• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
37- بَاب مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْحَجَرِ
۳۷-باب: حجر اسود کو بوسہ لینے کا بیان​


860- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ: إِنِّي أُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ. وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الحج ۵۰ (۱۵۹۷)، و۵۷ (۱۶۰۵)، (۱۶۱۰)، م/الحج ۴۱ (۱۲۷۰)، د/المناسک ۴۷ (۱۸۷۳)، ن/الحج ۱۴۷ (۲۹۴۰)، ق/المناسک ۲۷ (۲۹۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۷۳)، حم (۱/۲۶، ۴۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: ط/الحج ۳۶ (۱۱۵)، حم (۱/۲۱، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۵۱، ۵۳، ۵۴)، دي/المناسک ۴۲ (۱۹۰۶) من غیر ہذا الطریق۔
۸۶۰- عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا ،وہ کہہ رہے تھے: میں تیرا بوسہ لے رہاہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ، اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اپنے اس قول سے عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے۔


861- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ. فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْهِ؟ أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ. رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ. قَالَ: وَهَذَا هُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ. وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَى أَبَا سَلَمَةَ. سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ. فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ، وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ. اسْتَلَمَهُ بِيَدِهِ وَقَبَّلَ يَدَهُ. وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَقْبَلَهُ إِذَا حَاذَى بِهِ وَكَبَّرَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: خ/الحج ۶۰ (۱۶۱۱)، ن/الحج ۱۵۵ (۲۹۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۹)، حم (۲/۱۵۲) (صحیح)
۸۶۱- زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے حجر اسود کابوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرمﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھاہے۔اس نے کہا: اچھابتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہوجاؤں اور اگرمیں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تواس پرابن عمر نے کہا: تم(یہ اپنا) اگرمگریمن میں رکھو ۱؎ میں نے نبی اکرمﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھاہے۔یہ زبیر بن عربی وہی ہیں ، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔اوران سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اورائمہ نے روایت کی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ ۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھولے اوراپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگروہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تواس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے ، یہ شافعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ مطلب یہ ہے کہ ''اگرمگر''چھوڑدو، اس طرح کے سوالات سنت رسول کے شیدائیوں کو زیب نہیں دیتے، یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیراہو نے کے لیے ہرممکن کوشش کر نی چاہئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
38- بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِالصَّفَا قَبْلَ الْمَرْوَةِ
۳۸-باب: سعی کی شروعات مروہ کے بجائے صفاسے کرنے کا بیان​


862- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ، طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا. وَأَتَى الْمَقَامَ فَقَرَأَ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} فَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ، فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ قَالَ: "نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ". فَبَدَأَ بِالصَّفَا وَقَرَأَ{إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِالصَّفَا قَبْلَ الْمَرْوَةِ. فَإِنْ بَدَأَ بِالْمَرْوَةِ قَبْلَ الصَّفَا لَمْ يُجْزِهِ، وَبَدَأَ بِالصَّفَا. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّى رَجَعَ . فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ. فَإِنْ ذَكَرَ وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْهَا، رَجَعَ فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. وَإِنْ لَمْ يَذْكُرْ حَتَّى أَتَى بِلاَدَهُ أَجْزَأَهُ وَعَلَيْهِ دَمٌ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ تَرَكَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى بِلاَدِهِ، فَإِنَّهُ لاَيُجْزِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ: الطَّوَافُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَاجِبٌ. لاَ يَجُوزُ الْحَجُّ إِلاَّ بِهِ.
* تخريج: انظر رقم: ۸۵۶ (صحیح)
۸۶۲- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جس وقت مکہ آئے توآپ نے بیت اللہ کے سات چکرلگائے اور یہ آیت پڑھی: { وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى } (البقرۃ: ۱۲۵) ( مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ یعنی وہاں صلاۃ پڑھو) ، پھر مقام ابراہیم کے پیچھے صلاۃ پڑھی، پھرحجر اسود کے پاس آئے اور اس کا استلام کیا پھرفرمایا:'' ہم (سعی) اسی سے شروع کریں گے جس سے اللہ نے شروع کیاہے۔ چنانچہ آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور یہ آیت پڑھی: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ}(البقرۃ: ۱۵۸) ( صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ا سی پر اہل علم کاعمل ہے کہ سعی مروہ کے بجائے صفا سے شروع کی جائے۔ اگر کسی نے صفا کے بجائے مروہ سے سعی شروع کردی تویہ سعی کافی نہ ہوگی اورسعی پھرسے صفاسے شروع کرے گا، ۳- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی، یہاں تک کہ واپس گھرچلاگیا،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی نے صفا ومروہ کے درمیان سعی نہیں کی یہاں تک کہ وہ مکہ سے باہرنکل آیا پھر اسے یاد آیا ، اور وہ مکے کے قریب ہے تو واپس جا کر صفا ومروہ کی سعی کرے ۔ اور اگراسے یاد نہیں آیا یہاں تک کہ وہ اپنے ملک واپس آگیاتواسے کافی ہوجائے گا لیکن اس پر دم لازم ہوگا، یہی سفیان ثوری کا قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے صفا ومروہ کے درمیان سعی چھوڑدی یہاں تک کہ اپنے ملک واپس آگیاتویہ اسے کافی نہ ہوگا۔ یہ شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی واجب ہے، اس کے بغیر حج درست نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
39- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
۳۹-باب: صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے کا بیان​


863- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّمَا سَعَى رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. فَإِنْ لَمْ يَسْعَ وَمَشَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَأَوْهُ جَائِزًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۱)، حم (۱/۲۵۵) (صحیح)
۸۶۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیت اللہ کا طواف کیا اورصفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھاسکیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عبا س رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ابن عمراور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے ، اگر وہ سعی نہ کرے بلکہ صفا ومروہ کے درمیان عام چال چلے تو اسے جائز سمجھتے ہیں۔


864- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَمْشِي فِي السَّعْيِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَتَمْشِي فِي السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ قَالَ: لَئِنْ سَعَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَسْعَى. وَلَئِنْ مَشَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَمْشِي. وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ.
* تخريج: د/الحج ۵۶ (۱۹۰۴)، ن/الحج ۱۷۴ (۲۹۷۹)، ق/المناسک ۴۳ (۲۹۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۷۹)، حم (۲/۵۳) (صحیح)
۸۶۴- کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہا کوسعی میں عام چال چلتے دیکھاتو میں نے ان سے کہا: کیا آپ صفا ومروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں؟ انہوں نے کہاـ: اگر میں دوڑ وں تو میں نے رسول اللہﷺ کودوڑتے بھی دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہﷺ کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے، اور میں کافی بوڑھاہوں ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عمر سے اسی طرح مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَا جَاءَ فِي الطَّوَافِ رَاكِبًا
۴۰-باب: سواری پر طواف کرنے کا بیان​


865- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَافَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى رَاحِلَتِهِ. فَإِذَا انْتَهَى إِلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي الطُّفَيْلِ وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَطُوفَ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا إِلاَّ مِنْ عُذْرٍ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: خ/الحج ۶۱ (۱۶۱۲)، و۶۲ (۱۶۱۳)، و۷۴ (۱۶۳۲)، والطلاق ۲۴ (۵۲۹۳)، ن/الحج ۱۶۰ (۲۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۵۰) (صحیح)
۸۶۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی سواری پربیت اللہ کا طواف کیا جب ۱؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر، ابوالطفیل اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے بیت اللہ کا طواف، اور صفا ومروہ کی سعی سوار ہوکرکرنے کو مکروہ کہا ہے الایہ کہ کوئی عذرہو ، یہی شافعی کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : سواری پرطواف آپ نے اس لیے کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اورآپ سے حج کے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگ آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔
وضاحت ۲؎ : یہ اشارہ آپ اپنی چھڑی سے کرتے تھے پھر اسے چوم لیتے تھے جیساکہ ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے جوصحیح مسلم میں آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
41- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الطَّوَافِ
۴۱-باب: طواف کعبہ کی فضیلت کا بیان​


866- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ خَمْسِينَ مَرَّةً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: إِنَّمَا يُرْوَى هَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۵۳۱) (ضعیف)
(سند میں سفیان بن وکیع یحییٰ بن یمان شریک القاضی اور ابواسحاق سبیعی سب میں کلام ہے ،صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا اپنا قول ہے)
۸۶۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے بیت اللہ کا طواف پچاس بار کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے اسی دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث غریب ہے،۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: یہ تو ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے روایت کیا جاتا ہے۔


867- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، قَالَ: كَانُوا يَعُدُّونَ عَبْدَاللهِ بْنَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَفْضَلَ مِنْ أَبِيهِ. وَلِعَبْدِ اللهِ أَخٌ يُقَالُ لَهُ عَبْدُالْمَلِكِ ابْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَيْضًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۵۲) (صحیح الإسناد)
۸۶۷- ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ لوگ عبداللہ بن سعید بن جبیر کوان کے والد سے افضل شمار کرتے تھے۔ اور عبداللہ کے ایک بھائی ہیں جنہیں عبدالملک بن سعید بن جبیر کہتے ہیں۔ انہوں نے ان سے بھی روایت کی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف نے یہ اثر پچھلی حدیث کے راوی ''عبداللہ بن سعید بن جبیر'' کی تعریف میں پیش کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
42- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ لِمَنْ يَطُوفُ
۴۲-باب: طواف کے بعد کی دورکعت کو عصرکے بعد اورفجرکے بعد پڑھنے کا بیان​


868- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بَابَاهَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لاَ تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَائَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ذَرٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جُبَيْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بَابَاهَ أَيْضًا. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ بِمَكَّةَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَبَأْسَ بِالصَّلاَةِ وَالطَّوَافِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا طَافَ بَعْدَ الْعَصْرِ لَمْ يُصَلِّ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ. وَكَذَلِكَ إِنْ طَافَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ أَيْضًا لَمْ يُصَلِّ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّهُ طَافَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ فَلَمْ يُصَلِّ. وَخَرَجَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّى نَزَلَ بِذِي طُوًى فَصَلَّى بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
* تخريج: د/الحج ۵۳ (۱۸۹۴)، ن/المواقیت ۴۱ (۵۸۶)، والحج ۱۳۷ (۲۹۲۷)، ق/الإقامۃ ۱۴۹ (۱۲۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۷)، حم (۴/۸۰، ۸۱، ۸۴)، دي/المناسک ۷۹ (۱۹۶۷) (صحیح)
۸۶۸- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اے بنی عبدمناف !رات دن کے کسی بھی حصہ میں کسی کو اس گھرکاطواف کرنے اور صلاۃ پڑھنے سے نہ روکو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جبیرمطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- عبداللہ بن ابی نجیح نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن باباہ سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابن عباس اور ابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- مکے میں عصر کے بعد اور فجر کے بعد صلاۃ پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں: عصرکے بعد اورفجرکے بعد صلاۃ پڑھنے اورطواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث ۲؎ سے دلیل لی ہے۔اوربعض کہتے ہیں: اگر کوئی عصرکے بعد طواف کرے تو سورج ڈوبنے تک صلاۃ نہ پڑھے ۔ اسی طرح اگرکوئی فجر کے بعد طواف کرے تو سورج نکلنے تک صلاۃ نہ پڑھے۔ ان کی دلیل عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد طواف کیااور صلاۃ نہیں پڑھی پھر مکہ سے نکل گئے یہاں تک کہ وہ ذی طوی میں اترے تو سورج نکل جانے کے بعد صلاۃ پڑھی۔ یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اوریہی ارجح واشبہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : جواس باب میں مذکورہے، اس کا ماحصل یہ ہے کہ مکے میں مکروہ اور ممنوع اوقات کا لحاظ نہیں ہے۔ (خاص کر طواف کے بعد دو رکعتوں کے سلسلے میں) جب کہ عام جگہوں میں فجر و عصر کے بعد کوئی نفل صلاۃ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَا جَاءَ مَا يُقْرَأُ فِي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ
۴۳-باب: طواف کی دورکعت میں کون سی سورت پڑھے؟​


869- أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ - قِرَائَةً - عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ بِسُورَتَيْ الإِخْلاَصِ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} {وَقُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۶۱۳) (صحیح)
(جعفر صادق کے طریق سے صحیح مسلم میں مروی طویل حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، ورنہ مولف کی اس سند میں عبدالعزیز بن عمران متروک الحدیث راوی ہے)
۸۶۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے طواف کی دورکعت میں اخلاص کی دونوں سورتیں یعنی { قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ } اور { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ }پڑھیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ کوسورئہ اخلاص تغلیباً کہا گیا ہے۔


870- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يَقْرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ بِـ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} {وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ}. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ وَحَدِيثُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا، أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ - عَنْ جَابِرٍ- عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: م/انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۲۴) (صحیح الإسناد)
۸۷۰- محمد(بن علی الباقر) سے روایت ہے کہ وہ طواف کی دونوں رکعتوں میں : قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سفیان کی جعفر بن محمدعن أبیہ کی روایت عبدالعزیز بن عمران کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اور (سفیان کی روایت کردہ) جعفر بن محمدکی حدیث جسے وہ اپنے والد (کے عمل سے) سے روایت کرتے ہیں (عبدالعزیز کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ اپنے والد سے اور وہ جابر سے اور وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں ۱؎ ، ۳- عبدالعزیز بن عمران حدیث میں ضعیف ہیں۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی کے اس قول میں نظرہے کیونکہ عبدالعزیزبن عمران اس حدیث کو عن جعفربن محمدعن أبیہ عن جابرکے طریق سے روایت کرنے میں منفردنہیں ہیں، امام مسلم نے اپنی صحیح میں (برقم: ۱۲۱۸) حاتم بن اسماعیل المدنی عن جعفربن محمد عن أبیہ عن جابر کے طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
44-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الطَّوَافِ عُرْيَانًا
۴۴-باب: ننگے طواف کرنے کی حرمت کا بیان​


871- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْئٍ بُعِثْتَ؟ قَالَ: بِأَرْبَعٍ: لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ. وَلاَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ. وَلاَ يَجْتَمِعُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا. وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ ﷺ عَهْدٌ، فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ. وَمَنْ لاَ مُدَّةَ لَهُ فَأَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر التوبۃ (۳۰۹۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۱) (صحیح)
۸۷۱- زید بن اُثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : آپ کوکن باتوں کاحکم دے کر بھیجاگیاہے؟ ۱؎ انہوں نے کہا:چار باتوں کا: جنت میں صرف وہی جان داخل ہوگی جو مسلمان ہو، بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا ہوکرنہ کرے۔مسلمان اور مشرک اس سال کے بعد جمع نہ ہوں، جس کسی کا نبی اکرمﷺ سے کوئی عہد ہوتو اس کایہ عہد اس کی مدت تک کے لیے ہوگا۔ اور جس کی کوئی مدت نہ ہو تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ اُس سال کے حج کی بات ہے جب نبی اکرمﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حج کا امیر بناکربھیجاتھا ، (آٹھویں یا نویں سال ہجرت میں )اورپھر اللہ عزوجل کی طرف سے حرم مکی میں مشرکین وکفار کے داخلہ پر پابندی کا حکم نازل ہوجانے کی بناپر آپ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مکہ میں یہ احکام دے کرروانہ فرمایا تھا، راوی حدیث زید بن اُثیع الہمدانی اُن سے انہی احکام واوامرکے بارے میں دریافت کررہے ہیں جو ان کونبی اکرمﷺ کی طرف سے دے کربھیجاگیاتھا۔


872- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ نَحْوَهُ، وَقَالاَ: زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَشُعْبَةُ وَهِمَ فِيهِ فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۸۷۲- ہم سے ابن ابی عمراورنصربن علی نے بیان کیا،یہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اورسفیان نے ابواسحاق سبیعی سے اسی طرح کی حدیث روایت کی، البتہ ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے (زید بن اثیع کے بجائے) زید بن یثیع کہاہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: شعبہ کو اس میں وہم ہوا ہے، انہوں نے : زید بن اُثیل کہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
45- بَاب مَا جَاءَ فِي دُخُولِ الْكَعْبَةِ
۴۵-باب: کعبہ کے اندر داخل ہونے کا بیان​


873- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ عِنْدِي، وَهُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ طَيِّبُ النَّفْسِ. فَرَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ حَزِينٌ فَقُلْتُ لَهُ: فَقَالَ: إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ. إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الحج ۹۵ (۲۰۲۹)، ق/المناسک (۷۹) (۳۰۶۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۳۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''اسماعیل بن عبدالملک ''کثیر الوہم ہیں)
۸۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ میرے پاس سے نکل کر گئے، آپ کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں اور طبیعت خوش ، پھرمیرے پاس لوٹ کر آئے ، تو غمگین اور افسردہ تھے، میں نے آپ سے (وجہ) پوچھی ،تو آپ نے فرمایا:'' میں کعبہ کے اندرگیا۔ اورمیری خواہش ہوئی کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ میں ڈررہاہوں کہ اپنے بعد میں نے اپنی امت کوزحمت میں ڈال دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
46- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الْكَعْبَةِ
۴۶-باب: کعبہ کے اندر صلاۃ پڑھنے کا بیان​


874- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ بِلاَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمْ يُصَلِّ وَلَكِنَّهُ كَبَّرَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بِلاَلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ يَرَوْنَ بِالصَّلاَةِ فِي الْكَعْبَةِ بَأْسًا. و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لاَ بَأْسَ بِالصَّلاَةِ النَّافِلَةِ فِي الْكَعْبَةِ. وَكَرِهَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ فِي الْكَعْبَةِ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ بَأْسَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ وَالتَّطَوُّعُ فِي الْكَعْبَةِ. لأَنَّ حُكْمَ النَّافِلَةِ وَالْمَكْتُوبَةِ فِي الطَّهَارَةِ وَالْقِبْلَةِ سَوَائٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۹) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الصلاۃ ۳۰ (۳۹۷)، و۸۱ (۴۸۶)، و۹۶ (۵۰۴)، والتہجد ۲۵ (۱۱۶۷)، والحج ۵۱ (۱۵۹۸)، والجہاد ۱۲۷ (۲۹۸۸)، والمغازي ۴۹ (۴۲۸۹)، و۷۷ (۴۴۰۰)، م/الحج ۲۸ (۱۳۲۹)، د/الحج ۹۳ (۲۰۲۳)، ن/المساجد ۵ (۶۹۱)، والقبلۃ ۶ (۷۴۸)، والحج ۱۲۶ (۲۹۰۸)، و۱۲۷ (۲۹۰۹)، ق/المناسک ۷۹ (۳۰۶۳)، ط/الحج ۶۳ (۱۹۳)، حم (۲/۳۳، ۵۵، ۱۱۳، ۱۲۰۰، ۱۳۸)، دي/المناسک ۴۳ (۱۹۰۸) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر فی السیاق۔
۸۷۴- بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے کعبہ کے اندر صلاۃ پڑھی۔جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: آپ نے صلاۃ نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیرکہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں اسامہ بن زید، فضل بن عباس، عثمان بن طلحہ اور شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳ - اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے ۔ وہ کعبہ کے اندر صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،۴- مالک بن انس کہتے ہیں: کعبے میں نفل صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اور انہوں نے کعبہ کے اندر فرض صلاۃ پڑھنے کومکروہ کہا ہے،۵- شافعی کہتے ہیں:کعبہ کے اندرفرض اورنفل کوئی بھی صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ نفل اور فرض کاحکم وضو اور قبلے کے بارے میں ایک ہی ہے۔
وضاحت ۱؎ : راجح بلال رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندرصلاۃ پڑھناثابت ہورہا ہے، رہی ابن عباس رضی اللہ عنہا کی نفی، تویہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیو نکہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہا نے انہیں اسی کی خبردی تھی اوراسامہ کے اس سے انکارکی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندرگئے توان لوگوں نے دروازہ بندکرلیااور ذکرودعامیں مشغول ہوگئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرمﷺ دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جاکردعامیں مشغول ہوگئے ،نبی اکرمﷺ دوسرے گوشے میں تھے اوربلال رضی اللہ عنہ آپ سے قریب تھے اورآپ دونوں کے بیچ میں تھے، نبی اکرمﷺ کی صلاۃچونکہ بہت ہلکی تھی اوراسامہ خودذکرودعامیں مشغول ومنہمک تھے اورنبی اکرمﷺ ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کوآپ کے صلاۃ پڑھنے کا علم نہ ہوسکاہوگااسی بناپرانہوں نے اس کی نفی کی ،واللہ اعلم۔
 
Top