لقطہ کے احکام و مسائل
{ 4- كِتَاب اللُّقَطَةِ }
۴-کتاب: لقطہ کے احکام ومسائل ۱؎
وضاحت ۱؎ : ’’لقطة‘‘: راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیزیں۔
1- بَاب التَّعْرِيفِ بِاللُّقَطَةِ
۱-باب: لقطہ کی پہچان کرانے کا بیان
1701- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَوَجَدْتُ سَوْطًا، فَقَالا لِيَ: اطْرَحْهُ، فَقُلْتُ: لا، وَلَكِنْ إِنْ وَجَدْتُ صَاحِبَهُ وَإِلا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ، فَحَجَجْتُ، فَمَرَرْتُ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُ أُبَيَّ ابْنَ كَعْبٍ، فَقَالَ: وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: < عَرِّفْهَا حَوْلاً >، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: < عَرِّفْهَا حَوْلا >، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: < عَرِّفْهَا حَوْلا >، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: لَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ: <احْفَظْ عَدَدَهَا وَوِكَائَهَا وَوِعَائَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا >، وَقَالَ: [وَ]لا أَدْرِي أَثَلاثًا، قَالَ: < عَرِّفْهَا > أَوْ مَرَّةً وَاحِدَةً .
* تخريج: خ/اللقطۃ ۱ (۲۴۲۶)، ۱۰ (۲۴۳۷)، م/اللقطۃ ۱ (۱۷۲۳)، ت/الأحکام ۳۵ (۱۳۷۴)، ن/الکبری/ اللقطۃ (۵۸۲۰، ۵۸۲۱)، ق/اللقطۃ ۲ (۲۵۰۶)، ( تحفۃ الأشراف :۲۸)، وقدأخرجہ: حم (۵/۱۲۶، ۱۲۷) (صحیح)
۱۷۰۱- سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا، ان دونوں نے کہا: اسے پھینک دو، میں نے کہا: نہیں، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لا ئوں گا، پھر میں نے حج کیا، میرا گزر مدینے سے ہوا، میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی، اس میں سو (۱۰۰) دینار تھے، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے فرمایا: ’’ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ‘‘، چنانچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک سال اور پہچان کراؤ‘‘،میں نے ایک سال اور پہچان کرائی، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک سال پھر پہچان کراؤ‘‘، چنانچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے عرض کیا: مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی، اگر اس کا مالک آجائے (تو بہتر ) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا‘‘۔
شعبہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ سلمہ نے’’عرفها‘‘ تین بار کہا تھا یا ایک بار۔
1702- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلا، وَقَالَ: ثَلاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَلا أَدْرِي قَالَ لَهُ ذَلِكَ فِي سَنَةٍ أَوْ فِي ثَلاثِ سِنِينَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۲۸) (صحیح)
۱۷۰۲- اس سند سے بھی شعبہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، وہ کہتے ہیں :
’’عَرِّفْهَا حَوْلاً‘‘ تین بار کہا، البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ نے اسے ایک سال میں کرنے کے لئے کہا یا تین سال میں۔
1703- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ؛ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِي التَّعْرِيفِ قَالَ: عَامَيْنِ أَوْ ثَلاثَةً، وَقَالَ: < اعْرِفْ عَدَدَهَا وَوِعَائَهَا وَوِكَائَهَا > زَادَ: < فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عَدَدَهَا وَوِكَائَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ >.
