• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

8- كِتَاب الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۸-کتاب: جنازہ کے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ الْمَرِيضِ
۱-باب: بیمارکے ثواب کا بیان​


965- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا،إِلاَّ رَفَعَهُ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَسَدِ بْنِ كُرْزٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَزْهَرَ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۱۴ (۲۵۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۹۵۳)، ط/العین ۳ (۶)، حم (۶/۳۹، ۴۲، ۱۶۰، ۱۷۳، ۱۷۵، ۱۸۵، ۲۰۲، ۲۱۵، ۲۱۵، ۲۵۵، ۲۵۷، ۲۷۸، ۲۷۹) (صحیح)
وأخرجہ خ/المرضی ۱ (۵۶۴۰) من غیر ہذا الوجہ بمعناہ۔
۹۶۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مومن کوکوئی کانٹابھی چبھتا ہے، یااس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند اور اس کے بدلے اس کاایک گناہ معاف کردیتا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد بن ابی وقاص ، ابوعبیدہ بن جراح ، ابوہریرہ ، ابوامامہ ، ابوسعید خدری ، انس ، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اسد بن کرز ، جابر بن عبداللہ ، عبدالرحمن بن ازہر اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


966- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْ شَيْئٍ يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ نَصَبٍ وَلاَ حَزَنٍ وَلاَ وَصَبٍ حَتَّى الْهَمُّ يَهُمُّهُ إِلاَّ يُكَفِّرُ اللهُ بِهِ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ فِي هَذَا الْبَابِ. قَالَ: وسَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَمْ يُسْمَعْ فِي الْهَمِّ أَنَّهُ يَكُونُ كَفَّارَةً إِلاَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/المرضی ۱ (۵۶۴۱، ۵۶۴۲)، م/البروالصلۃ ۱۴ (۲۵۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۶۵)، حم (۳/۴، ۲۴، ۳۸) (حسن صحیح)
۹۶۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' مومن کو جوبھی تکان ،غم ،اوربیماری حتی کہ فکر لاحق ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہ مٹادیتاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں یہ حدیث حسن ہے،۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق : ''عطاء بن يسار، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ روایت کی ہے، ۳- وکیع کہتے ہیں: اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں همّ(فکر) کے بارے میں نہیں سناگیا کہ وہ بھی گناہوں کاکفارہ ہوتا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ مومن کودنیامیں جوبھی آلام ومصائب پہنچتے ہیں اللہ انہیں اپنے فضل سے اس کے گناہوں کاکفارہ بنادیتاہے، لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب مومن صبرکرے، اور اگروہ صبرکے بجائے بے صبری کا مظاہرہ اورتقدیرکارونارونے لگے تو وہ اس اجرسے تومحروم ہوہی جائے گا، اورخطرہ ہے کہ اسے مزیدگناہوں کابوجھ نہ اٹھاناپڑجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ
۲-باب: مریض کی عیادت کا بیان​


967- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي مُوسَى، وَالْبَرَائِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى أَبُوغِفَارٍ وَعَاصِمٌ الأَحْوَلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: مَنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ فَهُوَ أَصَحُّ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحَادِيثُ أَبِي قِلاَبَةَ إِنَّمَا هِيَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، إِلاَّ هَذَا الْحَدِيثَ فَهُوَ عِنْدِي عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ.
* تخريج: م/البروالصلۃ ۱۳ (۲۵۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۵)، حم (۵/۲۷۷، ۲۸۱، ۲۸۱، ۲۸۳، ۲۸۴) (صحیح)
۷۶۷- ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتاہے تو وہ برابر جنت میں پھل چنتارہتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ثوبان کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوغفار اورعاصم احول نے یہ حدیث بطریق: ''أبي قلابة، عن أبي الأشعث، عن أبي أسماء، عن ثوبان، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے، ۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ جس نے یہ حدیث بطریق: ''أبي الأشعث، عن أبي اسماء '' روایت کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے،۴- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابوقلابہ کی حدیثیں ابواسماء ہی سے مروی ہیں سوائے اس حدیث کے یہ میرے نزدیک بطریق : ''أبي الأشعث، عن أبي أسماء ''مروی ہے،۵- اس باب میں علی، ابوموسیٰ، براء ، ابوہریرہ، انس اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


968- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَزَادَ فِيهِ قِيلَ: مَا خُرْفَةُ الْجَنَّةِ ؟ قَالَ: جَنَاهَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
968/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ خَالِدٍ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۶۸- اس سند سے بھی ثوبان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: عرض کیاگیا: جنت کا خرفہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا: '' ا س کے پھل توڑنا''۔ایک دوسری سندسے ایوب سے اورایوب نے ابوقلابہ سے، اورابوقلابہ نے ابواسماء سے ، اورابواسماء نے ثوبان سے اور ثوبان نے نبی اکرمﷺسے خالد الحذاء کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،اور اس میں احمدبن عبدہ نے ابواشعث کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: بعض نے یہ حدیث حماد بن زید سے روایت کی ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔


969- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرٍ هُوَ ابْنُ أَبِي فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَخَذَ عَلِيٌّ بِيَدِي قَالَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْحَسَنِ نَعُودُهُ. فَوَجَدْنَا عِنْدَهُ أَبَا مُوسَى. فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَم: أَعَائِدًا جِئْتَ، يَا أَبَا مُوسَى! أَمْ زَائِرًا؟ فَقَالَ: لاَ بَلْ عَائِدًا. فَقَالَ عَلِيٌّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً، إِلاَّ صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ. وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً، إِلاَّ صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ. وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ مِنْهُمْ مَنْ وَقَفَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلاَقَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۸) (صحیح
اس میں ''زائرا'' لفظ صحیح نہیں ہے ،اس کی جگہ ''شامتا''صحیح ہے ملاحظہ ہو ''الصحیحۃ'' رقم:۱۳۶۷)
۹۶۹- ابوفاختہ سعید بن علاقہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے میراہاتھ پکڑکرکہا: ہمارے ساتھ حسن کے پاس چلوہم ان کی عیادت کریں گے توہم نے ان کے پاس ابوموسیٰ کو پایا۔ توعلی رضی اللہ عنہ نے پوچھا:ابوموسیٰ کیا آپ عیادت کے لیے آئے ہیں؟ یازیارت -شماتت- کے لیے؟ توانہوں نے کہا: نہیں، بلکہ عیادت کے لیے آیاہوں۔اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے :'' جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتاہے تو شام تک سترہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اورجو شام کو عیادت کرتاہے تو صبح تک سترہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- علی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی اوربھی طرق سے بھی مروی ہے،ان میں سے بعض نے موقوفاً اور بعض نے مرفوعاً روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ التَّمَنِّي لِلْمَوْتِ
۳-باب: موت کی تمنا کرنے کی ممانعت کا بیان​


970- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى خَبَّابٍ، وَقَدْ اكْتَوَى فِي بَطْنِهِ، فَقَالَ: مَا أَعْلَمُ أَحَدًا لَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ الْبَلاَئِ مَا لَقِيتُ. لَقَدْ كُنْتُ وَمَا أَجِدُ دِرْهَمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ. وَفِي نَاحِيَةٍ مِنْ بَيْتِي أَرْبَعُونَ أَلْفًا. وَلَوْلاَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَانَا، أَوْ نَهَى أَنْ نَتَمَنَّى الْمَوْتَ، لَتَمَنَّيْتُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ خَبَّابٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۳ (۴۱۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۱۱)، حم (۵/۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱)، والمؤلف فی القیامۃ ۴۰ (۲۴۸۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/المرضی ۱۹ (۵۶۷۲)، والدعوات ۳۰ (۶۳۴۹)، والرقاق ۷ (۶۴۳۰)، والتمنی ۶ (۷۲۳۴)، م/الذکر ۴ (۲۶۸۱)، ن/الجنائز ۲ (۱۸۲۴)، حم (۵/۱۰۹، ۱۱۱، ۱۱۲) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۷۰- حارثہ بن مضرب کہتے ہیں : میں خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، ان کے پیٹ میں آگ سے داغ کے نشانات تھے، توانہوں نے کہا:نہیں جانتاکہ صحابہ میں کسی نے اتنی مصیبت جھیلی ہو جو میں نے جھیلی ہے، نبی اکرمﷺ کے عہد میں میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہوتاتھا، جب کہ اس وقت میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں، اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں موت کی تمنا ضرورکرتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- خباب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس، ابوہریرہ، اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


971- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "لاَ يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ. وَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ! أَحْيِنِي مَا كَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي".
* تخريج: خ/الدعوات ۳۰ (۶۳۵۱)، م/الذکر ۴ (۲۶۸۰)، ن/الجنائز ۱ (۱۸۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۱) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/المرضی ۱۹ (۵۶۷۱)، م/الذکر (المصدرالمذکور)، د/الجنائز ۱۳ (۳۱۰۸)، ن/الجنائز (۱۸۲۱)، ق/الزہد ۳۱ (۴۲۶۵)، حم (۱/۱۰۴، ۱۶۳، ۱۷۱، ۱۹۵، ۲۰۸، ۲۴۷) من غیر ہذا الطریق۔
۹۷۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی ہرگز کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس پرنازل ہوئی ہوموت کی تمنانہ کرے۔ بلکہ وہ یوں کہے :''اللّهُمَّ! أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي''اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہترہو ، اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہترہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّعَوُّذِ لِلْمَرِيضِ
۴-باب: مریض پردم کرنے کا بیان​


972- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الْبَصْرِيُّ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: يَامُحَمَّدُ! اشْتَكَيْتَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ. مِنْ كُلِّ شَيْئٍ يُؤْذِيكَ. مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ وَعَيْنِ حَاسِدٍ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ، وَاللهُ يَشْفِيكَ.
* تخريج: م/السلام ۱۶ (۲۱۸۶)، ق/الطب ۳۶ (۳۵۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۶۳)، حم (۳/۲۸، ۵۶) (صحیح)
۹۷۲- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرمﷺ کے پاس آکرجبریل نے پوچھا: اے محمد! کیا آپ بیمار ہیں؟ فرمایا:ہاں، جبریل نے کہا:''بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ. مِنْ كُلِّ شَيْئٍ يُؤْذِيكَ. مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ وَعَيْنِ حَاسِدٍ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ، وَاللهُ يَشْفِيكَ'' (میں اللہ کے نام سے آپ پردم کرتاہوں ہراس چیزسے جو آپ کو ایذاء پہنچا رہی ہے، ہرنفس کے شر سے اور ہرحاسد کی آنکھ سے ، میں اللہ کے نام سے آپ پردم کرتاہوں، اللہ آپ کو شفا عطافرمائے گا )۔


973- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ! اشْتَكَيْتُ. فَقَالَ أَنَسٌ: أَفَلاَ أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: اللّهُمَّ! رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ الْبَاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي. لاَ شَافِيَ إِلاَّ أَنْتَ. شِفَائً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقُلْتُ لَهُ: رِوَايَةُ عَبْدِالْعَزِيزِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَصَحُّ أَوْ حَدِيثُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ؟ قَالَ: كِلاَهُمَا صَحِيحٌ. وَرَوَى عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: خ/الطب ۳۸ (۵۷۴۲)، د/الطب ۱۹ (۳۸۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۴)، حم (۳/۱۵۱) (صحیح)
۹۷۳- عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں: میں اور ثابت بنانی دونوں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ ثابت نے کہا: ابوحمزہ ! میں بیمارہوگیاہوں،انس نے کہا: کیامیں تم پررسول اللہ ﷺکے منترکے ذریعہ دم نہ کردوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! انس نے کہا:''اللّهُمَّ! رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ الْبَاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي. لاَ شَافِيَ إِلاَّ أَنْتَ. شِفَائً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا'' (اے اللہ ! لوگوں کے رب! مصیبت کو دور کرنے والے! شفاعطافرما، تو ہی شفادینے والاہے، تیرے سوا کوئی شافی نہیں ۔ ایسی شفادے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہ جائے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعید خدری کی حدیث حسن صحیح ہے،۲ - میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاکہ عبدالعزیز بن صہیب کی روایت بسند ابی نضرۃ عن ابی سعید الخدری زیادہ صحیح ہے یا عبدالعزیز کی انس سے روایت ہے ؟ تو انہوں نے کہا: دونوں صحیح ہیں، ۳- عبدالصمد بن عبدالوارث نے بسندعبدالوارث عن عبدالعزیزبن صہیب عن ابی نضرۃ عن ابی سعیدالخدری روایت کی ہے اورعبدالعزیز بن صھیب نے انس سے بھی روایت کی ہے، ۴-اس باب میں انس اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى الْوَصِيَّةِ
۵-باب: وصیت کرنے پر ابھارنے کا بیان​


974- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْئٌ يُوصِي فِيهِ إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الوصایا ۱ (۱۶۲۷)، ق/الوصایا ۲ (۲۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۴۴) (صحیح) حم (۲/۵۷، ۸۰)، (ویأتي عند المؤلف فی الوصایا ۳ (۲۱۱۸)، وأخرجہ کل من : خ/الوصایا ۱ (۲۷۳۸)، م/الوصایا (المصدر المذکور)، ن/الوصایا ۱ (۳۶۴۵، ۳۶۴۶، ۳۶۴۸)، ط/الوصایا ۱ (۱)، حم (۲/۴، ۱۰، ۳۴، ۵۰، ۱۱۳)، دي/الوصایا ۱ (۳۲۳۹)، من غیر ہذا الوجہ۔
۹۷۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایک مسلمان ، جس کی دو راتیں بھی اس حال میں گزریں کہ اس کے پاس وصیت کرنے کی کوئی چیز ہو، اس پر لازم ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی حدحث آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ
۶-باب: تہائی یاچوتھائی مال کی وصیت کرنے کا بیان​


975- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَنَا مَرِيضٌ. فَقَالَ: أَوْصَيْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: بِكَمْ ؟ قُلْتُ: بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللهِ. قَالَ: فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ؟ قُلْتُ: هُمْ أَغْنِيَائُ بِخَيْرٍ. قَالَ: أَوْصِ بِالْعُشْرِ، فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ حَتَّى قَالَ: أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ. قَالَ أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ: وَنَحْنُ نَسْتَحِبُّ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ. لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. لاَ يَرَوْنَ أَنْ يُوصِيَ الرَّجُلُ بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ. وَيَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ. قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ فِي الْوَصِيَّةِ الْخُمُسَ دُونَ الرُّبُعِ. وَالرُّبُعَ دُونَ الثُّلُثِ وَمَنْ أَوْصَى بِالثُّلُثِ فَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا. وَلاَ يَجُوزُ لَهُ إِلاَّ الثُّلُثُ.
* تخريج: ن/الوصایا ۳ (۳۶۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۸) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۳۶ (۱۲۹۵)، والوصایا ۲ (۲۷۴۲)، ومناقب الأنصار ۴۹ (۳۹۳۶)، والمغازي ۷۷ (۴۳۹۵)، والنفقات ۱ (۵۳۵۴)، المرضی ۱۳ (۵۶۵۹)، والدعوات ۴۳ (۶۳۷۳)، والفرائض ۶ (۶۷۳۳)، م/الوصایا ۲ (۱۶۲۸)، د/الوصایا ۲ (۲۸۶۴)، ن/الوصایا ۳ (۳۶۵۶، ۳۶۶۰، ۳۶۶۱، ۳۶۶۲، ۳۶۶۵)، ق/الوصایا ۵ (۲۷۰۸)، ط/الوصایا ۳ (۴)، حم (۱/۱۶۸، ۱۷۲، ۱۷۶، ۱۷۹)، دي/الوصایا ۷ (۳۲۳۸،۳۲۳۹ ) والمؤلف/الوصایا ۱ (۲۱۱۶) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۷۵- سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت فرمائی ،میں بیمار تھا۔ توآپ نے پوچھا: کیا تم نے وصیت کردی ہے؟ میں نے عرض کیا:جی ہاں(کردی ہے)، آپ نے فرمایا: ''کتنے کی؟ '' میں نے عرض کیا: اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی۔ آپ نے پوچھا: ''اپنی اولادکے لیے تم نے کیاچھوڑا؟'' میں نے عرض کیا :وہ مال سے بے نیازہیں، آپ نے فرمایا: ''دسویں حصے کی وصیت کرو''۔ تو میں برابراسے زیادہ کراتارہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ''تہائی مال کی وصیت کرو، اور تہائی بھی زیادہ ہے''۔
ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ تہائی مال کی وصیت بھی زیادہ ہے مستحب یہی سمجھتے ہیں کہ تہائی سے بھی کم کی وصیت کی جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دوسرے اور طرق سے بھی مروی ہے،۳- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔ اوران سے''والثلث كثير'' کی جگہ ''والثلث كبير''(تہائی بڑی مقدارہے)بھی مروی ہے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس بات کوصحیح قرارنہیں دیتے کہ آدمی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اورمستحب سمجھتے ہیں کہ تہائی سے کم کی وصیت کرے،۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: لوگ چوتھائی حصہ کے مقابل میں پانچویں حصہ کو اور تہائی کے مقابلے میں چوتھائی حصہ کومستحب سمجھتے تھے ، اور کہتے تھے کہ جس نے تہائی کی وصیت کردی اس نے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور اس کے لیے تہائی سے زیادہ جائزنہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي تَلْقِينِ الْمَرِيضِ عِنْدَ الْمَوْتِ وَالدُّعَائِ لَهُ عِنْدَهُ
۷-باب: موت کے وقت مریض کو لاالہ الااللہ کی تلقین کرنے اور اس کے پاس اس کے حق میں دعا کرنے کا بیان​


976- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ: لاَإِلَهَ إِلاَّ اللهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَسُعْدَى الْمُرِّيَّةِ، وَهِيَ امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجنائز ۱ (۹۱۶)، د/الجنائز ۲۰ (۳۱۱۷)، ن/الجنائز ۲۰ (۳۱۱۷)، ن/الجنائز ۴ (۱۸۲۷)، ق/الجنائز ۳ (۱۴۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۰۳)، حم (۳/۳) (صحیح)
۹۷۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''تم اپنے مرنے والے لوگوں کو جوبالکل مرنے کے قریب ہوں ''لا إله إلا الله'' کی تلقین ۱؎ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوسعیدخدری کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، ام سلمہ ، عائشہ ، جابر ، سُعدیٰ مریہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- سُعدیٰ مریہ طلحہ بن عبید اللہ کی بیوی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی مرنے والے کے پاس ''لا إله إلا الله'' پڑھ کر اسے کلمہ شہادت کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی اسے پڑھنے لگے، براہ راست اس سے پڑھنے کے لیے نہ کہاجائے کیونکہ وہ تکلیف کی شدت سے جھنجھلاکرانکاربھی کرسکتا ہے جس سے کفرلازم آئے گا،لیکن شیخ ناصرالدین البانی نے اسے درست قرارنہیں دیا وہ کہتے ہیں کہ تلقین کامطلب یہ ہے کہ اسے ''لا إله إلا الله'' پڑھنے کے لیے کہا جائے۔افضل یہ ہے کہ مریض کی حالت دیکھ کر عمل کیا جائے۔


977- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا حَضَرْتُمْ الْمَرِيضَ أَوِ الْمَيِّتَ فَقُولُوا خَيْرًا فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ".
قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ؛ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ مَاتَ. قَالَ: فَقُولِيَ: "اللّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ. وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَى حَسَنَةً". قَالَتْ: فَقُلْتُ فَأَعْقَبَنِي اللهُ مِنْهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ: رَسُولَ اللهِ ﷺ. شَقِيقٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، أَبُو وَائِلٍ الأَسَدِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُلَقَّنَ الْمَرِيضُ عِنْدَ الْمَوْتِ: قَوْلَ "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ". و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا قَالَ ذَلِكَ مَرَّةً، فَمَا لَمْ يَتَكَلَّمْ بَعْدَ ذَلِكَ؛ فَلاَ يَنْبَغِي أَنْ يُلَقَّنَ وَلاَ يُكْثَرَ عَلَيْهِ فِي هَذَا. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ جَعَلَ رَجُلٌ يُلَقِّنُهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَكْثَرَ عَلَيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَبْدُاللهِ: إِذَا قُلْتُ مَرَّةً فَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مَا لَمْ أَتَكَلَّمْ بِكَلاَمٍ. وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ عَبْدِاللهِ، إِنَّمَا أَرَادَ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ <مَنْ كَانَ آخِرُ قَوْلِهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ>.
* تخريج: م/الجنائز ۳ (۹۱۹)، د/الجنائز ۱۹ (۳۱۱۵)، ن/الجنائز ۷ (۱۸۲۶)، ق/الجنائز ۴ (۱۴۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۶۲)، حم (۶/۲۹۱، ۳۰۶) (صحیح)
وأخرجہ کل من : ق/الجنائز ۵۵ (۱۵۹۸)، ط/الجنائز ۱۴ (۴۲) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۷۷- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: '' جب تم مریض کے پاس یا کسی مرے ہوے آدمی کے پاس آؤتواچھی بات کہو ۱؎ ، اس لیے کہ جوتم کہتے ہو اس پر ملائکہ آمین کہتے ہیں''، جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا، تومیں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ! ابوسلمہ کا انتقال ہوگیاہے۔ آپ نے فرمایا: تو تم یہ دعا پڑھو : ''اللّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ. وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَى حَسَنَةً'' (اے اللہ ! مجھے اور انہیں معاف فرمادے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطافرما) وہ کہتی ہیں: جب میں نے یہ دعاپڑھی تو اللہ نے مجھے ایسی ہستی عطا کردی جو ان سے بہتر تھی یعنی رسول اللہ ﷺکوعطا کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مریض کو اس کی موت کے وقت ''لا إله إلا الله ''کی تلقین کی جائے،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ (میت) اسے ایک بار کہہ دے اور اس کے بعد پھرنہ بولے تو مناسب نہیں کہ اس کے سامنے بار بار یہ کلمہ دہرایا جائے ،۴- ابن مبارک کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان کی موت کاوقت آیا، تو ایک شخص انہیں'' لا إله إلا الله ''کی تلقین کرنے لگا اور باربارکرنے لگا، عبداللہ بن مبارک نے اس سے کہا: جب تم نے ایک بار کہہ دیا تو میں اب اسی پر قائم ہوں جب تک کوئی اورگفتگو نہ کروں، عبداللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مراد اس سے وہی تھی جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ'' جس کا آخری قول''لا إله إلا الله '' ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا''۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً مریض سے کہو''اللہ تمہیں شفادے''اورمرے ہوئے آدمی سے کہو''اللہ تمہاری مغفرت فرمائے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ عِنْدَ الْمَوْتِ
۸-باب: موت کے وقت کی سختی کا بیان​


978- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَرْجِسَ، عَنْ الْقَاسِمِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَهُوَ بِالْمَوْتِ، وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَائٌ. وَهُوَ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ، ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَائِ، ثُمَّ يَقُولُ: "اللّهُمَّ! أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ" أَوْ "سَكَرَاتِ الْمَوْتِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الجنائز ۶۴ (۱۶۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۵۶) (ضعیف)
(سند میں موسیٰ بن سرجس مجہول الحال راوی ہیں)
۹۷۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا کہ آپ سکرات کے عالم میں تھے ، آپ کے پاس ایک پیالہ تھا ،جس میں پانی تھا،آپ پیالے میں اپناہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے : '' اللَّهُمَّ! أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ '' أَوْ ''سَكَرَاتِ الْمَوْتِ''.(اے اللہ ! سکرات الموت میں میری مدد فرما)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


