• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گذشتہ سے پیوستہ



{ أَبْوَاْبُ الإِجَارَةِ }
مزدوری اور کرایہ سے متعلق احکام و مسائل


37- بَابٌ فِي كَسْبِ الْمُعَلِّمِ
۳۷-باب: معلم (مدرس) کوتعلیم کی اجرت لینا کیسا ہے؟​


3416- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ لآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَلأَسْأَلَنَّهُ، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: < إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا > ۔
* تخريج: ق/التجارات ۸ (۲۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۵) (صحیح)
(اس کے راوی ’’ سعود‘‘ مجہول ہیں اور ’’ مغیرہ ‘‘ سے وہم ہوجاتا تھا، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۲۵۶، والارواء ۱۴۹۳)
۳۴۱۶- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ کے کچھ لوگوں کو قرا ٓن پڑھنا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیتہ دی، میں نے ( جی میں) کہا یہ کوئی مال تو ہے نہیں ، اس سے میں فی سبیل اللہ تیر اندازی کا کام لوں گا( پھر بھی) میں رسول اللہﷺ کے پا س جائوں گا اور آپ سے اس بارے میں پوچھوں گا ، تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول !میں جن لوگوں کو قرآن پڑھنا لکھنا سکھا رہا تھا ، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی ہے ، اور اس کی کچھ مالیت تو ہے نہیں ، میں اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا، رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اگر تمہیں پسند ہو کہ تمہیں آ گ کا طوق پہنایا جائے تو اس کمان کو قبول کر لو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ :صحیح بخاری میں کتاب اللہ کے سلسلہ میں اجرت لینے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرکے اس کی اجرت لینے سے متعلق حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے ، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپ نے ایک شخص کا نکاح کیا اور قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا ، ان روایات کی روشنی میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ تعلیم قرآن ، امامت ، قضاء اور اذان وغیرہ کی اجرت لی جاسکتی ہے ، کیونکہ مذکورہ تینوں روایات سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کوئی مقابلہ نہیں (کیوں کہ اس کی دونوں سندوں میں متکلم فیہ راوی ہیں )


3417- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ يَسَارٍ، قَالَ عَمْرٌو: [و] حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ نَحْوَ هَذَاالْخَبَرِ، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ، فَقُلْتُ: مَا تَرَى فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: <جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا >، أَوْ: < تَعَلَّقْتَهَا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۷۹) (صحیح)
(اس کی سند میں ’’بقیہ ‘‘ ہیں جو صدوق کے درجہ کے راوی ہیں، یہاں حرف تحدیث کی صراحت ہے، عنعنہ کی حالت میں تدلیس کا اندیشہ ہوتا ہے، نیز مسند احمد (۵؍۳۲۴) ابو المغیرہ نے متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۲۵۶)
۳۴۱۷- اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے ، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا ـ: اللہ کے رسول! اس با رے میں آپ کی را ئے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباسؓ کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
38- بَاب فِي كَسْبِ الأَطِبَّاءِ
۳۸-باب: طبیب اور معالج کی کمائی کا بیان​


