تبريز بن أبرار
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 16، 2016
- پیغامات
- 51
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 46
السلام عليكم و رحمت الله و بركاته
أميد هے تمام علماء کرام اور احباب بخیر ہوگے!
الله ہم سب پر اسکی رحمتے برکتے نازل کرے آمین
سنن اربعہ کے بارے مے بعض احباب کا موقف ہے کے یے بھی صحیحین کی ترح صحیح ثابت ہے
اسکی تفصیل اپ تفسیر ستاریہ مے دیکھ سکتے ہے۔ مے یہا مختسر انداز مے اس موقف کو بیان کرتا ہو
ھمارے احباب کا کہنا ہے
سنن اربعہ کے مصنفین نے ان کتب مے جتنی روایات درج کی ہے یے ساری کے ساری ان محدثین نے دیکھ پرکھ کر درج کی ہے اگرچہ بسند بعض روایات ضعیف ہے پر جتنی احادیث وارد ہے تمام صحیح ثابت هے اور ضعف سرف سند مے ہے پر مسالہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اسی لیے ان محدثین نے درج کی اور اس پر ابواب باندہے۔
دلیل مے رسالہ ابی داود سے امام ابو داود کا قول پیش کیا جاتا ہے کے اسمے ساری صحیح روایات آپنے درج کی ہے۔
سند مے جو ضعف پایا جاتا ہے وہ سرف اس وجہ سے کے ان محدثین کو اس باب مے اس سے بہتر روایت نہ مل سکی پر انہونے تحقیق کرکے اس مسالہ کو درج کیا ہے۔
دلیل مے امام ابو داود کے رسالہ سے انکا قول پیش کیا جاتا ہے
"و إذا كان فيه حديث منكر بينته أنه منكر وليس على نحوه في الباب غيره"
اسی ترح امام ترمذي کی دلیل دی جاتی ھے کے انھونے دو حدیث چھوڈ کر ساری وہی درج کی ہے جس پر اھل علم کو عمل کرتے پایا اور اپنی خامع کا نام بہی رکہا "و ما عليه العمل"
اور امام نسائی نے بھی سنن الکبراء سے المجتبی چہاٹ کر نکالی۔
اور مقدمه ابن الصلاح سے ابو تاھر سلفی کا قول بھی پیش کیا جاتا ہے کے سنن اربعہ پر اہل شرق و غرب نے اجماع کیا ہے۔ اگرچہ امام ابن الصلاح نے اس پر کلام کیا ہے پر سرف اسنادی حیثیت سے۔ اور انکی سند کو پرخ کر حدیث کو ضعیف کہنا گلت ہے کیوکے ان محدثین نے مسالہ کو ثابت جان کر ہی اسمے درج کیا ھے اور کوئ دوسرا ان پر جرح نہی کر سکتا۔ دلیل مے رسالہ ابی داود سے اپکا قول "لا يقدر عليه كل الناس" پیش کیا جاتا ہے
اور اسی لیے انکا دعوہ ہے کے صحاح ستة پر آنکہے بند کرکے اعتماد کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئ احادیث مے تعرض نظر آئے تو اسکی تطبیک کی جائگی نہ کے اسکا انکار کیا جائےگا۔
براہے مہربانی اس مسالہ کی وضاحت کردے۔
جزاک اللہ خیر و احسن الجزاء
أميد هے تمام علماء کرام اور احباب بخیر ہوگے!
الله ہم سب پر اسکی رحمتے برکتے نازل کرے آمین
سنن اربعہ کے بارے مے بعض احباب کا موقف ہے کے یے بھی صحیحین کی ترح صحیح ثابت ہے
اسکی تفصیل اپ تفسیر ستاریہ مے دیکھ سکتے ہے۔ مے یہا مختسر انداز مے اس موقف کو بیان کرتا ہو
ھمارے احباب کا کہنا ہے
سنن اربعہ کے مصنفین نے ان کتب مے جتنی روایات درج کی ہے یے ساری کے ساری ان محدثین نے دیکھ پرکھ کر درج کی ہے اگرچہ بسند بعض روایات ضعیف ہے پر جتنی احادیث وارد ہے تمام صحیح ثابت هے اور ضعف سرف سند مے ہے پر مسالہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اسی لیے ان محدثین نے درج کی اور اس پر ابواب باندہے۔
دلیل مے رسالہ ابی داود سے امام ابو داود کا قول پیش کیا جاتا ہے کے اسمے ساری صحیح روایات آپنے درج کی ہے۔
سند مے جو ضعف پایا جاتا ہے وہ سرف اس وجہ سے کے ان محدثین کو اس باب مے اس سے بہتر روایت نہ مل سکی پر انہونے تحقیق کرکے اس مسالہ کو درج کیا ہے۔
دلیل مے امام ابو داود کے رسالہ سے انکا قول پیش کیا جاتا ہے
"و إذا كان فيه حديث منكر بينته أنه منكر وليس على نحوه في الباب غيره"
اسی ترح امام ترمذي کی دلیل دی جاتی ھے کے انھونے دو حدیث چھوڈ کر ساری وہی درج کی ہے جس پر اھل علم کو عمل کرتے پایا اور اپنی خامع کا نام بہی رکہا "و ما عليه العمل"
اور امام نسائی نے بھی سنن الکبراء سے المجتبی چہاٹ کر نکالی۔
اور مقدمه ابن الصلاح سے ابو تاھر سلفی کا قول بھی پیش کیا جاتا ہے کے سنن اربعہ پر اہل شرق و غرب نے اجماع کیا ہے۔ اگرچہ امام ابن الصلاح نے اس پر کلام کیا ہے پر سرف اسنادی حیثیت سے۔ اور انکی سند کو پرخ کر حدیث کو ضعیف کہنا گلت ہے کیوکے ان محدثین نے مسالہ کو ثابت جان کر ہی اسمے درج کیا ھے اور کوئ دوسرا ان پر جرح نہی کر سکتا۔ دلیل مے رسالہ ابی داود سے اپکا قول "لا يقدر عليه كل الناس" پیش کیا جاتا ہے
اور اسی لیے انکا دعوہ ہے کے صحاح ستة پر آنکہے بند کرکے اعتماد کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئ احادیث مے تعرض نظر آئے تو اسکی تطبیک کی جائگی نہ کے اسکا انکار کیا جائےگا۔
براہے مہربانی اس مسالہ کی وضاحت کردے۔
جزاک اللہ خیر و احسن الجزاء