• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
40- بَاب فِي ضَرْبِ الْوَجْهِ فِي الْحَدِّ
۴۰-باب: حد میں چہرے پر مارنا منع ہے​


4493- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَّقِ الْوَجْهَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۸۳)، وقد أخرجہ: حم ( ۲/۲۴۴، ۲۵۱، ۴۳۴) (صحیح)
۴۴۹۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب کوئی کسی کو مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے''۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 33- أوَّلُ كِتَاب الدِّيَاتِ }
۳۳-کتاب: دیت کے احکام ومسائل


1- بَاب النَّفْسِ بِالنَّفْسِ
۱-باب: جا ن کے بدلے جان لینے کا بیان​


4494- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ مُوسَى- عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ قُرَيْظَةُ وَالنَّضِيرُ، وَكَانَ النَّضِيرُ أَشْرَفَ مِنْ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ إِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْظَةَ رَجُلا مِنَ النَّضِيرِ قُتِلَ بِهِ، وَإِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنَ النَّضِيرِ رَجُلا مِنْ قُرَيْظَةَ فُودِيَ بِمِائَةِ وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ، فَلَمَّا بُعِثَ النَّبِيُّ ﷺ قَتَلَ رَجُلٌ مِنَ النَّضِيرِ رَجُلا مِنْ قُرَيْظَةَ، فَقَالُوا: ادْفَعُوهُ إِلَيْنَا نَقْتُلُهُ، فَقَالُوا: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ النَّبِيُّ ﷺ ، فَأَتَوْهُ، فَنَزَلَتْ {وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ} وَالْقِسْطُ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، ثُمَّ نَزَلَتْ {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ}.
[قَالَ أَبو دَاود: قُرَيْظَةُ وَالنَّضِيرُ جَمِيعًا مِنْ وَلَدِ هَارُونَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلام]۔
* تخريج: ن/القسامۃ ۴(۴۷۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۹) (صحیح)
۴۴۹۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قریظہ اورنضیر دو ( یہودی) قبیلے تھے، نضیرقریظہ سے زیادہ باعز ت تھے ، جب قریظہ کا کوئی آدمی نضیر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تو اسے اس کے بدلے قتل کر دیا جاتا، اور جب نضیر کا کوئی آدمی قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تو سو وسق کھجور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا جاتا، جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو نضیر کے ایک آدمی نے قریظہ کے ایک آدمی کو قتل کر دیا،تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسے ہمارے حوالے کرو، ہم اسے قتل کریں گے ، نضیر نے کہا: ہمارے اور تمہارے درمیان نبی اکرمﷺ فیصلہ کریں گے، چنا نچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو آیت {وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ} ( اگرتم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو) اتری، اور انصاف کی بات یہ تھی کہ جان کے بدلے جان لی جائے، پھر آیت {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ}( کیا یہ لوگ جاہلیت کے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں؟ نازل ہوئی۔
ابو داود کہتے ہیں: قریظہ اور نضیر دونوں ہا رون علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب لا يُؤْخَذُ أَحَدٌ بِجَرِيرَةِ أَخِيهِ أَوْ أَبِيهِ
۲-باب: کسی سے اس کے بھائی اور باپ کے جرم کا بدلہ نہ لیا جائے​


4495- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ إِيَادٍ- حَدَّثَنَا إِيَادٌ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ النَّبِيِّ ﷺ ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لأَبِي: <ابْنُكَ هَذَا >؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: < حَقًّا؟ > قَالَ: أَشْهَدُ بِهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ضَاحِكًا مِنْ ثَبْتِ شَبَهِي فِي أَبِي، وَمِنْ حَلِفِ أَبِي عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: < أَمَا إِنَّهُ لا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلاتَجْنِي عَلَيْهِ > وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ {وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى}۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۴۲۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۳۷) (صحیح)
۴۴۹۵- ابو رمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، آپ نے میرے والد سے پوچھا: ''یہ تمہارا بیٹا ہے؟''، میرے والد نے کہا: ہاں رب کعبہ کی قسم! آپ ﷺ نے فرمایا: ''سچ مچ؟''، انہوں نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ مسکرائے، کیونکہ میں اپنے والد کے مشابہ تھا، اور میرے والد نے قسم کھائی تھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''سنو! نہ یہ تمہارے جرم میں پکڑا جائے گا، اور نہ تم اس کے جرم میں''، اور پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی {وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کوئی جان کسی دوسری جان کا بو جھ نہ اٹھائے گی (الانعام:۱۶۴،الاسراء:۱۵، الفاطر:۱۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب الإِمَامِ يَأْمُرُ بِالْعَفْوِ فِي الدَّمِ
۳-باب: امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟​


4496- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي الْعَوْجَاءِ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أُصِيبَ بِقَتْلٍ أَوْ خَبْلٍ فَإِنَّهُ يَخْتَارُ إِحْدَى ثَلاثٍ: إِمَّا أَنْ يَقْتَصَّ، وَإِمَّا أَنْ يَعْفُوَ، وَإِمَّا أَنْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ، فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، وَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ >۔
* تخريج: ق/الدیات ۳ (۲۶۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۹)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۳۱)، دي/الدیات ۱ (۲۳۹۶) (ضعیف)
۴۴۹۶- ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص کو (اپنے کسی رشتہ دار کے) قتل ہونے، یا زخمی ہونے کی تکلیف پہنچی ہو اسے تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہوگا : یا تو قصاص لے لے، یا معاف کر دے، یا دیت لے لے ، اگر وہ ان کے علاوہ کوئی چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو ، اور جس نے ان ( اختیارات) میں زیادتی کی تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے''۔


4497- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ رُفِعَ إِلَيْهِ شَيْئٌ فِيهِ قِصَاصٌ إِلا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ۔
* تخريج: ن/القسامۃ ۲۳ (۴۷۸۷، ۴۷۸۸)، ق/الدیات ۳۵ (۲۶۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۱۳، ۲۵۲) (صحیح)
۴۴۹۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی نبی اکرمﷺ کے پاس کوئی ایسا مقدمہ لایا جاتا جس میں قصاص لازم ہوتا تو میں نے آپ کو یہی دیکھا کہ(پہلے )آپ اس میں معاف کر دینے کا حکم دیتے ۔


4498- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلْوَلِيِّ: < أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ > قَالَ: فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ، فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ، فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ۔
* تخريج: ت/الدیات ۱۳ (۱۴۰۷)، ن/القسامۃ ۳ (۴۷۲۶)، ق/الدیات ۳۴ (۲۶۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۷) (صحیح)
۴۴۹۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ایک شخص قتلکر دیا گیا تو یہ مقدمہ نبی اکرمﷺ کی عدالت میں پیش کیا گیا،آپ نے اس (قاتل ) کو مقتول کے وارث کے حوالے کر دیا، قاتل کہنے لگا: اللہ کے رسول!اللہ کی قسم! میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا ، تو رسول اللہ ﷺ نے وارث سے فرمایا:'' سنو! اگر یہ سچا ہے اور تم نے اسے قتل کر دیا، تو تم جہنم میں جائو گے'' ، یہ سن کر اس نے قاتل کو چھوڑ دیا، اس کے دونوں ہاتھ ایک تسمے سے بندھے ہوئے تھے ، وہ اپنا تسمہ گھسیٹتا ہوا نکلا، تو اس کا نام ذوالنسعۃ یعنی تسمہ والا پڑگیا۔


