• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71-بَاب مَا جَاءَ فِي أَجْرِ مَنْ عَزَّى مُصَابًا
۷۱-باب: مصیبت زدہ کی تعزیت کے اجر کا بیان​


1073- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ عَزَّى مُصَابًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَيُقَالُ: أَكْثَرُ مَا ابْتُلِيَ بِهِ عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ نَقَمُوا عَلَيْهِ.
* تخريج: ق/الجنائز ۵۶ (۱۶۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۱۶۶) (ضعیف)
(سند میں علی بن عاصم بہت غلطی کرتے تھے اور اپنی غلطی پر اصراربھی کرتے تھے)
۱۰۷۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے کسی مصیبت زدہ کی (تعزیت) ماتم پُرسی کی، اسے بھی اس کے برابر اجر ملے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف علی بن عاصم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، بعض لوگوں نے محمد بن سوقہ سے اسی جیسی حدیث اسی سندسے موقوفاً روایت کی ہے۔اوراسے مرفوع نہیں کیا ہے، ۳-کہاجاتاہے کہ علی بن عاصم پرجوزیادہ طعن ہوا، اورلوگوں نے ان پرنکیرکی ہے وہ اسی حدیث کے سبب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۷۲-باب: جمعہ کے دن مرنے والے کا بیان​


1074- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْن أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلاَّ وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ. رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ، إِنَّمَا يَرْوِي عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. وَلاَ نَعْرِفُ لِرَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر : حم (۲/۱۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۲۵) (حسن)
۱۰۷۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ربیعہ بن سیف ابوعبدالرحمن حبلی سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے۔ اورہم نہیں جانتے کہ ربیعہ بن سیف کی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سماع ہے یا نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73-بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الْجَنَازَةِ
۷۳-باب: جنازہ میں جلدی کرنے کا بیان​


1075- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ. حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لَهُ: يَا عَلِيُّ! ثَلاَثٌ لاَ تُؤَخِّرْهَا: الصَّلاَةُ إِذَا أَتَتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَمَا أَرَى إِسْنَادَهُ بِمُتَّصِلٍ.
* تخريج: ق/الجنائز ۱۸ (۱۴۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۵۱) (ضعیف)
(سند میں سعید بن عبداللہ جہنی لین الحدیث ہیں لیکن دیگردلائل سے حدیث کا معنی صحیح ہے )
۱۰۷۵- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' علی ! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: صلاۃکو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کو جب آجائے، اور بیوہ (کے نکاح)کو جب تم اس کا کفو (مناسب ہمسر) پالو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں اس کی سند متصل نہیں جانتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74-بَاب آخَرُ فِي فَضْلِ التَّعْزِيَةِ
۷۴-باب: تعزیت کی فضیلت کا بیان​


1076- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ الأَسْوَدِ، عَنْ مُنْيَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي بَرْزَةَ، عَنْ جَدِّهَا أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ عَزَّى ثَكْلَى كُسِيَ بُرْدًا فِي الْجَنَّةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ .وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۰۹) (ضعیف)
(اس کی راویہ ''منیہ ''مجہول الحال ہیں)
۱۰۷۶- ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے کسی ایسی عورت کی تعزیت( ماتم پُرسی) کی جس کا لڑکامرگیا ہو،تو اسے جنت میں اس کے بدلہ ایک عمدہ کپڑا پہنایاجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس کی سند قوی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75-بَاب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الْجَنَازَةِ
۷۵-باب: صلاۃِجنازہ میں رفع الیدین کرنے کا بیان​


1077- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ زَيْدٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ وَوَضَعَ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا. فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ يَدَيْهِ، فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ، عَلَى الْجَنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَذُكِرَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ. لاَ يَقْبِضُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ. وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْبِضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ كَمَا يَفْعَلُ فِي الصَّلاَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: (يَقْبِضُ) أَحَبُّ إِلَيَّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۱۷) (حسن)
( سند میں ابوفردہ یزید بن سناز ضعیف راوی ہیں،لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، دیکھئے احکام الجنائز: ۱۱۵،۱۱۶)
۱۰۷۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع الیدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صر ف اسی طریق سے جانتے ہیں،۳- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے ،صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ آدمی جنازے میں ہرتکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے گا ، یہ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ ،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: صرف پہلی باراپنے دونوں ہاتھ اٹھائے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ۲؎ ،۵- ابن مبارک کہتے ہیں کہ صلاۃ جنازہ میں داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کونہیں پکڑے گا،۶- اوربعض اہل علم کہتے ہیں: وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا جیسے وہ دوسری صلاۃمیں کرتاہے، ۷- امام ترمذی کہتے ہیں: ہاتھ باندھنا مجھے زیادہ پسند ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃِ جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہرتکبیرمیں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں ''عن عمربن شبہ حدثنا یزیدبن ہارون انبأنا یحییٰ بن سعیدعن نافع عن ابن عمروقال ہکذا ...رفعہ عمربن شبۃ''کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اوریزیدبن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اوریہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ تخریج سے ظاہرہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺجنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیرمیں اٹھاتے تھے پھرایسانہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76-بَاب مَا جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ
۷۶-باب: مومن کی جان قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ وہ ادانہ ہوجائے​


