• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
38-مُبَادَرَةُ الإِمَامِ
۳۸-باب: رکوع، سجودوغیرہ میں امام سے سبقت کر نے کا بیان​


829- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "أَلاَ يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ"۔
* تخريج: وقد أخرجہ: م/ال صلاۃ ۲۵ (۴۲۷)، ت/فیہ ۲۹۲ (۵۸۲)، ق/إقامۃ ۴۱ (۹۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۶۲)، حم۲/۲۶۰، ۲۷۱، ۴۲۵، ۴۵۶، ۴۶۹، ۴۷۲، ۵۰۴، دي/ال صلاۃ ۷۲ (۱۳۵۵) (صحیح)
۸۲۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو شخص اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے کیا وہ (اس بات سے) نہیں ڈرتاکہ ۱؎ اللہ اس کا سر گدھے کے سر میں تبدیل نہ کر دے ''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ اس سزا کا مستحق ہے اس لئے اسے اس کا ڈر اور خدشہ لگا رہنا چاہئے۔


830- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ يَزِيدَ يَخْطُبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْبَرَائُ - وَكَانَ غَيْرَ كَذُوبٍ - أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا صَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، قَامُوا قِيَامًا حَتَّى يَرَوْهُ سَاجِدًا، ثُمَّ سَجَدُوا۔
* تخريج: خ/الأذان ۵۲ (۶۹۰)، ۹۱ (۷۴۷)، ۱۳۳ (۸۱۱)، م/ال صلاۃ ۳۹ (۴۷۴)، د/فیہ ۷۵ (۶۲۰)، ت/فیہ ۹۳ (۲۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۲)، حم۴/۲۸۴، ۲۸۵، ۳۰۰، ۳۰۴ (صحیح)
۸۳۰- براء رضی اللہ عنہ (جو جھوٹے نہ تھے ۱؎) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ پڑھتے، اور آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو وہ سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ دیکھ لیتے کہ آپ سجدہ میں جا چکے ہیں، پھر وہ سجدہ میں جاتے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بھروسہ مند اور قابل اعتماد تھے۔


831 - أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى، فَلَمَّا كَانَ فِي الْقَعْدَةِ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقَالَ: أُقِرَّتْ الصَّلاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَبُو مُوسَى أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ: أَيُّكُمْ الْقَائِلُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ؟ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، قَالَ: يَاحِطَّانُ! لَعَلَّكَ قُلْتَهَا؟ قَالَ: لاَ وَقَدْ خَشِيتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُنَا صَلاتَنَا وَسُنَّتَنَا، فَقَالَ: " إِنَّمَا الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ }، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، فَإِنَّ الإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ " - قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " فَتِلْكَ بِتِلْكَ "۔
* تخريج: م/ال صلاۃ ۱۶ (۴۰۴)، د/ال صلاۃ ۱۸۲ (۹۷۲، ۹۷۳)، ق/إقامۃ ال صلاۃ ۲۴ (۹۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۷)، حم۴/۳۹۳، ۳۹۴، ۴۰۱، ۴۰۵، ۴۰۹، ۴۱۵، دي/ال صلاۃ ۷۱ (۱۳۵۱)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۱۰۶۵، ۱۱۷۳، ۱۲۸۱ (صحیح)
۸۳۱- حطان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں صلاۃ پڑھائی تو جب وہ قعدہ میں گئے تو قوم کا ایک آدمی اندر آیا اور کہنے لگا کہ صلاۃ نیکی اور زکاۃ کے ساتھ ملا دی گئی ہے ۱ ؎، تو جب ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سلام پھیر کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے یہ بات کہی ہے؟ تو سبھی لوگ خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، تو انہوں نے کہا: اے حطان! شاید تم نے ہی یہ بات کہی ہے! تو انہوں نے کہا: نہیں میں نے نہیں کہی ہے، اور مجھے ڈرہے کہ کہیں آپ مجھ ہی کو اس پر سرزنش نہ کرنے لگ جائیں، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں ہماری صلاۃ اور ہمارے طریقے سکھاتے تھے، تو آپ فرماتے:'' امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ }کہے تو تم لوگ آمین کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری (دعاء) قبول فرمائے گا، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ (رکوع) سے سر اٹھائے اور''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ''کہے تو تم ''رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ'' کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری سنے گا، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ سجدہ سے سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے، اور تم سے پہلے سر بھی اٹھاتا ہے''، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:'' ادھر کی کسر اُدھر پوری ہو جائے گی''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: صلاۃ کا نیکی اور زکاۃ کے ساتھ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے، اور تینوں کا ایک ساتھ حکم دیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
39- خُرُوجُ الرَّجُلِ مِنْ صَلاةِ الإِمَامِ وَفَرَاغُهُ مِنْ صَلاتِهِ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ
۳۹-باب: مقتدی کا امام کی صلاۃ سے نکل جانے اور جاکر مسجد کے ایک گوشے میں اپنی صلاۃ پڑھ لینے کا بیان​


832- أَخْبَرَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ وَأَبِي صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنْ الأَنْصَارِ وَقَدْ أُقِيمَتْ الصَّلاةُ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى خَلْفَ مُعَاذٍ، فَطَوَّلَ بِهِمْ، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ، فَصَلَّى فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ انْطَلَقَ، فَلَمَّا قَضَى مُعَاذٌ الصَّلاةَ قِيلَ لَهُ: إِنَّ فُلانًا فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُعَاذٌ: لَئِنْ أَصْبَحْتُ لأَذْكُرَنَّ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَى مُعَاذٌ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ فَقَالَ: "مَا حَمَلَكَ عَلَى الَّذِي صَنَعْتَ؟ " فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَمِلْتُ عَلَى نَاضِحِي مِنْ النَّهَارِ، فَجِئْتُ وَقَدْ أُقِيمَتْ، الصَّلاةُ فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْتُ مَعَهُ فِي الصَّلاةِ، فَقَرَأَ سُورَةَ كَذَا وَكَذَا، فَطَوَّلَ، فَانْصَرَفْتُ، فَصَلَّيْتُ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "أَفَتَّانٌ يَا مُعَاذُ؟!، أَفَتَّانٌ يَا مُعَاذُ؟! أَفَتَّانٌ يَا مُعَاذُ؟! "۔
* تخريج: خ/الأذان ۶۰ (۷۰۱)، ۶۳ (۷۰۵)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۷۴ (۶۱۰۶)، م/ال صلاۃ ۳۶ (۴۶۵)، د/ال صلاۃ ۶۸ (۵۹۹)، ۱۲۷ (۷۹۰)، ق/إقامۃ ۴۸ (۹۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۳۷، ۲۵۸۲)، حم۳/۲۹۹، ۳۰۸، ۳۶۹، دي/ال صلاۃ ۶۵ (۱۳۳۳)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۹۸۵ مختصراً، ۹۹۸ مختصراً (صحیح)
۸۳۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص آیا اور صلاۃ کھڑی ہو چکی تھی تو وہ مسجد میں داخل ہوا، اور جا کر معاذ رضی اللہ عنہ کے پیچھے صلاۃ پڑھنے لگا، انہوں نے رکعت لمبی کر دی، تو وہ شخص ( صلاۃ توڑ کر) الگ ہو گیا، اور مسجد کے ایک گوشے میں جا کر (تنہا) صلاۃ پڑھ لی، پھر چلا گیا، جب معاذ رضی اللہ عنہ نے صلاۃ پوری کر لی تو ان سے کہا گیا کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کیا ہے، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے صبح کر لی تو اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ضرور بیان کروں گا؛ چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص کو بلا بھیجا، وہ آیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا :'' تمہیں کس چیز نے ایسا کرنے پر ابھارا؟ '' تو اس نے جواب دیا : اللہ کے رسول! میں نے دن بھر (کھیت کی) سینچائی کی تھی، میں آیا، تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی، تو میں مسجد میں داخل ہوا، اور ان کے ساتھ صلاۃ میں شامل ہو گیا، انہوں نے فلاں فلاں سورت پڑھنی شروع کر دی، اور (قرأت) لمبی کر دی، تو میں نے صلاۃ توڑ کر جا کر الگ ایک کونے میں صلاۃ پڑھ لی، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:'' معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : یعنی لوگوں کو پریشان کرتے ہو کہ وہ مجبور ہو کر صلاۃ توڑ دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
40-الائْتِمَامُ بِالإِمَامِ يُصَلِّي قَاعِدًا
۴۰-باب: امام بیٹھ کر صلاۃ پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر صلاۃ پڑھیں​


833- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا، فَصُرِعَ عَنْهُ، فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلاةً مِنْ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَصَلَّيْنَا وَرَائَهُ قُعُودًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: " إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ "۔
* تخريج: خ/الأذان ۵۱ (۶۸۹)، م/ال صلاۃ ۱۹ (۴۱۱)، د/ال صلاۃ ۶۹ (۶۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۹)، ط/الجماعۃ ۵ (۱۶)، دي/ال صلاۃ ۴۴ (۱۲۹۱) (صحیح)
۸۳۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس سے گر گئے اور آپ کے داہنے پہلو میں خراش آ گئی، تو آپ نے کچھ صلاتیں بیٹھ کر پڑھیں، ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر پلٹے تو فرمایا: '' امام بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھے توتم بھی کھڑے ہوکر پڑھو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ''کہے تو تم ''رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ'' کہو، اور جب وہ بیٹھ کر صلاۃ پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ''۔


834- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَ بِلالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاةِ، فَقَالَ: "مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ فِي مَقَامِكَ لا يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ "، فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ، فَقَالَتْ لَهُ، فَقَالَ: " إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ "، قَالَتْ: فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، قَالَتْ: فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ، فَذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ: " قُمْ كَمَا أَنْتَ "، قَالَتْ: فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ جَالِسًا، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا، وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِرَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلاةِ أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -۔
* تخريج: خ/الأذان ۳۹ (۶۶۴)، ۶۷ (۷۱۲)، ۶۸ (۷۱۳)، م/ال صلاۃ ۲۱ (۴۱۸)، ق/إقامۃ ۱۴۲ (۱۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۴۵)، حم۶/۳۴، ۹۶، ۹۷، ۲۱۰، ۲۲۴، ۲۲۸، ۲۴۹، ۲۵۱، دي/المقدمۃ ۱۴ (۸۲) (صحیح)
۸۳۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی، بلال رضی اللہ عنہ آپ کو صلاۃ کی خبر دینے آئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سُنا سکیں گے ۱؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ابو بکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، تو میں نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو ۲؎، ''ابو بکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو جب انہوں نے صلاۃ شروع کی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر صلاۃ میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ ''جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو''، ام المومنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بیٹھ گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں کو بیٹھ کر صلاۃ پڑھا رہے تھے، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، ابو بکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر ایسی رقت طاری ہو جائے گی کہ وہ رونے لگیں گے، اور قرأت نہیں کر سکیں گے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مراد صرف عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، جیسے قرآن میں صرف امرأۃ العزیز مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ عائشہ امرأۃ العزیز کی طرح دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے تھیں، اور اظہار کسی اور بات کا کر رہی تھیں، وہ یہ کہتی تھیں کہ اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ کی وفات ہو گئی تو لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو منحوس سمجھیں گے، اس لیے بہانہ بنا رہی تھیں رقیق القلبی کا، ایک موقع پر انہوں نے یہ بات ظاہر بھی کر دی۔


835- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ: أَلاَ تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ " فَقُلْنَا: لاَ، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوئَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: "أَصَلَّى النَّاسُ؟ " قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوئَ، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ مِثْلَ قَوْلِهِ، قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلاةِ الْعِشَاءِ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ: " صَلِّ بِالنَّاسِ "، فَجَائَهُ الرَّسُولُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ - وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلا رَقِيقًا - فَقَالَ: يَا عُمَرُ! صَلِّ بِالنَّاسِ، فَقَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ، فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَجَائَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ - أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ - لِصَلاةِ الظُّهْرِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لا يَتَأَخَّرَ، وَأَمَرَهُمَا، فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ، فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاةِ أَبِي بَكْرٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا، فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ: أَلاَ أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟! قَالَ: نَعَمْ، فَحَدَّثْتُهُ، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ - كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ -۔
* تخريج: خ/الأذان ۵۱ (۶۸۷)، م/ال صلاۃ ۲۱ (۴۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۱۷)، حم۲/۵۲، ۶/۲۴۹، ۲۵۱، دي/ال صلاۃ ۴۴ (۱۲۹۲) (صحیح)
۸۳۵- عبید اللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا:'' کیا لوگوں نے صلاۃ پڑھ لی؟ '' تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' میرے لیے ٹب میں پانی رکھو''؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا :'' کیا لوگوں نے صلاۃ پڑھ لی؟ '' تو ہم نے عرض کیا : نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' میرے لیے ٹب میں پانی رکھو''؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بے ہوش ہو گئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی صلاۃ کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، ابو بکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر سے) کہا: عمر! تم لوگوں کو صلاۃ پڑھا دو، تو انہوں نے کہا: آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چنانچہ ان ایام میں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے) صلاۃ ظہر کے لئے آئے، تو جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھا رہے تھے، لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بیٹھ کر صلاۃ پڑھا رہے تھے۔
(عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا : کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
41-اخْتِلافُ نِيَّةِ الإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ
۴۱-باب: امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کا بیان​


836- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: كَانَ مُعَاذٌ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى قَوْمِهِ يَؤُمُّهُمْ، فَأَخَّرَ ذَاتَ لَيْلَةٍ الصَّلاةَ وَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ يَؤُمُّهُمْ، فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَلَمَّا سَمِعَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ تَأَخَّرَ، فَصَلَّى ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالُوا: نَافَقْتَ يَا فُلانُ؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا نَافَقْتُ، وَلآتِيَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرُهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ مُعَاذًا يُصَلِّي مَعَكَ، ثُمَّ يَأْتِينَا فَيَؤُمُّنَا، وَإِنَّكَ أَخَّرْتَ الصَّلاةَ الْبَارِحَةَ، فَصَلَّى مَعَكَ، ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَّنَا، فَاسْتَفْتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، فَلَمَّا سَمِعْتُ ذَلِكَ تَأَخَّرْتُ فَصَلَّيْتُ، وَإِنَّمَا نَحْنُ أَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِأَيْدِينَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "يَا مُعَاذُ! أَفَتَّانٌ أَنْتَ؟ اقْرَأْ بِسُورَةِ كَذَا وَسُورَةِ كَذَا"۔
* تخريج: م/ال صلاۃ ۳۶ (۴۶۵)، د/ال صلاۃ ۶۸ (۶۰۰)، ۱۲۷ (۷۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۳۳) (صحیح)
۸۳۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ پڑھتے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کی امامت کر تے، ایک رات انہوں نے صلاۃ لمبی کر دی، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے صلاۃ پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آکر ان کی امامت کر نے لگے، تو انہوں نے سورہ بقرہ کی قرأت شروع کر دی، جب مقتدیوں میں سے ایک شخص نے قرأت سنی تو صلاۃ توڑ کر پیچھے جا کر الگ سے صلاۃ پڑھ لی، پھر وہ (مسجد سے) نکل گیا، تو لوگوں نے پوچھا، فلاں! تو منافق ہو گیا ہے؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں نے منافقت نہیں کی ہے، اور میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو اس سے باخبر کروں گا؛ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! معاذ آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھتے ہیں، پھر ہمارے پاس آتے ہیں، اور ہماری امامت کرتے ہیں، پچھلی رات انہوں نے صلاۃ بڑی لمبی کر دی، انہوں نے آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر واپس آ کر انہوں نے ہماری امامت کی، تو سورہ ٔ بقرہ پڑھنا شروع کر دی، جب میں نے ان کی قرأت سنی تو پیچھے جا کر میں نے (تنہا) صلاۃ پڑھ لی، ہم پانی ڈھونے والے لوگ ہیں، دن بھر اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا:'' معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو تم ( صلاۃ میں) فلاں، فلاں سورت پڑھا کرو '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی صلاۃ صحیح ہے۔


837- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى صَلاةَ الْخَوْفِ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ خَلْفَهُ رَكْعَتَيْنِ، وَبِالَّذِينَ جَائُوا رَكْعَتَيْنِ، فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا، وَلِهَؤُلائِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۲۸۸ (۱۲۴۸) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۳)، حم۵/۳۹، ۴۹، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۵۵۲ (صحیح)
۸۳۷- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خوف کی صلاۃ پڑھائی، تو اپنے پیچھے والوں کو دو رکعت پڑھائی، (پھر وہ چلے گئے) اور جو ان کی جگہ آئے انہیں بھی دو رکعت پڑھائی، تو اس طرح نبی صلی الله علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں، اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چار رکعتوں میں سے پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئیں، جب کہ ان دو رکعتوں میں آپ کے جو مقتدی تھے انہوں نے اپنی فرض پڑھی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
42-فَضْلُ الْجَمَاعَةِ
۴۲-باب: صلاۃ با جماعت کی فضیلت کا بیان​


838- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ عَلَى صَلاةِ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً "۔
* تخريج: خ/الأذان ۳۰ (۶۴۵)، ۳۱ (۶۴۹)، م/المساجد ۴۲ (۶۵۰)، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۸۳۶۷)، ط/الجماعۃ ۱ (۱)، حم۲/۱۷، ۶۵، ۱۰۲، ۱۱۲، ۱۵۶، دي/ال صلاۃ ۵۶ (۱۳۱۳) (صحیح)
۸۳۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جماعت کی صلاۃ تنہا صلاۃ پر ستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے ''۔


839- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صَلاةُ الْجَمَاعَةِ أَفْضَلُ مِنْ صَلاةِ أَحَدِكُمْ وَحْدَهُ خَمْسًا وَعِشْرِينَ جُزْئًا "۔
* تخريج: وقد أخرجہ: م/المساجد ۴۲ (۶۴۹)، ت/ال صلاۃ ۴۷ (۲۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۳۹)، ط/الجماعۃ ۱ (۲)، حم۲/۲۵۲، ۲۶۴، ۲۶۶، ۲۷۳، ۳۲۸ (بلفظ: سبع وعشرون) ۳۹۶، ۴۵۴، ۴۷۳، ۴۷۵، ۴۸۵، ۴۸۶، ۵۲۰، ۵۲۵، ۵۲۹ (صحیح)
۸۳۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جماعت کی صلاۃ تم میں سے کسی کی تنہا صلاۃ سے پچیس گنا ۱؎ افضل ہے ''۔
وضاحت ۱؎ : اس سے پہلے والی حدیث میں ۲۷گنا، اور اس میں ۲۵ گنا زیادہ فضیلت بتائی گئی ہے، اس کی توجیہ بعض علماء نے یہ کی ہے کہ یہ فضلیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کوپہلے۲۵ گنا بتلائی گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں مزید اضافہ فرماکراسے۲۷ گنا کر دیا، اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کمی بیشی صلاۃ میں خشوع وخضوع اور اس کے سنن وآداب کی حفاظت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔


840- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صَلاةُ الْجَمَاعَةِ تَزِيدُ عَلَى صَلاةِ الْفَذِّ خَمْسًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۷۱)، حم۶/۴۹ (صحیح)
۸۴۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جماعت کی صلاۃ تنہا صلاۃ سے پچیس درجہ بڑھی ہوتی ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
43- الْجَمَاعَةُ إِذَا كَانُوا ثَلاثَةً
۴۳-باب: جب تین آدمی ہوں تو با جماعت صلاۃ پڑھنے کا بیان​


841- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانُوا ثَلاثَةً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَحَدُهُمْ، وَأَحَقُّهُمْ بِالإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۷۸۳ (صحیح)
۸۴۱- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرے، اور امامت کا زیادہ حقدار ان میں وہ ہے جسے قرآن زیادہ یا دہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
44-الْجَمَاعَةُ إِذَا كَانُوا ثَلاثَةً رَجُلٌ وَصَبِيٌّ وَامْرَأَةٌ
۴۴-باب: جب تین افراد ہوں: ایک مرد، ایک بچہ اور ایک عورت تو با جماعت صلاۃ پڑھنے کا بیان​


842- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ أَنَّ قَزَعَةَ مَوْلًى لِعَبْدِ الْقَيْسِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَائِشَةُ خَلْفَنَا تُصَلِّي مَعَنَا، وَأَنَا إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُصَلِّي مَعَهُ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۸۰۵ (صحیح)
۸۴۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بغل میں صلاۃ پڑھی، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے ساتھ ہمارے پیچھے صلاۃ پڑھ رہیں تھیں، اور میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بغل میں آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھ رہا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
45-الْجَمَاعَةُ إِذَا كَانُوا اثْنَيْنِ
۴۵-باب: جب دو آدمی ہوں تو باجماعت صلاۃ کا بیان​


843- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَنِي بِيَدِهِ الْيُسْرَى، فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۶ (۷۶۳) مطولاً، د/ال صلاۃ ۷۰ (۶۱۰) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۰۷)، حم۱/۲۴۹، ۳۴۷ (صحیح)
۸۴۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ پڑھی تو میں آپ کے بائیں کھڑا ہوا، تو آپ نے مجھے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑا، اور (پیچھے سے لا کر) اپنے دائیں کھڑا کر لیا۔


844- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُمْ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَصِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ شُعْبَةُ: وَقَالَ أَبُوإِسْحَاقَ: وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ - قَالَ: سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلاةَ الصُّبْحِ فَقَالَ: " أَشَهِدَ فُلانٌ الصَّلاةَ؟ " قَالُوا: لاَ، قَالَ: " فَفُلانٌ "، قَالُوا: لا، قَالَ: " إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلاتَيْنِ مِنْ أَثْقَلِ الصَّلاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، الصَّفُّ الأَوَّلُ عَلَى مِثْلِ صَفِّ الْمَلائِكَةِ، وَلَوْ تَعْلَمُونَ فَضِيلَتَهُ لابْتَدَرْتُمُوهُ، وَصَلاةُ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلاتِهِ وَحْدَهُ، وَصَلاةُ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ، وَمَا كَانُوا أَكْثَرَ، فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ - عَزَّوَجَلَّ - "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۴۸ (۵۵۴)، ق/المساجد ۱۶ (۷۹۰) مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۳۶)، حم۵/۱۴۰، ۱۴۱، دي/ال صلاۃ ۵۳ (۱۳۰۷، ۱۳۰۸) (حسن)
۸۴۴- اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے صبح کی صلاۃ پڑھی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا فلاں صلاۃ میں موجود ہے؟ '' لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اور فلاں؟ '' لوگوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''یہ دونوں صلاتیں (عشا اور فجر) منافقین پر سب سے بھاری ہیں، اگر لوگ جان لیں کہ ان دونوں صلاتوں میں کیا اجر وثواب ہے، تو وہ ان دونوں میں ضرور آئیں خواہ چوتڑوں کے بل انہیں گھسٹ کر آنا پڑے، اور پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے، اگر تم اس کی فضلیت جان لو تو تم اس میں شرکت کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے، کسی آدمی کا کسی آدمی کے ساتھ مل کر جماعت سے صلاۃ پڑھنا تنہا صلاۃ پڑھنے سے بہترہے ۱؎، اور ایک شخص کا دو آدمیوں کے ساتھ صلاۃ پڑھنا اس کے ایک آدمی کے ساتھ صلاۃ پڑھنے سے بہترہے، اور لوگ جتنا زیادہ ہوں گے اتنا ہی وہ صلاۃ اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہوگی''۔
وضاحت ۱؎ : اسی جملے سے باب کی مناسبت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
46-الْجَمَاعَةُ لِلنَّافِلَةِ
۴۶-باب: نفل صلاۃ کی جماعت کا بیان​


845- أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودٍ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ السُّيُولَ لَتَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي، فَأُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي، فَتُصَلِّيَ فِي مَكَانٍ مِنْ بَيْتِي أَتَّخِذُهُ مَسْجِدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " سَنَفْعَلُ "، فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَيْنَ تُرِيدُ؟ " فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۷۸۹ (صحیح)
۸۴۵- عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے اور میرے قبیلہ کی مسجد کے درمیان (برسات میں) سیلاب حائل ہو جاتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لاتے، اور میرے گھر میں ایک جگہ صلاۃ پڑھ دیتے جسے میں مصلیٰ بنا لیتا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:'' اچھا ہم آئیں گے''، جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے پوچھا:'' تم کہاں چاہتے ہو؟ '' تو میں نے گھر کے ایک گوشہ کی جانب اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے ہمیں دو رکعت صلاۃ پڑھائی ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : اس سے جماعت کے ساتھ نفل پڑھنے کا جواز ثابت ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
47- الْجَمَاعَةُ لِلْفَائِتِ مِنْ الصَّلاةِ
۴۷-باب: فوت شدہ صلاۃ کی جماعت کا بیان​


846- أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ حِينَ قَامَ إِلَى الصَّلاةِ قَبْلَ أَنْ يُكَبِّرَ، فَقَالَ: " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَائِ ظَهْرِي "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۸۱۵ (صحیح)
۸۴۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جس وقت صلاۃ کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہمیشہ اپنی پیٹھ کے پیچھے دیکھنے پر قادر تھے بلکہ یہ ایک معجزہ تھا جس کا ظہور جماعت کے وقت اللہ کی مشیئت سے ہوتا تھا، یہ حدیث نُسّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہو گئی ہے، باب سے اس کو کوئی مناسبت نہیں ہے، اور بقول علامہ پنجابی: یہ بعض نسخوں کے اندرہے بھی نہیں۔


847- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ - وَاسْمُهُ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ - عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا عَنْ الصَّلاةِ "، قَالَ بِلالٌ: أَنَا أَحْفَظُكُمْ، فَاضْطَجَعُوا، فَنَامُوا، وَأَسْنَدَ بِلالٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَالَ: " يَا بِلالُ! أَيْنَ مَا قُلْتَ؟ " قَالَ: مَا أُلْقِيَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَائَ، فَرَدَّهَا حِينَ شَائَ، قُمْ يَا بِلالُ! فَآذِنْ النَّاسَ بِالصَّلاةِ "، فَقَامَ بِلالٌ فَأَذَّنَ، فَتَوَضَّئُوا - يَعْنِي حِينَ ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ - ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى بِهِمْ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۳۵ (۵۹۵)، التوحید ۳۱ (۷۴۷۱) (مختصراً علي قولہ: إن اللہ إذا الخ)، وقد أخرجہ: د/ال صلاۃ ۱۱ (۴۳۹، ۴۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۹۶)، حم۵/۳۰۷ (صحیح)
۸۴۷- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (سفر میں) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! کاش آپ آرام کے لئے پڑاؤ ڈالتے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:'' مجھے ڈرہے کہ تم کہیں صلاۃ سے سو نہ جاؤ''، اس پر بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سب کی نگرانی کروں گا، چنانچہ سب لوگ لیٹے، اور سب سو گئے، بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی پیٹھ اپنی سواری سے ٹیک لی، (اور وہ بھی سو گئے) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج نکل چکا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: '' بلال! کہاں گئی وہ بات جوتم نے کہی تھی؟ '' بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھ پر ایسی نیند جیسی اس بار ہوئی کبھی طاری نہیں ہوئی تھی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''بیشک اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے لوٹا دیتا ہے، بلال اٹھو! اور لوگوں میں صلاۃ کا اعلان کرو''؛ چنانچہ بلال کھڑے ہوئے، اور انہوں نے اذان دی، پھر لوگوں نے وضو کیا، اس وقت سورج بلند ہو چکا تھا، تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی۔
 
Top