4499- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، حَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ جِيئَ بِرَجُلٍ قَاتِلٍ فِي عُنُقِهِ النِّسْعَةُ، قَالَ: فَدَعَا وَلِيَّ الْمَقْتُولِ فَقَالَ: < أَتَعْفُو >؟ قَالَ: لا، قَالَ: < أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < أَفَتَقْتُلُ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < اذْهَبْ بِهِ > فَلَمَّا وَلَّى قَالَ: < أَتَعْفُو؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < أَفَتَقْتُلُ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < اذْهَبْ بِهِ >، فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ قَالَ: < أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِهِ > قَالَ: فَعَفَا عَنْهُ، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ النِّسْعَةَ ۔
* تخريج: م/القسامۃ ۱۰ (۱۶۸۰)، ن/القسامۃ ۳ (۴۷۲۸)، القضاء ۲۵ (۵۴۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۹)، وقد أخرجہ: دي/الدیات ۸ (۲۴۰۴) (صحیح)
۴۴۹۹- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لا یا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا: ''کیا تم معاف کرو گے؟''، اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تو کیا دیت لوگے؟''، اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تو کیا تم قتل کروگے؟''، اس نے کہا: ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اچھا لے جائو اسے''، چنانچہ جب وہ ( اسے لے کر) چلا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا:'' کیا تم اسے معاف کرو گے؟''، اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' کیا تم دیت لوگے؟''، اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' کیا تم قتل کرو گے؟''، اس نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اسے لے جائو''، چو تھی بار میں آپ ﷺ نے فرمایا:'' سنو! اگر تم اسے معاف کردو گے تو یہ اپنا اور مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر پر اٹھائے گا''، یہ سن کر اس نے اسے معاف کر دیا۔
وائل کہتے ہیں: میں نے اسے دیکھا وہ اپنے گلے میں پڑا تسمہ گھسیٹ رہا تھا۔


4500- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۹)
۴۵۰۰- اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے ۔


4501- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِحَبَشِيٍّ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا قَتَلَ ابْنَ أَخِي قَالَ: < كَيْفَ قَتَلْتَهُ ؟ > قَالَ: ضَرَبْتُ رَأْسَهُ بِالْفَأْسِ وَلَمْ أُرِدْ قَتْلَهُ، قَالَ: < هَلْ لَكَ مَالٌ تُؤَدِّي دِيَتَهُ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: <أَفَرَأَيْتَ إِنْ أَرْسَلْتُكَ تَسْأَلُ النَّاسَ تَجْمَعُ دِيَتَهُ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَمَوَالِيكَ يُعْطُونَكَ دِيَتَهُ؟ > قَالَ: لا، قَالَ لِلرَّجُلِ: < خُذْهُ > فَخَرَجَ بِهِ لِيَقْتُلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَمَا إِنَّهُ إِنْ قَتَلَهُ كَانَ مِثْلَهُ > فَبَلَغَ بِهِ الرَّجُلُ حَيْثُ يَسْمَعُ قَوْلَهُ، فَقَالَ: < هُوَذَا فَمُرْ فِيهِ مَا شِئْتَ > فَقَالَ رَسُولُ اللَّه ﷺ : < أَرْسِلْهُ [وَقَالَ مَرَّةً دَعْهُ] يَبُوءُ بِإِثْمِ صَاحِبِهِ وَإِثْمِهِ فَيَكُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ > قَالَ: فَأَرْسَلَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۴۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۹) (صحیح)
۴۵۰۱- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک حبشی کو لے کرنبی اکرمﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اس نے میرے بھتیجے کو قتل کیا ہے، آپ نے اس سے پوچھا:'' تم نے اسے کیسے قتل کر دیا؟''، وہ بولا: میں نے اس کے سر پر کلہاڑی ماری اور وہ مر گیا، میرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا، آپ نے پوچھا:'' کیا تمہارے پاس مال ہے کہ تم اس کی دیت ادا کرسکو''،اس نے کہا:نہیں، آپ نے فرمایا:''بتاؤ اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم لوگوں سے مانگ کر اس کی دیت اکٹھی کر سکتے ہو؟''، اس نے کہا: نہیں ، آپ نے فرمایا:'' کیا تمہارے مالکان اس کی دیت ادا کر دیں گے؟''، اس نے کہا : نہیں، تب آپ نے اس شخص (مقتول کے وارث ) سے فرمایا:''اسے لے جائو''، جب وہ اسے قتل کر نے کے لئے لے کر چلا تو آپ نے فرمایا:'' اگر یہ اس کو قتل کردے گا تو اسی کی طرح ہو جائے گا''، وہ آپ کی بات سن رہا تھا جب اس کے کان میں یہ بات پہنچی تو اس نے کہا: وہ یہ ہے، آپ جو چاہیں اس کے سلسلے میں حکم فرمائیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اسے چھوڑ دو ، وہ اپنا اور تمہارے بھتیجے کا گناہ لے کر لوٹے گا اور جہنمیوں میں سے ہو گا''، چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔


4502- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ابْنِ سَهْلٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، وَكَانَ فِي الدَّارِ مَدْخَلٌ مَنْ دَخَلَهُ سَمِعَ كَلامَ مَنْ عَلَى الْبَلاطِ، فَدَخَلَهُ عُثْمَانُ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُتَغَيِّرٌ لَوْنُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونَنِي بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! قَالَ: وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلا بِإِحْدَى ثَلاثٍ: كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلامٍ، أَوْ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ > فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلا فِي إِسْلامٍ قَطُّ، وَلاأَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ، وَلا قَتَلْتُ نَفْسًا فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي؟.
قَالَ أَبو دَاود: عُثْمَانُ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ۔
* تخريج: ت/الفتن ۱ (۲۱۵۸)، ن/المحاربۃ ۶ (۴۰۲۴)، ق/الحدود ۱ (۲۵۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۶۱، ۶۲، ۶۵، ۷۰)، دی/ الحدود ۲ (۲۳۴۳) (صحیح)
۴۵۰۲- ابو امامہ بن سہل کہتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے ، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پرکھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا ، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے: ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کر نے کی دھمکی دی ہے ، تو ہم نے عرض کیا: امیرالمومنین !آپ کی ان سے حفا ظت کے لئے اللہ کا فی ہے ، اس پر انہوں نے کہا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کر نا چا ہتے ہیں؟میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:'' تین باتوں کے بغیر کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں:ایک یہ کہ اسلام لا نے کے بعد وہ کفر کا ارتکاب کرے،دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہو کر زناکرے،اورتیسرے یہ کہ ناحق کسی کوقتل کر دے'' ، تو اللہ کی قسم ! میں نے نہ تو جاہلیت میں، اور نہ اسلام لا نے کے بعد کبھی زنا کیا ، اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہے میں نے کبھی نہیں چا ہا کہ میرا دین اس کے بجائے کوئی اور ہو، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے ، تو آخر کس بنیاد پر مجھے یہ قتل کریں گے؟!۔
ابو داود کہتے ہیں: عثمان اور ابو بکر رضی اللہ عنہما نے تو جا ہلیت میں بھی شراب سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔


4503- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضُمَيْرَةَ الضُّمَرِيَّ (ح) و أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ سَعْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ السُّلَمِيَّ - وَهَذَا حَدِيثُ وَهْبٍ وَهُوَ أَتَمُ - يُحَدِّثُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مُوسَى: وَجَدِّهِ - وَكَانَا شَهِدَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حُنَيْنًا، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ وَهْبٍ - أَنْ مُحَلِّمَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ قَتَلَ رَجُلا مِنْ أَشْجَعَ فِي الإِسْلامِ، وَذَلِكَ أَوَّلُ غِيَرٍ قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَتَكَلَّمَ عُيَيْنَةُ فِي قَتْلِ الأَشْجَعِيِّ لأَنَّهُ مِنْ غَطَفَانَ، وَتَكَلَّمَ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ دُونَ مُحَلِّمٍ لأَنَّهُ مِنْ خِنْدِفَ، فَارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا عُيَيْنَةُ أَلا تَقْبَلُ الْغِيَرَ؟ > فَقَالَ عُيَيْنَةُ: لا، وَاللَّهِ حَتَّى أُدْخِلَ عَلَى نِسَائِهِ مِنَ الْحَرْبِ وَالْحُزْنِ مَا أَدْخَلَ عَلَى نِسَائِي، قَالَ: ثُمَّ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا عُيَيْنَةُ! أَلا تَقْبَلُ الْغِيَرَ؟ > فَقَالَ عُيَيْنَةُ مِثْلَ ذَلِكَ أَيْضًا، إِلَى أَنْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُكَيْتِلٌ عَلَيْهِ شِكَّةٌ وَفِي يَدِهِ دَرِقَةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَجِدْ لِمَا فَعَلَ هَذَا فِي غُرَّةِ الإِسْلامِ مَثَلا إِلا غَنَمًا وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا، اسْنُنِ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خَمْسُونَ فِي فَوْرِنَا هَذَا، وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ > وَذَلِكَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَمُحَلِّمٌ رَجُلٌ طَوِيلٌ آدَمُ وَهُوَ فِي طَرَفِ النَّاسِ، فَلَمْ يَزَالُوا حَتَّى تَخَلَّصَ فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي بَلَغَكَ، وَإِنِّي أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَقَتَلْتَهُ بِسِلَاحِكَ فِي غُرَّةِ الإِسْلامِ، اللَّهُمَّ لاتَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ > بِصَوْتٍ عَالٍ، زَادَ أَبُو سَلَمَةَ: فَقَامَ وَإِنَّهُ لَيَتَلَقَّى دُمُوعَهُ بِطَرَفِ رِدَائِهِ، قَالَ ابْنُ إِسْحَقَ: فَزَعَمَ قَوْمُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَغْفَرَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ .
[قَالَ أَبو دَاود: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ الْغِيَرُ: الدِّيَةُ ]۔
* تخريج: ق/الدیات ۴ (۲۶۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲۴)، وقد أخرجہ: حم ( ۵/۱۱۲، ۶/۱۰) (ضعیف)
۴۵۰۳- زبیربن عوام اور ان والدعوام رضی اللہ عنہما ( یہ دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے) سے روایت ہے کہ محلم بن جثامہ لیثی نے اسلام کے زمانے میں قبیلہ اشجع کے ایک شخص کو قتل کردیا، اور یہی پہلی دیت ہے جس کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ نے کیا، تو عیینہ نے اشجعی کے قتل کے متعلق گفتگو کی اس لئے کہ وہ قبیلہ عظفان سے تھا، اور اقرع بن حابس نے محلم کی جانب سے گفتگو کی اس لئے کہ وہ قبیلہ خندف سے تھا تو آوازیں بلند ہوئیں، اور شوروغل بڑھ گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''عیینہ ! کیا تم دیت قبول نہیں کرسکتے؟''، عیینہ نے کہا: نہیں ،اللہ کی قسم، اس وقت تک نہیں جب تک میں اس کی عورتوں کو وہی رنج وغم نہ پہنچا دوں جو اس نے میری عورتوں کو پہنچا یا ہے ، پھر آوازیں بلند ہوئیں اور شوروغل بڑھ گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عیینہ! کیا تم دیت قبول نہیں کرسکتے؟''،عیینہ نے پھراسی طرح کی بات کہی یہاں تک کہ بنی لیث کا ایک شخص کھڑا ہو ا جسے مکیتل کہا جاتا تھا، وہ ہتھیار باندھے تھا اور ہاتھ میں سپر لئے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شروع اسلام میں اس نے جو غلطی کی ہے ، اسے میں یوں سمجھتا ہوں جیسے چند بکریاں چشمے پر آئیں اور ان پر تیر پھینکے جائیں تو پہلے پہل آنے والیوں کو تیر لگے، اور پچھلی انہیں دیکھ کر ہی بھاگ جائیں، آج ایک طریقہ نکالئے اور کل اسے بدل دیجئے ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''پچاس اونٹ ابھی فوراً دے دو، اور پچا س مدینے لوٹ کر دینا''۔
اور یہ واقعہ ایک سفرکے دوران پیش آیا تھا ،محلم لمبا گندمی رنگ کا ایک شخص تھا ، وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا ، آخر کار جب وہ چھوٹ گیا تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے آبیٹھا،اور اس کی آنکھیں اشک بار تھیں اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے گناہ کیا ہے جس کی خبر آپ کو پہنچی ہے، اب میں توبہ کرتا ہوں، آپ اللہ سے میری مغفرت کی دعا فرمائیے، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ ﷺ نے بہ آواز بلند فرمایا:'' کیا تم نے اسے ابتداء اسلام میں اپنے ہتھیار سے قتل کیا ہے ، اے اللہ! محلم کونہ بخشنا'' ،ابو سلمہ نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ یہ سن کرمحلم کھڑا ہوا، وہ اپنی چادر کے کو نے سے اپنے آنسو پو نچھ رہا تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں: محلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد اس کے لئے مغفرت کی دعا فرمائی ۔
ابو داود کہتے ہیں:نضر بن شمیل کا کہنا ہے کہ غیر کے معنی دیت کے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب وَلِيِّ الْعَمْدِ يَرْضَى بِالدِّيَةِ
۴-باب: مقتول کا وارث دیت لینے پر ر ا ضی ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان​


