ کے ساتھ یہ حدیث موضوع ہے، اس کے بغیر صحیح ہے کما فی التخریج، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۲۴۲۰، ومصباح الز جاجہ بتحقیق الشہری : ۳۵۱)
۹۶۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب کوئی شخص جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے اور آواز نہ کرے، اس لئے کہ شیطان اس سے ہنستا ہے''۔


969- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْبُزَاقُ، وَالْمُخَاطُ، وَالْحَيْضُ، وَالنُّعَاسُ فِي الصَّلاةِ مِنَ الشَّيْطَانِ >۔
* تخريج: ت/الأدب (۲۷۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۳) (ضعیف)
(اس کی سند میں ابو الیقظان عثمان بن عمیر البجلی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۳۳۷۹)
۹۶۹- ثابت کے والد دینار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ میں تھوکنا، رینٹ نکالنا، حیض کا آنا اور اونگھنا، شیطان کی جانب سے ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَنْ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ
۴۳-باب: لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ امام کا کیا حکم ہے؟​


970- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنِ الإِفْرِيقِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ثَلاثَةٌ لا تُقْبَلُ لَهُمْ صَلاةٌ: الرَّجُلُ يَؤُمُّ الْقَوْمَ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَالرَّجُلُ لا يَأْتِي الصَّلاةَ إِلا دِبَارًا - يَعْنِي بَعْدَ مَا يَفُوتُهُ الْوَقْتُ-، وَمَنِ اعْتَبَدَ مُحَرَّرًا >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۶۳ (۵۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۰۳) (ضعیف)
(اس کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: ۹۲، صحیح أبی دواود : ۶۰۷)
۹۷۰- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تین لوگوں کی صلاۃ قبول نہیں ہوتی: ایک تو وہ جو لوگوں کی امامت کرے جب کہ لوگ اس کو ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ جو صلاۃ میں ہمیشہ پیچھے (یعنی صلاۃ کا وقت فوت ہوجانے کے بعد) آتا ہو، اور تیسرا وہ جو کسی آزاد کو غلام بنالے''۔


971- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هَيَّاجِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَرْحَبِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < ثَلاثَةٌ لا تَرْتَفِعُ صَلاتُهُمْ فَوْقَ رُئُوسِهِمْ شِبْرًا: رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَأَخَوَانِ مُتَصَارِمَانِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۳۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۱) (منکر)
(اس سیاق سے یہ حدیث منکر ہے، ''اخوان متصارمان'' کے بجائے ''العبدالآبق'' کے لفظ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو:غایۃ المرام : ۲۴۸، ومصباح الزجاجۃ : ۳۵۳، بتحقیق الشہری)
۹۷۱- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تین اشخاص ایسے ہیں کہ ان کی صلاۃ ان کے سروں سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی : ایک وہ شخص جس نے کسی قوم کی امامت کی اور لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں، دوسرے وہ عورت جو اس حال میں رات گذارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، اور تیسرے وہ دو بھائی جنہوں نے باہم قطع تعلق کرلیاہو'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
44- بَاب الاثْنَانِ جَمَاعَةٌ
۴۴-باب: دو آدمی کے جماعت ہونے کا بیان​


972- حدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَمْرِو بْنِ جَرَادٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۲) (ضعیف)
(اس کی سند میں ربیع اور ان کے والد بدر بن عمرو دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء : ۴۸۹)
۹۷۲- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''دو یا دو سے زیادہ لوگ جماعت ہیں''۔


973- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ۔
* تخريج: خ/العلم ۴۲ (۱۱۷)، الأذان ۵۷ (۶۹۷)، ۵۹ (۶۹۹)، ۷۹ (۷۲۸)، اللباس ۷۱ (۵۹۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۶۹)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۲۶ (۷۶۳)، د/الصلاۃ ۷۰ (۶۱۰)، ن/الإمامۃ ۲۲ (۸۰۷)، حم (۱/۲۱۵، ۲۵۲، ۲۸۵، ۲۸۷، ۳۴۱، ۳۴۷، ۳۵۴، ۳۵۷، ۳۶۰، ۳۶۵)، دي/الصلاۃ ۴۳ (۱۲۹۰)
(صحیح)
۹۷۳- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات بسر کی، نبی اکرم ﷺ رات میں صلاۃ (تہجد) کے لئے اُٹھے، میں بھی اٹھا اور جاکر آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ نفلی صلاۃ میں جماعت صحیح ہے، اور دوسرے یہ کہ ایک لڑکے کے ساتھ ہونے سے جماعت ہو جاتی ہے، تیسرے یہ کہ اگر مقتدی اکیلا ہو تو امام کے دائیں طرف کھڑے ہو، چو تھی یہ کہ جس نے امامت کی نیت نہ کی ہو اس کے پیچھے صلاۃ صحیح ہے۔


974- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ ابْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ؛ فَجِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ؛ فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۷۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۲/أ)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۲۶ (۷۶۶)، د/الصلاۃ ۸۲ (۶۳۴)، حم (۱/۲۶۸، ۳۶۰، ۳/۳۲۶) (صحیح)
(دوسرے شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں شرحبیل ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۵۲۹، و مصباح الزجاحۃ: ۳۵۵ ، بتحقیق الشہری)
۹۷۴- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب پڑھ رہے تھے میں آیا اور آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، تو آپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکو بھی آپﷺ نے اسی طرح دائیں طرف کر لیا، ایک ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کی طرف سے گھما کر، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاۃ ا س قدر عمل کرنے سے فاسد نہیں ہوتی۔


975- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِامْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ، وَبِي، فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ وَصَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَلْفَنَا۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۷۰ (۶۰۹)، ن/الإمامۃ ۲۱ (۸۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۹)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۷۸ (۷۲۷)، م/المساجد ۴۸ (۶۶۰)، حم (۳/۲۵۸) (صحیح)
۹۷۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر کی ایک عورت اور میرے ساتھ صلاۃ پڑھی، تو آپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کیا، اور عورت نے ہمارے پیچھے صلاۃ پڑھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ بھی نفل ہوگی کیونکہ فرض تو آپ مسجد میں ادا کرتے تھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مقتدی ایک عورت اور ایک لڑکا ہوتو لڑکا امام کے دائیں طرف کھڑا ہو، اور عورت پیچھے کھڑی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
45- بَاب مَنْ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَلِيَ الإِمَامَ؟
۴۵- باب: امام کے قریب کن لوگوں کا رہنا مستحب ہے؟​


976- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَمْسَحُ مَنَاكِبَنَا فِي الصَّلاةِ وَيَقُولُ: < لا تَخْتَلِفُوا، فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُوا الأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۸ (۴۳۲)، د/الصلاۃ ۹۶ (۶۷۴)، ن/الإمامۃ ۲۳ (۸۰۸)، ۲۶ (۸۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۹۴) حم (۴/۱۲۲)، دي/الصلاۃ ۵۱ (۱۳۰۲) (صحیح)
۹۷۶- ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صلاۃ میں ہمارے کندھوں پہ ہاتھ پھیرتے اور فرماتے: ''الگ الگ نہ رہو، ورنہ تمہارے دل الگ الگ ہوجائیں گے، اور تم میں جو عقل اور شعور والے ہیں وہ میرے نزدیک کھڑے ہوں، پھر وہ لوگ جو عقل وشعور میں ان سے قریب ہوں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اختلاف نہ کرو'' کا مطلب یہ ہے کہ صف میں برابرکھڑے ہوکسی کا کندھا آگے پیچھے نہ رہے، کیونکہ روحانی طورپر اس کا اثر دلوں پر پڑے گا، اورصفوں میں آگے پیچھے ہو نے سے لوگوں کے دلوں میں اختلاف پیداہوجائے گا، جس سے مسلمانوں کی قوت وشوکت کمزور ہوجائے گی، اور دشمن کا تسلط وغلبہ بڑھے گا، اس سے معلوم ہوا کہ امام کو صفوں کی درستگی کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ پہلی صف میں وہ لوگ کھڑے ہوںجوعلم وفضل اور عقل ودانش میں ممتاز ہوں، پھر وہ جو ان سے کم ہوں، پھر وہ جو ان سے کم ہوں۔


977- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُحِبُّ أَنْ يَلِيَهُ الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ، لِيَأْخُذُوا عَنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۲، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۰، ۱۹۹، ۲۶۳) (صحیح)
۹۷۷ - انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پسند فرماتے تھے کہ مہاجرین اور انصار آپ کے قریب کھڑے ہوں، تاکہ آپ سے دین کی باتیں سیکھ سکیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس لئے کہ یہ عقل اور علم و فضل میں اور لوگوں سے آگے تھے ۔


978- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْهَبِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَى فِي أَصْحَابِهِ تَأَخُّرًا، فَقَالَ: < تَقَدَّمُوا فَأْتَمُّوا بِي، وَلْيَأْتَمَّ بِكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ، لا يَزَالُ قَوْمٌ يَتَأَخَّرُونَ حَتَّى يُؤَخِّرَهُمُ اللَّهُ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۸ (۴۳۸)، د/الصلاۃ ۹۸ (۶۸۰)، ن/الإمامۃ ۱۷ (۷۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۹، ۳۴، ۵۴) (صحیح)
۹۷۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو دیکھا کہ وہ پیچھے کی صفوں میں رہتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ''آگے آجاؤ، اورصلاۃ میں تم میری اقتداء کرو، او رتمہارے بعد والے تمہاری اقتداء کریں، کچھ لوگ برابر پیچھے رہاکرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ان کو پیچھے کردیتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی آخرت میں وہ پیچھے رہ جائیں گے، اور جنت میں لوگوں کے بعد جائیں گے، یا دنیا میں ان کا درجہ گھٹ جائے گا، اورعلم وعقل سے، اور اللہ تعالی کی عنایت اور رحمت سے پیچھے رہیں گے، اس میں امام کے قریب کھڑے ہو نے کی تاکید اورنیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
46- بَاب مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ؟
۴۶ -باب: کون شخص امامت کا زیادہ حقدار ہے؟​


979- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ؛ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي، فَلَمَّا أَرَدْنَا الانْصِرَافَ قَالَ لَنَا: <إِذَا حَضَرَتِ الصَّلاةُ فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا وَلْيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا>۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۷ (۶۲۸)، ۱۸ (۶۳۰)، ۳۵ (۶۵۸، ۶۸۵)، ۴۹ (۸۱۹)، الجہاد ۴۲ (۲۸۴۸)، الادب ۲۷ (۶۰۰۸)، أخبار الآحاد ۱ (۷۲۴۶)، م/المساجد ۵۳ (۶۷۲)، د/الصلاۃ ۶۱ (۵۸۹)، ت/الصلاۃ ۳۷ (۲۰۵)، ن/الأذان ۷ (۶۳۵)، ۸ (۶۳۶)، ۲۹ (۶۷۰)، الإمامۃ ۴ (۷۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۶، ۵/۵۳)، دي/الصلاۃ ۴۲ (۱۲۸۸) (صحیح)
۹۷۹- مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، جب ہم واپس ہونے لگے تو آپﷺ نے ہم سے فرمایا: ''جب صلاۃ کا وقت ہو جائے تو اذان واقامت کہو، اور تم میں جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے ' ' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک اذان کہے اور دوسرا جواب دے، یا یہ کہاجائے کہ دونوں کی طرف اسناد مجازی ہے مطلب یہ ہے کہ تم دونوں کے درمیان اذان اور اقامت ہو نی چاہئے جو بھی کہے، اذان اور اقامت کا معاملہ چھوٹے بڑے کے ساتھ خاص نہیں، البتہ امامت جو بڑا ہو وہ کرے ۔


980- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَائٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسَ بْنَ ضَمْعَجٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانَتْ قِرَائَتُهُمْ سَوَائً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانَتِ الْهِجْرَةُ سَوَائً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ سِنًّا، وَلا يُؤَمَّ الرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ وَلا فِي سُلْطَانِهِ، وَلا يُجْلَسْ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ، إِلا بِإِذْنٍ، أَوْ بِإِذْنِهِ>۔
* تخريج: م/المساجد ۵۳ (۶۷۳)، د/الصلاۃ ۶۱ (۵۸۲، ۵۸۳، ۵۸۴)، ت/الصلاۃ۶۰ (۲۳۵)، ن/الإمامۃ ۳ (۷۸۱)، ۶ (۷۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۸، ۱۲۱، ۱۲۲) (صحیح)
۹۸۰- ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جولوگوں میں قرآن زیادہ جانتا ہو، اگر قرا ء ت میں سب یکساں ہوںتوامامت وہ کرے جس نے ہجرت پہلے کی ہو ۱؎ ، اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو امامت وہ کرے جو عمر کے لحاظ سے بڑا ہو، اور کوئی شخص کسی شخص کے گھر والوں میں اور اس کے دائرہ اختیار ومنصب کی جگہ میں امامت نہ کرے ۲؎ ، اور کوئی کسی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پہ بغیر اس کی اجازت کے نہ بیٹھے'' ۳؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ابو مسعود رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر قراء ت میں برابر ہوں تو جس کو سنت کا علم زیادہ ہو وہ امامت کرے، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو جس کی ہجرت پہلے ہوئی ہو وہ امامت کرے، یعنی قرآن زیادہ جانتا ہو یا قرآن کو اچھی طرح پڑھتا ہو، یہ حدیث صحیح ہے، محدثین نے اسی کے موافق یہ حکم دیا ہے کہ جو شخص قرآن زیادہ جانتا ہو وہی امامت کا حق دار ہے اگرچہ نابالغ یا کم عمر ہو، اور اسی بناء پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمر بن ابی سلمہ کو امام بنایا تھا، حالانکہ ان کی عمر چھ یا سات برس کی تھی۔
وضاحت ۲؎ : یعنی مہمان میزبان کی امامت نہ کر ے، الایہ کہ وہ اس کی اجازت دے، اسی طرح کوئی کسی جگہ کا حکمراں ہو تو اس کی موجودگی میں کوئی اور امامت نہ کر ے ۔
وضاحت ۳؎ : مثلاً کسی کی کوئی مخصوص کرسی یا مسند وغیر ہو تو اس پر نہ بیٹھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
47- بَاب مَا يَجِبُ عَلَى الإِمَامِ
۴۷ -باب: امام کی ذمہ داری کیا ہے؟​


981- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ أَخُو فُلَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ قَالَ: كَانَ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ يُقَدِّمُ فِتْيَانَ قَوْمِهِ، يُصَلُّونَ بِهِمْ، فَقِيلَ لَهُ: تَفْعَلُ، وَلَكَ مِنَ الْقِدَمِ مَا لَكَ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <الإِمَامُ ضَامِنٌ، فَإِنْ أَحْسَنَ فَلَهُ وَلَهُمْ، وَإِنْ أَسَاءَ -يَعْنِي- فَعَلَيْهِ وَلا عَلَيْهِمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۰۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۴) (صحیح)
(دوسرے شواہد کے بناء پر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۱۷۶۷)
۹۸۱- ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے جوانوں کو آگے بڑھاتے وہی لوگوں کو صلاۃ پڑھاتے، کسی نے سہل رضی اللہ عنہ سے کہا:آپ جوانوں کو صلاۃ کے لئے آگے بڑھاتے ہیں، حالاں کہ آپ کو سبقت اسلام کا بلند رتبہ حاصل ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ''امام (مقتدیوں کی صلاۃ کا) ضامن ہے، اگر وہ اچھی طرح صلاۃ پڑھائے تو اس کے لئے بھی ثواب ہے اور مقتدیوں کے لئے بھی، اور اگر خراب طریقے سے پڑھائے تو اس پر گناہ ہے لوگوں پر نہیں'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : امام ضامن ہے کا مطلب یہ کہ اگر وہ اچھی طرح سے صلاۃ پڑھتا ہے، تو اس کا اجرو ثواب اس کو اور مقتدیوں دونوں کو ملے گا، اور اگر خراب طریقے سے صلاۃ پڑھتا ہے، تو اس کا وبال اسی پر ہوگا، نہ کہ مقتدیوں پر۔


982- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أُمِّ غُرَابٍ، عَنِ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا عَقِيلَةُ، عَنْ سَلامَةَ بِنْتِ الْحُرِّ، أُخْتِ خَرَشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَقُومُونَ سَاعَةً، لا يَجِدُونَ إِمَامًا يُصَلِّي بِهِمْ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۶۰ (۵۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۸۱) (ضعیف)
(اس کی سند میں عقیلہ مجہول ہیں)
۹۸۲- خرشہ کی بہن سلامہ بنت حر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے سنا : ''لو گوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ دیر تک کھڑے رہیں گے، کو ئی امام نہیں ملے گا جو انھیں نما ز پڑھا ئے''۔۔


983- حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيِّ أَنَّهُ خَرَجَ فِي سَفِينَةٍ، فِيهَا عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ الْجُهَنِيُّ، فَحَانَتْ صَلاةٌ مِنَ الصَّلَوَاتِ، فَأَمَرْنَاهُ أَنْ يَؤُمَّنَا، وَقُلْنَا لَهُ: إِنَّكَ أَحَقُّنَا بِذَلِكَ، أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَبَى، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ أَمَّ النَّاسَ فَأَصَابَ، فَالصَّلاةُ لَهُ وَلَهُمْ، وَمَنِ انْتَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَعَلَيْهِ، وَلا عَلَيْهِمْ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۵۹ (۵۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۵، ۱۵۴، ۱۵۶، ۲۰۱)
(صحیح)
۹۸۳- ابو علی ہمدانی سے روایت ہے کہ وہ ایک کشتی میں نکلے، اس میں عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بھی تھے، اتنے میں صلاۃ کا وقت ہوگیا، ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری امامت کریں، آپ اس کے زیا دہ حقدار ہیں اس لئے کہ آپ صحابی رسول ہیں، انہوں نے امامت سے انکار کیا، اور بولے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''جس نے لوگوں کی امامت کی اور صحیح طریقہ سے کی تو یہ صلاۃ اس کے لئے اور مقتدیوں کے لئے بھی باعث ثواب ہے، اور اگر اس نے صلاۃ میں کوئی کوتاہی کی تو اس کا وبال امام پر ہوگا، اور مقتدیوں پر کچھ نہ ہوگا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
48- بَاب مَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْيُخَفِّفْ
۴۸ -باب: جوشخص امامت کرے وہ صلاۃ ہلکی پڑھائے ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : ہلکی صلاۃ سے یہ مقصد ہے کہ مقتدیوں کو تکلیف نہ ہو، لیکن صلاۃ سنت کے موافق ہو، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے، اور جو سورتیں آپ ﷺ جماعت والی صلاۃ میں پڑھا کرتے تھے وہی سورتیں پڑھی جائیں، اور اس سے یہ مقصد نہیں ہے کہ صلاۃ اس قدرہلکی پڑھی جائے جس سے ارکان کی مکمل ادائیگی نہ ہو، تو ایسا ناجائز اور حرام ہے ۔


984- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي لأَتَأَخَّرُ فِي صَلاةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلانٍ، لِمَا يُطِيلُ بِنَا فِيهَا، قَالَ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَطُّ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُجَوِّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ >۔
* تخريج: خ/العلم ۲۸ (۹۰)، الأذان ۶۱ (۷۰۲)، ۶۳ (۷۰۴)، الأحکام ۱۳ (۷۱۵۹)، م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۵/۲۷۳)، دي/الصلاۃ ۴۶ (۱۲۹۴)
(صحیح)
۹۸۴ - ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اوراس نے عرض کیا : اللہ کے رسول! میں فلاں شخص کی وجہ سے فجر کی صلاۃ میں دیر سے جاتا ہوں، اس لئے کہ وہ صلاۃ کو بہت لمبی کردیتا ہے، ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو اتنا سخت غضبناک کبھی بھی کسی وعظ ونصیحت میں نہیں دیکھاجتنا اس دن دیکھا، آپﷺ نے فرمایا: ''لوگو! تم میں کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں، لہٰذا تم میں جو کوئی لوگوں کو صلاۃ پڑھائے ہلکی پڑھائے، اس لئے کہ لوگوں میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند سبھی ہوتے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ تین صورتیں آپ ﷺ نے ایسی فرمائیں کہ اس میں سارے معذور لوگ آگئے، اب جس قدر سوچیں کوئی معذور ایسا نہیں ملے گا جو ان تین سے خارج ہو، اس حدیث سے آپ کا کمال رحم اورکرم بھی ثابت ہوتا ہے ۔


985- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُوجِزُ وَيُتِمُّ الصَّلاةَ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶)، وقد أخرجہ: خ/الاذان ۶۴ (۷۰۶، ۷۰۸)، د/الصلاۃ ۱۴۷ (۸۵۳)، حم (۳/۱۰۱)، دي/الصلاۃ ۴۶ (۱۲۹۵) (صحیح)
۹۸۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مختصراور کامل صلاۃ پڑھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مختصر تو اس طور سے ہوتی کہ سورتیں بہت لمبی نہ پڑھتے، اور پوری اس طرح سے ہوتی کہ سجدہ اور قیام اور قعدہ اچھے طور سے ادا کرتے، کم سے کم سجدہ اور رکوع میں پانچ یا تین تسبیحوں کے برابر ٹھہرتے، اسی طرح رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوتے، اور ''سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد حمدًا كثيرًا طيبًا مباركًا فيه'' کہتے۔


986- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: صَلَّى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الأَنْصَارِيُّ بِأَصْحَابِهِ صَلاةَ الْعِشَاءِ فَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ فَانْصَرَفَ رَجُلٌ مِنَّا، فَصَلَّى، فَأُخْبِرَ مُعَاذٌ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ، دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَأَخْبَرَهُ مَا قَالَ لَهُ مُعَاذٌ، فقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ فَتَّانًا يَا مُعَاذُ؟ إِذَا صَلَّيْتَ بِالنَّاسِ فَاقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ>۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۶ (۴۶۵)، ن/الإمامۃ ۳۹ (۸۳۲)، ۴۱ (۸۳۶)، الافتتاح ۶۳ (۹۸۵)، ۷۰ (۹۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۲)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۶۰ (۷۰۱)، ۶۳ (۷۰۵)، الأدب ۷۴ (۶۱۰۶)، د/الصلاۃ ۱۲۷ (۷۹۰)، حم (۳/۲۹۹، ۳۰۸، ۳۷۹)، دي/الصلاہ ۶۵ (۱۳۳۳) (صحیح)
(تراجع الا ٔلبانی: رقم: ۱۲۲)
۹۸۶- جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی صلاۃ پڑھائی اور صلاۃ لمبی کردی، ہم میں سے ایک آدمی چلاگیا اوراکیلے صلاۃ پڑھ لی، معاذ رضی اللہ عنہ کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے، جب اس شخص کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات پہنچی، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات بتائی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''معاذ! کیا تم فتنہ پردازہونا چاہتے ہو؟ جب لوگوں کو صلاۃ پڑھاؤ تو {والشَّمْسِ وَضُحَاهَا"، {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى"، {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى" اور {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكََ} پڑھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری روایت میں ہے''بروج'' یا ''وانشقت'' پڑھو، یہ سب سورتیں قریب قریب برابر کی ہیں، عشاء کی صلاۃ میں جب جماعت سے ہو تو یہی سورتیں پڑھنا مسنون ہے، اور آپ ﷺ نے عشاء کی صلاۃ میں ''والتين'' بھی پڑھی ۔


987- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ،عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِقَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ يَقُولُ: كَانَ آخِرُ مَا عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ حِينَ أَمَّرَنِي عَلَى الطَّائِفِ، قَالَ لِي: < يَا عُثْمَانُ! تَجَاوَزْ فِي الصَّلاةِ وَاقْدِرِ النَّاسَ بِأَضْعَفِهِمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ وَالصَّغِيرَ وَالسَّقِيمَ وَالْبَعِيدَ وَذَا الْحَاجَةِ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۴۰ (۵۳۱)، ن/الأذان ۳۲ (۶۷۳)، (تحفۃ الأشراف:۹۷۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۸) (حسن صحیح)
۹۸۷- مطرف بن عبد اللہ بن شخیرکہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے مجھ کو طائف کا امیر بنایا، تو آپ نے میرے لئے آخری نصیحت یہ فرمائی: ''عثمان! صلاۃ ہلکی پڑھنا، اور لوگوں (عام مصلیان) کو اس شخص کے برابرسمجھنا جو ان میں سب سے زیادہ کمزور ہو، اس لئے کہ لوگوں میں بوڑھے، بچے، بیمار، دُور سے آئے ہوئے اور ضرورت مندسبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں'' ۔


[ز] 988- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ: حَدَّثَ عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ أَنَّ آخِرَ مَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَمَمْتَ قَوْمًا فَأَخِفَّ بِهِمْ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۴۰ (۵۳۱)، ن/الأذان ۳۲ (۶۷۳)، حم (۴/۲۲) (صحیح)
۹۸۸- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری بات جو مجھ سے کہی وہ یہ تھی : ''لوگوں کی جب امامت کرو تو صلاۃ ہلکی پڑھاؤ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
48- بَاب مَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْيُخَفِّفْ
۴۸ -باب: جوشخص امامت کرے وہ صلاۃ ہلکی پڑھائے ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : ہلکی صلاۃ سے یہ مقصد ہے کہ مقتدیوں کو تکلیف نہ ہو، لیکن صلاۃ سنت کے موافق ہو، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے، اور جو سورتیں آپ ﷺ جماعت والی صلاۃ میں پڑھا کرتے تھے وہی سورتیں پڑھی جائیں، اور اس سے یہ مقصد نہیں ہے کہ صلاۃ اس قدرہلکی پڑھی جائے جس سے ارکان کی مکمل ادائیگی نہ ہو، تو ایسا ناجائز اور حرام ہے ۔


984- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي لأَتَأَخَّرُ فِي صَلاةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلانٍ، لِمَا يُطِيلُ بِنَا فِيهَا، قَالَ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَطُّ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُجَوِّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ >۔
* تخريج: خ/العلم ۲۸ (۹۰)، الأذان ۶۱ (۷۰۲)، ۶۳ (۷۰۴)، الأحکام ۱۳ (۷۱۵۹)، م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۵/۲۷۳)، دي/الصلاۃ ۴۶ (۱۲۹۴)
(صحیح)
۹۸۴ - ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اوراس نے عرض کیا : اللہ کے رسول! میں فلاں شخص کی وجہ سے فجر کی صلاۃ میں دیر سے جاتا ہوں، اس لئے کہ وہ صلاۃ کو بہت لمبی کردیتا ہے، ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو اتنا سخت غضبناک کبھی بھی کسی وعظ ونصیحت میں نہیں دیکھاجتنا اس دن دیکھا، آپﷺ نے فرمایا: ''لوگو! تم میں کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں، لہٰذا تم میں جو کوئی لوگوں کو صلاۃ پڑھائے ہلکی پڑھائے، اس لئے کہ لوگوں میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند سبھی ہوتے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ تین صورتیں آپ ﷺ نے ایسی فرمائیں کہ اس میں سارے معذور لوگ آگئے، اب جس قدر سوچیں کوئی معذور ایسا نہیں ملے گا جو ان تین سے خارج ہو، اس حدیث سے آپ کا کمال رحم اورکرم بھی ثابت ہوتا ہے ۔


985- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُوجِزُ وَيُتِمُّ الصَّلاةَ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶)، وقد أخرجہ: خ/الاذان ۶۴ (۷۰۶، ۷۰۸)، د/الصلاۃ ۱۴۷ (۸۵۳)، حم (۳/۱۰۱)، دي/الصلاۃ ۴۶ (۱۲۹۵) (صحیح)
۹۸۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مختصراور کامل صلاۃ پڑھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مختصر تو اس طور سے ہوتی کہ سورتیں بہت لمبی نہ پڑھتے، اور پوری اس طرح سے ہوتی کہ سجدہ اور قیام اور قعدہ اچھے طور سے ادا کرتے، کم سے کم سجدہ اور رکوع میں پانچ یا تین تسبیحوں کے برابر ٹھہرتے، اسی طرح رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوتے، اور ''سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد حمدًا كثيرًا طيبًا مباركًا فيه'' کہتے۔


986- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: صَلَّى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الأَنْصَارِيُّ بِأَصْحَابِهِ صَلاةَ الْعِشَاءِ فَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ فَانْصَرَفَ رَجُلٌ مِنَّا، فَصَلَّى، فَأُخْبِرَ مُعَاذٌ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ، دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَأَخْبَرَهُ مَا قَالَ لَهُ مُعَاذٌ، فقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ فَتَّانًا يَا مُعَاذُ؟ إِذَا صَلَّيْتَ بِالنَّاسِ فَاقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ>۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۶ (۴۶۵)، ن/الإمامۃ ۳۹ (۸۳۲)، ۴۱ (۸۳۶)، الافتتاح ۶۳ (۹۸۵)، ۷۰ (۹۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۲)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۶۰ (۷۰۱)، ۶۳ (۷۰۵)، الأدب ۷۴ (۶۱۰۶)، د/الصلاۃ ۱۲۷ (۷۹۰)، حم (۳/۲۹۹، ۳۰۸، ۳۷۹)، دي/الصلاہ ۶۵ (۱۳۳۳) (صحیح)
(تراجع الا ٔلبانی: رقم: ۱۲۲)
۹۸۶- جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی صلاۃ پڑھائی اور صلاۃ لمبی کردی، ہم میں سے ایک آدمی چلاگیا اوراکیلے صلاۃ پڑھ لی، معاذ رضی اللہ عنہ کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے، جب اس شخص کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات پہنچی، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات بتائی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''معاذ! کیا تم فتنہ پردازہونا چاہتے ہو؟ جب لوگوں کو صلاۃ پڑھاؤ تو {والشَّمْسِ وَضُحَاهَا"، {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى"، {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى" اور {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكََ} پڑھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری روایت میں ہے''بروج'' یا ''وانشقت'' پڑھو، یہ سب سورتیں قریب قریب برابر کی ہیں، عشاء کی صلاۃ میں جب جماعت سے ہو تو یہی سورتیں پڑھنا مسنون ہے، اور آپ ﷺ نے عشاء کی صلاۃ میں ''والتين'' بھی پڑھی ۔


987- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ،عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِقَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ يَقُولُ: كَانَ آخِرُ مَا عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ حِينَ أَمَّرَنِي عَلَى الطَّائِفِ، قَالَ لِي: < يَا عُثْمَانُ! تَجَاوَزْ فِي الصَّلاةِ وَاقْدِرِ النَّاسَ بِأَضْعَفِهِمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ وَالصَّغِيرَ وَالسَّقِيمَ وَالْبَعِيدَ وَذَا الْحَاجَةِ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۴۰ (۵۳۱)، ن/الأذان ۳۲ (۶۷۳)، (تحفۃ الأشراف:۹۷۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۸) (حسن صحیح)
۹۸۷- مطرف بن عبد اللہ بن شخیرکہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے مجھ کو طائف کا امیر بنایا، تو آپ نے میرے لئے آخری نصیحت یہ فرمائی: ''عثمان! صلاۃ ہلکی پڑھنا، اور لوگوں (عام مصلیان) کو اس شخص کے برابرسمجھنا جو ان میں سب سے زیادہ کمزور ہو، اس لئے کہ لوگوں میں بوڑھے، بچے، بیمار، دُور سے آئے ہوئے اور ضرورت مندسبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں'' ۔


[ز] 988- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ: حَدَّثَ عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ أَنَّ آخِرَ مَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَمَمْتَ قَوْمًا فَأَخِفَّ بِهِمْ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۴۰ (۵۳۱)، ن/الأذان ۳۲ (۶۷۳)، حم (۴/۲۲) (صحیح)
۹۸۸- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری بات جو مجھ سے کہی وہ یہ تھی : ''لوگوں کی جب امامت کرو تو صلاۃ ہلکی پڑھاؤ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
49- بَاب الإِمَامِ يُخَفِّفُ الصَّلاةَ إِذَا حَدَثَ أَمْرٌ
۴۹ - باب: دوران صلاۃ حادثہ پیش آجانے پر صلاۃ ہلکی کرنے کابیان​


989- حدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنِّي لأَدْخُلُ فِي الصَّلاةِ، وَإِنِّي أُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاتِي، مِمَّا أَعْلَمُ لِوَجْدِ أُمِّهِ بِبُكَائِهِ >۔
* تخريج: خ/الأذان ۶۵ (۷۰۹، ۷۱۰)، م/الصلاۃ ۳۷ (۴۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۹)، دي/الصلاۃ ۴۶ (۱۲۹۵) (صحیح)
۹۸۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں صلاۃ شروع کرتا ہوں اور لمبی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو صلاۃ اس خیال سے مختصر کردیتا ہوں کہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے تکلیف ہوگی'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں عورتیں مسجد میں آکر صلاۃ باجماعت ادا کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ بچوں کی رعایت کرتے ہوئے صلاۃ کو مختصر پڑھاتے، تاکہ بچوں کے رونے سے مائوں کی صلاۃ میں خلل نہ ہو، لہذا آج بھی جن مساجد میں عورتوں کے صلاۃ پڑھنے کا انتظام ہے، ان میں عورتیں اپنے اسلامی شعار کا لحاظ کرتے ہو ئے جائیں اور صلاۃ باجماعت ادا کریں، یہ حدیث ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئے عام ہے ۔


990- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي كَرِيمَةَ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُلاثَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنِّي لأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي الصَّلاةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵۶) (صحیح)
(حسن بصری کا سماع عثمان رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۹۹۰- عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو صلاۃ ہلکی کردیتا ہوں'' ۔


991- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، وَبِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنِّي لأَقُومُ فِي الصَّلاةِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ، كَرَاهِيَةَ أَنْ يَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ>۔
* تخريج: خ/الأذان ۶۵ (۷۰۷)، ۱۶۳ (۸۶۸)، د/الصلاۃ ۱۲۶ (۷۸۹)، ن/الإمامۃ ۳۵ (۸۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۰۵) (صحیح)
۹۹۱- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں صلاۃ کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کو لمبی کروں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اس ڈر سے صلاۃ ہلکی کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں پریشان نہ ہوجائے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : سبحان اللہ آپ ﷺ کا رحم و کرم بے انتہا تھا، صلاۃ ایسی عبادت میں بھی آپ ﷺ ادنیٰ ادنیٰ عورتوں تک کا خیال رکھتے، اور یہ منظور نہ ہوتا کہ کسی امتی پر سختی گزرے، ایسا مہربان نبی جو ہم کو ماں باپ سے بھی زیادہ چاہتا ہے، اور کس امت کو ملا ہے۔
 
Top