3418- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَهْطًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ انْطَلَقُوا فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا، فَنَزَلُوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ، قَالَ: فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ، فَشَفَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْئٍ لايَنْفَعُهُ شَيْئٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا بِكُمْ لَعَلَّ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْئٌ يَنْفَعُ صَاحِبَكُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ [فَشَفَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْئٍ فَلا يَنْفَعُهُ شَيْئٌ] فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ [شَيْئٌ يَشْفِي صَاحِبَنَا]؟ يَعْنِي رُقْيَةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنِّي لأَرْقِي وَلَكِنِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَأَبَيْتُمْ أَنْ تُضَيِّفُونَا، مَا أَنَا بِرَاقٍ حَتَّى تَجْعَلُوا لِي جُعْلا، فَجَعَلُوا لَهُ قَطِيعًا مِنَ الشَّاءِ، فَأَتَاهُ فَقَرَأَ عَلَيْهِ بِأُمِّ الْكِتَابِ، وَيَتْفِلُ حَتَّى بَرِئَ كَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَأَوْفَاهُمْ جُعْلَهُمِ الَّذِي صَالَحُوهُ عَلَيْهِ، فَقَالُوا: اقْتَسِمُوا، فَقَالَ الَّذِي رَقَى: لا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَنَسْتَأْمِرَهُ، فَغَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرُوا [ذَلِكَ] لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مِنْ أَيْنَ عَلِمْتُمْ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ أَحْسَنْتُمْ، وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ >۔
* تخريج: خ/ الإجارۃ ۱۶ (۲۲۷۶)، الطب ۳۳ (۵۷۳۶)، م/ السلام ۲۳ (۲۲۰۱)، ت/ الطب ۲۰ (۲۰۶۳)، ق/ التجارات ۷ (۲۱۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲، ۴۴) ویأتی ہذا الحدیث فی الطب (۳۹۰۰) (صحیح)
۳۴۱۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے اصحاب کی ایک جماعت ایک سفر پر نکلی اور عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے پاس وہ لوگ جاکر ٹھہرے اور ان سے مہمان نوازی طلب کی تو انہوں نے مہمان نوازی سے انکا رکر دیا وہ پھر اس قبیلے کے سردار کو سانپ یا بچھونے کاٹ (ڈنک ماردیا) کھایا ، انہوں نے ہر چیز سے علا ج کیا لیکن اسے کسی چیز سے فائدہ نہیں ہو رہا تھا، تب ان میں سے ایک نے کہا :اگر تم ان لوگوں کے پاس آتے جو تمہارے یہاں آکر قیام پذیرہیں، ممکن ہے ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو جو تمہارے سا تھی کو فائدہ پہنچائے( وہ آئے) اور ان میں سے ایک نے کہا: ہمارا سردار ڈس لیا گیا ہے ہم نے اس کی شفایابی کے لئے ہر طرح کی دوا دارو کر لی لیکن کوئی چیز اسے فائدہ نہیں دے رہی ہے، تو کیا تم میں سے کسی کے پاس جھاڑ پھونک قسم کی کوئی چیز ہے جو ہمارے (ساتھی کو شفادے) ؟ تو اس جماعت میں سے ایک شخص نے کہا :ہاں ، میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں ، لیکن بھائی با ت یہ ہے کہ ہم نے چاہا کہ تم ہمیں اپنا مہمان بنا لو لیکن تم نے ہمیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا، تو اب جب تک اس کا معاوضہ طے نہ کر دو میں جھاڑ پھونک کرنے والا نہیں، انہوں نے بکریوں کا ایک گلّہ دینے کا وعدہ کیا تووہ (صحا بی) سردار کے پاس آئے اور سورہ فاتحہ پڑھ کر تھوتھو کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شفایاب ہو گیا ،گویا وہ رسّی کی گرہ سے آزاد ہوگیا ، تو ان لوگوں نے جوا جرت ٹھہرائی تھی وہ پوری پوری دے دی، تو صحابہ نے کہا: لا ئو اسے تقسیم کر لیں ، تو اس شخص نے جس نے منتر پڑھا تھا کہا :نہیں ابھی نہ کرو یہاں تک کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے پو چھ لیں تو وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے پورا واقعہ ذکر کیا ، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :''تم نے کیسے جا نا کہ یہ جھاڑ پھونک ہے؟ تم نے اچھا کیا، اپنے ساتھ تم میرا بھی ایک حصہ لگانا''۔


3419- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَخِيهِ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: خ/ فضائل القرآن (۵۰۰۷)، م/ الطب ۲۳ (۲۲۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۸۳) (صحیح)
۳۴۱۹- اس سند سے بھی ابو سعید خد ری رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے۔