[قَالَ أَبودَاود: لَيْسَ يَقُولُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ إِلا حَمَّادٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، يَعْنِي <فَعَرَفَ عَدَدَهَا >]۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۷۰۱، ( تحفۃ الأشراف :۲۸) (صحیح)
۱۷۰۳- حماد کہتے ہیں سلمہ بن کہیل نے ہم سے اسی سند سے اور اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اس میں ہے: آپ ﷺ نے (لقطہ کی) پہچان کرانے کے سلسلے میں فرمایا:’’دو یا تین سال تک (اس کی پہچان کراؤ)‘‘، اورفرمایا: ’’اس کی تعداد جان لو اور اس کی تھیلی اور اس کے سربندھن کی پہچان کرلو‘‘، اس میں اتنا مزید ہے: ’’اگر اس کا مالک آجائے اور اس کی تعداد اور سر بندھن بتا دے تو اسے اس کے حوالے کر دو‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:
’’فَعَرَفَ عَدَدَهَا‘‘ کا کلمہ اس حدیث میں سوائے حماد کے کسی اور نے نہیں ذکر کیا ہے۔
1704- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ اللُّقَطَةِ، قَالَ: < عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَائَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ >، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: < خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ > قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الإِبِلِ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ؟ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَقَالَ: < مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا رَبُّهَا >۔
* تخريج: خ/العلم ۲۸ (۹۱)، المساقاۃ ۱۲ (۲۳۷۲)، اللقطۃ ۲ (۲۴۲۷)، ۳ (۲۴۲۸)، ۴ (۲۴۲۹)، ۹ (۲۴۳۶)، ۱۱ (۲۴۳۸)، الطلاق ۲۲ (۵۲۹۲مرسلاً)، الأدب ۷۵ (۶۱۱۲)، م/اللقطۃ ۳۱ (۱۷۲۲)، ت/الأحکام ۳۵ (۱۳۷۲)، ن/ الکبری /اللقطۃ (۵۸۱۴، ۵۸۱۵، ۵۸۱۶)، ق/اللقطۃ ۱ (۲۵۰۴)، ( تحفۃ الأشراف : ۳۷۶۳)، وقد أخرجہ: ط/الأقضیۃ ۳۸ (۴۶، ۴۷)، حم (۴/۱۱۵، ۱۱۶، ۱۱۷) (صحیح)
۱۷۰۴- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ (پڑی ہوئی چیز) کے بارے میں پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک سال تک اس کی پہچان کرائو، پھر اس کی تھیلی اور سر بندھن کو پہچان لو، پھراسے خر چ کر ڈالو، اب اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دو‘‘، اس نے کہا: اللہ کے رسول! گم شدہ بکری کو ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو پکڑ لو، اس لئے کہ وہ یا تو تمہارے لئے ہے، یا تمہارے بھائی کے لئے، یا بھیڑیے کے لئے‘‘، اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! گم شدہ اونٹ کو ہم کیا کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار سرخ ہو گئے یا آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا: ’’تمہیں اس سے کیا سروکار؟اس کا جو تا ۱؎ اوراس کا مشکیزہ اس کے سا تھ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک آجائے ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے، اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور بار بار پانی پینے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کا بھی خوف نہیں کہ وہ خود اپنا دفاع کرلیتا ہے، اس لئے اسے پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
1705- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: < سِقَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ >، وَلَمْ يَقُلْ: < خُذْهَا فِي ضَالَّةِ الشَّاءِ >، وَقَالَ فِي اللُّقَطَةِ: < عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلا فَشَأْنُكَ بِهَا >، وَلَمْ يَذْكُرِ: < اسْتَنْفِقْ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَسُلَيْمَانُ بْنُ بِلالٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ رَبِيعَةَ مِثْلَهُ لَمْ يَقُولُوا: < خُذْهَا >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۳۷۶۳) (صحیح)
۱۷۰۵- اس سند سے بھی مالک سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ: ’’ وہ اپنی سیرابی کے لئے پانی پر آجاتا ہے اور درخت کھا لیتا ہے‘‘، اس روایت میں گمشدہ بکری کے سلسلے میں
