• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
69- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُلاَمَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ
۶۹-باب: بیع ملامسہ اور بیع منابذہ کا بیان​


1310- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلاَمَسَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ يَقُولَ: إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ الشَّيْئَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ. وَالْمُلاَمَسَةُ أَنْ يَقُولَ: إِذَا لَمَسْتَ الشَّيْئَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ، وَإِنْ كَانَ لا يَرَى مِنْهُ شَيْئًا. مِثْلَ مَا يَكُونُ فِي الْجِرَابِ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ. وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ. فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۰ (۳۶۸)، ومواقیت الصلاۃ ۳۰ (۵۸۴)، والبیوع ۶۳ (۲۱۴۶)، واللباس ۲۰ (۵۸۱۹)، و۲۱ (۵۸۲۱)، م/البیوع ۱ (۱۵۱۱)، ن/البیوع ۲۳ (۴۵۱۳)، و۲۶ (۴۵۱۷ و ۴۵۲۱)، ق/التجارات ۱۲ (۲۱۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۶۱)، وط/البیوع ۳۵ (۷۶)، واللباس ۸ (۱۷)، وحم (۲/۳۷۹، ۴۱۹، ۴۶۴)، ۴۷۶، ۴۸۰)، ۴۹۱)، ۴۹۶، ۵۲۱)، ۵۲۹) (صحیح)
۱۳۱۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع منابذہ اور بیع ملامسہ سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے : جب میں تمہاری طرف یہ چیز پھینک دوں تو میرے اور تمہارے درمیان بیع واجب ہوجائے گی۔ ( یہ منابذہ کی صورت ہے)اور ملامسہ یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے : جب میں یہ چیز چھولوں تو بیع واجب ہوجائے گی اگرچہ وہ سامان کو بالکل نہ دیکھ رہاہو۔ مثلا تھیلے وغیرہ میں ہو۔یہ دونوں جاہلیت کی مروج بیعوں میں سے تھیں لہذا آپ نے اس سے منع فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس میں دھوکہ ہے، مبیع (سودا) مجہول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
70- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّلَفِ فِي الطَّعَامِ وَالثَّمَرِ
۷۰-باب: غلے اور کھجورمیں بیع سلف (پیشگی قیمت اداکرنے) کا بیان​


1311- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي الثَّمَرِ، فَقَالَ: "مَنْ أَسْلَفَ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. أَجَازُوا السَّلَفَ فِي الطَّعَامِ وَالثِّيَابِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، مِمَّا يُعْرَفُ حَدُّهُ وَصِفَتُهُ. وَاخْتَلَفُوا فِي السَّلَمِ فِي الْحَيَوَانِ. فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ جَائِزًا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. أَبُوالْمِنْهَالِ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مُطْعِمٍ.
* تخريج: خ/السلم ۱ (۲۲۳۹)، و۲ (۲۲۴۰)، و ۷ (۲۲۵۳)، م/المساقاۃ ۲۵ (۱۶۰۴)، د/البیوع ۵۷ (۳۴۶۳)، ن/البیوع ۶۳ (۴۶۲۰)، ق/التجارات ۵۹ (۴۴۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۲۰)، وحم (۱/۲۱۷، ۲۲۲، ۲۸۲، ۳۵۸) (صحیح)
۱۳۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے اوراہل مدینہ پھلوں میں سلف کیا کرتے تھے یعنی قیمت پہلے اداکردیتے تھے، آپ نے فرمایا:'' جو سلف کرے وہ متعین ناپ تول اورمتعین مدّت میں سلف کرے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن ابی اوفی اور عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ غلہ ، کپڑا ، اور جن چیزوں کی حد اور صفت معلوم ہو اس کی خریداری کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں،۴- جانور خرید نے کے لیے پیشگی رقم دینے میں اختلاف ہے، ۴- بعض اہل علم جانورخریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں۔ شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور خریدنے کے لیے پیشگی دینے کو مکروہ سمجھا ہے۔ سفیان اور اہل کوفہ کایہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
71- بَاب مَا جَاءَ فِي أَرْضِ الْمُشْتَرِكِ يُرِيدُ بَعْضُهُمْ بَيْعَ نَصِيبِهِ
۷۱-باب: مشترکہ زمین جس کا حصہ دار اپنا حصہ بیچنا چاہے​


