• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ فِي دَفْنِ الشُّهَدَائِ
۳۳-باب: شہیدوں کودفن کرنے کا بیان​


1713- حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ أَبِي الدَّهْمَائِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: شُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ الْجِرَاحَاتُ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ: "احْفِرُوا وَأَوْسِعُوا وَأَحْسِنُوا وَادْفِنُوا الاثْنَيْنِ وَالثَّلاَثَةَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ وَقَدِّمُوا أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا" فَمَاتَ أَبِي فَقُدِّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلَيْنِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ خَبَّابٍ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ وَأَبُو الدَّهْمَائِ اسْمُهُ قِرْفَةُ بْنُ بُهَيْسٍ أَوْ بَيْهَسٍ.
* تخريج: د/الجنائز ۱ ۷ (۳۲۱۵)، ن/الجنائز ۸۶ (۲۰۱۲)، و ۹۰ (۲۰۱۷)، و ۹۱ (۲۰۲۰)، ق/الجنائز ۴۱ (۱۵۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۱)، وحم (۴/۱۹، ۲۰) (صحیح)
۱۷۱۳- ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: احدکے دن رسول اللہ ﷺ سے زخموں کی شکایت کی گئی ۱؎ ،آپ نے فرمایا:''قبرکھودواوراسے کشادہ اوراچھی بناؤ،ایک قبرمیں دویاتین آدمیوں کو دفن کرو، اورجسے زیادہ قرآن یادہو اسے (قبلہ کی طرف ) آگے کرو''،ہشام بن عامرکہتے ہیں: میرے والدبھی وفات پائے تھے ، چنانچہ ان کو ان کے دو ساتھیوں پر مقدم (یعنی قبلہ کی طرف آگے) کیاگیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سفیان ثوری اوردوسرے لوگوں نے اس حدیث کوبسند ایوب عن حمید بن ہلال عن ہشام بن عامر روایت کیا ہے ،۳- اس باب میں خباب ، جابر اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صحابہ کرام نے یہ شکایت کی، اللہ کے رسول ہم زخموں سے چور ہیں، اس لائق نہیں ہیں کہ شہداء کی الگ الگ قبریں تیار کرسکیں، ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، کیوں کہ الگ الگ قبر کھودنے میں دشواری ہورہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَشُورَةِ
۳۴-باب: جنگ میں مشورہ کا بیان​


1714- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَجِيئَ بِالأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَاتَقُولُونَ فِي هَؤُلائِ الأُسَارَى؟" فَذَكَرَ قِصَّةً فِي هَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُوعُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (۳۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۲۸) (ضعیف)
(ابوعبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
۱۷۱۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بدرکے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو''، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سناہے، ۳- ابوہریرہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتاہو ۲؎ ،۴- اس حدیث میں عمر، ابوایوب ، انس اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : قصہ (اختصار کے ساتھ ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرمﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑدیا جائے، عمر نے کہا: یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں، انہیں معاف کرناصحیح نہیں ہے، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سرقلم کرے، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سو کھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلادیا جائے، نبی اکرمﷺ سب کی باتیں سن کر خاموش رہے، اندر گئے پھر باہر آکر فرمایا: اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کردیتاہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کردیتاہے، ابوبکر کی مثال ابراہیم وعیسیٰ سے دی، عمر کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ کی موسیٰ علیہ السلام سے، پھر آپ نے ابوبکر کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑدیا، دوسرے دن جب عمر آئے تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر کو روتا دیکھ کر عرض کیا، اللہ کے رسول ! رونے کا کیاسبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہوجاتا تو میں بھی شامل ہوجاتا، یا روہانسی صورت بنا لیتا، آپ ﷺ نے فرمایا: بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والاتھا اور اس درخت سے قریب ہوگیا تھااس کے سبب رورہاہوں، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ } (الأنفال: 67).
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہوگی، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَا جَاءَ لاَ تُفَادَى جِيفَةُ الأَسِيرِ
۳۵-باب: قیدی کی سڑی ہوئی لا ش بیچی نہیں جائے گی​