’’خُذْهَا‘‘( اسے پکڑ لو) کا لفظ نہیں ہے، البتہ لقطہ کے سلسلے میں فرمایا:’’ ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو بہتر ہے ورنہ تم خود اس کو استعمال کرلو‘‘، اس میں
’’ اسْتَنْفِقْ‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:ثوری ، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے اسے ربیعہ سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے
’’خُذْهَا‘‘ کا لفظ نہیں کہا ہے۔
1706- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ- عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: < عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، وَإِلا فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَائَهَا ثُمَّ كُلْهَا، فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ >۔
* تخريج: م/اللقطۃ ۱(۱۷۲۲)، ت/الأحکام ۳۵ (۱۳۷۳)، ن/الکبری (۵۸۱۱)، ق/ اللقطۃ ۱ (۵۰۷)، (تحفۃ الأشراف :۳۷۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۶، ۵/۱۹۳) (صحیح)
۱۷۰۶- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا ڈھونڈنے والا آجائے تو اسے اس کے حوالہ کردو ورنہ اس کی تھیلی اور سربندھن کی پہچان رکھو اور پھر اسے کھا جاؤ، اب اگر اس کا ڈھونڈھنے والا آجائے تو اسے (اس کی قیمت) ادا کردو‘‘۔
1707- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ رَبِيعَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: < تُعَرِّفُهَا حَوْلا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا دَفَعْتَهَا إِلَيْهِ، وَإِلا عَرَفْتَ وِكَائَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ أَفِضْهَا فِي مَالِكَ، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۷۰۴)، ( تحفۃ الأشراف :۳۷۶۳) (صحیح)
۱۷۰۷- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ( لقطے کے متعلق ) پوچھا گیا پھر راوی نے ربیعہ کی طرح حدیث ذکر کی اور کہا: لقطے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک سال تک تم اس کی تشہیر کرو، اب اگر اس کا مالک آجائے تو تم اسے اس کے حوالہ کر دو، اوراگر نہ آئے تو تم اس کے ظرف اور سر بندھن کو پہچان لو پھر اسے اپنے مال میں ملا لو ،پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے اس کو دے دو‘‘۔
1708- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ؛ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَرَبِيعَةَ، بِإِسْنَادِ قُتَيْبَةَ وَمَعْنَاهُ، وَزَادَ فِيهِ: < فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَعَدَدَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ >، وَقَالَ حَمَّادٌ أَيْضًا عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.
قَالَ أَبودَاود : وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ الَّتِي زَادَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فِي حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَعُبَيْدِاللَّهِ [بْنِ عُمَرَ] وَرَبِيعَةَ: < إِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَائَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ> لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ < فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَائَهَا > وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا، قَالَ: < عَرِّفْهَا سَنَةً > وَحَدِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < عَرِّفْهَا سَنَةً >.
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۷۰۴)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (۱۷۱۳)، ( تحفۃ الأشراف :۲۸، ۳۷۶۳، ۸۷۵۵، ۸۷۸۴) (صحیح)
۱۷۰۸- یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے:’’ اگر اس کا ڈھونڈنے والا آجائے اور تھیلی اور گنتی کی پہچان بتائے تو اسے اس کودے دو‘‘۔
اور حماد نے بھی عبیداللہ بن عمر سے،عبیداللہ نے عمر و بن شعیب نے عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً روایت کی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ زیا دتی جو حماد بن سلمہ نے سلمہ بن کہیل، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ اور ربیعہ کی حدیث (یعنی حدیث نمبر: ۱۷۰۲ -۱۷۰۳) میں کی ہے:
