• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
173- بَاب مَا جَاءَ فِي طُولِ الْقِيَامِ فِي الصَّلاَةِ
۱۷۳- باب: صلاۃ میں دیرتک قیام کرنے کا بیان​


387- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: أَيُّ الصَّلاَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"طُولُ الْقُنُوتِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ حُبْشِيٍّ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ.
* تخريج: م/المسافرین ۲۲ (۷۵۶)، ق/الإقامۃ ۲۰۰ (۱۴۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۷)، حم (۳/۳۰۲، ۳۹۱، ۴۱۲) (صحیح)
۳۸۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا : کون سی صلاۃ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا:'' جس میں قیام لمباہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور یہ دیگرسندوں سے بھی جابربن عبداللہ سے مروی ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن حبشی اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ طول قیام کثرت رکوع وسجودسے افضل ہے، علماء کی ایک جماعت جس میں امام شافعی بھی شامل ہیں اسی طرف گئی ہے اوریہی حق ہے، رکوع اورسجود کی فضیلت میں جوحدیثیں وارد ہیں وہ اس کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ان دونوں کی فضیلت سے طول قیام پر ان کی افضلیت لازم نہیں آتی۔واضح رہے کہ یہ نفل صلاۃ سے متعلق ہے کیونکہ ایک تو فرض کی رکعتیں متعین ہیں، دوسرے امام کو حکم ہے کہ ہلکی صلاۃ پڑھائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
174- بَاب مَا جَاءَ فِي كَثْرَةِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَفَضْلِهِ
۱۷۴- باب: رکوع اور سجدہ کثرت سے کرنے کی فضیلت​


388- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: و حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ رَجَائٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ الْمُعَيْطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيُّ، قَالَ: لَقِيتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ لَهُ: دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ يَنْفَعُنِي اللهُ بِهِ، وَيُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، فَسَكَتَ عَنِّي مَلِيًّا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلّهِ سَجْدَةً إِلاَّ رَفَعَهُ اللهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً". قَالَ مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ: فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَسَأَلْتُهُ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْهُ ثَوْبَانَ؟ فَقَالَ: عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلّهِ سَجْدَةً إِلاَّ رَفَعَهُ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً". قَالَ: مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيُّ، وَيُقَالُ ابْنُ أَبِي طَلْحَةَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي فَاطِمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فِي كَثْرَةِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَابِ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: طُولُ الْقِيَامِ فِي الصَّلاَةِ أَفْضَلُ مِنْ كَثْرَةِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: كَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ أَفْضَلُ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا حَدِيثَانِ، وَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْئٍ. و قَالَ إِسْحَاقُ: أَمَّا فِي النَّهَارِ فَكَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَأَمَّا بِاللَّيْلِ فَطُولُ الْقِيَامِ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ لَهُ جُزْئٌ بِاللَّيْلِ يَأْتِي عَلَيْهِ، فَكَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ فِي هَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ، لأَنَّهُ يَأْتِي عَلَى جُزْئِهِ وَقَدْ رَبِحَ كَثْرَةَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا قَالَ إِسْحَاقُ هَذَا لأَنَّهُ كَذَا وُصِفَ صَلاَةُ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ، وَوُصِفَ طُولُ الْقِيَامِ، وَأَمَّا بِالنَّهَارِ فَلَمْ يُوصَفْ مِنْ صَلاَتِهِ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ مَا وُصِفَ بِاللَّيْلِ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۳ (۴۸۸)، ن/التطبیق ۸۰ (۱۱۴۰)، ق/الإقامۃ ۲۰۱ (۱۴۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۱۲)، حم (۲۷۶۵، ۲۸۰، ۲۸۳) (صحیح)
۳۸۸- معدان بن طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکے آزادکردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ مجھے کوئی ایساعمل بتائیں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے اورمجھے جنت میں داخل کرے، تو وہ کافی دیرتک خاموش رہے پھروہ میری طرف متوجہ ہوئے اورانہوں نے کہا کہ تم کثرت سے سجدے کیا کر و ۱؎ کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''جوبھی بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گا اللہ اس کی وجہ سے اس کاایک درجہ بلند کردے گا اوراس کا ایک گناہ مٹادے گا''۔معدان کہتے ہیں کہ پھر میری ملاقات ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ہوئی تومیں نے ان سے بھی اسی چیزکا سوال کیاجومیں نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے کیاتھا توانہوں نے بھی کہاکہ تم سجدے کو لازم پکڑوکیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے کہ ''جو بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گاتو اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک گناہ مٹادے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- رکوع اور سجدے کثرت سے کرنے کے سلسلے کی ثوبان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ ، ابوامامہ اور ابو فاطمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس با ب میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ صلاۃ میں دیرتک قیام کرنا کثرت سے رکوع اورسجدہ کرنے سے افضل ہے۔ اور بعض کاکہناہے کہ کثرت سے رکوع اور سجدے کرنادیرتک قیام کرنے سے افضل ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے اس سلسلے میں دونوں طرح کی حدیثیں مروی ہیں ،لیکن اس میں (کون راجح ہے اس سلسلہ میں) انہوں نے کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی ہے۔اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دن میں کثرت سے رکوع اور سجدے کرنا افضل ہے اور رات میں دیرتک قیام کرنا، الا یہ کہ کوئی شخص ایسا ہوجس کا رات کے حصہ میں قرآن پڑھنے کا کوئی حصہ متعین ہوتو اس کے حق میں رات میں بھی رکوع اورسجدے کثرت سے کرنا بہترہے۔کیوں کہ وہ قرآن کااتناحصہ توپڑھے گاہی جسے اس نے خاص کررکھا ہے اورکثرت سے رکوع اورسجدے کا نفع اسے الگ سے حاصل ہوگا، ۴- اسحاق بن راہویہ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ نبی اکرمﷺکے قیام اللیل (تہجد) کا حال بیان کیا گیا ہے کہ آپ اس میں دیرتک قیام کیا کرتے تھے، رہی دن کی صلاۃ تو اس کے سلسلہ میں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ آپ ان میں رات کی صلاتوں کی طرح دیرتک قیام کرتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی : زیادہ سے زیادہ نفل صلاتیں پڑھا کرو، اور ظاہربات ہے کہ زیادہ سے زیادہ صلاتیں پڑھے گا توان میں زیادہ سے زیادہ رکوع اور سجدے ہوں گے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
175- بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلاَةِ
۱۷۵- باب: صلاۃ میں سانپ اور بچھو مارنے کا بیان​


390- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِقَتْلِ الأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلاَةِ: الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَتْلَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلاَةِ. و قَالَ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ فِي الصَّلاَةِ لَشُغْلاً. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۶۹ (۹۲۱)، ن/السہو ۱۲ (۱۲۰۳)، ق/الإقامۃ ۱۴۶ (۱۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۱۳)، دي/الصلاۃ ۱۷۸ (۱۵۴۵) (صحیح)


۳۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دونوں کالوں کویعنی سانپ اوربچھوکو صلاۃ میں مارنے کا حکم دیاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس اور ابورافع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پرہے، اوریہی احمداور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴- اوربعض اہل علم نے صلاۃ میں سانپ اور بچھوکے مارنے کو مکروہ کہاہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صلاۃ خودایک شغل ہے( اوریہ چیز اس میں مخل ہوگی) پہلا قول (ہی) راجح ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

أَبْوَابُ السَّهْوِ
کتاب :صلاۃ میں سہوونسیان سے متعلق احکام ومسائل


176-بَاب مَا جَاءَ فِي سَجْدَتَيْ السَّهْوِ قَبْلَ التَّسْلِيمِ
۱۷۶-باب: سلام سے پہلے سجدئہ سہو کرنے کا بیان​


391- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ الأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ الأَسَدِيِّ حَلِيفِ بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ فِي صَلاَةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلاَتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، يُكَبِّرُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ، قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ، مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۴۶ (۸۲۹)، و۱۴۷ (۸۳۰)، والسہو۱ (۱۲۲۵)، و۵ (۱۲۳۰)، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۷۰)، م/المساجد ۱۹ (۵۷۰)، د/الصلاۃ ۲۰۰ (۱۰۳۴)، ن/التطبیق ۱۰۶ (۱۱۷۸)، والسہو ۲۸ (۱۲۶۲)، ق/الإقامۃ ۱۳۱ (۱۲۰۶، ۱۲۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۵۴)، ط/الصلاۃ ۱۷ (۶۵)، حم (۳۴۵۵، ۳۴۶) دي/الصلاۃ ۱۷۶ (۱۵۴۰) (صحیح)