1312- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ شَرِيكٌ فِي حَائِطٍ، فَلاَ يَبِيعُ نَصِيبَهُ مِنْ ذَلِكَ حَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَى شَرِيكِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ. سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ، يُقَالُ: إِنَّهُ مَاتَ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ: وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ قَتَادَةُ وَلاَ أَبُو بِشْرٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلاَ نَعْرِفُ لأَحَدٍ مِنْهُمْ سَمَاعًا مِنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ. فَلَعَلَّهُ سَمِعَ مِنْهُ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ: وَإِنَّمَا يُحَدِّثُ قَتَادَةُ عَنْ صَحِيفَةِ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ. وَكَانَ لَهُ كِتَابٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ عَبْدُالْقُدُّوسِ قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ: ذَهَبُوا بِصَحِيفَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ إِلَى الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ فَأَخَذَهَا، أَوْ قَالَ: فَرَوَاهَا. وَذَهَبُوا بِهَا إِلَى قَتَادَةَ فَرَوَاهَا. وَأَتَوْنِي بِهَا فَلَمْ أَرْوِهَا. يَقُولُ: رَدَدْتُهَا.
* تخريج: تفرد بہ مؤلف، وانظر حم (۳/۳۵۷) (صحیح لغیرہ) و أخرجہ کل من : م/المساقاۃ ۲۸ (البیوع ۴۹)، (۱۶۰۸)، د/البیوع ۷۵ (۳۵۱۳)، ن/البیوع ۸۰ (۴۶۵۰)، و ۱۰۷ (۴۷۰۴، ۴۷۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۷۲)، وحم (۳/۳۱۲، ۳۱۶، ۳۹۷)، ودي/البیوع ۸۳ (۲۶۷۰) معناہ في سیاق حدیث ''الشفعۃ''
۱۳۱۲- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا :''جس آدمی کے باغ میں کوئی ساجھی دار ہوتو وہ اپنا حصہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے اپنے ساجھی دار پرپیش نہ کرلے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان یشکری کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ جابر بن عبدللہ کی زندگی ہی میں مرگئے تھے، ان سے قتادہ اور ابو بشر کا سماع نہیں ہے۔ محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں نہیں جانتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے سلیمان یشکری سے کچھ سناہو سوائے عمرو بن دینار کے ، شاید انہوں نے جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں سلیمان یشکری سے حدیث سنی ہو۔وہ کہتے ہیں کہ قتادہ ، سلیمان یشکری کی کتاب سے حدیث روایت کرتے تھے، سلیمان کے پاس ایک کتاب تھی جس میں جابر بن عبداللہ سے مروی احادیث لکھی تھیں،۳- سلیمان تمیمی کہتے ہیں : لوگ جابر بن عبداللہ کی کتاب حسن بصری کے پاس لے گئے تو انہوں نے اسے لیا یا اس کی روایت کی۔اورلوگ اسے قتادہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے بھی اس کی روایت کی اور میرے پاس لے کر آئے تو میں نے اس کی روایت نہیں کی میں نے اسے رد کردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
72- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُخَابَرَةِ وَالْمُعَاوَمَةِ
۷۲-باب: مخابرہ اور معاومہ کا بیان​


1313- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُخَابَرَةِ وَالْمُعَاوَمَةِ، وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶/۸۵)، د/البیوع ۳۴ (۳۴۰۴)، ن/الأیمان والمزارعۃ ۴۵ (۳۹۱۰)، والبیوع ۷۴ (۴۶۳۷)، ق/التجارات ۵۴ (۲۲۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۶۶)، و حم (۳/۳۱۳، ۳۵۶، ۳۶۰، ۳۶۴، ۳۹۱، ۳۹۲) وانظر ما تقدم برقم ۱۲۹۰، وما عند خ/البیوع ۸۳ (۲۳۸۱) (صحیح)
۱۳۱۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بیع محاقلہ، مزابنہ ۱؎ ، مخابرہ ۲ ؎ اور معاومہ ۳؎ سے منع فرمایا، اورآپ نے عرایا ۴؎ کی اجازت دی ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرکے لیے دیکھئے حدیث رقم( ۱۲۲۴)۔
وضاحت ۲؎ : مخابرہ کی تفسیرکے لیے دیکھئے حدیث رقم (۱۲۹۰)۔
وضاحت ۳؎ : عرایاکی تفسیرکے لیے دیکھئے حاشیہ حدیث رقم (۱۳۰۰)۔
وضاحت ۴؎ : بیع سنین کو بیع معاومہ بھی کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کو کئی سالوں کے لیے بیچ دے، یہ بیع جائزنہیں ہے کیونکہ یہ معدوم کی بیع کی قبیل سے ہے، اس میں دھوکہ ہے، ممکن ہے کہ درخت میں پھل ہی نہ آئے، یا آئے مگرجتنی قیمت دی ہے اس سے زیادہ پھل آئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
73- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْعِيرِ
۷۳-باب: چیزوں کی قیمت مقرر کرنے کا بیان​