’’إِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَائَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ ‘‘ یعنی: ’’اگر اس کا مالک آجائے اور اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتا دے تو اس کو دے دو‘‘، اس میں:
’’فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَائَهَا‘‘ ’’تھیلی اور سربندھن کی پہچان بتادے ‘‘ کا جملہ محفوظ نہیں ہے۔
اورعقبہ بن سوید کی حدیث میں بھی جسے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے یعن
ی ’’عَرِّفْهَا سَنَةً‘‘ (ایک سال تک اس کی تشہیر کر و) موجود ہے۔
اورعمررضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’عَرِّفْهَا سَنَةً ‘‘تم ایک سال تک اس کی تشہیرکرو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کسی روایت میں تین سال پہچان (شناخت) کراتے رہنے کا تذکرہ ہے، اور کسی میں ایک سال، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب و ورع، ان دونوں روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ قرار دیا جائے اور دوسرے کو منسوخ (ملاحظہ ہو: فتح الباری)۔
1709- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ -يَعْنِي الطَّحَّانَ- (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، الْمَعْنَى، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي الْعَلاءِ، عَنْ مُطَرِّفٍ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ-، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ وَجَدَ لُقَطَةً فَلْيُشْهِدْ ذَا عَدْلٍ، أَوْ ذَوِي عَدْلٍ، وَلا يَكْتُمْ، وَلا يُغَيِّبْ، فَإِنْ وَجَدَ صَاحِبَهَا فَلْيَرُدَّهَا عَلَيْهِ، وَإِلا فَهُوَ مَالُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ >۔
* تخريج: ن/ الکبری (۵۸۰۸، ۵۸۰۹)، ق/اللقطۃ ۲ (۲۵۰۵)، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۰۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۲) (صحیح)
۱۷۰۹- عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جسے لقطہ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے ۱؎ اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پاجائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : گواہ بنانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ مال کی چاہت میں ا ٓگے چل کر آدمی کی نیت کہیں بری نہ ہوجائے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اچانک مرجائے اوراس کے ورثاء اسے میراث سمجھ لیں۔
1710- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ، فَقَالَ: < مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلا شَيْئَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْئٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ >، وَذَكَرَ فِي ضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ كَمَا ذَكَرَ[هُ] غَيْرُهُ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ فَقَالَ: <مَاكَانَ مِنْهَا فِي طَرِيقِ الْمِيتَاءِ أَوِ الْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهِيَ لَكَ، وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ يَعْنِي فَفِيهَا وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۵۴ (۱۲۸۹)، ن/قطع السارق ۹ (۴۹۶۱)، ( تحفۃ الأشراف :۸۷۹۸)ویأتی عند المؤلف برقم (۴۳۹۰) (حسن)
۱۷۱۰- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی، اور جب میوہ پک کر سو کھنے کے لئے کھلیان میں ڈال دیا جائے اور اس میں سے کوئی اس قدر چرا کر لے جائے جس کی قیمت سپر(ڈھال) کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کا ٹا جائے گا‘‘۔
اس کے بعد گمشدہ اونٹ اور بکری کا ذکر کیا جیسا کہ اوروں نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے: ’’آپ سے لقطے کے سلسلے میں پوچھا گیا توآپ ﷺ نے فرمایا: جو لقطہ گزرگاہ عام یا آباد گاؤں میں ملے تو ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دو اور اگر نہ آئے تو وہ تمہارا ہے اور جو لقطہ کسی اجڑے یا غیرآباد مقام پر ملے تو اس میں اور رکاز( جاہلیت کے دفینہ) میں پانچواں حصہ حاکم کو دینا ہو گا‘‘۔
1711- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُوأُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ -يَعْنِي ابْنَ كَثِيرٍ-، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ فِي ضَالَّةِ الشَّاءِ: قَالَ: < فَاجْمَعْهَا > ۔