3420- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ، عَنْ عَمِّهِ أَنَّهُ مَرَّ بِقَوْمٍ فَأَتَوْهُ فَقَالُوا: إِنَّكَ جِئْتَ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ فَارْقِ لَنَا هَذَا الرَّجُلَ، فَأَتَوْهُ بِرَجُلٍ مَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ، فَرَقَاهُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً [وَ] كُلَّمَا خَتَمَهَا جَمَعَ بُزَاقَهُ ثُمَّ تَفَلَ فَكَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَأَعْطَوْهُ شَيْئًا، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَهُ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < كُلْ فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةٍ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةٍ حَقٍّ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۱۱) ویأتی ہذا الحدیث فی الطب (۳۸۹۶، ۳۹۰۱) (صحیح)
۳۴۲۰- خا رجہ بن صلت کے چچاعلاقہ بن صُحارتمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کاگزر ایک قوم کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ آدمی ( یعنی نبی اکرم ﷺ) کے پاس سے بھلا ئی لے کر آئے ہیں ، تو ہمارے اس آدمی کو ذرا جھاڑ پھونک دیں، پھر وہ لو گ رسیوں میں بندھے ہوئے ایک پاگل لے کر آئے ، تو انہوں نے اس پر تین دن تک صبح و شام سو رہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ،جب وہ اسے ختم کرتے تو( منہ میں )تھو ک جمع کر تے پھر تھو تھو کرتے، پھر وہ شخص ایسا ہوگیا ، گو یا اس کی گر ہیں کھل گئیں ، ان لوگوں نے ان کو کچھ دیا ، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے ، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''(بے دھڑک) کھا ئو ، قسم ہے (یعنی اس ذات کی جس کے اختیار میں میری زندگی ہے) لو گ تو جھوٹا منتر پڑھ کر کھا تے ہیں ،آپ تو سچا منتر پڑھ کر کھا رہے ہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
39- بَاب فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ
۳۹-باب: سینگی (پچھنا) لگانے والے کی اجرت کا بیان​


3421- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَخْبَرَنَا أَبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ قَارِظٍ- عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ، وَثَمَنُ الْكَلْبِ خَبِيثٌ، وَمَهْرُ الْبَغِيِّ خَبِيثٌ >۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۹ (۱۵۶۸)، ت/البیوع ۴۶ (۱۲۷۵)، ن/الذبائح ۱۵ (۴۲۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴/۱۴۱) (صحیح)
۳۴۲۱- را فع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’سینگی (پچھنا) لگانے والے کی کما ئی بری (غیرشریفانہ) ہے ۱؎کتے کی قیمت ناپاک ہے اور ز انیہ عورت کی کمائی ناپاک( یعنی حرام ) ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ’’كَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ‘‘ میں خبیث کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہونے کے معنی میں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے آنے والی حدیث نمبر : (۳۴۲۲) میں حضرت محیصہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ، نیز آپ ﷺ نے بذات خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی ، پس پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق ’’ خبیث ‘‘ کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ثوم وبصل (لہسن ، پیاز ) کو خبیث کہا باوجود یکہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے ، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیر شریفانہ ہے ۔


3422- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ مُحَيِّصَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ فَنَهَاهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ وَيَسْتَأْذِنُهُ حَتَّى أَمَرَهُ: أَنْ أَعْلِفْهُ نَاضِحَكَ وَرَقِيقَكَ۔
* تخريج: ت/البیوع ۴۷ (۱۲۷۷)، ق/التجارات ۱۰ (۲۱۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۳۸)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۱۰ (۲۸)، حم (۵/۴۳۵، ۴۳۶) (صحیح)
۳۴۲۲- محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سینگی لگا کر اجرت لینے کی اجازت ما نگی تو آپ نے انہیں اس کے لینے سے منع فرمایا، وہ برا بر آپ ﷺ سے اس بارے میں پو چھتے اور اجا زت طلب کر تے رہے، یہاں تک کہ آپ نے ان سے کہہ دیا کہ اس سے اپنے اونٹ اور اپنے غلام کوچارہ کھلاؤ۔