1078- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۵۹) وانظر : حم (۲/۴۴۰) (صحیح)
وأخرجہ ق/الصدقات ۱۲ وحم (۲/۴۷۵) من غیر ہذا الوجہ، انظر الحدیث الآتي۔
۱۰۷۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے''۔


1079- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهُوَ أَصَحُّ مِنَ الأَوَّلِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۸۱) (صحیح)
(اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۱۰۷۹- اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ۱؎ ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا معاملہ موقوف رہتاہے اس کی نجات یاہلاکت کافیصلہ نہیں کیاجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ خاص ہے اس شخص کے ساتھ جس کے پاس اتنامال ہو جس سے وہ قرض اداکرسکے رہاوہ شخص جس کے پاس مال نہ ہو اوروہ اس حال میں مراہواکہ قرض کی ادائیگی کا اس کاپختہ ارادہ رہا ہو توایسے شخص کے بارے میں حدیث میں واردہے کہ اس کا قرض اللہ تعالیٰ اداکردے گا۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

9-كِتَاب النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۹-کتاب: نکاح کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّزْوِيجِ وَالْحَثِّ عَلَيْهِ
۱-باب: شادی کرنے کی فضیلت اور اس کی ترغیب کا بیان​


1080- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي الشِّمَالِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ: الْحَيَائُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَثَوْبَانَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي نَجِيحٍ وَجَابِرٍ وَعَكَّافٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (۳۴۹۹)، وانظر : حم (۵/۴۲۱) (ضعیف)
(سند میں ابو الشمال مجہول راوی ہیں، لیکن اس حدیث کے معنی کی تائید دیگر طرق سے موجود ہے)
1080/م حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي الشِّمَالِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَ حَدِيثِ حَفْصٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ "عَنْ أَبِي الشِّمَالِ". وَحَدِيثُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ وَعَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ أَصَحُّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۸۰- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' چارباتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں: حیاکرنا ، عطر لگانا، مسواک کرنااور نکاح کرنا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوایوبانصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم سے محمود بن خداش بغدادی نے بطریق: ''عن عباد بن العوام، عن الحجاج، عن مكحول، عن أبي الشمال، عن أبي أيوب، عن النبي ﷺ '' حفص کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۳- یہ حدیث ہشیم ،محمد بن یزید واسطی ، ابومعاویہ اوردیگرکئی لوگوں نے بطریق: '' الحجاج، عن مكحول، عن أبي أيوب'' روایت کی ہے اور اس میں ان لوگوں نے ابو الشمال کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔حفص بن غیاث اور عباد بن عوام کی حدیث زیادہ صحیح ہے، ۴- اس باب میں عثمان، ثوبان ، ابن مسعود ،عائشہ،عبداللہ بن عمرو ، ابونجیح ، جابراورعکاف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی رسولوں نے خوداسے کیا ہے اورلوگوں کو اس کی ترغیب دی ہے، رسولوں کی سنت اسے تغلیباً کہا گیا ہے کیونکہ ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنھیں بعض رسولوں نے نہیں کیا ہے مثلاً نوح علیہ السلام نے ختنہ نہیں کرایا اورعیسیٰ علیہ السلام نے شادی نہیں کی۔