* تخريج: ق/الحدود ۲۸ (۲۵۹۶)، ( تحفۃ الأشراف :۸۸۱۲) (حسن)
۱۷۱۱- اس طریق سے بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے کہ گمشدہ بکری کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا:’’ اسے پکڑے رکھو‘‘۔
1712- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ -بِهَذَا بِإِسْنَادِهِ- قَالَ فِي ضَالَّةِ الْغَنَمِ: < لَكَ أَوْ لأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، خُذْهَا قَطُّ >، وَكَذَا قَالَ فِيهِ أَيُّوبُ وَيَعْقُوبُ ابْنُ عَطَائٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <فَخُذْهَا> ۔
* تخريج: ن/ قطع السارق ۸ (۴۹۶۰)، ( تحفۃ الأشراف :۸۷۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۶) (حسن)
۱۷۱۲- اس طریق سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے:’’ گمشدہ بکری کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا: وہ بکری تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیے کی، تو اسے پکڑے رکھو‘‘۔
اسی طرح ایوب اور یعقوب بن عطا نے عمر و بن شعیب سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے(مرسلاً) روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’تو تم اسے پکڑے رکھو‘‘۔
1713- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا، قَالَ فِي ضَالَّةِ الشَّاءِ: < فَاجْمَعْهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا بَاغِيهَا >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۱۷۰۸)، ( تحفۃ الأشراف :۸۷۸۴) (حسن)
۱۷۱۳- اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے ،اس میں ہے :’’گم شدہ بکری کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا: اسے پکڑے رکھو ، یہاں تک کہ اس کا ڈھونڈھنے والا اس تک آجائے‘‘۔
1714- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، حَدَّثَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ [الْخُدْرِيِّ] أَنَّ عَلِيَّ ابْنَ أَبِي طَالِبٍ وَجَدَ دِينَارًا فَأَتَى بِهِ فَاطِمَةَ، فَسَأَلَتْ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < هُوَ رِزْقُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ > فَأَكَلَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَكَلَ عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ تَنْشُدُ الدِّينَارَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَا عَلِيُّ، أَدِّ الدِّينَارَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۴۴۴۳) (حسن)
۱۷۱۴- ابو سعید خد ری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک دینار ملا تو وہ اسے لے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، انہوں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا توآپ نے فرمایا: ’’وہ اللہ عزوجل کا دیا ہوا رزق ہے‘‘، چنانچہ اس میں سے رسول اللہ ﷺ نے کھایا اور علی اور فا طمہ رضی اللہ عنہما نے کھایا، اس کے بعد ان کے پاس ایک عورت دینار ڈھونڈھتی ہوئی آئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’علی! دینار ا دا کر دو‘‘۔
1715- حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ بِلالِ بْنِ يَحْيَى الْعَبْسِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّهُ الْتَقَطَ دِينَارًا، فَاشْتَرَى بِهِ دَقِيقًا، فَعَرَفَهُ صَاحِبُ الدَّقِيقِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ الدِّينَارَ، فَأَخَذَهُ عَلِيٌّ وَقَطَعَ مِنْهُ قِيرَاطَيْنِ، فَاشْتَرَى بِهِ لَحْمًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۰۲۸) (صحیح)
۱۷۱۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک دینار پڑا ملا، جس سے انہوں نے آٹا خریدا، آٹے والے نے انہیں پہچان لیا، اور دینار واپس کردیا توعلی نے اسے واپس لے لیا اور اسے بھنا کر اس میں سے دوقیراط ۱؎ کا گوشت خریدا ۔
وضاحت ۱؎ : قیراط: دینار کا بیسواں حصہ۔