1314- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ وَثَابِتٌ وَحُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: غَلاَ السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَقَالُوا: يَارَسُولَ اللهِ! سَعِّرْ لَنَا فَقَالَ: "إِنَّ اللهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ، وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ وَلاَ مَالٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/البیوع ۵۱ (۳۴۵۱)، ق/التجارات ۲۷ (۲۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸ و ۶۱۴ و ۱۱۵۸)، وحم (۳/۲۸۶) (صحیح)
۱۳۱۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک باررسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (غلہ وغیرہ کا ) نرخ بڑھ گیا، تولوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ ہمارے لیے نرخ مقرر کردیجئے ، آپ نے فرمایا: نرخ مقرر کرنے والا تواللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا،کشادہ کرنے والا اورکھولنے والا اوربہت روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتاہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جان ومال کے سلسلے میں کسی ظلم (کے بدلے) کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
74- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْغِشِّ فِي الْبُيُوعِ
۷۴-باب: بیع میں دھوکہ دینے کی حرمت کا بیان​


1315- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلاً. فَقَالَ: "يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ! مَا هَذَا؟" قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَائُ، يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "أَفَلاَ جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ؟" ثُمَّ قَالَ: "مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي الْحَمْرَائِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَأَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا الْغِشَّ، وَقَالُوا: الْغِشُّ حَرَامٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۴۳ (۱۰۲)، د/البیوع ۵۲ (۳۴۵۲)، ق/التجارات ۳۶ (۲۲۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۹)، وحم (۲/۲۴۲) (صحیح)
۱۳۱۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے ،توآپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کردیا،آپ کی انگلیاں ترہوگئیں توآپ نے فرمایا:'' غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟'' اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! بارش سے بھیگ گیا ہے''، آپ نے فرمایا: ''اسے اوپرکیوں نہیں کردیاتا کہ لوگ دیکھ سکیں''، پھر آپ نے فرمایا: '' جو دھوکہ دے ۱؎ ، ہم میں سے نہیں ہے '' ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، ابوحمراء ، ابن عباس ، بریدہ، ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے ۔ وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ بیع میں دھوکہ دہی کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً سودے میں کوئی عیب ہو اسے ظاہر نہ کرنا، اچھے مال میں ردّی اورگھٹیا مال کی ملاوٹ کردینا ، سودے میں کسی اورچیزکی ملاوٹ کردینا تاکہ اس کا وزن زیادہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ ۔
وضاحت ۲؎ : ''ہم میں سے نہیں''کا مطلب ہے مسلمانوں کے طریقے پر نہیں، اس کا یہ فعل مسلمان کے فعل کے منافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
75- بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِقْرَاضِ الْبَعِيرِ أَوِ الشَّيْئِ مِنَ الْحَيَوَانِ
۷۵-باب: اونٹ یاکوئی اورجانور قرض لینے کا بیان​


1316- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: اسْتَقْرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ سِنًّا، فَأَعْطَاهُ سِنًّا خَيْرًا مِنْ سِنِّهِ، وَقَالَ: "خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ قَضَائً". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وُسُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. لَمْ يَرَوْا بِاسْتِقْرَاضِ السِّنِّ بَأْسًا مِنَ الإِبِلِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ.
* تخريج: خ/الوکالۃ ۵ (۲۳۰۵)، و۶ (۲۳۰۶)، والاستقراض ۴ (۲۳۹۰)، و ۶ (۲۳۹۲)، و ۷ (۲۳۹۳)، والہبۃ ۲۳ (۲۶۰۶)، و ۲۵ (۲۶۰۹)، م/المساقاۃ ۲۲ (البیوع ۴۳) (۱۶۰۱)، ن/البیوع ۶۴ (۴۶۲۲)، و۱۰۳ (۴۶۹۷)، ق/الصدقات ۱۶ (الأحکام ۵۶)، (۲۳۲۲)، (مقتصراً علی قولہ المرفوع) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۶۳)، وحم (۲/۳۷۴، ۳۹۳، ۴۱۶، ۴۳۱)، ۴۵۶، ۴۷۶، ۵۰۹) (صحیح)
۱۳۱۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا اورآپ نے اُسے اس سے بہتر اونٹ دیا اور فرمایا: ''تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہترہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اِسے شعبہ اور سفیان نے بھی سلمہ سے روایت کیا ہے، ۳- اس باب میں ابورافع رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۴- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے، وہ کسی بھی عمر کا اونٹ قرض لینے کو مکروہ نہیں سمجھتے ہیں،۵- اور بعض لوگو ں نے اسے مکروہ جاناہے۔