3423- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ،وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ، وَلَوْ عَلِمَهُ خَبِيثًا لَمْ يُعْطِهِ۔
* تخريج: خ/البیوع ۳۹ (۲۱۰۳)، الإجارۃ ۱۸ (۲۲۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۵۱)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۱ (۱۲۰۲)، حم (۱/۳۵۱) (صحیح)
۳۴۲۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سینگی لگوائی ، اور سینگی لگانے والے کو اس کی مزدوری دی ، اگر آپ اسے حرام جا نتے تو اسے مزدور ی نہ دیتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں حدیثیں سینگی لگانے کی اجرت کے مباح ہونے پر دال ہیں اور یہی جمہور کا مسلک ہے، رہی ابن خدیج والی روایت تواسے یاتو مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے یا اسے منسوخ مانا جائے۔


3424- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يُخَفِّفُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ۔
* تخريج: خ/البیوع ۳۹ (۲۱۰۲)، ۹۵ (۲۲۱۰)، الإجارۃ ۱۹ (۲۲۷۷)، الطب ۱۳ (۵۶۹۶)، المساقاۃ ۱۱ (۲۳۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۵)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۴۸ (۱۲۷۸)، ق/التجارات ۱۰ (۲۱۶۴)، حم ۳/۱۰۷، ۲۸۲)، دي/البیوع ۷۹ (۲۶۶۴) (صحیح)
۳۴۲۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابو طیبہ نے رسول اللہﷺ کو سینگی لگائی تو آپ نے اسے ایک صا ع کھجور دینے کا حکم دیا اور اس کے مالکان سے کہا کہ اس کے خراج میں کچھ کمی کر دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
40- بَاب فِي كَسْبِ الإِمَاءِ
۴۰-باب: لونڈیوں کی کما ئی لینامنع ہے​


3425- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ كَسْبِ الإِمَاءِ۔
* تخريج: خ/الإجارۃ۲۰ (۲۲۸۳)، الطلاق ۵۱ (۵۳۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۸۷، ۳۴۷، ۳۸۲، ۴۳۷، ۴۵۴، ۴۸۰)، دي/البیوع ۷۷ (۲۶۶۲) (صحیح)
۳۴۲۵- ابوحازم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا کہ رسول اللہﷺ نے لونڈیوں کی کمائی لینے سے منع فرمایا ہے ۔


3426- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي طَارِقُ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: جَائَ رَافِعُ بْنُ رِفَاعَةَ إِلَى مَجْلِسِ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: لَقَدْ نَهَانَا نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ الْيَوْمَ، فَذَكَرَ أَشْيَائَ، وَنَهَى عَنْ كَسْبِ الأَمَةِ إِلا مَا عَمِلَتْ بِيَدِهَا، وَقَالَ هَكَذَا بِأَصَابِعِهِ نَحْوَ الْخَبْزِ وَالْغَزْلِ وَالنَّفْشِ۔
* تخريج:تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۱) (حسن)
۳۴۲۶- طا رق بن عبدالرحمن قر شی کہتے ہیں: را فع بن رفاعہ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں آئے اور کہنے لگے کہ آج اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں منع فرمایا ہے ، پھر انہوں نے کچھ چیزوں کا ذکر کیا اور کہا: آپ ﷺ نے لونڈی کی کمائی (زنا کی کمائی) سے منع فرمایا سوا ئے اس کمائی کے جو اس نے ہا تھ سے محنت کر کے کمائی ہو،پھر آپ ﷺ نے انگلیوں سے اشارہ کر کے بتایا، مثلاً روٹی پکانا ، چرخہ کاتنا ، روئی دھننا ،جیسے کام۔


