- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
13- بَاب صَدَقَةِ الْغَنَمِ
۱۳-باب: بکریوں کی زکاۃ کا بیان
۱۳-باب: بکریوں کی زکاۃ کا بیان
1805- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: أَقْرَأَنِي سَالِمٌ كِتَابًا كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الصَّدَقَاتِ قَبْلَ أَنْ يَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَوَجَدْتُ فِيهِ < فِي أَرْبَعِينَ شَاةً، شَاةٌ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ، إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ثَلاثُ شِيَاهٍ، إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا كَثُرَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ، شَاةٌ >، وَوَجَدْتُ فِيهِ < لا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلايُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ >، وَوَجَدْتُ فِيهِ < لا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ تَيْسٌ وَلا هَرِمَةٌ وَلا ذَاتُ عَوَارٍ >۔
* تخريج: د/الزکاۃ ۴ (۱۵۶۸)، ت/الزکاۃ ۴ (۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۳۷)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۱۱ (۲۳)، حم (۲/۱۴، ۱۵)، دي/الزکاۃ ۴ (۱۶۶۶) (صحیح)
۱۸۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم نے ایک تحریر پڑھائی جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے سلسلے میں اپنی وفات سے پہلے لکھوائی تھی، اس تحریر میں میں نے لکھا پایا:''چالیس سے ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر۱۲۰ سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں دوسوتک دو بکریاں ہیں، اور اگر ۲۰۰ سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے ،اور میں نے اس میں یہ بھی پایا:'' متفرق مال اکٹھا نہ کیا جائے ،اور اکٹھا مال متفرق نہ کیا جائے ،''اور اس میں یہ بھی پایا : ''زکاۃ میں جفتی کے لئے مخصوص بکرا،بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے ''۔
1806- حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <تُؤْخَذُ صَدَقَاتُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى مِيَاهِهِمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۳۴، ومصباح الزجاجۃ: ۶۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۴) (حسن صحیح) ( ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۱۷۷۹)
۱۸۰۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' مسلمانوں کی زکاۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں میں لی جا ئے گی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ہر ایک اپنے جانوروں کو اپنی بستی میں پانی پلاتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کی بستیوں میں جا کر زکاۃ وصول کرے گا یہ نہ ہوگا کہ وہ اپنی بستیوں کے باہر زکاۃ دینے کے لئے بلائے جائیں ، یہ بھی رعایا پر ایک شفقت ہے ،پانی کے گھاٹ پر جانوروں کے زکاۃ اصول کرنے کا محصل کو فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہاں تمام ریوڑ اور ہرریوڑکے تمام جانور پانی پینے کے لیے جمع ہوتے ہیں، گنتی میں آسانی رہتی ہے ، جب کہ چراگاہوں میں جانور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور وہاں ان کا شمارکرنا مشکل ہوتا ہے ۔
1807- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الأَوْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ < فِي أَرْبَعِينَ شَاةً، شَاةٌ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ، إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلاثُ شِيَاهٍ، إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ، شَاةٌ، لايُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ وَلا ذَاتُ عَوَارٍ وَلاتَيْسٌ إِلا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۴۵) (صحیح)
۱۸۰۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃہے، اگر ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو دوسو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر دوسو سے ایک بھی زیادہ ہو جا ئے تو تین سو تک تین بکریاں ہیں،اور اگر تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری ہے، اور جو جانور اکٹھے ہوں انہیں زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ نہ کیا جائے، اورنہ ہی جو الگ الگ ہوں انہیں اکٹھا کیا جائے ، اور اگر مال میں دو شخص شریک ہو ں تو دونوں اپنے اپنے حصہ کے موافق زکاۃ پوری کریں ۱؎ ، اور زکاۃ میں عامل زکاۃ کو بوڑھا ،عیب دار اور جفتی کا مخصوص بکرا نہ دیا جا ئے، الا یہ کہ عامل زکاۃ خو د ہی لیناچاہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً دوشریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں ،اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ہیں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں ،زکاۃ وصول کرنے والا آیااور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں، اور دوسوپچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جن میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ۲۵چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی، اب اگر زکاۃ وصول کرنے والا نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والااسے ڈھائی سوروپئے واپس کرے گا، اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے دس بکریاں لی ہیں توچالیس بکریوں والااسے دس روپیہ ادا کرے گا۔
وضاحت ۲ ؎ : یعنی جب کسی مصلحت کی وجہ سے محصل(زکاۃ وصول کرنے والا) کسی عیب دار یا بوڑھے یا نر جانور کو لینا چاہے تو صاحب مال پر کوئی زور نہیں کہ وہ دے ہی دے اور محصل کی مرضی کے بغیر اس قسم کے جانور کو زکاۃ میں دینا منع ہے، مصلحت یہ ہے کہ مثلاً عیب دار جانور قوی اورموٹا ہو ، دودھ کی زیادہ توقع ہو، یا زکاۃ کے جانور سب مادہ ہوں ، ان میں نر کی ضرورت ہو تو نر قبول کرے یا بوڑھا جانور ہو لیکن عمدہ نسل کا ہوتو اس کو قبول کرے ۔ واللہ اعلم ۔