19-بَاب الْقَرْضِ
۱۹- باب: قرض دینے کا ثواب
2430- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسِيرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ رُومِيٍّ قَالَ: كَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ أُذُنَانٍ يُقْرِضُ عَلْقَمَةَ أَلْفَ دِرْهَمٍ إِلَى عَطَائِهِ، فَلَمَّا خَرَجَ عَطَاؤُهُ تَقَاضَاهَا مِنْهُ وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، فَقَضَاهُ، فَكَأَنَّ عَلْقَمَةَ غَضِبَ، فَمَكَثَ أَشْهُرًا ثُمَّ أَتَاهُ فَقَالَ : أَقْرِضْنِي أَلْفَ دِرْهَمٍ إِلَى عَطَائِي، قَالَ: نَعَمْ وَكَرَامَةً، يَا أُمَّ عُتْبَةَ! هَلُمِّي تِلْكَ الْخَرِيطَةَ الْمَخْتُومَةَ الَّتِي عِنْدَكِ، فَجَاءَتْ بِهَا، فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ! إِنَّهَا لَدَرَاهِمُكَ الَّتِي قَضَيْتَنِي، مَا حَرَّكْتُ مِنْهَا دِرْهَمًا وَاحِدًا، قَالَ: فَلِلَّهِ أَبُوكَ! مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ بِي؟ قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْكَ، قَالَ: مَا سَمِعْتَ مِنِّي؟ قَالَ سَمِعْتُكَ تَذْكُرُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: <مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُقْرِضُ مُسْلِمًا قَرْضًا مَرَّتَيْنِ إِلا كَانَ كَصَدَقَتِهَا مَرَّةً > قَالَ: كَذَلِكَ أَنْبَأَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۷۵، ومصباح الزجاجۃ: ۸۵۳) (ضعیف)
(سند میں قیس بن رومی مجہول ، اور سلیمان بن یسیر ضعیف ہیں، اس لئے یہ ضعیف ہے، مرفوع حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۳۸۹)
۲۴۳۰- قیس بن رومی کہتے ہیں کہ سلیمان بن اذنان نے علقمہ کو ان کی تنخواہ ملنے تک کے لئے ایک ہزار درہم قرض دے رکھا تھا، جب ان کی تنخواہ ملی تو سلیمان نے ان سے اپنے قرض کا تقاضا کیا، اور ان پر سختی کی، تو علقمہ نے اسے ادا کردیا، لیکن ایسا لگا کہ علقمہ ناراض ہیں، پھر کچھ مہینے گزرے تو پھر وہ سلیمان بن اذنان کے پاس آئے، اور کہا: میری تنخواہ ملنے تک مجھے ایک ہزار درہم کا پھر قرض دے دیجیے،وہ بولے: ہاں، لے لو، یہ میرے لئے عزت کی بات ہے ،اور ام عتبہ کو پکار کر کہا: وہ مہربند تھیلی لے آؤ جو تمہارے پاس ہے، وہ اسے لے آئیں، تو انہوں نے کہا: دیکھو اللہ کی قسم!یہ تو وہی درہم ہیں جو تم نے مجھے ادا کئے تھے، میں نے اس میں سے ایک درہم بھی ادھر ادھر نہیں کیا ہے ،علقمہ بولے: تمہارے باپ عظیم ہیں ۱؎ پھر تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا؟ ۲؎ وہ بولے: اس حدیث کی وجہ سے جو میں نے آپ سے سنی تھی ،انہوں نے پوچھا: تم نے مجھ سے کیا سنا تھا؟ وہ بولے: میں نے آپ سے سنا تھا ،آپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کررہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: '' کوئی مسلمان ایسا نہیں جو کسی مسلمان کو دوبار قرض دے، مگر اس کو ایک بار اتنے ہی مال کے صدقے کا ثواب ملے گا ''، علقمہ نے کہا: ہاں،مجھے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی خبر دی ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ تعریفی کلمہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جب تمہیں ان کی ضرورت نہیں تھی تو پھر تم نے مجھ سے اتنی سختی سے کیوں مطالبہ کیا تھا۔
وضاحت ۳؎ : تو ہر بار قرض میں آدھے صدقہ کا ثواب ہے، دوبارہ قرض دے تو گویا اتنا کل مال صدقہ دیا ۔ اسی وجہ سے سلیمان نے سخت تقاضا کرکے اپنا قرض وصول کرلیا تاکہ علقمہ کو دوبارہ قرض لینے کی ضرورت ہو اور ان کا ثواب زیادہ ہو ، سبحان اللہ ، اگلے لوگ ثواب کے کیسے حریص اور طالب تھے ، آگے حدیث میں ہے کہ قرض میں صدقہ سے زیادہ ثواب ہے ، یہ حدیث بظاہر اس کے مخالف ہے اور ممکن ہے کہ یہ حدیث مطلق قرض میں ہو اور وہ اس قرض میں جس میں مقروض سے تقاضا نہ کرے یا جو سخت ضرورت کے وقت دے ۔ واللہ اعلم ۔