4504- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا شُرَيْحٍ الْكَعْبِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَلا إِنَّكُمْ يَامَعْشَرَ خُزَاعَةَ! قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ مِنْ هُذَيْلٍ، وَإِنِّي عَاقِلُهُ، فَمَنْ قُتِلَ لَهُ بَعْدَ مَقَالَتِي هَذِهِ قَتِيلٌ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ: أَنْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ، أَوْ يَقْتُلُوا >۔
* تخريج: ت/الدیات ۱۳ (۱۴۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۸)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۳۱) (صحیح)
۴۵۰۴- ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''سنو خزاعہ کے لوگو! تم نے ہذیل کے اس شخص کو قتل کیا ہے، اور میں اس کی دیت دلائوں گا، میری اس گفتگو کے بعد کوئی قتل کیا گیا تو مقتول کے لوگوں کو دو باتوں کا اختیار ہو گا یا وہ دیت لے لیں یا قتل کر ڈالیں''۔


4505- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ [بْنِ مَزْيَدٍ] أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى، (ح) و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُودَى، أَوْ يُقَادَ > فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ يُقَالُ لَهُ أَبُو شَاةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! اكْتُبْ لِي، قَالَ الْعَبَّاسُ: اكْتُبُوا لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <اكْتُبُوا لأَبِي شَاةٍ> وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أَحْمَدَ.
قَالَ أَبو دَاود: اكْتُبُوا لِي يَعْنِي خُطْبَةَ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۰۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۳، ۱۵۳۶۵) (صحیح)
۴۵۰۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوے اور آپ نے فرمایا:'' جس کا کوئی قتل کیا گیا تو اسے اختیار ہے یا تو دیت لے لے، یا قصاص میں قتل کرے ''، یہ سن کر یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے ابوشاہ کہا جاتا تھا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے یہ لکھ دیجئے ( عباس بن ولید کی روایت ''اکتب لی'' کے بجائے اکتبوا لی ''یہ صیغۂ جمع ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ابو شاہ کے لئے لکھ دو''۔
ابو داود کہتے ہیں: اکتبو الی سے مراد نبی اکرمﷺ کا خطبہ ہے۔


4506- حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < لا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَمَنْ قَتَلَ [مُؤْمِنًا] مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ: فَإِنْ شَائُوا قَتَلُوهُ، وَإِنْ شَائُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ >۔
* تخريج: ن/ القسامۃ ۲۷ (۴۸۰۵)، ق/الدیات ۶ (۲۶۳۰)، ویأتی برقم (۴۵۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۰۹) (حسن صحیح)
۴۵۰۶- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' کسی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جو کسی مومن کو دانستہ طور پر قتل کرے گا ، وہ مقتول کے وارثین کے حوالے کر دیاجائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کریں اور چاہیں تو دیت لے لیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَنْ يَقْتُلُ بَعْدَ أَخْذِ الدِّيَةِ
۵-باب: جو شخص قاتل سے دیت لے کر پھر اس کو قتل کردے اس کے حکم کا بیان​


4507- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، وَأَحْسَبُهُ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا أُعْفِيَ مَنْ قَتَلَ بَعْدَ أَخْذِهِ الدِّيَةَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۲۱)، وقد أخرجہ: حم ( ۳/۳۶۳) (ضعیف)
۴۵۰۷- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں اسے ہر گز نہیں معاف کروں گا ۱؎ جو دیت لینے کے بعد بھی (قاتل کو) قتل کردے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس سے قصاص لے کر رہوں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِيمَنْ سَقَى رَجُلا سَمًّا أَوْ أَطْعَمَهُ فَمَاتَ أَيُقَادُ مِنْهُ؟
۶-باب: آدمی نے کسی کو زہر پلایا کھلا دیا اور وہ مر گیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟​


4508- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ ابْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ امْرَأَةً يَهُودِيَّةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا، فَجِيئَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: أَرَدْتُ لأَقْتُلَكَ، فَقَالَ: < مَا كَانَ اللَّهُ لِيُسَلِّطَكِ عَلَى ذَلِكَ > أَوْ قَالَ: < عَلَيَّ > فَقَالُوا: أَلا نَقْتُلُهَا؟ قَالَ: < لا >، فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۲۸ (۲۶۱۷)، م/السلام ۱۸ (۲۱۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۸۱) (صحیح)
۴۵۰۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہود ی عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک زہرآلود بکری لے کر آئی، آپ نے اس میں سے کچھ کھالیا، تو اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لا یا گیا، آپ نے اس سلسلے میں اس سے پوچھا، تو اس نے کہا : میرا ارادہ آپ کو مار ڈالنے کا تھا، آپ نے فرمایا: '' اللہ تجھے کبھی مجھ پر مسلط نہیں کرے گا''، صحابہ نے عرض کیا: کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ، آپ نے فرمایا:'' نہیں''، چنانچہ میں اس کا اثر برابر رسول اللہ ﷺ کے مسوڑھوں میں دیکھا کرتا تھا۔


4509- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ (ح) و حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ وأَبِي سَلَمَةَ، قَالَ هَارُونُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْيَهُودِ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ شَاةً مَسْمُومَةً، قَالَ: فَمَا عَرَضَ لَهَا النَّبِيُّ ﷺ .
قَالَ أَبو دَاود: هَذِهِ أُخْتُ مَرْحَبٍ الْيَهُودِيَّةُ الَّتِي سَمَّتِ النَّبِيَّ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۴۰، ۱۳۱۲۲، ۱۵۱۴۰)، وقد أخرجہ: خ/الجزیۃ ۷ (۳۱۶۹)، المغازي ۴۱ (۴۲۴۹)، الطب ۵۵ (۵۷۷۷) (صحیح)
( سفیان بن حسین کی زہری سے روایت میں ضعف ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے اور صحیح بخاری میں ہے)
۴۵۰۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے نبی اکرمﷺ کے پاس ایک زہر آلود بکری بھیجی، لیکن آپ نے اس عورت سے کوئی تعرض نہیں کیا۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ مر حب کی ایک یہودی بہن تھی جس نے نبی اکرمﷺ کو زہر دیا تھا۔


