8- بَاب مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ
۸ - باب: میت کو غسل دینے کا بیان
1458- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَنَحْنُ نُغَسِّلُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ، فَقَالَ: < اغْسِلْنَهَا ثَلاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ، بِمَائٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِي الآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي »، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حَقْوَهُ، وَقَالَ: < أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ >.
* تخريج: خ/الوضوء ۳۱ (۱۶۷)، الجنائز ۸ (۱۲۵۳)، ۹ (۱۲۵۴)، ۱۰ (۱۲۵۵)، ۱۱ (۱۲۵۶)، ۱۲ (۱۲۵۷)، ۱۳ (۱۲۵۸)، ۱۴ (۱۲۶۰)، ۱۵ (۱۲۶۱)، ۱۶ (۱۲۶۲)، ۱۷ (۱۲۶۳)، م/الجنائز ۱۲ (۹۳۹)، د/الجنائز ۳۳ (۳۱۴۶۳۱۴۲)، ن/الجنائز ۲۸ (۱۸۸۲)، ۳۰ (۱۸۸۴)، ۳۶ (۱۸۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۴)، وقد أخرجہ: ت/الجنائز ۱۵ (۹۹۰)، ط/الجنائز ۱ (۲)، حم (۶/۴۰۷،۴۰۸، ۵/۸۴، ۸۵، ۴۰۷) (صحیح)
۱۴۵۸- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم آپ کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ انہیں تین بار، یا پانچ بار، یا اس سے زیادہ اگر تم مناسب سمجھو تو پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو ۱؎ ، اور اخیر بار کے غسل میں کافور -یا کہا: تھوڑا سا کافور- ملا لو، جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر کرو‘‘،لہٰذا جب ہم غسل سے فارغ ہوئے تو ہم نے آپ ﷺ کو خبر کی،آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا اور فرمایا: ’’اسے جسم سے متصل کفن میں سب سے نیچے رکھو ‘‘ ۲؎۔
وضاحت ۱؎ : بیری کا پتہ استعمال کرنا مستحب ہے کیونکہ وہ میل کچیل کو صاف کرتا ہے، کیڑوں کو دفع کرتا ہے، اور بدبو کو بھی ختم کرتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : شعار یعنی (اندر کا کپڑا) عربی میں اس کو کہتے ہیں جو کپڑا جسم سے لگا رہے، بطور تبرک آپ ﷺ نے اپنا کپڑا ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو دیا، اور اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ غسل میں کافور ملانا بھی مستحب ہے، بہتر یہ ہے کہ اخیر بار جو غسل دیں اس میں کافور ملاہوا ہو، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔
1459- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، حَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُحَمَّدٍ، وَكَانَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ: <اغْسِلْنَهَا وِتْرًا>، وَكَانَ فِيهِ: < اغْسِلْنَهَا ثَلاثًا أَوْ خَمْسًا >، وَكَانَ فِيهِ: < ابْدَئُوا بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوئِ مِنْهَا >، وَكَانَ فِيهِ: أَنَّ أُمَّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: وَمَشَطْنَاهَا ثَلاثَةَ قُرُونٍ۔
* تخريج: خ/ الجنائز ۹ (۱۲۵۴)، ۱۳ (۱۲۵۸)، م/الجنائز ۱۲ (۹۳۹)، ن/الجنائز ۳۴ (۱۸۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۱۵) (صحیح)
۱۴۵۹- اس سندسے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے محمد بن سیرین کی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے، اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ ہے کہ: ’’ ان کو طاق بار غسل دو‘‘، اور اس میں یہ بھی ہے کہ: ’’انہیں تین بار یا پانچ بار غسل دو،اور دائیں طرف کے اعضائِ وضو ء سے غسل شروع کرو‘‘۔
اور اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کرکے تین چوٹیاں کردیں‘‘ ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : امام ابن القیم نے کہا کہ بالوں میں سنت یہی ہے کہ ان کی تین چوٹیاں کی جائیں، صحیحین میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان کے بالوں کی تین چوٹیاں کردو، ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے ان کا سر گوندھا، دو حصے کرکے دونوں چھاتیوں پر ڈال دیئے۔
1460- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: < لا تُبْرِزْ فَخِذَكَ، وَلا تَنْظُرْ إِلَى فَخِذِ حَيٍّ وَلا مَيِّتٍ >۔
* تخريج: د/الجنائز ۳۲ (۳۱۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴۶) (ضعیف جدًا)
(بشربن آدم ضعیف ہیں، نیز سند میں دو جگہ انقطاع ہے، ابن جریج اور حبیب کے درمیان، اور حبیب اورعاصم کے درمیان، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲۶۹)
۱۴۶۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم اپنی ران نہ کھولو، اور کسی زندہ یا مردہ کی ران نہ دیکھو ‘‘ ۔
وضاحت : ۱؎ اس حدیث کو مؤلف نے اس باب میں اس لئے ذکرکیا ہے کہ مردے کو غسل دینے میں اس کی ران نہ کھولیں اور نہ ستر بلکہ کپڑا ستر پر ڈھانپ کر غسل دیں کیونکہ ستر مردہ اور زندہ کا یکسا ں ہے۔
1461- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ مُبَشِّرِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لِيُغَسِّلْ مَوْتَاكُمُ الْمَأْمُونُونَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۳۹، ومصباح الزجاجۃ: ۵۱۷) (موضوع)
(اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس ہیں،نیز ان کے شیخ مبشر بن عبید پر حدیث وضع کرنے کی تہمت ہے،ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۴۳۹۵)
۱۴۶۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تمہارے مردوں کو امانت دار لوگ غسل دیں‘‘ ۔
1462- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا وَكَفَّنَهُ وَحَنَّطَهُ وَحَمَلَهُ وَصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَمْ يُفْشِ عَلَيْهِ مَا رَأَى، خَرَجَ مِنْ خَطِيئَتِهِ مِثْلَ يَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۳۴، ومصباح الزجاجۃ : ۵۱۸) (ضعیف جدًا)
(اس کی سند میں عباد بن کثیر ہے جن کے بارے میں امام احمد نے کہا ہے کہ غفلت کے سبب جھوٹی حدیثیں روایت کرتے ہیں، نیز اس کی سند میں عمر و بن خالد کذاب ہے)
۱۴۶۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے کسی مردے کو غسل دیا، اسے کفن پہنایا، اسے خوشبو لگائی، اور اسے کندھا دے کر قبرستان لے گیا،اس پہ صلاۃ جنازہ پڑھی، اور اگر کوئی عیب دیکھا تو اسے پھیلایا نہیں، تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ‘‘۔
1463- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا فَلْيَغْتَسِلْ >۔
* تخريج: ت/الجنائز ۱۷ (۹۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۲۶)، وقد أخرجہ: د/الجنائز ۳۹ (۳۱۶۱)، حم (۲/۲۷۲) (صحیح)
۱۴۶۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو کسی مردے کو غسل دے وہ خود بھی غسل کرے‘‘ ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم مستحب ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ ليس عليكم في غسل ميتكم إذا اغسلتموه أن ميتكم يموت طاهرًا، وليس بنجس فحسبكم أن يغسلوا أيديكم‘‘ (جب تم لوگ اپنے میت کو غسل دو،تو تمہارے اوپر کچھ نہیں ہے، سوا ئے اس کہ تم اپنے ہاتھوں کو دھو لو،کیونکہ تمہارے میت پاک و صاف ہوکر وفات پائے ہیں وہ نجس نہیں ہیں) نیز امام خطابی فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ کسی بھی عالم نے میت کوغسل دینے سے یا اسے اٹھانے سے غسل کو واجب کہا ہے ۔