• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
29-بَاب اجْلِسْ حَيْثُ انْتَهَى بِكَ الْمَجْلِسُ
۲۹-باب: مجلس میں جہاں پہنچو وہیں بیٹھ جاؤ​


2724- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَقْبَلَ ثَلاثَةُ نَفَرٍ؛ فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَذَهَبَ وَاحِدٌ فَلَمَّا وَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَلَّمَا فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا وَأَمَّا الآخَرُ؛ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، وَأَمَّا الآخَرُ؛ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَلا أُخْبِرُكُمْ عَنْ النَّفَرِ الثَّلاثَةِ أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَأَوَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا الآخَرُ؛ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الآخَرُ؛ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ وَيُقَالُ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ.
* تخريج: خ/العلم ۸ (۶۶)، والصلاۃ ۸۴ (۴۷۴)، م/السلام ۱۰ (۲۱۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۱۴)، وط/السلام ۳ (۴)، وحم (۵/۲۱۹) (صحیح)
۲۷۲۴- ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرماتھے، آپ کے ساتھ لوگ بھی بیٹھے تھے، اسی دوران اچانک تین آدمی آئے، ان میں سے دو رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھ آئے ، اور ایک واپس چلاگیا، جب وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کررکے تو انہوں نے سلام کیا، پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں کچھ جگہ (گنجائش) دیکھی تو وہ اسی میں(گھس کر) بیٹھ گیا۔ اور دوسرا شخص ان لوگوں کے (یعنی صحابہ) کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا۔ اور تیسرا تو پیٹھ موڑے چلاہی گیاتھا، پھر جب فارغ ہوئے تو آپ ﷺنے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا:'' کیا میں تمہیں تینوں اشخاص کے متعلق نہ بتاؤں؟ (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے نے شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور رہاتیسرا شخص تو اس نے اعراض کیا ، چنانچہ اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا، منہ پھیرلیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابومرہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کانام یزید ہے، یہ بھی کہاجاتاہے کہ وہ عقیل ابن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں۔


2725- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَهِي. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَاهُ زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ سِمَاكٍ أَيْضًا.
* تخريج: د/الأدب ۱۶ (۴۸۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۷۳)، وحم (۵/۹۸) (صحیح)
۲۷۲۵- جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے توجس کوجہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- یہ حدیث زہیر بن معاویہ نے سماک سے بھی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : مجلس کو کشادہ رکھنا چاہیے تاکہ ہرآنے والے کو مجلس میں بیٹھنے کی جگہ مل جائے اور اس میں تنگی محسوس نہ کرے، مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیے، دوسرے کو اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھنا ممنوع ہے، اس میں رتبے و درجے کا کوئی اعتبار نہیں، یہ اور بات ہے کہ بیٹھا ہوا شخص اپنے سے بڑے کے لیے جگہ خالی کردے پھر تو اس جگہ بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30-بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَالِسِ عَلَى الطَّرِيقِ
۳۰-باب: راستے میں بیٹھنے والے کابیان​


2726- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ وَلَمْ يَسْمَعْهُ مِنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِنَاسٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ: "إِنْ كُنْتُمْ لاَ بُدَّ فَاعِلِينَ فَرُدُّوا السَّلاَمَ، وَأَعِينُوا الْمَظْلُومَ وَاهْدُوا السَّبِيلَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ .
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۴)، وانظر حم (۴/۲۸۱، ۲۸۳، ۲۹۱، ۲۹۳، ۳۰۱)، ودي/الاستئذان ۲۶ (۲۶۹۷) (صحیح)
۲۷۲۶- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:(سند میں اس بات کی صراحت ہے کہ ابواسحاق نے براء سے سنا نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے ، لیکن شواہدکی بناء پر صحیح ہے،بالخصوص شعبہ کی روایت ہو نے کی وجہ سے قوی ہے)انصار کے کچھ لوگ راستے میں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کاان کے پاس سے گزرہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: ''(یوں تو راستے میں بیٹھنا اچھانہیں ہے) لیکن اگر تم بیٹھنا ضروری سمجھتے ہو تو سلام کا جواب دیاکرو، مظلوم کی مدد کیاکرو ، اور (بھولے بھٹکے ہوئے کو)راستہ بتادیاکرو ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُصَافَحَةِ
۳۱-باب: مصافحہ کابیان​