1715- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ أَرَادُوا أَنْ يَشْتَرُوا جَسَدَ رَجُلٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ، فَأَبَى النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَبِيعَهُمْ إِيَّاهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْحَكَمِ، وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ أَيْضًا، عَنْ الْحَكَمِ، و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى لاَ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى صَدُوقٌ، وَلَكِنْ لاَ نَعْرِفُ صَحِيحَ حَدِيثِهِ مِنْ سَقِيمِهِ، وَلاَ أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى صَدُوقٌ فَقِيهٌ، وَرُبَّمَا يَهِمُ فِي الإِسْنَادِ. حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: فُقَهَاؤُنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شُبْرُمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۷۵) (ضعیف)
(اس کے راوی محمد بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں)
۱۷۱۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مشرک کی لا ش کو خریدنا چاہا تو نبی اکرمﷺ نے اسے بیچنے سے انکارکردیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ۲- ہم اسے صرف حکم کی روایت سے جانتے ہیں، اس کو حجاج بن ارطاۃ نے بھی حکم سے روایت کیا ہے، ۳- احمدبن حنبل کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ کی حدیث قابل حجت نہیں ہے ، ۴-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں لیکن ہم کو ان کی صحیح حدیثیں ان کی ضعیف حدیثوں سے پہچان نہیں پاتے ، میں ان سے کچھ نہیں روایت کرتاہوں، ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں فقیہ ہیں، لیکن بسا اوقات ان سے سندوں میں وہم ہوجاتاہے،۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: ہمارے فقہاء ابن ابی لیلیٰ اورعبداللہ بن شبرمہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب مَا جَاءَ فِي الْفِرَارِ مِنَ الزَّحْفِ
۳۶-باب: میدان جنگ سے فرارہونے کا بیان​


1716- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاخْتَبَيْنَا بِهَا وَقُلْنَا هَلَكْنَا، ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ نَحْنُ الْفَرَّارُونَ، قَالَ: "بَلْ أَنْتُمْ الْعَكَّارُونَ، وَأَنَا فِئَتُكُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً يَعْنِي أَنَّهُمْ فَرُّوا مِنْ الْقِتَالِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: بَلْ أَنْتُمْ الْعَكَّارُونَ وَالْعَكَّارُ الَّذِي يَفِرُّ إِلَى إِمَامِهِ لِيَنْصُرَهُ لَيْسَ يُرِيدُ الْفِرَارَ مِنْ الزَّحْفِ.
* تخريج: د/الجہاد ۱۰۶ (۲۶۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۹۸) (ضعیف)
(اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں)
۱۷۱۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا ، (پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے ، مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اورہم نے کہا : ہلاک ہوگئے، پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم بھگوڑے ہیں، آپ نے فرمایا:'' بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے ، ہم اسے صرف یزید بن ابی زیاد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-''فحاص الناس حيصة'' کا معنی یہ ہے کہ لوگ لڑائی سے فرارہوگئے، ۳-اور'' بل أنتم العكارون'' اس کو کہتے ہیں: جوفرارہوکراپنے امام (کمانڈر) کے پاس آجائے تاکہ وہ اس کی مددکرے نہ کہ لڑائی سے فرارہونے کا ارادہ رکھتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب مَا جَاءَ فِي دَفْنِ الْقَتِيلِ فِي مَقْتَلِهِ
۳۷-باب: مقتول کو قتل گاہ ہی میں دفن کردینے کا بیان​


1717- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ قَال: سَمِعْتُ نُبَيْحًا الْعَنَزِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي لِتَدْفِنَهُ فِي مَقَابِرِنَا، فَنَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللهِ ﷺ رُدُّوا الْقَتْلَى إِلَى مَضَاجِعِهِمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَنُبَيْحٌ ثِقَةٌ.
* تخريج: د/الجنائز ۴۲ (۳۱۶۵)، ن/الجنائز ۸۳ (۲۰۰۶)، ق/الجنائز ۲۸ (۱۵۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۱۷)، دي/المقدمۃ ۷ (۴۶) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کے را وی نبیح عنزی لین الحدیث ہیں)
۱۷۱۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:احدکے دن میری پھوپھی میرے باپ کو لے کر آئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں، تو رسول اللہ ﷺ کے ایک منادی نے پکارا:مقتولوں کو ان کی قتل گاہوں میں لوٹادو(دفن کرو) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اور نبیح ثقہ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم شہداء کے لیے خاص ہے، حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ شہداء موت و حیات اور بعث و حشر میں بھی ایک ساتھ رہیں، عام میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اشد ضرورت کے تحت منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شرط یہ ہے کہ نعش کی بے حرمتی نہ ہو اور آب وہوا کے اثر سے اس میں کوئی تغیر نہ ہو،سعید ابن ابی وقاص کو صحابہ کی موجود گی میں مدینہ منتقل کیا گیاتھا، کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَاب مَا جَاءَ فِي تَلَقِّي الْغَائِبِ إِذَا قَدِمَ
۳۸- باب: آنے والے کے استقبال کا بیان​