1716- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمَعِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ؛ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيهِمَا؟ قَالَتِ الْجُوعُ، فَخَرَجَ عَلِيٌّ فَوَجَدَ دِينَارًا بِالسُّوقِ، فَجَاءَ إِلَى فَاطِمَةَ فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتِ: اذْهَبْ إِلَى فُلانٍ الْيَهُودِيِّ فَخُذْ لَنَا دَقِيقًا، فَجَاءَ الْيَهُودِيَّ فَاشْتَرَى بِهِ، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: أَنْتَ خَتَنُ هَذَا الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَخُذْ دِينَارَكَ وَلَكَ الدَّقِيقُ، فَخَرَجَ عَلِيٌّ حَتَّى جَاءَ بِهِ فَاطِمَةَ، فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتِ: اذْهَبْ إِلَى فُلانٍ الْجَزَّارِ فَخُذْ لَنَا بِدِرْهَمٍ لَحْمًا، فَذَهَبَ فَرَهَنَ الدِّينَارَ بِدِرْهَمِ لَحْمٍ، فَجَاءَ بِهِ، فَعَجَنَتْ، وَنَصَبَتْ، وَخَبَزَتْ، وَأَرْسَلَتْ إِلَى أَبِيهَا، فَجَائَهُمْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَذْكُرُ لَكَ، فَإِنْ رَأَيْتَهُ لَنَا حَلالاً أَكَلْنَاهُ وَأَكَلْتَ مَعَنَا، مِنْ شَأْنِهِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: < كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ > فَأَكَلُوا، فَبَيْنَمَا هُمْ مَكَانَهُمْ إِذَا غُلامٌ يَنْشُدُ اللَّهَ وَالإِسْلامَ الدِّينَارَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَدُعِيَ لَهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: سَقَطَ مِنِّي فِي السُّوقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < يَا عَلِيُّ! اذْهَبْ إِلَى الْجَزَّارِ فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ لَكَ: أَرْسِلْ إِلَيَّ بِالدِّينَارِ، وَدِرْهَمُكَ عَلَيَّ >، فَأَرْسَلَ بِهِ فَدَفَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۴۷۷۰) (حسن)
۱۷۱۶- ابو حازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے بتایا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رو رہے تھے، تو انہوں نے پوچھا: یہ دونوں کیوں رو رہے ہیں؟ فاطمہ نے کہا: بھوک ( سے رورہے ہیں)، علی باہر نکلے تو بازار میں ایک دینار پڑا پایا، وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں بتا یا تو انہوں نے کہا: فلاں یہودی کے پاس جائیے اور ہمارے لئے آٹا لے لیجئے، چنانچہ وہ یہودی کے پاس گئے اور اس سے آٹا خریدا، تو یہودی نے پوچھا: تم اس کے داماد ہو جو کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟ وہ بو لے: ہاں ، اس نے کہا: اپنا دینار رکھ لو اور آٹالے جائو، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ آٹا لے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو وہ بولیں : فلاں قصاب کے پاس جائیے اور ایک درہم کا گوشت لے آئیے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ گئے اور اس دینار کو ایک درہم کے بدلے گروی رکھ دیا اور ایک درہم کا گو شت لے آئے، فاطمہ نے آٹا گوندھا، ہانڈی چڑھائی اور روٹی پکائی، اور اپنے والد ( رسول اللہ ﷺ ) کو بلا بھیجا، آپ تشریف لائے تو وہ بولیں : اللہ کے رسول! میں آپ سے واقعہ بیان کرتی ہوں اگر آپ اسے ہمارے لئے حلا ل سمجھیں تو ہم بھی کھائیں اور ہمارے ساتھ آپ بھی کھائیں، اس کا واقعہ ایسا اور ایسا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کا نام لے کر کھائو‘‘، ابھی وہ لوگ اپنی جگہ ہی پر تھے کہ اسی دوران ایک لڑکا اللہ اور اسلام کی قسم دے کراپنے کھوئے ہوئے دینار کے متعلق پوچھ رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اسے بلایا گیا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: بازار میں مجھ سے ( میرا دینار) گر گیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ علی! قصاب کے پاس جائو اور اس سے کہو : اللہ کے رسول ﷺ تم سے کہہ رہے ہیں: دینار مجھے بھیج دو، تمہارا درہم میرے ذمّے ہے‘‘، چنانچہ اس نے وہ دینار بھیج دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اس (لڑ کے ) کو دے دیا۔
1717- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: رَخَّصَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْعَصَا وَالسَّوْطِ وَالْحَبْلِ وَأَشْبَاهِهِ يَلْتَقِطُهُ الرَّجُلُ يَنْتَفِعُ بِهِ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ النُّعْمَانُ بْنُ عَبْدِالسَّلامِ عَنِ الْمُغِيرَةِ -أَبِي سَلَمَةَ- بِإِسْنَادِهِ، وَرَوَاهُ شَبَابَةُ عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانُوا، لَمْ يَذْكُرُ[وا] النَّبِيَّ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۲۹۶۶) (ضعیف)