2727- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلاَّ غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا". قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْبَرَائِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالأَجْلَحُ هُوَ ابْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيُّ.
* تخريج: د/الأدب ۱۵۳ (۵۲۱۳)، ق/الأدب ۱۶ (۳۷۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹)، وحم (۴/۲۸۹، ۳۰۳) (صحیح)
۲۷۲۷- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب دومسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) ومصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جداہونے سے پہلے انہیں بخش دیاجاتا ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- یہ حدیث براء سے متعدد سندوں سے بھی مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنا اور مصافحہ کرنا اگر ایک طرف دونوں میں محبت کا باعث ہے تودوسری جانب گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہے، اس مغفرت کا تعلق صرف صغیرہ گناہوں سے ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں سے، کبیرہ گناہ تو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔


2728- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ: "لاَ"، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: "لاَ"، قَالَ أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: "نَعَمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/الأدب ۱۵ (۳۷۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۲۲) (حسن)
۲۷۲۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول!ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتاہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں''، اس نے پوچھا:کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟ آپ نے فرمایا :'' نہیں''، اس نے کہا: پھر توو ہ اس کاہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپ نے فرمایا:''ہاں'' (بس اتنا ہی کافی ہے) ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں (۱) ملاقات کے وقت کسی کے سامنے جھکنا منع ہے، اس لیے جھک کر کسی کا پاؤں چھونا ناجائز ہے، (۲) اس حدیث میں معانقہ اور بوسے سے جو منع کیا گیا ہے،یہ ہر مرتبہ ملاقات کے وقت کرنے سے ہے، البتہ نئی سفر سے آکر ملے تو معانقہ و بوسہ درست ہے، (۳) ''أفيأخذ بيده ويصافحه'' سے یہ واضح ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے ہوگا، کیوں کہ حدیث میں دونوں ہاتھ کے پکڑنے کے متعلق نہیں پوچھا گیا، بلکہ یہ پوچھا گیا ہے کہ '' اس کے ہاتھ کو پکڑے اور مصافحہ کرے '' معلوم ہواکہ مصافحہ کا مسنون طریقہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہی ہے۔


2729- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ؛ قَالَ: قُلْتُ لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: هَلْ كَانَتْ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۲۷ (۶۲۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵) (صحیح)
۲۷۲۹- قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا:کیا رسول اللہﷺ کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2730- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الأَخْذُ بِالْيَدِ". وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَائِ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ. سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؛ فَلَمْ يَعُدَّهُ مَحْفُوظًا و قَالَ: إِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي حَدِيثَ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ سَمَرَ إِلاَّ لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ"، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنَّمَا يُرْوَى عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ أَوْ غَيْرِهِ قَالَ: مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الأَخْذُ بِالْيَدِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۶۴۱) (ضعیف)
(اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے)
۲۷۳۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' مکمل سلام (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کے ساتھ ساتھ) ہاتھ کو ہاتھ میں لینا یعنی( مصافحہ کرنا) ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سلیم کی روایت سے جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں ،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا کہ میرے نزدیک یحییٰ بن سلیم نے سفیان کی وہ روایت مراد لی ہے جسے انہوں نے منصور سے روایت کی ہے، اور منصور نے خیثمہ سے اور خیثمہ نے اس سے جس نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور ابن مسعود نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا:'' (بعد صلاۃ عشاء) بات چیت اور قصہ گوئی نہیں کرنی چاہیے، سوائے اس شخص کے جس کو (ابھی کچھ دیر بعد اٹھ کر تہجد کی) صلاۃ پڑھنی ہے یا سفر کرنا ہے، محمدکہتے ہیں : اورمنصورسے مروی ہے انہوں نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے عبدالرحمن بن یزیدسے یاان کے سوا کسی اور سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: سلام کی تکمیل سے مراد ہاتھ پکڑنا (مصافحہ کرنا) ہے،۳- اس باب میں براء اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔


2731- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "تَمَامُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ أَوْ قَالَ: عَلَى يَدِهِ فَيَسْأَلُهُ كَيْفَ هُوَ وَتَمَامُ تَحِيَّاتِكُمْ بَيْنَكُمْ الْمُصَافَحَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ قَالَ مُحَمَّدٌ: وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زَحْرٍ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ضَعِيفٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ يُكْنَى أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَالْقَاسِمُ شَامِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۱۰) (ضعیف) وانظر حم (۵/۲۶۰)
(یہ سند مشہور ضعیف سندوں میں سے ہے، عبید اللہ بن زحر'' اور ''علی بن زید بن جدعان'' دونوں سخت ضعیف ہیں)
۲۷۳۱- ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پررکھے''، یا آپ نے یہ فرمایا:'' (راوی کو شبہ ہوگیاہے) اپناہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے، پھر اس سے پوچھے کہ وہ کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: عبید اللہ بن زحر ثقہ ہیں اور علی بن یزید ضعیف ہیں ،۳ - قاسم بن عبدالرحمن کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے اوریہ عبدالرحمن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ثقہ ہیں اور قاسم شامی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُعَانَقَةِ وَالْقُبْلَةِ
۳۲-باب: معانقہ (گلے لنے) اور بوسہ کابیان​


2732- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ الْمَدِينَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي بَيْتِي؛ فَأَتَاهُ فَقَرَعَ الْبَابَ؛ فَقَامَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عُرْيَانًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ عُرْيَانًا قَبْلَهُ، وَلا بَعْدَهُ؛ فَاعْتَنَقَهُ، وَقَبَّلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لانَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۱۱) (ضعیف)
(سندمیں ''ابراہیم بن یحییٰ بن محمد '' اور ان کے باپ ''یحییٰ بن محمد بن عباد'' دونوں ضعیف ہیں)
۲۷۳۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ زید بن حارثہ مدینہ آئے ( اس وقت) رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فرماتھے، وہ آپ کے پاس آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، تو آپ ان کی طرف ننگے بدن اپنے کپڑے سمیٹتے ہوئے لپکے اور قسم اللہ کی میں نے آپ کو ننگے بدن نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھااور نہ اس کے بعد دیکھا ۱؎ ، آپ نے (بڑھ کر) انہیں گلے لگالیا اور ان کا بوسہ لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف زہری کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کسی کے استقبال میں آپﷺ کو اس حالت و کیفیت میں نہیں دیکھا جو حالت و کیفیت زید بن حارثہ سے ملاقات کے وقت تھی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھے سے گرگئی تھی اور آپ نے اسی حالت میں ان سے معانقہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
33-بَاب مَا جَاءَ فِي قُبْلَةِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ
۳۳-باب: ہاتھ پیر کا بوسہ لینا( کیساہے؟)​


2733- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ؛ قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لِصَاحِبِهِ: اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ؛ فَقَالَ صَاحِبُهُ: لا تَقُلْ: نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ؛ فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ لَهُمْ: "لاتُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلاتَسْرِقُوا، وَلا تَزْنُوا، وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ، وَلاتَمْشُوا بِبَرِيئٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ، وَلا تَسْحَرُوا، وَلا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلا تُوَلُّوا الْفِرَارَ يَوْمَ الزَّحْفِ، وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لا تَعْتَدُوا فِي السَّبْتِ"، قَالَ: فَقَبَّلُوا يَدَهُ وَرِجْلَهُ؛ فَقَالا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: "فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي؟" قَالُوا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا رَبَّهُ أَنْ لايَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ، وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ. وَفِي الْبَاب عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَسْوَدِ وَابْنِ عُمَرَ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الأدب ۱۶ (۳۷۰۵)، وأعادہ المؤلف في التفسیر (۳۱۴۴) والنسائی فی الکبری فی السیر (۸۶۵۶) وفی المحاربۃ (۳۵۴۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۱) وأحمد (۴/۲۳۹) (ضعیف)
(سندمیں ''عبد اللہ بن سلمہ'' مختلط ہوگئے تھے)
۲۷۳۳- صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا'نبی' نہ کہو۔ ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی، پھروہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ، اور آپ سے ( موسیٰ علیہ السلام کودی گئیں ) نوکھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے ان سے کہا (۱) کسی کواللہ کا شریک نہ بناؤ (۲) چوری نہ کرو (۳) زنانہ کرو (۴) ناحق کسی کو قتل نہ کرو (۵) کسی بے گناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کردے (۶) جادو نہ کرو(۷) سود مت کھاؤ (۸) پارساعورت پرزناکی تہمت مت لگاؤ (۹) اوردشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیرکر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اورخاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ سبت (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو، (آپ کاجواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا:''پھرتمہیں میری پیروی کرنے سے کیاچیز روکتی ہے؟'' انہوں نے کہا: داود علیہ السلام نے اپنے رب سے دعاکی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔ اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع (پیروی) کی تویہودی ہمیں مارڈالیں گے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں یزید بن اسود ،ابن عمر اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
34-بَاب مَا جَاءَ فِي مَرْحَبًا
۳۴-باب: مرحباکہنے کابیان​