1718- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ تَبُوكَ خَرَجَ النَّاسُ يَتَلَقَّوْنَهُ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ، قَالَ السَّائِبُ: فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ وَأَنَا غُلاَمٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۹۶ (۳۰۸۲)، والمغازي ۸۲ (۴۴۲۶)، د/الجہاد ۱۷۶ (۲۷۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۰۰) (صحیح)
۱۷۱۸- سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوئہ تبوک سے واپس آئے تولوگ آپ کے استقبال کے لیے ثنیۃ الوداع تک نکلے : میں بھی لوگوں کے ساتھ نکلا حالاں کہ میں کم عمر تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب مَا جَاءَ فِي الْفَيْئِ
۳۹-باب: مال فے کا بیان​


1719- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَائَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ، وَكَانَتْ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ خَالِصًا، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَعْزِلُ نَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلاَحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ.
* تخريج: خ/الجہاد ۸۰ (۲۹۰۴)، وتفسیر الحشر ۳ (۴۸۸۵)، م/الجہاد ۱۵ (۱۷۵۷)، د/الخراج والإمارۃ ۱۹ (۲۹۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۱)، وحم (۱/۲۵) (وانظر أیضا حدیث رقم ۱۶۱۰) (صحیح)
۱۷۱۹- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسودکے قبیلہ بنی نضیرکے اموال ان میں سے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور فے ۱؎ عطا کیاتھا ، اس کے لیے مسلمانوں نے نہ تو گھوڑے دوڑائے تھے اورنہ ہی اونٹ، یہ پورے کا پورا مال خالص اللہ کے رسول ﷺ کے لیے تھا ، رسول اللہ ﷺ اپنے گھروالوں کے لیے اس میں سے ایک سال کا خرچ الگ کرلیتے، پھر جوباقی بچتااسے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں اورہتھیاروں میں خرچ کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو معمر کے واسطہ سے ابن شہاب سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : فئی : وہ مال ہے جو کافروں سے جنگ کیے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے، یہ مال آپ کے لیے خاص تھا، مال غنیمت نہ تھا کہ مجاہدین میں تقسیم کیاجاتا۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

22-كِتَاب اللِّبَاسِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۲۲-کتاب: لباس کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ
۱- باب: ریشم اورسونے کے حکم کا بیان​


1720- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ،عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "حُرِّمَ لِبَاسُ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي، وَأُحِلَّ لإِنَاثِهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَنَسٍ وَحُذَيْفَةَ وَأُمِّ هَانِئٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَجَابِرٍ وَأَبِي رَيْحَانَ وَابْنِ عُمَرَ وَالْبَرَائِ وَوَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الزینۃ ۴۰ (۵۱۵۱)، و۷۴ (۵۲۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۹۸)، وحم (۴/۳۹۲، ۳۹۳، ۴۰۷) (صحیح)
۱۷۲۰- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ریشم کا لباس اورسونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتو ں کے لیے حلال کیا گیا ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عمر، علی، عقبہ بن عامر،انس، حذیفہ ، ام ہانی ، عبداللہ بن عمرو ، عمران بن حصین ، عبداللہ بن زبیر، جابر، ابوریحان ، ابن عمر، براء، اورواثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مسلمان مردوں کے لیے سونا اور ریشم کے کپڑے حرام ہیں، حرمت کی کئی وجہیں ہیں: کفار ومشرکین سے اس میں مشابہت پائی جاتی ہے،زیب وزینت عورتوں کا خاص وصف ہے، مردوں کے لیے یہ پسندیدہ نہیں، اس پہلو سے یہ دونوں حرام ہیں، اسلام جس سادگی کی تعلیم دیتاہے یہ اس سادگی کے خلاف ہے، حالاں کہ سادگی رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایمان کا حصہ ہے، آپ کا ارشاد ہے ''البذاذة من الإيمان '' یعنی سادہ اور بے تکلف رہن سہن اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے، یہ دونوں چیزیں عورتوں کے لیے حلال ہیں، لیکن حلال ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے استعمال میں حد سے تجاوز کیاجائے، اسی طرح یہاں حلت کا تعلق صرف سونے کے زیورات سے ہے، نہ کہ ان سے بنے ہوئے برتنوں سے کیوں کہ سونے (اور چاندی) سے بنے ہوئے برتن سب کے لیے حرام ہیں۔