1081- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ شَبَابٌ لاَ نَقْدِرُ عَلَى شَيْئٍ؛ فَقَالَ: "يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! عَلَيْكُمْ بِالْبَائَةِ؛ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمُ الْبَائَةَ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ. فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَائٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الأَعْمَشِ بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَ هَذَا. وَرَوَى أَبُومُعَاوِيَةَ وَالْمُحَارِبِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: كِلاَهُمَا صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/النکاح ۳ (۵۰۶۶)، م/النکاح ۱ (۱۴۰۰)، ن/الصوم ۴۳ (۲۲۴۱، ۲۲۴۴)، والنکاح ۳ (۳۲۱۱، ۳۲۱۲)، حم ۱/۴۲۴، ۴۲۵، ۴۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۵)، دي/النکاح ۲ (۲۲۱۱) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الصوم ۱۰ (۱۹۰۵)، والنکاح ۲ (۵۰۶۵)، م/النکاح (المصدر المذکور)، د/الصوم ۱ (۲۰۴۶)، ق/الصوم ۱ (۱۸۴۵)، (ن/الصیام ۴۳ (۲۲۴۲، ۲۲۴۳، ۲۲۴۵)، والنکاح ۳ (۳۲۰۸، ۳۲۱۰، ۳۲۱۳)، حم (۱/۳۷۸)، دي/النکاح ۲ (۲۲۱۲) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۸۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرمﷺ کے ساتھ نکلے، ہم نوجوان تھے، ہمارے پاس (شادی وغیرہ امور میں سے) کسی چیز کی مقدرت نہ تھی۔تو آپ نے فرمایا:'' اے نوجوانوں کی جماعت! تمہارے اوپر ۱؎ نکاح لازم ہے، کیونکہ یہ نگاہ کونیچی کرنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والاہے ۔ اورجو تم میں سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر صوم کااہتمام ضروری ہے،کیونکہ صوم اس کے لیے ڈھال ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس سند سے کئی لوگوں نے اسی کے مثل اعمش سے روایت کی ہے، ۳- اورابومعاویہ اور محاربی نے یہ حدیث بطریق: ''الأعمش، عن ابراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، عن النبي ﷺ'' اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،۴- دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔
وضاحت ۱؎ : '' البائة''کے اصل معنی جماع کے ہیں لیکن یہاں مسبب بول کرسبب( یعنی نکاح اور اس کے مصارف برداشت کر نے کی طاقت)مرادلیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ التَّبَتُّلِ
۲-باب: بے شادی زندگی گزارنے کی ممانعت کا بیان​


1082- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ وَزَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَصْرِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزَادَ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ فِي حَدِيثِهِ: "وَقَرَأَ قَتَادَةُ: {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً}". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى الأَشْعَثُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ. وَيُقَالُ: كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/النکاح ۴ (۳۲۱۶) ق/النکاح ۲ (۱۸۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۰) حم (۵/۱۷) (صحیح)
۱۰۸۲- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے بے شادی زندگی گزارنے سے منع فرمایاہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زید بن اخزم نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ قتادہ نے یہ آیت کریمہ:{ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً} ۲؎ ( ہم آپ سے پہلے کئی رسول بھیج چکے ہیں، ہم نے انہیں بیویاں عطاکیں اور اولا دیں)پڑھی ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اشعث بن عبدالملک نے یہ حدیث بطریق : ''الحسن، عن سعد بن هشام، عن عائشة، عن النبي ﷺ'' اسی طرح روایت کی ہے، ۳- کہاجاتا ہے کہ یہ دونوں ہی حدیثیں صحیح ہیں،۴- اس باب میں سعد ، انس بن مالک، عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : تبتل کے معنی عورتوں سے الگ رہنے، نکاح نہ کرنے اورازدواجی تعلق سے کنارہ کش رہنے کے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : الرعد : ۳۸۔
وضاحت ۳؎ : آیت میں ''ازواجاً ''سے رہبانیت اور''ذریّۃ''سے خاندانی منصوبہ بندی (فیملی پلاننگ) کی تردید ہوتی ہے۔


1083- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: رَدَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ. وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لاَخْتَصَيْنَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/النکاح ۸ (۵۰۷۳)، م/النکاح ۱ (۱۴۰۲)، ن/النکاح ۴ (۳۲۱۴)، ق/النکاح ۲ (۱۸۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۵۶)، حم (۱/۱۷۵، ۱۷۶، ۱۸۳)، دي/النکاح ۳ (۲۲۱۳) (صحیح)
۱۰۸۳- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون کوبغیرشادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی، اگرآپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہم اپنے آپ کو ایساکرلیتے کہ ہمیں عورتوں کی خواہش رہ ہی نہیں جاتی تاکہ شادی بیاہ کے مراسم سے الگ تھلگ رہ کر ہم صرف اللہ کی عبادت میں مشغول رہ سکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ
۳-باب: قابل اطمینان دیندارکی طرف سے شادی کا پیغام آنے پر شادی کردینے کاحکم​