1317- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلاً تَقَاضَى رَسُولَ اللهِ ﷺ فَأَغْلَظَ لَهُ، فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "دَعُوهُ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالاً". ثُمَّ قَالَ: "اشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا"، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ. فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ. فَقَالَ: "اشْتَرُوهُ فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَائً".
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
1317/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج : انظر حدیث رقم ۱۳۱۶
۱۳۱۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کا) تقاضہ کیا اورسختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کاقصدکیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اسے چھوڑدو ،کیونکہ حق دار کوکہنے کا حق ہے''، پھر آپ نے فرمایا: ''اسے ایک اونٹ خریدکر دے دو''، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایساہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہترتھا، آپ نے فرمایا: ''اسی کوخریدکر دے دو، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہترہوں''۔
مولف نے محمد بن بشار کی سند سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


1318- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَكْرًا. فَجَاءَتْهُ إِبِلٌ مِنْ الصَّدَقَةِ. قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ. فَقُلْتُ: لاَ أَجِدُ فِي الإِبِلِ إِلاَّ جَمَلاً خِيَارًا رَبَاعِيًا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَعْطِهِ إِيَّاهُ. فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَائً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۲ (البیوع ۴۳) (۱۶۰۰)، د/البیو ع ۱۱ (۳۳۴۶)، ن/البیوع ۶۴ (۴۶۲۱)، ق/التجارات ۶۲ (۲۲۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۵)، وط/البیوع ۴۳ (۸۹)، وحم (۶/۳۹۰)، ودي/البیوع ۳۱ (۲۵۰۷) (صحیح)
۱۳۱۸- ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا ، پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیاتو آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ اداکردوں، میں نے آپ سے عرض کیا: مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اوراونٹ نہیں مل رہا ہے، تو آپ نے فرمایا:'' اُسے اسی کو دے دو، کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگرخود بخود اپنی رضامندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الاداقرض سے مقدارمیں زیادہ یابہتراورعمدہ اداکرے تو یہ جائزہے، اوراگرقرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کرلے تو یہ سود ہوگاجوبہرصورت حرام ہے۔


1319- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، سَمْحَ الشِّرَائِ، سَمْحَ الْقَضَائِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۴۶) (صحیح)
(متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ حسن بصری کا سماع ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، انہوں نے تدلیساً ان سے یہ روایت کردی ہے، ملاحظہ ہو الصحیحۃ : ۸۹۰۹)
۱۳۱۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ بیچنے ، خریدنے اورقرض کے مطالبہ میں نرمی وآسانی کو پسند کرتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو بسند یونس عن سعیدالمقبری عن ابی ہریرۃ روایت کی ہے،۳- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


1320- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "غَفَرَ اللَّهُ لِرَجُلٍ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانَ سَهْلاً إِذَا بَاعَ، سَهْلاً إِذَا اشْتَرَى، سَهْلاً إِذَا اقْتَضَى".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ. غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰۱۸) وہو عند خ/البیوع ۱۶ (۲۰۷۶)، و ق في التجارات ۲۸ (۲۲۰۳)، بسیاق آخر وحم (۳/۳۴۰) (صحیح)
۱۳۲۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کوجو تم سے پہلے تھا بخش دیا، جو نرمی کرنے والا تھا جب بیچتااورجب خریدتااورجب قرض کا مطالبہ کرتا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے حسن ،صحیح، غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
76- بَاب النَّهْيِ عَنِ الْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ
۷۶-باب: مسجد میں خریدوفروخت کی ممانعت کا بیان​