4510- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ أَنَّ يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الذِّرَاعَ، فَأَكَلَ مِنْهَا، وَأَكَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ > وَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا، فَقَالَ لَهَا: < أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ؟ > قَالَتِ الْيَهُودِيَّةُ: مَنْ أَخْبَرَكَ؟ قَالَ: <أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِي > لِلذِّرَاعِ، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: < فَمَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ؟ > قَالَتْ: قُلْتُ: إِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَنْ يَضُرَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ [نَبِيًّا] اسْتَرَحْنَا مِنْهُ، فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَلَمْ يُعَاقِبْهَا، وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ، وَاحْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِﷺ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنَ الشَّاةِ، حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ، وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي بَيَاضَةَ مِنَ الأَنْصَارِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۰۶)، وقد أخرجہ: دي/المقدمۃ ۱۱ (۶۹) (ضعیف)
۴۵۱۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری میں زہر ملا یا ، پھر اسے رسول اللہ ﷺ کو تحفہ میں بھیجا ، آپ نے دست کا گوشت لے کر اس میں سے کچھ کھایا، آپ کے ساتھ صحا بہ کی ایک جماعت نے بھی کھایا، پھر ان سے آپ نے فرمایا:''اپنے ہاتھ روک لو'' ، اور آپ نے اس یہود یہ کو بلا بھیجا، اور اس سے سوال کیا:'' کیا تم نے اس بکری میں زہر ملا یا تھا؟'' یہو دیہ بولی : آپ کو کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا:''دست کے اسی گوشت نے مجھے بتایا جو میرے ہاتھ میں ہے''، وہ بولی : ہاں(میں نے ملا یا تھا)، آپ نے پوچھا: ''اس سے تیرا کیا ارادہ تھا؟'' وہ بولی: میں نے سو چا: اگر نبی ہوں گے تو زہر نقصان نہیں پہنچائے گا، اور اگر نہیں ہوں گے تو ہم کو ان سے نجات مل جائے گی ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے معاف کر دیا، کوئی سز انہیں دی، اور آپ کے بعض صحابہ جنہوں نے بکری کا گوشت کھایا تھا انتقال کرگئے ، رسول اللہ ﷺ نے بکری کے گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے شانوں کے درمیان پچھنے لگوائے ،جسے ابو ہند نے آپ کو سینگ اور چھری سے لگایا، ابو ہند انصار کے قبیلہ بنی بیاضہ کے غلام تھے۔


4511- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَهْدَتْ لَهُ يَهُودِيَّةٌ بِخَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً، نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ، قَالَ: فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ الأَنْصَارِيُّ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ: < مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ>؟ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقُتِلَتْ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَمْرَ الْحِجَامَةِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۴۵۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۲) (حسن صحیح)
(ابوسلمہ نے اس حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن اس سے پہلے اور بعد کی حدیثوں میں صراحت ہے ملاحظہ ہو نمبر: ۴۵۰۹ اور ۴۵۱۲)
۴۵۱۱- ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے رسول اللہ ﷺ کو بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی، پھرراوی نے ویسے ہی بیان کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے،ابوسلمہ کہتے ہیں: پھر بشر بن براء بن معرور انصاری فوت ہوگئے ، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا بھیجا اور فرمایا:'' تجھے ایسا کر نے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟''، پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کے سلسلہ میں حکم دیا:تو وہ قتل کر دی گئی، اور انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے پہلی والی حدیث میں معاف کردیئے جانے کا ذکر ہے، جبکہ اس حدیث میں قتل کئے جانے کا ذکر ہے، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ شروع میں جب زہر کھلانے کا علم ہوا، اور کہا گیا کہ اسے قتل کردیا جائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، لیکن جب اس زہر کی وجہ سے بشر بن البراء بن معرور انتقال کرگئے تب آپ نے اس یہودیہ کو ان کے ورثہ کے حوالے کردیا، پھر وہ بطور قصاص قتل کی گئی۔ (عون المعبود ۱۲؍ ۱۴۹)


4512- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَلا يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ .
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَلا يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، زَادَ: فَأَهْدَتْ لَهُ يَهُودِيَّةٌ بِخَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً سَمَّتْهَا، فَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْهَا وَأَكَلَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: < ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ؛ فَإِنَّهَا أَخْبَرَتْنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ > فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ الأَنْصَارِيُّ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ: < مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ؟ > قَالَتْ: إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ الَّذِي صَنَعْتُ، وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَقُتِلَتْ، ثُمَّ قَالَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: <مَازِلْتُ أَجِدُ مِنَ الأَكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ قَطَعَتْ أَبْهَرِي >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۵۹) (حسن صحیح)
۴۵۱۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے، اورصدقہ نہیں کھاتے تھے، نیز اسی سند سے ایک اور مقام پر ابو ہریرہ کے ذکر کے بغیر صرف ابو سلمہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور صدقہ نہیں کھاتے تھے ، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ کو خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی جس میں اس نے زہر ملا رکھا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس میں سے کھایا اور لوگوں نے بھی کھایا، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: ''اپنے ہاتھ روک لو، اس(گوشت) نے مجھے بتایا ہے کہ وہ زہرآلود ہے'' ، چنانچہ بشر بن براء بن معرور انصاری مر گئے ،تو آپ نے اس یہو دی عورت کو بلا کر فرمایا:'' ایسا کر نے پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟'' وہ بولی: اگر آپ نبی ہیں تو جو میں نے کیا ہے وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ، او ر اگر آپ بادشاہ ہیں تو میں نے لوگوں کو آپ سے نجا ت دلا دی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو وہ قتل کر دی گئی، پھر آپ نے اپنی اس تکلیف کے بارے میں فرمایا:جس میں آپ نے وفات پائی کہ میں برابر خیبر کے اس کھانے کے اثر کو محسوس کرتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت آگیا کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی ۔


4513- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أُمَّ مُبَشِّرٍ قَالَتْ لِلنَّبِيِّ ﷺ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: مَا يُتَّهَمُ بِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! فَإِنِّي لا أَتَّهِمُ بِابْنِي [شَيْئًا] إِلا الشَّاةَ الْمَسْمُومَةَ الَّتِي أَكَلَ مَعَكَ بِخَيْبَرَ، وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < وَأَنَا لا أَتَّهِمُ بِنَفْسِي إِلا ذَلِكَ، فَهَذَا أَوَانُ قَطَعَتْ أَبْهَرِي >.
قَالَ أَبو دَاود: وَرُبَّمَا حَدَّثَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ بِهَذَا الْحَدِيثِ مُرْسَلا عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، وَرُبَّمَا حَدَّثَ بِهِ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَذَكَرَ عَبْدُالرَّزَّاقِ أَنَّ مَعْمَرًا كَانَ يُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مَرَّةً مُرْسَلا فَيَكْتُبُونَهُ وَيُحَدِّثُهُمْ مَرَّةً بِهِ فَيُسْنِدُهُ فَيَكْتُبُونَهُ، وَكُلٌّ صَحِيحٌ عِنْدَنَا، قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ: فَلَمَّا قَدِمَ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَلَى مَعْمَرٍ أَسْنَدَ لَهُ مَعْمَرٌ أَحَادِيثَ كَانَ يُوقِفُهَا ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۹، ۱۹۸۱۵، ۱۸۳۵۸، ۱۸۳۷۵)، وقد أخرجہ: حم ( ۶/۱۸) (صحیح)
۴۵۱۳- کعب بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ام مبشر رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے اس مر ض میں جس میں آپ نے وفات پائی کہا: اللہ کے رسول!آپ کا شک کس چیز پر ہے؟ میرے بیٹے کے سلسلہ میں میرا شک تو اس زہر آلود بکری پر ہے جو اس نے آپ کے ساتھ خیبر میں کھائی تھی،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''اپنے سلسلہ میں بھی میرا شک اسی پر ہے، اور اب یہ وقت آچکا ہے کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں: عبدالرزاق نے کبھی اس حدیث کو معمر سے، معمر نے زہری سے، زہری نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور کبھی معمر نے اسے زہری سے اور، زہری نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔
اور عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے کہ معمر اس حدیث کوان سے کبھی مرسلاً روایت کرتے تو وہ اسے لکھ لیتے اورکبھی مسنداًا روایت کرتے تو بھی وہ اسے بھی لکھ لیتے، اور ہمارے نزدیک دونوصحیح ہے۔
عبدالرزاق کہتے ہیں: جب ابن مبا رک معمر کے پاس آئے تو معمر نے وہ تمام حدیثیں جنہیں وہ مو قوفاً روایت کرتے تھے ان سے متصلًا روایت کیں۔