1721- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ خَطَبَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: نَهَى نَبِيُّ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَرِيرِ إِلاَّ مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ أَوْ ثَلاَثٍ أَوْ أَرْبَعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/اللباس ۲ (۲۰۶۹/۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۵۹) (صحیح)
۱۷۲۱- سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:عمر نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا: نبی اکرم ﷺ نے ریشم سے منع فرمایا سوائے دو، یا تین ، یا چارانگشت کے برابر ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ریشم کا لباس مردوں کے لیے شرعی طورپر حرام ہے، البتہ دویاتین یا چار انگلی کے برابر کسی کپڑے پر ریشم لگا ہو، یا کوئی عذر مثلا خارش وغیرہ ہوتو اس کی گنجائش ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ فِي الْحَرْبِ
۲-باب: دوران جنگ ریشم پہننے کی رخصت کا بیان​


1722- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ شَكَيَا الْقَمْلَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي غَزَاةٍ لَهُمَا، فَرَخَّصَ لَهُمَا فِي قُمُصِ الْحَرِيرِ، قَالَ: وَرَأَيْتُهُ عَلَيْهِمَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۹۰ (۲۹۱۹- ۲۹۲۲)، واللباس ۲۹ (۵۸۳۹)، م/اللباس ۳ (۲۰۷۶)، د/اللباس ۱۳ (۴۰۵۶)، ن/الزینۃ ۹۲ (۵۳۱۲)، ق/اللباس ۱۷ (۳۵۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۴)، وحم (۳/۱۲۷، ۱۸۰، ۲۱، ۲۵۵، ۲۷۳) (صحیح)
۱۷۲۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: عبدالرحمن بن عوف اورزبیربن عوام رضی اللہ عنہما نے ایک غزوہ میں نبی اکرم ﷺ سے جوؤں کی شکایت کی ، توآپ نے انہیں ریشم کی قمیص کی اجازت دے دی ، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ان کے بدن پر ریشم کی قمیص دیکھی۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- باب
۳-باب: اس ضمن میں ایک اورباب​


1723- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: قَدِمَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَأَتَيْتُهُ فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: فَبَكَى، وَقَالَ: إِنَّكَ لَشَبِيهٌ بِسَعْدٍ، وَإِنَّ سَعْدًا كَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِهِمْ، وَإِنَّهُ بُعِثَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ جُبَّةٌ مِنْ دِيبَاجٍ مَنْسُوجٌ فِيهَا الذَّهَبُ فَلَبِسَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَامَ أَوْ قَعَدَ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْمِسُونَهَا، فَقَالُوا: مَا رَأَيْنَا كَالْيَوْمِ ثَوْبًا قَطُّ، فَقَالَ: أَتَعْجَبُونَ مِنْ هَذِهِ لَمَنَادِيلُ سَعْدٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِمَّا تَرَوْنَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الہبۃ ۲۸ (۲۶۱۵)، وبدء الخلق ۸ (۳۲۴۸)، م/فضائل الصحابۃ ۲۴ (۲۴۶۹)، ن/الزینۃ ۸۸ (۵۳۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۸)، وحم (۳/۱۱۱، ۱۲۱-۱۲۲، ۲۰۷، ۲۰۹، ۲۲۹، ۲۳۸، ۲۵۱، ۲۷۷) (صحیح)
۱۷۲۳- واقد بن عمرو بن سعدبن معاذ کہتے ہیں: انس بن مالک رضی اللہ عنہ (ہمارے پاس) آئے تو میں ان کے پاس گیا ، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہوں ، انس رضی اللہ عنہ روپڑے اوربولے: تم سعد کی شکل کے ہو ، سعد بڑے درازقداورلمبے تھے ، نبی اکرمﷺ کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجاگیا جس میں زری کا کام کیا ہوا تھا ۱؎ آپ اسے پہن کر منبر پر چڑھے ، کھڑے ہو ے یا بیٹھے تو لوگ اسے چھوکر کہنے لگے : ہم نے آج کی طرح کبھی کوئی کپڑا نہیں دیکھا ، آپ نے فرمایا:'' کیا تم اس پرتعجب کررہے ہو ؟ جنت میں سعد کے رومال اس سے کہیں بہترہیں جو تم دیکھ رہے ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں اسماء بنت ابی بکر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ جبہ اکیدردومہ نے نبی اکرم ﷺکے لیے بطور ہدیہ بھیجاتھا، یہ ریشم کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے۔
 
Top