3427- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ هُرَيْرٍ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعٍ -هُوَ ابْنُ خَدِيجٍ- قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ كَسْبِ الأَمَةِ حَتَّى يُعْلَمَ مِنْ أَيْنَ هُوَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۱) (حسن) بما قبلہ
۳۴۲۷- را فع بن خد یج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے لو نڈی کی کمائی سے منع فرمایا ہے جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس نے کہاں سے حاصل کیا ہے ۱؎؟۔
وضاحت ۱؎ : جب تک معلوم نہ ہوجائے کہ لونڈی نے کہاں سے کمایا ہے ، حلال طریقے سے یا حرام اس کی کمائی لینا صحیح نہیں ہے ، علماء کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے لونڈیوں کی کمائی سے اس واسطے منع کیا ہے کہ لوگ ان پر محصول مقررکرتے تھے ، اوروہ جہاں سے بھی ہوتا اسے لاکر اپنے مالک کو دیتی ، اگرکام نہ پاتیں تو زنا کی کمائی سے لاکر دیتیں اس واسطے ان کی کمائی سے اس وقت تک منع فرمایاجب تک کہ اس بات کی تحقیق نہ ہوجائے کہ اس کی کمائی حلال طریقے سے ہے ، بعض لوگوں کے نزدیک کمائی سے مرا د زنا کاری کی کمائی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
41- بَاب فِي حُلْوَانِ الْكَاهِنِ
۴۱-باب: کاہن اور نجومی کی اجرت کا بیان​


3428- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۳ (۲۲۳۷)، الإجارۃ ۲۰ (۲۲۸۲)، الطلاق ۵۱ (۵۳۴۶)، الطب ۴۶ (۵۷۶۱)، م/المساقاۃ ۹ (۱۵۶۷)، ت/البیوع ۴۶ (۱۲۷۶)، النکاح ۳۷ (۱۱۳۳)، الطب ۲۳ (۲۰۷۱)، ن/الصید والذبائح ۱۵ (۴۲۹۷)، ق/التجارات ۹ (۲۱۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۰)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۲۹(۶۸)، حم (۴/۱۱۸، ۱۲۰، ۱۴۰، ۱۴۱)، دي/البیوع ۳۴ (۲۶۱۰) (صحیح)
۳۴۲۸- ابومسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ عورت کی کمائی۲؎، اور کاہن کی اجرت ۳؎لینے سے منع فرمایا ہے۔
وضاحت ۱؎ : کتا نجس ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی ، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے ، اسی سبب سے کتے کی خرید وفروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر ، جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لئے ہو ۔
وضاحت ۲؎ : چونکہ زنا گناہ کبیرہ ہے اور فحش امور میں سے ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اورحرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت ۔
وضاحت۳؎ : علم غیب رب العالمین کے لئے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
42- بَاب فِي عَسْبِ الْفَحْلِ
۴۲-باب: نر سے جفتی کرا نے کی اجر ت کا بیان​


3429- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ۔
* تخريج: خ/الإجارۃ ۲۱ (۲۲۸۴)، ت/البیوع ۴۵ (۱۲۷۳)، ن/البیوع ۹۲ (۴۶۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴) (صحیح)
۳۴۲۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجر ت لینے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ مادہ کے حاملہ اور غیر حاملہ ہونے دونوں کا شبہ ہے اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
43- بَاب فِي الصَّائِغِ
۴۳-باب: سنار (جوہری) کا بیان​


3430- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْماَعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ [بْنُ سَلَمَةَ]، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَاجِدَةَ قَالَ: قَطَعْتُ مِنْ أُذُنِ غُلامٍ أَوْ قُطِعَ مِنْ أُذُنِي، فَقَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ حَاجًّا، فَاجْتَمَعْنَا إِلَيْهِ، فَرَفَعَنَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ هَذَا قَدْبَلَغَ الْقِصَاصَ، ادْعُوا لِي حَجَّامًا لِيَقْتَصَّ مِنْهُ، فَلَمَّا دُعِيَ الْحَجَّامُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنِّي وَهَبْتُ لِخَالَتِي غُلامًا، وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَارَكَ لَهَا فِيهِ، فَقُلْتُ لَهَا: لا تُسَلِّمِيهِ حَجَّامًا وَلا صَائِغًا وَلا قَصَّابًا >.
[قَالَ أَبو دَاود: رَوَى عَبْدُالأَعْلَى، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: ابْنُ مَاجِدَةَ رَجُلٌ مَنْ بَنِي سَهْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷) (ضعیف)
(اس کے راوی''ابو ماجدہ '' مجہول ہیں نیز ''عمر رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع نہیں ہے )
۳۴۳۰- ابو ما جدہ کہتے ہیں: میں نے ایک غلام کا کان کا ٹ لیا، یا میرا کان کاٹ لیا گیا، (یہ شک راوی کو ہوا ہے) ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں حج کے ارا دے سے آئے ، ہم سب ان کے پاس جمع ہو گئے ، تو انہوں نے ہمیں عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ معاملہ تو قصاص تک پہنچ گیا ہے ، کسی حجام (پچھنا لگانے والے) کو میرے پاس بلا کر لائو تا کہ وہ اس سے(جس نے کان کا ٹا ہے) قصاص لے، پھر جب حجا م (پچھنا لگانے والا) بلا کر لایا گیا ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرما تے ہوئے سنا ہے :'' میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام ہبہ کیا اور میں نے امید کی کہ انہیں اس غلام سے برکت ہو گی تو میں نے ان سے کہا کہ اس غلام کو کسی حجا م (سینگی لگانے والے)، سنار اور قصاب کے حوالے نہ کر دینا'' ۔
ابو داود کہتے ہیں : عبدالاعلی نے اسے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے ، وہ کہتے ہیں:ابن ماجدہ بنو سہم کے ایک فرد ہیں اور انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے(عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت مرسل ہے )