4514- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ مُبَشِّرٍ، قَالَ أَبُو سَعِيدِ بْنُ الأَعْرَابِيِّ: كَذَا قَالَ عَنْ أُمِّهِ، وَالصَّوَابُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَخْلَدِ بْنِ خَالِدٍ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ، قَالَ: فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ؛ فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَقَالَ: < مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ؟ > فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ؛ فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقُتِلَتْ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْحِجَامَةَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۹، ۱۸۳۵۸) (صحیح)
۴۵۱۴- ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئیں پھر راوی نے مخلد بن خالد کی حدیث کا مفہوم اسی طرح ذکر کیا جیسے جابرکی روایت میں ہے، اس میں ہے کہ بشربن براء بن معر ور مر گئے ، تو آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور پوچھا:'' یہ تجھے ایسا کر نے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟''، پھر راوی نے وہی باتیں ذکر کیں جو جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور وہ قتل کر دی گئی لیکن انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ أَوْ مَثَّلَ بِهِ أَيُقَادُ مِنْهُ
۷-باب: جو شخص اپنے غلام کو قتل کردے یا اس کے اعضا کاٹ لے تو کیا اس سے قصاص لیا جائے گا؟​


4515- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ (ح) وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ >۔
* تخريج: ت/الدیات ۱۸ (۱۴۱۴)، ن/القسامۃ ۶ (۴۷۴۰)، ۷ (۴۷۴۳)، ۱۲ (۴۷۵۷)، ق/الدیات ۲۳ (۲۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۶)، وقد أخرجہ: حم ( ۵/۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۸)، دی/ الدیات ۷ (۲۴۰۳) (ضعیف)
(سند میں قتادہ اورحسن بصری مدلس ہیں ، اورروایت عنعنہ سے ہے، نیز حسن بصری نے عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہ سے دوسری احادیث نہیں سنی ہے)
۴۵۱۵- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کریں گے، اور جو اس کے اعضاء کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹیں گے''۔


4516- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ خَصَى عَبْدَهُ خَصَيْنَاهُ > ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَحَمَّادٍ .
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ هِشَامٍ، مِثْلَ حَدِيثِ مُعَاذٍ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۶) (ضعیف)
۴۵۱۶- اس سند سے بھی قتادہ سے بھی اسی کے مثل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اسے خصی کریں گے'' ، اس کے بعد راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے شعبہ اور حماد کی حدیث میں ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے ابو داود طیالسی نے ہشام سے معاذ کی حدیث کی طرح نقل کیا ہے۔


4517- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِ شُعْبَةَ مِثْلَهُ، زَادَ: ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ هَذَا الْحَدِيثَ؛ فَكَانَ يَقُولُ: لايُقْتَلُ حُرٌّ بِعَبْدٍ۔
* تخريج: وانظر حدیث رقم : (۴۵۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۶) (صحیح)
۴۵۱۷- اس سند سے بھی قتادہ سے شعبہ کی سند والی روایت کے مثل مروی ہے اس میں اضافہ ہے کہ پھر حسن (راوی حدیث) اس حدیث کو بھول گئے چنانچہ وہ کہتے تھے:'' آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا''۔


4518- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لا يُقَادُ الْحُرُّ بِالْعَبْدِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۵۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۳۶) (صحیح)
۴۵۱۸- حسن بصری کہتے ہیں: آ زاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائیگا۔


4519- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ تَسْنِيمٍ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا سَوَّارٌ أَبُو حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مُسْتَصْرِخٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: جَارِيَةٌ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: < وَيْحَكَ مَا لَكَ؟ > قَالَ: شَرًّا، أَبْصَرَ لِسَيِّدِهِ جَارِيَةً لَهُ فَغَارَ فَجَبَّ مَذَاكِيرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < عَلَيَّ بِالرَّجُلِ > فَطُلِبَ فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ > فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ، عَلَى مَنْ نُصْرَتِي؟ قَالَ: < عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ > أَوْ قَالَ: < كُلِّ مُسْلِمٍ >.
[قَالَ أَبو دَاود: الَّذِي عَتَقَ كَانَ اسْمُهُ رَوْحُ بْنُ دِينَارٍ].
[قَالَ أَبو دَاود: الَّذِي جَبَّهُ زِنْبَاعٌ].
[قَالَ أَبو دَاود: هَذَا زِنْبَاعٌ أَبُو رَوْحٍ كَانَ مَوْلَى الْعَبْدِ]۔
* تخريج: ق/الدیات ۲۹ (۲۶۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۱۶، ۴۵۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۲، ۲۲۵) (حسن)
۴۵۱۹- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص چیختا چلاتا نبی اکرمﷺ کے پاس آیا ، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس کی ایک لونڈی تھی ، آپ نے فرمایا: ''ستیاناس ہو تمہارا، بتاؤ کیا ہوا ؟''، اس نے کہا : برا ہوا، میرے آقا کی ایک لونڈی تھی اسے میں نے دیکھ لیا ،تو اسے غیرت آئی، اس نے میرا ذکر کٹوا دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اس شخص کو میرے پاس لائو''، تو اسے بلایا گیا ، مگر کوئی اسے نہ لا سکا تب آپ نے(اس غلام سے) فرمایا:'' جاؤ تم آزاد ہو''، اس نے کہا: اللہ کے رسول !میری مدد کون کرے گا؟ آپ نے فرمایا:'' ہر مومن پر''، یا کہا:'' ہر مسلمان پر تیری مدد لازم ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں: جو آزاد ہوا اس کا نام روح بن دینار تھا، اور جس نے ذکر کاٹا تھا وہ زنباع تھا، یہ زنبا ع ابوروح ہیں جو غلام کے آقا تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب الْقَتْلِ بِالْقَسَامَةِ
۸-باب: قسامہ کا بیان ۱؎​