2734- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ؛ أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئِ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ؛ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ؛ فَقَالَ: "مَنْ هَذِهِ"، قُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ فَقَالَ: "مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ"، قَالَ: فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً طَوِيلَةً. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الغسل ۲۱ (۲۸۰)، والصلاۃ ۴ (۳۵۷)، والجزیۃ ۹ (۳۱۷۱)، والأدب ۹۴ (۶۱۵۸)، م/الحیض ۱۶ (۳۳۶)، والمسافرین ۱۳ (۳۳۶/۸۲)، ق/الطھارۃ ۵۹ (۴۶۵) (ببعضۃ) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸)، وط/قصر الصلاۃ ۸ (۲۸)، وحم (۶/۳۴۳، ۴۲۳)، ودي/الصلاۃ ۱۵۱ (۱۴۹۴) (صحیح)
۲۷۳۴- ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فتح مکہ والے سال میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی۔آپ اس وقت غسل فرمارہے تھے،اور فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک کپڑے سے آپ کو آڑ کیے ہوئے تھیں۔ میں نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا:'' کون ہیں یہ؟'' میں نے کہا: میں ام ہانی ہوں، آپ نے فرمایا:'' ام ہانی کا آنامبارک ہو''۔
راوی کہتے ہیں پھر ابومرہ نے حدیث کا پوراواقعہ بیان کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2735- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ أَبُوحُذَيْفَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ أَبِي جَهْلٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَوْمَ جِئْتُهُ مَرْحَبًا بِالرَّاكِبِ الْمُهَاجِرِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ لاَ نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَمُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ مُرْسَلا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، وَهَذَا أَصَحُّ قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ: مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: وَكَتَبْتُ كَثِيرًا عَنْ مُوسَى بْنِ مَسْعُودٍ، ثُمَّ تَرَكْتُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۷) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''موسیٰ بن مسعود'' حافظہ کے کمزور تھے، اس لیے تصحیف (پھیر بدل) کے شکار ہوجایاکرتے تھے)
۲۷۳۵- عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں(مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے) آیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مہاجر سوارکاآنا مبارک ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے۔ ہم اسے صرف موسیٰ بن مسعود کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں۔ موسیٰ بن مسعودحدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۲- عبدالرحمن بن مہدی نے بھی یہ حدیث سفیان سے اور سفیان نے ابواسحاق سے مرسلا روایت کی ہے۔ اور اس سند میں مصعب بن سعد کا ذکر نہیں کیاہے اور یہی صحیح ترہے،۳- میں نے محمد بن بشار کوکہتے ہوئے سنا : موسیٰ بن مسعود حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۴- محمد بن بشار کہتے ہیں: میں نے موسیٰ بن مسعود سے بہت سی حدیثیں لیں، پھر میں نے ان سے حدیثیں لینی چھوڑدی،۵- اس باب میں بریدہ ، ابن عباس اور ابوجحیفہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

41-كِتَاب الأَدَبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۱-کتاب: اسلامی اخلاق وآداب


1-بَاب مَا جَاءَ فِي تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ
۱-باب: چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا​


2736- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ؛ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَالْبَرَائِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَارِثِ الأَعْوَرِ.
* تخريج: ق/الجنائز ۱ (۱۴۳۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۴۴)، وحم (۱/۸۹)، ودي/الاستئذان ۵ (۲۶۷۵) (صحیح)
( حارث بن عبداللہ أعور ضعیف راوی ہے، اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں، مؤلف نے حارث بن عبداللہ أعور کی تضعیف کا ذکر کیا ہے، اورشواہد کا بھی ذکر ہے ، اور اسی لیے حدیث کی تحسین کی ہے، اور صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ ۱۸۳۲، اوردیکھئے اگلی حدیث)
۲۷۳۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرحسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں،(۱) جب اس سے ملاقات ہوتو اسے سلام کرے، (۲) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، (۳) جب اسے چھینک آئے (اوروہ ''الحمد لله''کہے) تو ''يرحمك الله'' کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے، (۴) جب وہ بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کرے، (۵) جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ (قبرستان) جائے، (۶) اور اس کے لیے وہی پسندکرے جو اپنے لیے پسند کرتاہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے نبیﷺ سے آئی ہے، ۳-بعض محدثین نے حارث اعور سے متعلق کلام کیا ہے،۴- اور اس باب میں ابوہریرہ ، ابوایوب ، براء اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حقوق ایسے ہیں کہ ان پرعمل کرنے سے باہمی اخوت ومحبت کی رسی مضبوط ہوتی ہے ، حدیث میں بیان کردہ حقوق بظاہربڑے نہیں ہیں لیکن انجام اورنتیجے کے اعتبارسے بہت بڑے ہیں۔