391/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى وَأَبُو دَاوُدَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ وَعَبْدَاللهِ بْنَ السَّائِبِ الْقَارِءَ كَانَا يَسْجُدَانِ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ قَبْلَ التَّسْلِيمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ بُحَيْنَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، يَرَى سَجْدَتَيْ السَّهْوِ كُلِّهِ قَبْلَ السَّلاَمِ، وَيَقُولُ: هَذَا النَّاسِخُ لِغَيْرِهِ مِنَ الأَحَادِيثِ، وَيَذْكُرُ أَنَّ آخِرَ فِعْلِ النَّبِيِّ ﷺ كَانَ عَلَى هَذَا. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: إِذَا قَامَ الرَّجُلُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَإِنَّهُ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ قَبْلَ السَّلاَمِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ بُحَيْنَةَ.
وَعَبْدُاللهِ ابْنُ بُحَيْنَةَ هُوَ عَبْدُاللهِ بْنُ مَالِكٍ، وَهُوَ ابْنُ بُحَيْنَةَ، مَالِكٌ أَبُوهُ، وَبُحَيْنَةُ أُمُّهُ. هَكَذَا أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمَدِينِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي سَجْدَتَيْ السَّهْوِ، مَتَى يَسْجُدُهُمَا الرَّجُلُ: قَبْلَ السَّلاَمِ أَوْ بَعْدَهُ. فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَسْجُدَهُمَا بَعْدَ السَّلاَمِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ يَسْجُدُهُمَا قَبْلَ السَّلاَمِ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، مِثْلِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَرَبِيعَةَ، وَغَيْرِهِمَا، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَتْ زِيَادَةً فِي الصَّلاَةِ فَبَعْدَ السَّلاَمِ، وَإِذَا كَانَ نُقْصَانًا فَقَبْلَ السَّلاَمِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. و قَالَ أَحْمَدُ: مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَجْدَتَيْ السَّهْوِ فَيُسْتَعْمَلُ كُلٌّ عَلَى جِهَتِهِ: يَرَى إِذَا قَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ بُحَيْنَةَ: فَإِنَّهُ يَسْجُدُهُمَا قَبْلَ السَّلاَمِ، وَإِذَا صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا فَإِنَّهُ يَسْجُدُهُمَا بَعْدَ السَّلاَمِ، وَإِذَا سَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فَإِنَّهُ يَسْجُدُهُمَا بَعْدَ السَّلاَمِ، وَكُلٌّ يُسْتَعْمَلُ عَلَى جِهَتِهِ، وَكُلُّ سَهْوٍ لَيْسَ فِيهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ذِكْرٌ فَإِنَّ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ قَبْلَ السَّلاَمِ. و قَالَ إِسْحَاقُ: نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي هَذَا كُلِّهِ، إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: كُلُّ سَهْوٍ لَيْسَ فِيهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ذِكْرٌ، فَإِنْ كَانَتْ زِيَادَةً فِي الصَّلاَةِ يَسْجُدُهُمَا بَعْدَ السَّلاَمِ، وَإِنْ كَانَ نُقْصَانًا يَسْجُدُهُمَا قَبْلَ السَّلاَمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۵۴) (صحیح الإسناد)
(اگر محمد بن ابراہیم التیمی کی ملاقات ابوہریرہ سے ثابت ہو تو یہ سند صحیح ہے )
۳۹۱- عبداللہ ابن بحینہ اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ صلاۃِ ظہر میں کھڑے ہوگئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا؛چنانچہ جب صلاۃ پوری کرچکے توسلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دوسجدے کئے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبرکہا ، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدئہ سہوکیے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری رضی اللہ عنہما دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے، ۴- اوراسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کابھی یہی قول ہے؛ ان کی رائے ہے کہ سجدئہ سہو ہرصورت میں سلام سے پہلے ہے، اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیوں کہ نبی اکرم ﷺ کاعمل آخر میں اسی پر رہاہے،۵- اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دورکعت کے بعد کھڑا ہوجائے تو وہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پرعمل کرتے ہوئے سجدئہ سہو سلام سے پہلے کرے، ۶- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں، ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں، ۷- سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعدکرے، یہ قول سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا ہے،۸- اوربعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے، مثلاً یحییٰ بن سعید،ربیعہ وغیرہ کا اوریہی قول شافعی کا بھی ہے، ۹- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب صلاۃ میں زیادتی ہوئی ہوتو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہوتو سلام سے پہلے کرے، یہی قول مالک بن انس کا ہے،۱۰- اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدئہ سہو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہوکرنا چاہئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دورکعت کے بعد کھڑاہوجائے تو ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تووہ سجدہ سہو سلام کے بعدکرے، اور اگر ظہر اورعصر میں دوہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اکرم ﷺ کا فعل موجود ہے، اس پر اسی طرح عمل کرے، اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہﷺ سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدئہ سہو سلام سے پہلے کرے ۔
۱۱- اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔ مگرفرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہوکی جس صورت میں رسول اللہﷺ سے کوئی فعل موجو د نہ ہو تواس میں اگرصلاۃ میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدئہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہوتو سلام سے پہلے کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
177- بَاب مَا جَاءَ فِي سَجْدَتَي السَّهْوِ بَعْدَ السَّلاَمِ وَالْكَلاَمِ
۱۷۷-باب: سلام اور کلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کا بیان​


392- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِي الصَّلاَةِ؟ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۳۱ (۴۰۱)، و۳۲ (۴۰۴)، والسہو ۲ (۱۲۲۶)، والأیمان ۱۵ (۶۶۷۱)، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۴۹)، م/المساجد ۱۹ (۵۷۲)، د/الصلاۃ ۱۹۶ (۱۰۱۹)، ن/السہو ۲۵ (۱۲۴۲)، و۲۶ (۱۲۵۵)، ق/الإقامۃ ۱۲۹ (۱۲۰۳)، و۳۰ (۱۲۰۵)، و۱۳۳ (۱۲۱۱)، و۱۳۶ (۱۲۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۱۱)، حم (۱/۳۷۹، ۴۲۹، ۴۳۸، ۴۵۵)، دي/الصلاۃ ۱۷۵ (۱۵۳۹) (صحیح)
۳۹۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ظہر پانچ رکعت پڑھی تو آپ سے پوچھاگیا : کیاصلاۃ بڑھا دی گئی ہے؟ ( یعنی چار کے بجائے پانچ رکعت کردی گئی ہے) تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دوسجدے کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


393- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ بَعْدَ الْكَلاَمِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۹۴۲۴) (صحیح)
۳۹۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے سہو کے دونوں سجدے بات کرنے کے بعدکئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۱ ؎ ،۲- اس باب میں معاویہ ، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حکم نیچے والی حدیث میں موجودہے۔


394- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَجَدَهُمَا بَعْدَ السَّلاَمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ أَيُّوبُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ. وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ الظُّهْرَ خَمْسًا فَصَلاَتُهُ جَائِزَةٌ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ، وَإِنْ لَمْ يَجْلِسْ فِي الرَّابِعَةِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا وَلَمْ يَقْعُدْ فِي الرَّابِعَةِ مِقْدَارَ التَّشَهُّدِ فَسَدَتْ صَلاَتُهُ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم: ۳۹۹ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۸) (صحیح)
۳۹۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے سہو کے دونوں سجدے سلام کے بعد کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی) یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ایوب اور دیگرکئی لوگوں نے بھی ابن سیرین سے روایت کیا ہے، ۳- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۴- اہل علم کا اسی پرعمل ہے ،وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ظہر بھول کر پانچ رکعت پڑھ لے تو اس کی صلاۃ درست ہے وہ سہوکے دوسجدے کرلے اگرچہ وہ چوتھی (رکعت)میں نہ بیٹھا ہو، یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۵- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے اور چوتھی رکعت میں نہ بیٹھا ہو تو اس کی صلاۃ فاسد ہوجائے گی۔ یہ قول سفیان ثوری اور بعض کوفیوں کا ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : سفیان ثوری ، اہل کوفہ او رابوحنیفہ کا قول محض رائے پرمبنی ہے ، جب کہ ائمہ کرام مالک بن انس ، شافعی ، احمدبن حنبل اور بقول امام نووی سلف وخلف کے تمام جمہورعلماء مذکوربالاعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی صحیح حدیث کی بنیادپر یہی فتویٰ دیتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں ، کہ اگر کوئی بھول کراپنی صلاۃ میں ایک رکعت اضافہ کربیٹھے تو اُس کی صلاۃ نہ باطل ہوگی اور نہ ہی فاسد ، بلکہ سلام سے پہلے اگر یاد آجائے توسلام سے قبل سہوکے دوسجدے کرلے اور اگرسلام کے بعد یاد آئے تو بھی سہوکے دوسجدے کرلے ، یہی اُس کے لیے کا فی ہے ، اس لیے کہ نبی اکرمﷺنے ایساہی کیا تھا اور آپ نے کوئی اوررکعت پڑھ کر اس صلاۃ کو جُفت نہیں بنایا تھا ۔ (دیکھئے : تحفۃ الأحوذی : ۱/۳۰۴طبع ملتا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
178-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشَهُّدِ فِي سَجْدَتَيْ السَّهْوِ
۱۷۸-باب: سجدئہ سہو میں تشہد پڑھنے کا بیان​


395- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الأَنْصَارِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَشْعَثُ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى بِهِمْ فَسَهَا، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ تَشَهَّدَ، ثُمَّ سَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ - وَهُوَ عَمُّ أَبِي قِلاَبَةَ- غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَى مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ. وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ: عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو، وَيُقَالُ أَيْضًا: مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو. وَقَدْ رَوَى عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَهُشَيْمٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ بِطُولِهِ، وَهُوَ حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَلَّمَ فِي ثَلاثِ رَكَعَاتٍ مِنْ الْعَصْرِ، فَقَامَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْخِرْبَاقُ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي التَّشَهُّدِ فِي سَجْدَتَيْ السَّهْوِ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَتَشَهَّدُ فِيهِمَا وَيُسَلِّمُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ فِيهِمَا تَشَهُّدٌ وَتَسْلِيمٌ، وَإِذَا سَجَدَهُمَا قَبْلَ السَّلاَمِ لَمْ يَتَشَهَّدْ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، قَالاَ: إِذَا سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ قَبْلَ السَّلاَمِ لَمْ يَتَشَهَّدْ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۰۲ (۱۰۳۹)، ن/السہو ۲۳ (۱۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۵) (شاذ)
( حدیث میں تشہد کا تذکرہ شاذ ہے)
۳۹۵- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے انہیں صلاۃ پڑھائی آپ سے سہو ہوگیا ؛توآپ نے دوسجدے کئے پھر تشہد پڑھا ، پھر سلام پھیرا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- عبدالوھاب ثقفی ، ھشیم اور ان کے علاوہ کئی اورلوگوں نے بطریق : ''خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ '' یہ حدیث ذرا لمبے سیاق کے ساتھ روایت کی ہے، اور وہ یہی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عصرمیں صرف تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ایک آدمی اٹھا جسے ''خرباق''کہاجاتا تھا (اور اس نے پوچھا : کیا صلاۃ میں کمی کردی گئی ہے، یا آپ بھول گئے ہیں) ۳- سجدئہ سہوکے تشہد کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں کہ سجدہ سہوکے بعد تشہد پڑھے گا اور سلام پھیرے گا۔ اور بعض کہتے کہ سجدہ سہو میں تشہد اور سلام نہیں ہے اورجب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جب سلام سے پہلے سجدئہ سہوکرے توتشہد نہ پڑھے (اختلاف تو سلام کے بعد میں ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
179- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فَيَشُكُّ فِي الزِّيَادَةِ وَالنُّقْصَانِ
۱۷۹-باب: آدمی کو صلاۃ پڑھتے وقت کمی یا زیادتی میں شک وشبہ ہوجائے تو کیا کرے؟​


396- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِيَاضٍ يَعْنِي ابْنَ هِلاَلٍ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي سَعِيدٍ: أَحَدُنَا يُصَلِّي فَلاَيَدْرِي كَيْفَ صَلَّى؟ فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلَمْ يَدْرِ كَيْفَ صَلَّى فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الْوَاحِدَةِ وَالثِّنْتَيْنِ فَلْيَجْعَلْهُمَا وَاحِدَةً، وَإِذَا شَكَّ فِي الثِّنْتَيْنِ وَالثَّلاَثِ فَلْيَجْعَلْهُمَا ثِنْتَيْنِ، وَيَسْجُدْ فِي ذَلِكَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ". وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا شَكَّ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى فَلْيُعِدْ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۹۸ (۱۰۲۹)، ق/الإقامۃ ۱۲۹ (۱۲۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۹۶)، حم (۳/۱۲، ۳۷، ۵۰، ۵۱، ۵۴) (صحیح)
(ہلال بن عیاض یا عیاض بن ہلال مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۹۶- عیاض یعنی ابن ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم میں سے کوئی صلاۃ پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں (یا وہ کیا کرے ؟) تو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے :'' جب تم میں سے کوئی شخص صلاۃ پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی پڑھی ہے؟ تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دوسجدے کرلے'' ۔(یقینی بات پربنا کرنے کے بعد)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عثمان، ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ وغیرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- یہ حدیث ابوسعید سے دیگر کئی سندوں سے بھی مروی ہے، ۴- نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' جب تم سے کسی کو ایک اور دو میں شک ہوجائے تواسے ایک ہی مانے اور جب دواور تین میں شک ہو تو اسے دومانے اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دوسجدے کرے''۔اسی پر ہمارے اصحاب (محدثین) کاعمل ہے ۱؎ اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب کسی کواپنی صلاۃ میں شبہ ہوجائے اوروہ نہ جان سکے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ تو وہ پھر سے لوٹائے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور یہی راجح مسئلہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ مرجوح قول ہے۔


397- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْتِي أَحَدَكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَيَلْبِسُ عَلَيْهِ حَتَّى لاَيَدْرِيَ كَمْ صَلَّى، فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأذان ۴ (۶۰۸)، والعمل في الصلاۃ ۱۸ (۱۲۲۲)، والسہو ۶ (۱۲۳۱)، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۵)، م/الصلاۃ ۸ (۳۹)، والمساجد ۱۹ (۵۷۰)، د/الصلاۃ ۱۹۸ (۱۰۳۰)، ن/الأذان ۳۰ (۶۷۱)، والسہو ۲۵ (۱۲۵۳)، ق/الإقامۃ ۱۳۵ (۱۲۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۳۹)، حم (۲/۳۱۳، ۳۵۸، ۴۱۱، ۴۶۰، ۵۰۳، ۵۲۲، ۵۳۱) (صحیح)
۳۹۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' آدمی کے پاس شیطان اس کی صلاۃ میں آتاہے اور اُسے شبہ میں ڈال دیتاہے، یہاں تک آدمی نہیں جان پاتاکہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں ؟ چنانچہ تم میں سے کسی کو اگر اس قسم کا شبہ محسوس ہوتو اسے چاہئے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دوسجدے کرلے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یقینی بات پربنا کرنے کے بعد۔


398- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ:"إِذَا سَهَا أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ وَاحِدَةً صَلَّى أَوْ ثِنْتَيْنِ فَلْيَبْنِ عَلَى وَاحِدَةٍ، فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّى أَوْ ثَلاَثًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثِنْتَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثَلاَثًا صَلَّى أَوْ أَرْبَعًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثَلاَثٍ، وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۳۲ (۱۲۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۲۲)، حم (۱/۱۹۰، ۱۹۳) (صحیح)
۳۹۸- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' جب کوئی شخص صلاۃ بھول جائے اور یہ نہ جان سکے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو؟ توایسی صورت میں اسے ایک مانے، اور اگر وہ یہ نہ جاسکے کہ اس نے دو پڑھی ہے یا تین تو ایسی صورت میں دو پربناکرے، اور اگر وہ یہ نہ جان سکے کہ اس نے تین پڑھی ہے یا چارتو تین پربنا کرے، اور سلام پھیرنے سے پہلے سہوکے دوسجدے کرلے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
180- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسَلِّمُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
۱۸۰-باب: غلطی سے ظہر یا عصر کی دوہی رکعت میں سلام پھیر دینے والے کاحکم​


399- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ، وَهُوَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ انْصَرَفَ مِنْ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ: أَقُصِرَتِ الصَّلاَةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟" فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَذِي الْيَدَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ: إِذَا تَكَلَّمَ فِي الصَّلاَةِ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلاً أَوْ مَا كَانَ، فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلاَةَ، وَاعْتَلُّوا بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ. قَالَ: وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَرَأَى هَذَا حَدِيثًا صَحِيحًا فَقَالَ بِهِ. و قَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الصَّائِمِ إِذَا أَكَلَ نَاسِيًا فَإِنَّهُ لاَيَقْضِي، وَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللهُ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَفَرَّقَ هَؤُلاَءِ بَيْنَ الْعَمْدِ وَالنِّسْيَانِ فِي أَكْلِ الصَّائِمِ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ. و قَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ: إِنْ تَكَلَّمَ الإِمَامُ فِي شَيْئٍ مِنْ صَلاَتِهِ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ قَدْأَكْمَلَهَا، ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يُكْمِلْهَا: يُتِمُّ صَلاَتَهُ، وَمَنْ تَكَلَّمَ خَلْفَ الإِمَامِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنَ الصَّلاَةِ فَعَلَيْهِ أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا. وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْفَرَائِضَ كَانَتْ تُزَادُ وَتُنْقَصُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ وَهُوَ عَلَى يَقِينٍ مِنْ صَلاَتِهِ أَنَّهَا تَمَّتْ، وَلَيْسَ هَكَذَا الْيَوْمَ، لَيْسَ لأَحَدٍ أَنْ يَتَكَلَّمَ عَلَى مَعْنَى مَا تَكَلَّمَ ذُوالْيَدَيْنِ، لأَنَّ الْفَرَائِضَ الْيَوْمَ لاَ يُزَادُ فِيهَا وَلاَيُنْقَصُ، قَالَ أَحْمَدُ نَحْوًا مِنْ هَذَا الْكَلاَمِ. و قَالَ إِسْحَاقُ نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي هَذَا الْبَابِ.
* تخريج: خ/الأذان ۸۸ (۴۸۲)، والأذان ۶۹ (۷۱۴)، والسہو ۳ (۱۲۲۷)، و۴ (۱۲۲۸)، و۸۵ (۱۳۶۷)، والأدب ۴۵ (۶۰۵۱)، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۵۰)، م/المساجد ۱۹ (۵۷۳)، د/الصلاۃ ۱۹۵ (۱۰۰۸)، ن/السہو ۲۲ (۱۲۲۵)، ق/الإقامۃ ۱۳۴ (۱۲۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۴۹)، حم (۲/۲۳۵، ۴۳۳، ۴۶۰)، دي/الصلاۃ ۱۷۵(۱۵۳۸) (صحیح)
۳۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ(ظہریا عصرکی) دورکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا صلاۃ کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپﷺنے پوچھا: ''کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟'' لوگوں نے عرض کیا: ہاں ( آپ نے دوہی رکعت پڑھی ہیں) تورسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبرکہا، پھراپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمباسجدہ کیا، پھر اللہ اکبرکہا اور سراٹھا یا، پھراپنے اسی سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ (یعنی سجدہ سہو کیا)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمران بن حصین ، ابن عمر، ذوالیدین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اس حدیث کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی صلاۃ میں بھول کر یا لاعلمی میں یا کسی بھی وجہ سے بات کربیٹھے تو اُسے نئے سرے سے صلاۃ دہرانی ہوگی۔ وہ اس حدیث میں مذکور واقعہ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے ۱؎ ، ۴- رہے امام شافعی تو انہوں نے اس حدیث کوصحیح جاناہے اور اسی کے مطابق انہوں نے فتویٰ دیاہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اُس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو صائم کے سلسلے میں مروی ہے کہ جب وہ بھول کر کھالے تواس پر صوم کی قضا نہیں ،کیوں کہ وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صائم کے قصداً اوربھول کرکھانے میں جو تفریق کی ہے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے ہے ، ۵- امام احمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر امام یہ سمجھ کر کہ اس کی صلاۃ پوری ہوچکی ہے کوئی بات کرلے پھر اسے معلوم ہو کہ اس کی صلاۃ پوری نہیں ہوئی ہے تووہ اپنی صلاۃ پوری کرلے، اورجو امام کے پیچھے مقتدی ہو اوربات کر لے اوریہ جانتا ہو کہ ابھی کچھ صلاۃ اس کے ذمہ باقی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے دوبارہ پڑھے، انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہﷺکے زمانے میں فرائض کم یازیادہ کئے جاسکتے تھے۔اور ذوالیدین رضی اللہ عنہ نے جو بات کی تھی تو وہ محض اس وجہ سے کہ انہیں یقین تھاکہ صلاۃ کامل ہوچکی ہے اور اب کسی کے لئے اس طرح بات کرنا جائز نہیں جو ذوالیدین کے لیے جائزہوگیا تھا، کیوں کہ اب فرائض میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۱؎ ،۶- احمد کا قول بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس باب میں احمدجیسی بات کہی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس پران کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں، صرف یہ کمزوردعوی ہے کہ یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت ممنوع ہو نے سے پہلے کا ہے ، کیونکہ ذوالیدین رضی اللہ کا انتقال غزوئہ بدرمیں ہوگیاتھا، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا ، حالانکہ بدرمیں ذوالشمالین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی ، نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صاف صاف بیان کیاہے کہ میں اس واقعہ میں تھا(جیسا کہ مسلم اوراحمدکی روایت میں ہے)پس یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت ممنوع ہو نے کے بعدکا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات مبنی بردلیل نہیں ہے اگربات ایسی ہی تھی تو آپ ﷺ نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرمادی ، اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع علیہ السلام(نبی اکرمﷺ)کے لیے یہ جائزنہیں تھاکہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہواورآپ نہ بتائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
181- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي النِّعَالِ
۱۸۱-باب: جوتے پہن کر صلاۃ پڑھنے کا بیان​


400- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ قَالَ: قُلْتُ لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَكَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَطَاءِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي شَيْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۴ (۳۸۶)، واللباس ۳۷ (۵۸۵۰)، م/المساجد ۱۴ (۵۵۵)، ن/القبلۃ ۲۴ (۷۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶)، حم (۳/۱۰۰، ۱۶۶، ۱۸۹)، دي/الصلاۃ ۱۰۳ (۱۴۱۷) (صحیح)
۴۰۰- سعید بن یزید (ابومسلمہ)کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا رسول اللہﷺ اپنے جوتوں میں صلاۃ پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن ابی حبیبۃ ، عبداللہ بن عمرو ، عمرو بن حریث، شداد بن اوس ثقفی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اورعطاء سے بھی جو بنی شیبہ کے ایک فرد تھے احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتوں میں صلاۃ نہیں پڑھتے ، علماء کہتے ہیں کہ اگرجوتوں مں نجاست نہ لگی ہو تو ان میں صلاۃ یہودیوں کی مخالفت کے پیش نظرمستحب ہوگی ورنہ اسے رخصت پرمحمول کیا جائے گا ، مساجد کی تحسین وطہارت کے پیش نظرجہاں دریاں ، قالین وغیرہ بچھے ہوں وہاں جوتے اُتار کر صلاۃ پڑھنی چاہئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
182- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ
۱۸۲-باب: صلاۃِ فجر میں قنوت پڑھنے کا بیان​


401- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالاَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْنُتُ فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ وَالْمَغْرِبِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَخُفَافِ بْنِ أَيْمَاءَ بْنِ رَحْضَةَ الْغِفَارِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ: فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ الْقُنُوتَ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: لاَ يُقْنَتُ فِي الْفَجْرِ إِلاَّ عِنْدَ نَازِلَةٍ تَنْزِلُ بِالْمُسْلِمِينَ، فَإِذَا نَزَلَتْ نَازِلَةٌ فَلِلإِمَامِ أَنْ يَدْعُوَ لِجُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ.
* تخريج: م/المساجد ۵۴ (۶۷۸)، د/الصلاۃ ۳۴۵ (۱۴۴۱)، ن/التطبیق ۲۹ (۱۰۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۲)، حم (۴/۲۹۹)، دي/الصلاۃ ۲۱۶ (۱۶۳۸) (صحیح)
۴۰۱- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ فجر اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- براء کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، انس، ابوہریرہ، ابن عباس،اورخُفاف بن أیماء بن رحْضہ غفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- فجر میں قنوت پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے فجرمیں قنوت پڑھنے کی ہے، یہی مالک اورشافعی کا قول ہے،۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ فجرمیں قنوت نہ پڑھے، الایہ کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوئی ہوتوایسی صورت میں امام کو چاہئے کہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے دعاکرے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے شوافع نے فجرمیں قنوت پڑھناثابت کیاہے اوربرابرپڑھتے ہیں، لیکن اس میں تو ''مغرب''کاتذکرہ بھی ہے ،اس میں کیوں نہیں پڑھتے ؟دراصل یہاں قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے جوبوقت مصیبت پڑھی جاتی ہے (اس سے مراد وتر والی قنوت نہیں ہے) رسول اکرمﷺ بوقت مصیبت خاص طورپر فجرمیں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے تھے، بلکہ بقیہ صلاتوں میں بھی پڑھتے تھے، اورجب ضرورت ختم ہوجاتی تھی تو چھوڑدیتے تھے۔
 
Top