4520- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، انْطَلَقَا قِبَلَ خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ، فَقُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَاتَّهَمُوا الْيَهُودَ، فَجَاءَ أَخُوهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَابْنَا عَمِّهِ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ، فَأَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ ، فَتَكَلَّمَ عَبْدُالرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الْكُبْرَ الْكُبْرَ > أَوْ قَالَ: < لِيَبْدَأِ الأَكْبَرُ > فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَيُدْفَعُ بِرُمَّتِهِ > قَالُوا: أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ، كَيْفَ نَحْلِفُ؟ قَالَ: < فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَوْمٌ كُفَّارٌ، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ: قَالَ سَهْلٌ: دَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ يَوْمًا فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الإِبِلِ رَكْضَةً بِرِجْلِهَا، قَالَ حَمَّادٌ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ .
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ وَمَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ فِيهِ: <أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ، أَوْ قَاتِلِكُمْ ؟> وَلَمْ يَذْكُرْ بِشْرٌ دَمًا؛ و قَالَ عَبْدَةُ عَنْ يَحْيَى كَمَا قَالَ حَمَّادٌ، وَرَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى، فَبَدَأَ بِقَوْلِهِ: < تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا يَحْلِفُونَ > وَلَمْ يَذْكُرِ الاسْتِحْقَاقَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا وَهْمٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ۔
* تخريج: خ/الصلح ۷ (۲۷۰۲)، الجزیۃ ۱۲ (۳۱۷۳)، الأدب ۸۹ (۶۱۴۳)، الدیات ۲۲ (۶۸۹۸)، الأحکام ۳۸ (۷۱۹۲)، م/القسامۃ ۱ (۱۶۶۹)، ت/الدیات ۲۳ (۱۴۴۲)، ن/القسامۃ ۲ (۴۷۱۴)، ق/الدیات ۲۸ (۲۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۴، ۱۵۵۳۶)، وقد أخرجہ: ط/القسامۃ ۱ (۱)، حم ( ۴/۲، ۳)، دي/الدیات ۲ (۲۳۹۸) (صحیح)
۴۵۲۰- سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں(چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علاحدہ ہو گئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرمﷺ کے پاس آئے ، عبدالرحمن بن سہل جوان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بڑوں کا لحاظ کرو''(اور انہیں گفتگو کا موقع دو) یا یوں فرمایا:'' بڑے کو پہلے بولنے دو''، چنانچہ ان دونوں ( حویصہ اور محیصہ) نے اپنے عزیز کے سلسلے میں گفتگو کی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے پچاس آدمی یہودیوں کے کسی آدمی پر قسم کھائیں تو اسے رسی سے باندھ کر تمہارے حوالے کر دیا جائے''،ان لوگوں نے کہا:یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے، پھر ہم کیسے قسم کھالیں؟ آپ نے فرمایا:'' پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں کی قسم کے ذریعہ خود کوتم سے بچا لیں گے''، وہ بولے : اللہ کے رسول! یہ کافر لوگ ہیں(ان کی قسموں کا کیا اعتبار؟) چنانچہ رسو ل ا للہﷺ نے انہیں اپنی طرف سے دیت دے دی، سہل کہتے ہیں: ایک دن میں ان کے شتر خانے میں گیا ، تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی، حماد نے یہی کہا یا اس جیسی کوئی بات کہی ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے بشر بن مفضل اور مالک نے یحيٰ بن سعید سے روایت کیا ہے اس میں ہے:'' کیا تم پچاس قسمیں کھاکر اپنے ساتھی کے خون، یا اپنے قاتل کے مستحق ہو تے ہو؟''، البتہ بشر نے لفظ دم یعنی خون کا ذکر نہیں کیا ہے ،اور عبدہ نے یحيٰ سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے حماد نے کی ہے، اور اسے ابن عیینہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے، تو انہوں نے ابتداء ''تبرئكم يهود بخمسين يمينًا يحلفون'' سے کی ہے اور استحقاق کا ذکرانہوں نے نہیں کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ ابن عیینہ کا وہم ہے۔
وضاحت ۱؎ : قسامہ یہ ہے کہ جب مقتول کی نعش کسی بستی یا محلہ میں ملے اور اس کا قاتل معلوم نہ ہو تو مقتول کے ورثہ کا جس پر گمان ہو اس پر پچاس قسمیں کھائیں کہ اس نے قتل کیا ہے اگر مقتول کے ورثہ قسم کھانے سے انکار کریں تو اہل محلہ میں سے جنہیں وہ اختیار کریں ان سے قسم لی جائے گی، اگر قسم کھالیں تو ان پر کچھ مواخذہ نہیں ، اور قسم نہ کھانے کی صورت میں وہ دیت دیں، اور اگر نہ مقتول کے ولی قسم کھائیں، اور نہ ہی بستی یا محلہ والے تو سرکاری خزانہ سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائے گی، جیسا کہ آپ ﷺ نے ادا کیا۔


4521- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ هُوَ وَرِجَالٌ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ، فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ، فَذَكَرَ لَهُمْ ذَلِكَ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ -وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ- وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ [لَهُ] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كَبِّرْ كَبِّرْ > يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ > فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِذَلِكَ، فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِحُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ: < أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟ > قَالُوا: لا، قَالَ: < فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ > قَالُوا: لَيْسُوا مُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۳۶، ۴۶۴۴، ۱۵۵۹۲) (صحیح)
۴۵۲۱- سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوںسے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما کسی پریشانی کی وجہ سے جس سے وہ دو چار ہوئے خیبر کی طرف نکلے پھر کسی نے آکر محیصہ کو خبر دی کہ عبداللہ بن سہل ما ر ڈالے گئے اور انہیں کسی کنویں یا چشمے میں ڈال دیا گیا، وہ(محیصہ) یہود کے پاس آئے اور کہنے لگے: قسم اللہ کی! تم نے ہی انہیں قتل کیا ہے ، وہ بولے : اللہ کی قسم ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اوران سے اس کا ذکر کیا،پھر وہ ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل تینوں ( رسول اللہ ﷺ کے پاس) آئے، محیصہ نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کیونکہ وہی خیبر میں ساتھ تھے ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بڑوں کو بڑائی دو''، آپ کی مراد عمر میں بڑائی سے تھی چنانچہ حویصہ نے گفتگو کی، پھر محیصہ نے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''یاتو یہ لوگ تمہارے آدمی کی دیت دیں، یا لڑائی کے لئے تیار ہو جائیں''، پھر آپ نے اس سلسلے میں انہیں خط لکھا تو انہوں نے اس کا جواب لکھاکہ اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے، تو آپ نے حویصہ ، محیصہ اور عبدالرحمن سے پوچھا:'' کیا تم قسم کھائو گے کہ اپنے بھائی کے خون کامستحق بن سکو؟''، انہوں نے کہا:نہیں، اس پرآپ نے فرمایا:'' تو پھر یہودتمہارے لئے قسم کھائیں گے''، اس پر وہ کہنے لگے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کر دی ، اور سو اونٹ بھیج دیے گئے یہاں تک کہ وہ ان کے مکان میں داخل کر دیے گئے، سہل کہتے ہیں: انہیں میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لا ت ماری ہے۔
ٍ