2737- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِلْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ رَوَى عَنْهُ عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ.
* تخريج: م/السلام ۳ (۲۱۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۶۶)، وحم (۲/۳۲۱، ۳۷۲، ۴۱۲، ۵۴۰) (صحیح)
(و ورد عند خ (الجنائز ۲/ح ۱۲۴۰)، وم (السلام ۳/ح ۲۱۶۲) بلفظ ''خمس'')
۲۷۳۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مومن کے مومن پرچھ حقوق ہیں، (۱) جب بیمار ہوتو اس کی بیمارپرسی کرے، (۲) جب مرے تو اس کے جنازے میں شریک ہو،(۳) جب دعوت کرے تو قبول کرے،(۴) جب ملے تو اس سے سلام کرے ، (۵) جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب د ے، (۶) اس کے سامنے موجود رہے یا نہ رہے اس کاخیرخواہ ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- محمد بن موسیٰ مخزومی مدنی ثقہ ہیں ان سے عبدالعزیز ابن محمد اورابن ابی فدیک نے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا يَقُولُ الْعَاطِسُ إِذَا عَطَسَ
۲-باب: آدمی کوجب چھینک آیے توکیا کہے ؟​


2738- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَضْرَمِيٌّ - مَوْلَى الْجَارُودِ- عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَنَا أَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ الرَّبِيعِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۶۴۸) (حسن)
۲۷۳۸- نافع کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا'' الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ''یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کہنے کو تو میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم '' الحمد لله على كل حال'' (ہرحال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں) کہیں ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف زیاد بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دوسرے مقامات پر ایساکہا کرتاہوں لیکن اس کایوں کہنے کا یہ مقام نہیں ہے ،بلکہ اس جگہ اللہ کے رسول نے ہمیں ''الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ''کہنے کا حکم دیاہے۔
وضاحت ۲؎ : صحیح بخاری (کتاب الادب باب ۱۲۶)میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں صرف '' الحمد لله''کاذکرہے ، حافظ ابن حجرنے متعدد طرق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حمدوثنا کے جو بھی الفاظ اس بابت ثابت ہیں کہے جاسکتے ہیں جیسے ''الحمد لله رب العالمين '' کا اضافہ بھی ثابت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ تَشْمِيتُ الْعَاطِسِ
۳-باب : چھینکنے والے کا جواب کس طرح دیاجائے؟​


2739- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ دَيْلَمَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: كَانَ الْيَهُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ: يَرْحَمُكُمْ اللَّهُ؛ فَيَقُولُ: "يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَسَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الأدب ۱۰۱ (۵۰۳۸)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۸۷ (۲۳۲/م) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۸۲)، وحم (۴/۴۰۰) (صحیح)
۲۷۳۹- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہود نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے تو یہ امید لگاکرچھینکتے کہ آپ ﷺان کے لیے ''يرحمكم الله'' (اللہ تم پر رحم کرے) کہیں گے۔ مگر آپ (اس موقع پرصرف) ''يهديكم الله ويصلح بالكم'' (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کردے) فرماتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، ابوایوب ، سالم بن عبید،عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کی چھینک کے جواب میں صرف ''يهديكم الله ويصلح بالكم'' کہاجائے۔اور''یرحکم اللہ'' (اللہ تم پر رحم کرے) نہ کہاجائے کیونکہ اللہ کی رحمت اخروی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔


2740- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ؛ فَقَالَ: عَلَيْكَ، وَعَلَى أُمِّكَ؛ فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ؛ فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلاَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ: يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ عَنْ مَنْصُورٍ وَقَدْ أَدْخَلُوا بَيْنَ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، وَسَالِمٍ رَجُلاً.
* تخريج: د/الأدب ۹۹ (۵۰۳۱)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۸۶ (۲۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۶)، وحم (۶/۷، ۸) (ضعیف)
(ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان سند میں دو راویوں کا سقط ہے، عمل الیوم واللیلۃ کی روایت رقم: ۳۲۸-۲۳۰ سے یہ سقط ظاہر ہے، اگلی روایت صحیح ہے)
۲۷۴۰- سالم بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا:''السلام عليكم'' (اس کے جواب میں) سالم رضی اللہ عنہ نے کہا:''عليك وعلى وأمك '' (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر)، یہ بات اس شخص کو ناگوارمعلوم ہوئی تو سالم نے کہا:بھئی میں نے تووہی کہاہے جو نبی اکرمﷺنے کہا ہے۔ نبی اکرمﷺکے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا''السلام عليكم'' تو نبی اکرمﷺ نے کہا:''عليك وعلى أمك'' ،( تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو)۔ (آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے ''الحمد للہ رب العالمین'' کہناچاہیے۔ اور جواب دینے والا ''یرحمک اللہ اور (چھینکنے والا)''يغفر الله لي ولكم''کہے ،(نہ کہ '' السلام عليك''کہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔


2741- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَلْيَقُلِ الَّذِي يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ: هُوَ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ، وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ".
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۸۲ (۲۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۷۲) (صحیح)
2741/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ قَالَ: هَكَذَا رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَكَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى يَضْطَرِبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ: أَحْيَانًا عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَيَقُولُ أَحْيَانًا عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
2741/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الثَّقَفِيُّ الْمَرْوَزِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۷۴۱- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب کسی کو چھینک آئے تو ''الحمد لله على كل حال'' (تمام تعریفیں ہرحال میں اللہ کے لیے ہیں) کہے۔ اور جو اس کاجواب دے وہ ''يرحمك الله'' کہے، اور اس کے جواب میں چھینکنے والا کہے''يهديكم الله ويصلح بالكم''۔( اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست فرمادے)۔
۲۷۴۱/(م۱)- ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے ابن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے اسی سندسے اسی جیسی حدیث روایت کی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسی طرح شعبہ نے یہ حدیث ابن ابی لیلیٰ سے ابن ابی لیلیٰ نے ابوایوب کے واسطہ سے نبیﷺ سے روایت کی ہے،۲- ابن ابی لیلیٰ کواس حدیث میں اضطراب تھا، کبھی کہتے: ابوایوب روایت کرتے ہیں نبی اکرمﷺ سے، اور کبھی کہتے: علی روایت کرتے ہیں نبی اکرمﷺ سے۔
۲۷۴۱/(م ۲) - بیان کیا مجھ سے محمد بن بشار اورمحمد بن یحییٰ ثقفی مروزی نے ، دونوں کہتے ہیں: بیان کیاہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اوریحییٰ بن سعید قطان نے ابن ابی لیلیٰ سے، ابن ابی لیلیٰ نے اپنے بھائی عیسیٰ سے، عیسیٰ نے عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ سے،عبدالرحمن نے علی رضی اللہ عنہ سے اورعلی نے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ التَّشْمِيتِ بِحَمْدِ الْعَاطِسِ
۴-باب: چھینکنے والے کے'' الحمد للہ'' کہنے پر ''یرحمک اللہ'' کہہ کر دعاکرنا واجب ہے​


2742- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلَيْنِ عَطَسَا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا، وَلَمْ يُشَمِّتِ الآخَرَ فَقَالَ الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! شَمَّتَّ هَذَا، وَلَمْ تُشَمِّتْنِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَإِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/الأدب ۱۲۳ (۶۲۲۱)، م/الزہد ۹ (۲۹۹۱)، د/الأدب ۱۰۲ (۵۰۳۹)، ق/الأدب ۲۰ (۱۷۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۸۷۲)، ودي/الاستئذان ۳۱ (۲۷۰۲) (صحیح)
۲۷۴۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے پاس دوآدمیوں کو چھینک آئی ، آپ نے ایک کی چھینک پر '' يرحمك الله'' کہہ کر دعادی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی چھینک پر ''یرحمک اللہ'' کہہ کر دعادی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعانہیں دی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (چھینک آئی تو) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور (تجھے چھینک آئی تو ) تم نے اس کی حمد نہ کی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرمﷺ سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ چھینک آنے پر جوسنت کے مطابق ''الحمدللہ''کہے وہی دعائے خیرکا مستحق ہے ''الحمداللہ''نہ کہنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت نہیں ، یہ اوربات ہے کہ مسئلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں چھینکنے والے کو سمجھادیناچاہئے۔
 
Top