1321- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَارِمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لاَ أَرْبَحَ اللهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً فَقُولُوا: لاَ رَدَّ اللهُ عَلَيْكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا الْبَيْعَ وَالشِّرَائَ فِي الْمَسْجِدِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَائِ فِي الْمَسْجِدِ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۶۸ (۱۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۹۱) (صحیح)
۱۳۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید وفروخت کررہاہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کودیکھوجو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اُسے) تلاش کرتاہو تو کہو : اللہ تمہاری چیزتمہیں نہ لوٹائے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ مسجد میں خرید وفروخت ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳- بعض اہل علم نے اس میں خرید وفروخت کی رخصت دی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کا کہناہے کہ حدیث میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں، یعنی نہ بیچنابہترہے ، مگریہ نری تاویل ہے ، جب صحیح حدیث میں بالصراحت ممانعت موجودہے توپھرمساجد میں خریدوفروخت سے باز رہتے ہوئے بازار اور مساجد میں فرق کو قائم رکھناچاہئے ، پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے احکام کی نافرمانیوں اور غلط تاویلوں کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔(اللهم أحفظنا بما تحفظ به عبادك الصالحين)


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

13-كِتَاب الأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ
۱۳- کتاب : نبی اکرم ﷺکے احکامات اور فیصلے


1-بَاب مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي الْقَاضِي
۱-باب: قاضی اورقضاء کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات​


1322- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال: سَمِعْتُ عَبْدَالْمَلِكِ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَوْهَبٍ: أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ لابْنِ عُمَرَ: اذْهَبْ فَاقْضِ بَيْنَ النَّاسِ، قَالَ: أَوَ تُعَافِينِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! قَالَ: فَمَا تَكْرَهُ مِنْ ذَلِكَ وَقَدْ كَانَ أَبُوكَ يَقْضِي؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ قَاضِيًا فَقَضَى بِالْعَدْلِ، فَبِالْحَرِيِّ أَنْ يَنْقَلِبَ مِنْهُ كَفَافًا". فَمَا أَرْجُو بَعْدَ ذَلِكَ؟ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ وَعَبْدُالْمَلِكِ الَّذِي رَوَى عَنْهُ الْمُعْتَمِرُ هَذَا، هُوَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۲۸۸) (ضعیف)
(سند میں عبد الملک بن ابی جمیلہ مجہول ہیں)
۱۳۲۲- عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: جاؤ(قاضی بن کر) لوگوں کے درمیان فیصلے کرو، انہوں نے کہا: امیرالمومنین! کیاآپ مجھے معاف رکھیں گے،عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا:''تم اسے کیوں برا سمجھتے ہو،تمہارے باپ تو فیصلے کیا کرتے تھے؟'' اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: ''جوقاضی ہوا اوراس نے عدل انصاف کے ساتھ فیصلے کئے تو لائق ہے کہ وہ اس سے برابر سرابر چھوٹ جائے''(یعنی نہ ثواب کامستحق ہونہ عقاب کا) اس کے بعد میں(بھلائی کی)کیا امید رکھوں ،حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے، میرے نزدیک اس کی سندمتصل نہیں ہے۔ اور عبدالملک جس سے معتمر نے اِسے روایت کیا ہے عبدالملک بن ابی جمیلہ ہیں،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


1322م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "الْقُضَاةُ ثَلاَثَةٌ: قَاضِيَانِ فِي النَّارِ وَقَاضٍ فِي الْجَنَّةِ. رَجُلٌ قَضَى بِغَيْرِ الْحَقِّ فَعَلِمَ ذَاكَ. فَذَاكَ فِي النَّارِ. وَقَاضٍ لاَ يَعْلَمُ فَأَهْلَكَ حُقُوقَ النَّاسِ فَهُوَ فِي النَّارِ. وَقَاضٍ قَضَى بِالْحَقِّ فَذَلِكَ فِي الْجَنَّةِ".
* تخريج: د/الأقضیۃ ۲ (۳۵۷۳)، ق/الأحکام ۳۲ (۲۳۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۷۷-۱۹۷۷) (صحیح)
۱۳۲۲م- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں: دو جہنمی ، اورایک جنتی، ایک وہ جوجان بوجھ کرنا حق فیصلے کرے، وہ جہنمی ہے، دوسرا جونہ جانتا ہو اور لوگوں کے حقوق برباد کردے۔ وہ بھی جہنمی ہے، اور تیسرا وہ قاضی ہے جو حق کے ساتھ فیصلے کرے وہ جنتی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ کسی جاہل کوقاضی بنانادرست نہیں۔