3431- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ [الْحُرَقِيِّ]، عَنِ ابْنِ مَاجِدَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ عُمَرَ [بْنِ الْخَطَّابِ]، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۳) (ضعیف)
(عمر رضی اللہ عنہ سے ابو ماجدہ کی روایت مر سل ہے نیز وہ مجہول ہیں )
۳۴۳۱- ابن ما جدہ سہمی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔


3432- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا الْعَلائُ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ [الْحُرَقِيُّ]، عَنِ ابْنِ مَاجِدَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۴۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۳) (ضعیف)
(دیکھئے حدیث سابق)
۳۴۳۲- اس سند سے بھی ابن ما جدہ سہمی عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
44- بَاب فِي الْعَبْدِ يُبَاعُ وَلَهُ مَالٌ
۴۴-باب: بیچے جا نے والے غلام کے پاس مال ہو تو وہ کس کا ہوگا؟​


3433- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلا أَنْ يَشْتَرِطَهُ الْمُبْتَاعُ، وَمَنْ بَاعَ نَخْلا مُؤَبَّرًا فَالثَّمَرَةُ لِلْبَائِعِ إِلا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ > ۔
* تخريج: خ/البیوع ۹۰ (۲۲۰۳)، ۹۲ (۲۲۰۶)، المساقاۃ ۱۷ (۲۳۷۹)، الشروط ۲ (۲۷۱۶)، م/البیوع ۱۵ (۱۵۴۳)، ت/البیوع ۲۵ (۱۲۴۴)، ن/البیوع ۷۴ (۴۶۴۰)، ق/التجارات ۳۱ (۲۲۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۹، ۸۳۳۰)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۷ (۱۰)، حم (۲/۶)، دي/البیوع ۲۷ (۲۶۰۳) (صحیح)
۳۴۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :''جس نے کسی غلام کو بیچا اوراس کے پاس مال ہو، تو اس کا مال بائع لے گا ، الا یہ کہتے ہیں کہ خریدار پہلے سے اس مال کی شرط لگالے ۱؎ ، ( ایسے ہی)جس نے تأبیر (اصلاح ) کئے ہوئے (گابھا دئے ہوئے کھجور کا درخت بیچا تو پھل بائع کا ہو گا الّا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شر ط لگا لے (کہ پھل میں لوں گا)''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ شرط لگائے کہ غلام کے پاس جو مال ہو گا ، وہ میرا ہو گا ، تو پھر وہ خریدا ر کو ملے گا۔


3434- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِقِصَّةِ الْعَبْدِ، وَعَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِقِصَّةِ النَّخْلِ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَاخْتَلَفَ الزُّهْرِيُّ وَنَافِعٌ فِي أَرْبَعَةِ أَحَادِيثَ هَذَا أَحَدُهَا]۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۰، ۱۱۵۵۸) (صحیح)
۳۴۳۴- عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے غلام کا وا قعہ روایت کیا ہے، اور نا فع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کھجور کے درخت کے واقعہ کی روایت کی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں:زہری اور نافع نے چار حدیثوں میں اختلاف کیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے۔