2431- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْكَرِيمِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، و حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا: الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ! مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ؟ قَالَ: لأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لايَسْتَقْرِضُ إِلا مِنْ حَاجَةٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۵۴) (ضعیف جدا)
(خالد بن یزید متروک ہے ، یحییٰ بن معین نے تکذیب کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: ۳۶۳۷)
۲۴۳۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پرلکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے، اور قرض کا اٹھارہ گنا، میں نے کہا: جبرئیل ! کیا بات ہے؟ قرض صدقہ سے افضل کیسے ہے؟ تو کہا : اس لئے کہ سائل سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کھانے کو ہوتا ہے، اور قرض لینے والا قرض اس وقت تک نہیں مانگتا جب تک اس کو واقعی ضرورت نہ ہو '' ۔
2432- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسماَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ حُمَيْدٍ الضَّبِّيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ الْهُنَائِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ: الرَّجُلُ مِنَّا يُقْرِضُ أَخَاهُ الْمَالَ فَيُهْدِي لَهُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا فَأَهْدَى لَهُ، أَوْ حَمَلَهُ عَلَى الدَّابَّةِ، فَلا يَرْكَبْهَا وَلا يَقْبَلْهُ، إِلا أَنْ يَكُونَ جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذَلِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۵، ومصباح الزجاجۃ: ۸۵۵) (ضعیف)
(سند میں عتبہ بن حمید الضبی ضعیف ہیں، اور یحییٰ بن أبی اسحاق الہنائی مجہول الحال ، تراجع الألبانی: رقم: ۳۲۹)
۲۴۳۲- یحییٰ بن ابی اسحاق ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ہم میں سے ایک شخص اپنے مسلمان بھائی کومال قرض دیتا ہے، پھر قرض لینے والا اس کو تحفہ بھیجتا ہے تویہ عمل کیساہے؟ کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: '' تم میں سے جب کوئی کسی کو قرض دے، پھر وہ اس کو تحفہ دے یا اسے اپنے جانور پر سوار کرے، تو وہ سوار نہ ہو اور نہ تحفہ قبول کرے، ہاں، اگر ان کے درمیان پہلے سے ایسا ہوتا رہا ہو تو ٹھیک ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قرض دینے سے پہلے بھی اس کے پاس سے تحفہ آیا کرتا ہو ، یا وہ سواری دیا کرتا ہو تو اب بھی اس کا قبول کرنا درست ہے اور جو قرض سے پہلے اس کی عادت نہ تھی تو یقیناً اس کا سبب قرض ہوگا اور ہماری شریعت میں قرض دے کر منفعت اٹھانا درست نہیں ، اور بخاری نے تاریخ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی کسی کو قرض دے تو اس کا تحفہ نہ لے ، اور بیہقی نے سنن کبری میں ابن مسعود ، ابی بن کعب ، عبد اللہ بن سلام اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ ان سبھوں نے کہا: جس قرض سے منفعت ہو وہ سود ہے یعنی سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ، ان سب احادیث وآثار سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے زمانہ میں جو قرض دے کر اس پرشرح فیصدسے منفعت کی شرط ٹھہراتے ہیں مثلاً سات روپیہ فی صد یا دس روپیہ فی صد ،یہ ربا (سود)ہے اور حرام ہے، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے اور اس صورت میں بینک اوردوسرے کاروباری ادارے جو سودی نظام چلا تے ہیں ان سے سودی تعامل اور کاروبار بالکل حرام ہے۔