(ابوالزبیر مدلس راوی ہیں اور بذریعہ’’عن‘‘روایت کئے ہیں)
۱۷۱۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لکڑی، کوڑے، رسی اور ان جیسی چیزوں کے بارے میں رخصت دی کہ اگر آدمی انہیں پڑا پائے تو اسے کام میں لائے۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے نعمان بن عبدالسلام نے مغیرہ ابو سلمہ سے اسی طریق سے روایت کیا ہے اوراسے شبابہ نے مغیرہ بن مسلم سے انہوں نے ابو الزبیر سے ابوالزبیر نے جابر سے روایت کیا ہے، راوی کہتے ہیں: لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے یعنی اسے جابر رضی اللہ عنہ پر موقوف کہا ہے۔
1718- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَحْسَبُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < ضَالَّةُ الإبِلِ الْمَكْتُومَةُ غَرَامَتُهَا وَمِثْلُهَا مَعَهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۴۲۵۱) (صحیح)
۱۷۱۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’گم شدہ اونٹ اگر چھپا دیا جائے تو ( چھپا نے والے پر) اس کا جرمانہ ہوگا، اوراس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو گا ‘‘۔
1719- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ لُقَطَةِ الْحَاجِّ، قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ ابْنُ وَهْبٍ: يَعْنِي فِي لُقَطَةِ الْحَاجِّ يَتْرُكُهَا حَتَّى يَجِدَهَا صَاحِبُهَا، قَالَ ابْنُ مَوْهَبٍ: عَنْ عَمْرٍو۔
* تخريج: م /اللقطۃ ۱ (۱۷۲۴)، ن/ الکبری/ اللقطۃ (۵۸۰۵)، ( تحفۃ الأشراف :۹۷۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۹۹) (صحیح)
۱۷۱۹- عبدالرحمن بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجی کے لقطے سے منع فرمایا۔
احمد کہتے ہیں : ابن وہب نے کہا: یعنی حاجی کے لقطے کے بارے میں کہ وہ اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے، ابن موہب نے
’’أخبرني عمرو‘‘ کے بجائے
’’عن عمرو‘‘ کہا ہے۔
1720- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ جَرِيرٍ بِالْبَوَازِيجِ، فَجَاءَ الرَّاعِي بِالْبَقَرِ، وَفِيهَا بَقَرَةٌ لَيْسَتْ مِنْهَا، فَقَالَ لَهُ جَرِيرٌ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ: لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ لا نَدْرِي لِمَنْ هِيَ، فَقَالَ جَرِيرٌ: أَخْرِجُوهَا، [فَقَدْ] سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يَأْوِي الضَّالَّةَ إِلا ضَالٌّ >۔
* تخريج: ن/الکبری (۵۷۹۹)، ق/اللقطۃ ۱ (۲۵۰۳)، ( تحفۃ الأشراف :۳۲۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۰، ۳۶۲) (صحیح) (مرفوع حصہ صحیح ہے )
۱۷۲۰- منذر بن جریر کہتے ہیں: میں جریر کے ساتھ بوازیج ۱؎ میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا تو ان میں ایک گائے ایسی تھی جو ان کی گایوں میں سے نہیں تھی، جریر نے اس سے پوچھا : یہ کیسی گائے ہے؟ اس نے کہا: یہ گایوں میں آکر مل گئی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کس کی ہے، جریر نے کہا: اسے نکالو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے سنا: ’’گم شدہ جانور کو کوئی گم راہ ہی اپنے پاس جگہ دیتا ہے‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ :
’’بوازيج‘‘: (عراق میں) نہر دجلہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے۔
وضاحت ۲؎ : مطلب یہ ہے کہ کسی گم شدہ جانور کو اپنا بنا لینے کے لئے اس کو پکڑلے تو وہ گمراہ ہے، رہا وہ شخص جواسے اس لئے پکڑے تا کہ اس کی پہچان کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالہ کردے تواس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’مَنْ آوَىْ ضَاْلَّةً فَهُوَ ضَالٌ مَاْ لَمْ يُعَرِّفها‘‘ اور نسائی کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
’’مَنْ أَخَذَ لُقْطَةً فَهُوَ ضَاْلٌ مَاْ لَمْ يُعَرِّفْهَا‘‘ ( جوآدمی گم شدہ چیز اپنے پاس رکھے وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس کی تشہیر نہ کرے)۔
* * * * *