4522- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ابْنِ سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَتَلَ بِالْقَسَامَةِ رَجُلا مِنْ بَنِي نَصْرِ بْنِ مَالِكٍ بِبَحْرَةِ الرُّغَاءِ عَلَى شَطِّ لِيَّةِ الْبَحْرَةِ، قَالَ: الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ مِنْهُمْ، وَهَذَا لَفْظُ مَحْمُودٍ بِبَحْرَةٍ أَقَامَهُ مَحْمُودٌ وَحْدَهُ عَلَى شَطِّ لِيَّةَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۷۳) (ضعیف)
(اس سند میں عمرو بن شعیب نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے، عموماً وہ اپنے والد اور ان کے والد عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کرتے ہیں، اس لئے سند میں اعضال ہیں یعنی مسلسل دو راوی ایک جگہ سے ساقط ہیں)
۴۵۲۲- عمرو بن شعیب رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے قسامہ سے بنی نصربن مالک کے ایک آدمی کو بحرۃالرغاء ۱؎ میں لیّۃالبحرہ ۲؎ کے کنارے پر قتل کیا، راوی کہتے ہیں:قاتل اورمقتول دونوں بنی نصر کے تھے،''ببحرة الرغاء على شطر لية البحر''کے یہ الفاظ محمود کے ہیں اورمحمود اس حدیث کے سلسلہ میں سب سے زیادہ درست آدمی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ایک جگہ کا نام ہے۔
وضاحت ۲؎ : ایک وادی کا نام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9 - بَاب فِي تَرْكِ الْقَوَدِ بِالْقَسَامَةِ
۹-باب: قسامہ میں قصاص نہ لینے کا بیان​


4523- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍالطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، زَعَمَ أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلا، فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا، فَقَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ وَلا عَلِمْنَا قَاتِلا، فَانْطَلَقْنَا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ ﷺ ، قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ : < تَأْتُونِي بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ هَذَا؟ > قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ: < فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ؟ > قَالُوا: لا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، فَكَرِهَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُبْطِلَ دَمَهُ، فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۴۵۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۴، ۱۵۵۳۶، ۱۵۵۹۲) (صحیح)
۴۵۲۳- بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری ان سے بیان کیا کہ ان کی قوم کے چند آدمی خیبر گئے، وہاں پہنچ کر وہ جدا ہو گئے، پھراپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا توجن کے پاس اسے پا یاان سے ان لوگوں نے کہا : تم لوگوں نے ہی ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے، وہ کہنے لگے: ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہمیں قاتل کا پتا ہے چنانچہ ہم لوگ اللہ کے نبی اکرمﷺ کے پاس گئے، تو آپ نے ان سے فرمایا:'' تم اس پر گواہ لے کر آئو کہ کس نے اسے مارا ہے؟'' انہوں نے کہا: ہمارے پاس گوا ہ نہیں ہے ،اس پر آپ نے فرمایا:'' پھر وہ یعنی یہود تمہارے لئے قسم کھائیں گے''، وہ کہنے لگے : ہم یہودیوں کی قسموں پر راضی نہیں ہوں گے، پھرآپ کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اس کا خون ضا ئع ہوجائے چنانچہ آپ نے اس کی دیت زکوۃ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ خوددے دی۔


4524- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَاشِدٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، حَدَّثَنَا عَبَايَةُ ابْنُ رِفَاعَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: أَصْبَحَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ مَقْتُولا بِخَيْبَرَ، فَانْطَلَقَ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: < لَكُمْ شَاهِدَانِ يَشْهَدَانِ عَلَى قَتْلِ صَاحِبِكُمْ؟ > قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ! لَمْ يَكُنْ ثَمَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّمَا هُمْ يَهُودُ، وَقَدْ يَجْتَرِئُونَ عَلَى أَعْظَمَ مِنْ هَذَا، قَالَ: < فَاخْتَارُوا مِنْهُمْ خَمْسِينَ فَاسْتَحْلَفُوهُمْ > فَأَبَوْا، فَوَدَاهُ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ عِنْدِهِ
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۴) (صحیح)
۴۵۲۴- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک آدمی خیبر میں قتل کردیاگیا،تو اس کے وارثین نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے اس کاذکرکیا، آپ نے پوچھا:'' کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جوتمہارے ساتھی کے مقتول ہو جانے کی گواہی دیں؟''، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! وہاں پر تو مسلمانوں میں سے کوئی نہیں تھا ، وہ تو سب کے سب یہودی ہیں اوروہ اس سے بڑے جر م کی بھی جرأت کر لیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تو ان میں پچاس افراد منتخب کر کے ان سے قسم لے لو''،لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کی۔


4525- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، قَالَ: إِنَّ سَهْلا، وَاللَّهِ، أَوْهَمَ الْحَدِيثَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَتَبَ إِلَى يَهُودَ أَنَّهُ قَدْ وُجِدَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ قَتِيلٌ فَدُوهُ، فَكَتَبُوا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ خَمْسِينَ يَمِينًا مَا قَتَلْنَاهُ وَلا عَلِمْنَا قَاتِلا، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عِنْدِهِ بِمِائَةِ نَاقَةٍ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۵۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۸۶) (منکر)
۴۵۲۵- عبدالرحمن بن بجید کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم،سہل کو اس حدیث میں وہم ہوگیا ہے، واقعہ یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کو لکھا کہ تمہارے بیچ ایک مقتول ملا ہے تو تم اس کی دیت ادا کرو، تو انہوں نے جواب میں لکھا: ہم اللہ کی پچاس قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا پتا ہے، وہ کہتے ہیں:اس پر اس کی دیت رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے سو اونٹ(خود) ادا کی۔


4526- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِجَالٍ مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِلْيَهُودِ وَبَدَأَ بِهِمْ: < يَحْلِفُ مِنْكُمْ خَمْسُونَ رَجُلا > فَأَبَوْا، فَقَالَ لِلأَنْصَارِ: <اسْتَحِقُّوا> قَالُوا: نَحْلِفُ عَلَى الْغَيْبِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟!! فَجَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ دِيَةً عَلَى يَهُودَ لأَنَّهُ وُجِدَ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۸۸، ۱۵۶۹۱) (شاذ)
۴۵۲۶- انصار کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے پہلے یہود سے کہا:'' تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں'' توانہوں نے انکار کیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے انصار سے کہا:'' تم اپنا حق ثابت کرو''، انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! ہم ایسی بات پر قسم کھائیں جسے ہم نے دیکھانہیں ہے؟ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت یہود سے دلوائی اس لئے کہ وہ انہیں کے درمیان پا یا گیا تھا ۔
 
Top