1323- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ بِلاَلِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ سَأَلَ الْقَضَائَ وُكِلَ إِلَى نَفْسِهِ، وَمَنْ أُجْبِرَ عَلَيْهِ، يُنْزِلُ اللهُ عَلَيْهِ مَلَكًا فَيُسَدِّدُهُ".
* تخريج: د/الأقضیۃ ۳ (۳۵۷۸)، ق/الأحکام ۱ (۲۳۰۹)، (تحفۃ الأشراف:۲۵۶)، وحم (۳/۱۱۸) (ضعیف)
(سند میں بلال لین الحدیث ہیں)
۱۳۲۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو قضا کا مطالبہ کرتاہے وہ اپنی ذات کے حوالے کردیاجاتاہے(اللہ کی مدداس کے شامل حال نہیں ہوتی ) اورجس کو جبراً قاضی بنایا جاتاہے، اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اُسے راہ راست پررکھتاہے''۔


1324- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ، عَنْ بِلاَلِ بْنِ مِرْدَاسٍ الْفَزَارِيِّ، عَنْ خَيْثَمَةَ وَهُوَ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنِ ابْتَغَى الْقَضَائَ، وَسَأَلَ فِيهِ شُفَعَائَ، وُكِلَ إِلَى نَفْسِهِ. وَمَنْ أُكْرِهَ عَلَيْهِ، أَنْزَلَ اللهُ عَلَيْهِ مَلَكًا يُسَدِّدُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ عَبْدِالأَعْلَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف : ۸۲۵) (ضعیف)
(اس کی سند میں بھی وہی بلال ہیں جو لین الحدیث ہیں، نیز ''خیثمہ بصری'' بھی لین الحدیث ہیں)
۱۳۲۴- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو قضاکاطالب ہوتاہے اور اس کے لیے سفارشی ڈھونڈتاہے، وہ اپنی ذات کے سپردکردیاجاتاہے، اور جس کو جبراً قاضی بنایا گیاہے، اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کو راہ راست پررکھتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اوریہ اسرائیل کی (سابقہ) روایت سے جسے انہوں نے عبدالاعلیٰ سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔


1325- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ وَلِيَ الْقَضَائَ، أَوْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ، فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/الأقضیۃ ۱ (۳۵۷۱)، ق/الأحکام ۱ (۲۳۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۰۲)، وحم ۲/۳۶۵) (صحیح)
۱۳۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص کو منصب قضا پرفائز کیا گیایا جولوگوں کا قاضی بنایا گیا،( گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کیاگیا'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ۲- اوریہ اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی ابوہریرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایک قول کے مطابق ذبح کا معنوی مفہوم مراد ہے کیونکہ اگراس نے صحیح فیصلہ دیا تودنیاوالے اس کے پیچھے پڑجائیں گے اوراگرغلط فیصلہ دیا تو وہ آخرت کے عذاب کا مستحق ہوگا ، اورایک قول یہ ہے کہ یہ تعبیراس لیے اختیارکی گئی ہے کہ اسے خبرداراورمتنبہ کیاجائے کہ اس ہلاکت سے مراداس کے دین وآخرت کی تباہی وبربادی ہے، بدن کی نہیں، یا یہ کہ چھری سے ذبح کرنے میں مذبوح کے لیے راحت رسانی ہوتی ہے اور بغیرچھری کے گلا گھوٹنے یا کسی اورطرح سے زیادہ تکلیف کا باعث ہوتا ہے، لہذا اس کے ذکر سے ڈرانے اورخوف دلانے میں مبالغہ کا بیان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَاضِي يُصِيبُ وَيُخْطِئُ
۲-باب: قاضی صحیح فیصلے کرتاہے ، اور اس سے غلطی بھی ہوتی ہے​


1326- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَأَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.
* تخريج: خ/الاعتصام ۲۱ (۷۳۵۲)، م/الأقضیۃ ۶ (۱۷۱۶)، د/الأقضیۃ ۲ (۳۵۷۴)، ن/القضاۃ ۳ (۵۳۸۳)، ق/الأحکام ۳ (۲۳۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۳۷)، وحم (۴/۱۹۸) (صحیح)
۱۳۲۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے ۱؎ اور جب فیصلہ کرے اور غلط ہوجائے تو (بھی)اس کے لیے ایک اجر ہے'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمرو بن عاص اور عقبہ بن عامر سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوہریرہ کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے۔ ہم اسے بسند سفیان ثوری عن یحییٰ بن سعیدعن عبدالرزاق عن معمرعن سفیان الثوری روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ایک غوروفکرکرنے اورحق تک پہنچنے کی کوشش کرنے کا اوردوسراصحیح بات تک پہنچنے کا
وضاحت ۲؎ : اسے صرف اس کی جدوجہداورسعی وکوشش کا اجرملے گاجوحق کی تلاش میں اس نے صرف کی ہے۔
 
Top