979-حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلاَئِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا أَغْبِطُ أَحَدًا بِهَوْنِ مَوْتٍ بَعْدَ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ شِدَّةِ مَوْتِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقُلْتُ لَهُ: مَنْ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْعَلاَئِ؟ فَقَالَ: هُوَ الْعَلاَئُ بْنُ اللَّجْلاَجِ. وَإِنَّمَا عَرَّفَهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۷۴) (صحیح)
۹۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کی موت کی جو شدت میں نے دیکھی، اس کے بعد میں کسی کی جان آسانی سے نکلنے پررشک نہیں کرتی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالرحمن بن علاء کون ہیں؟ توانہوں نے کہا: وہ علاء بن اللجلاج ہیں، میں اسے اسی طریق سے جانتاہوں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ موت کی سختی بُرے ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ ترقی درجات اورگناہوں کی مغفرت کا بھی سبب ہوتی ہے۔


980- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَامُ بْنُ الْمِصَكِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَاللهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنُ تَخْرُجُ رَشْحًا وَلاَ أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ"، قِيلَ: وَمَا مَوْتُ الْحِمَارِ؟ قَالَ: "مَوْتُ الْفَجْأَةِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳) (ضعیف جداً)
(سند میں حسام متروک راوی ہے)
۹۸۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے:'' مومن کی جان تھوڑاتھوڑا کرکے نکلتی ہے جیسے جسم سے پسینہ نکلتاہے اور مجھے گدھے جیسی موت پسندنہیں ''۔عرض کیاگیا: گدھے کی موت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:''اچانک موت ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9-باب
۹-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اورباب​


981- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيُّ، عَنْ تَمَّامِ بْنِ نَجِيحٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْ حَافِظَيْنِ رَفَعَا إِلَى اللهِ مَا حَفِظَا مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، فَيَجِدُ اللهُ فِي أَوَّلِ الصَّحِيفَةِ وَفِي آخِرِ الصَّحِيفَةِ خَيْرًا، إِلاَّ قَالَ اللهُ تَعَالَى: {أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي مَا بَيْنَ طَرَفَيْ الصَّحِيفَةِ}".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (التحفہ : ۵۳۳) (ضعیف جداً)
(اس کے راوی تمام بن نجیح ضعیف ہیں)
۹۸۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:'' جب بھی دونوں لکھنے والے (فرشتے ) دن ورات کسی کے عمل کو لکھ کر اللہ کے پاس لے جاتے ہیں اوراللہ تعالیٰ دفترکے شروع اوراخیرمیں خیر(نیک کام) لکھاہوا پاتاہے توفرماتاہے: میں تم لوگوں کو گواہ بناتاہوں کہ میں نے اپنے بندکے سارے گناہ معاف کردینے جو اس دفترکے دونوں کناروں شروع اوراخیرکے درمیان میں ہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ
۱۰-باب: موت کے وقت مومن کی پیشانی پر پسینہ آجاتا ہے​


982- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ نَعْرِفُ لِقَتَادَةَ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ.
* تخريج: ن/الجنائز ۵ (۱۸۲۹)، ق/الجنائز ۵ (۱۵۵۲)، حم (۵/۳۵۰، ۳۵۷، ۳۶۰)، (تحفۃ الأشراف : ۱۹۹۲) (صحیح)
۹۸۲- بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مومن پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرتا ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ سے قتادہ کے سماع کا علم نہیں ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مومن موت کی شدت سے دوچارہوتا ہے تاکہ یہ اس کے گناہوں کی بخشش کاذریعہ بن جائے،(شدت کے وقت آدمی کی پیشانی پرپسینہ آجاتاہے) یا یہ مطلب ہے کہ موت اسے اچانک اس حال میں پالیتی ہے کہ وہ رزق حلال اورادائیگی فرائض میں اس قدرمشغول رہتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ سے تر رہتی ہے۔
 
Top