1084- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ، فَزَوِّجُوهُ. إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَدْ خُولِفَ عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَشْبَهُ، وَلَمْ يَعُدَّ حَدِيثَ عَبْدِالْحَمِيدِ مَحْفُوظًا.
* تخريج: ق/النکاح ۴۶ (۱۹۶۷) (حسن صحیح)
( سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، دیکھئے الإ رواء رقم: ۱۸۶۸، الصحیحۃ ۱۰۲۲)
۱۰۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپاہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں عبدالحمید بن سلیمان کی مخالفت کی گئی ہے، اسے لیث بن سعد نے بطریق: ''ابن عجلان، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ '' مرسلاً(منقطعاً) روایت کی ہے(یعنی: ابن وشیمہ کا ذکر نہیں کیا ہے) ،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کاکہناہے کہ لیث کی حدیث اشبہ(قریب تر ) ہے، انہوں (بخاری) نے عبدالحمید کی حدیث کو محفوظ شمارنہیں کیا، ۳- اس باب میں ابوحاتم مزنی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں ۔


1085- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ مُسْلِمِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَسَعِيدٍ ابْنَيْ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ ! وَإِنْ كَانَ فِيهِ؟. قَالَ: إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ. ثَلاَثَ مَرَّاتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَأَبُو حَاتِمٍ الْمُزَنِيُّ لَهُ صُحْبَةٌ. وَلاَ نَعْرِفُ لَهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/المراسل (حسن)
(شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ اس کے رواۃ ''محمد''اور''سعید'' دونوں مجہول ہیں،دیکھئے : اوپر کی حدیث ابی ہریرہ )
۱۰۸۵- ابوحاتم مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کاپیغام لے کر) آئے ، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اورفساد برپاہوگا ۱؎ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپ نے تین باریہی فرمایا:'' جب تمہارے پاس کوئی ایساشخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کردو ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ابوحاتم مزنی کوشرف صحبت حاصل ہے، ہم اس کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں جانتے جو انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ اگرتم صرف مال یا جاہ والے شخص ہی سے شادی کروگے تو بہت سے مردبغیربیوی کے اوربہت سی عورتیں بغیرشوہر کے رہ جائیں گی جس سے زنااورحرام کاری عام ہوگی اور ولی کو عاروندامت کا سامناکرنا ہوگاجوفتنہ وفسادکے بھڑکنے کا باعث ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْمَرْأَةَ تُنْكَحُ عَلَى ثَلاَثِ خِصَالٍ
۴-باب: عورت سے عام طورپر تین باتوں کے سبب نکاح کیاجاتاہے​


1086- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الْمَرْأَةَ تُنْكَحُ عَلَى دِينِهَا وَمَالِهَا وَجَمَالِهَا. فَعَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ. تَرِبَتْ يَدَاكَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر : دي/النکاح ۴ (۲۲۱۷) (تحفۃ الأشراف: ۲۴۴۴) (صحیح)
وأخرجہ کل من : م/الرضاع ۱۵ (۷۱۵/۵۴)، ن/النکاح ۱۰ (۳۲۲۸)، حم (۳/۳۰۲) بتغیر یسیر فی السیاق۔
۱۰۸۶- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' عورت سے نکاح اس کی دین داری ، اس کے مال اور اس کی خوب صورتی کی وجہ سے کیاجاتا ہے ۱؎ لیکن تو دین دار(عورت)سے نکاح کولازم پکڑلو ۲؎ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں'' ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عوف بن مالک،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ، عبداللہ بن عمرو، اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بخاری ومسلم کی روایت میں چارچیزوں کاذکرہے، چوتھی چیز اس کا حسب نسب اورخاندانی شرافت ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حکم اس لیے دیاگیا ہے کہ دین دارعورت ہی صحیح معنوں میں نیک چلن،شوہرکی اطاعت گزاراوروفادارہوتی ہے جس سے انسان کی معاشرتی زندگی میں خوش گواری آتی ہے اور اس کی گودمیں جونسل پروان چڑھتی وہ بھی صالح اور دیندارہوتی ہے، اس کے برعکس باقی تین قسم کی عورتیں عموماًانسان کے لیے زحمت اوراولادکے لیے بھی بگا ڑکاباعث ہوتی ہیں۔
وضاحت ۳؎ : یہاں بددعامرادنہیں بلکہ شادی کے لیے جدوجہداورسعی وکوشش پرابھارنا مقصودہے۔
 
Top