3435- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۱) (صحیح)
۳۴۳۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے کوئی ایسا غلام بیچا جس کے پاس مال ہو تو مال بیچنے والے کو ملے گا ،الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شرط لگا لے (کہ مال میں لوں گا تو پھر خریدار ہی پائے گا)''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
45- بَاب فِي التَّلَقِّي
۴۵-باب: تا جر وں سے بازار میں آنے سے پہلے جا کر ملنا اور ان سے سامانِ تجارت خریدنا منع ہے​


3436- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ [الْقَعْنَبِيُّ]، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلا تَلَقَّوُا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الأَسْوَاقَ >.
* تخريج: خ/البیوع ۷۱ (۲۱۶۸)، م/البیوع ۵ (۱۵۱۷)، ن/البیوع ۱۸ (۴۵۰۷)، ق/التجارات (۲۱۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۹، ۸۰۵۹)، وقد أخرجہ: ط/ البیوع ۴۵ (۹۵)، حم (۲/۷، ۲۲، ۶۳، ۹۱) (صحیح)
۳۴۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک کے خر یدار کو دوسرا نہ بلائے ، یا اس کے گاہک کو نہ تو ڑے ، مثلا ، یہ کہے کہ یہ اتنے میں دے رہا ہے، تو چل میرے ساتھ میں تجھے یہی مال اس سے اتنے کم میں دے دوں گا۔
وضاحت ۲؎ : چونکہ تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہوسکتا ہے، اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہوگا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں ۔


3437- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو الرَّقِّيَّ- عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ تَلَقِّي الْجَلَبِ، فَإِنْ تَلَقَّاهُ مُتَلَقٍّ [مُشْتَرٍ] فَاشْتَرَاهُ فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ بِالْخِيَارِ، إِذَا وَرَدَتِ السُّوقَ.
قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ: لا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ أَنْ يَقُولَ: إِنَّ عِنْدِي خَيْرًا مِنْهُ بِعَشَرَةٍ۔
* تخريج: ت/البیوع (۱۲۲۱، ۱۲۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۴۸)، وقد أخرجہ: م/البیوع ۵ (۱۵۱۹)، ن/البیوع ۱۶ (۴۵۰۵)، ق/التجارات ۱۶ (۲۱۷۹)، حم (۲/۲۸۴، ۴۰۳، ۴۸۸)، دي/البیوع ۳۲ (۲۶۰۸) (صحیح)
۳۴۳۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جلب سے یعنی مال تجا رت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جاکر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خر یدنے والے نے آگے بڑھ کر ( ارزاں) خریدلیا ، تو صاحب ساما ن کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے( کہ وہ چا ہے اس بیع کو با قی رکھے ، اور چاہے تو فسخ کر دے )۔
ابوعلی کہتے ہیں:میں نے ابوداود کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کر نے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے پاس اس سے بہتر مال دس روپے میں مل جائے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
46- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ النَّجْشِ
۴۶-باب: نجش :یعنی دوسرے خریداروں کو دھوکہ دینے کے لیے دام بڑھانا منع ہے​


3438- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < لا تَنَاجَشُوا >۔
* تخريج: خ/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۳)، والبیوع ۴ (۱۵۲۰)، ت/البیوع ۶۵ (۱۳۰۴)، ن/البیوع ۱۲ (۴۴۹۲)، ق/التجارات (۲۱۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۳)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۴۵ (۹۶)، حم (۴/۳۳۸، ۳۵۴، ۳۹۴، ۴۰۲، ۴۱۰) (صحیح)
۳۴۳۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' نجش نہ کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نجش یہ ہے کہ بیچی جانے والی چیز کی تعریف کر کے بائع کی مو افقت کی جائے، یا خریداری کا ارادہ نہ ہو لیکن دوسرے کو پھنسانے کے لئے بیچنے والے کے سامان کی قیمت بڑھا دی جائے۔
 
Top