سنیوں کی ایک حدیث اور بھی شامل کر لیجئے:
من کفر مسلما فقد کفر(مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)
جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا۔
مزید:
من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱)
جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ (یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا۔)
اور آپ تو چند ایک کو چھوڑ کر سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مرتد ہو جانے کے قائل ہیں۔
چلیں سنیوں کی احادیث نہ مانیں، اپنے اماموں ہی کی مان لیں:
ملاحظہ کیجئے، تفسیر امام حسن عسکری میں لکھا ہے:
((ان رجلا ممن یبغض ال محمد و اصحابہ او واحدا منھم یعذبہ اللہ عذابا لوقسم علی مثل ما خلق اللہ لا ھلکم اجمعین))
اگر کوئی شخص دشمنی رکھے آل محمد سے اور اصحاب محمد سے یا ایک سے بھی، منجملہ ان کے اس پر خدا ایسا عذاب کرے گا کہ اگر وہ تقسیم کیا جائے تمام خلق پر تو وہ سب ہلاک ہو جائیں۔"
گویا جس طرح آل محمد(ﷺ) کی دشمنی حرام ہے، اسی طرح اصحاب محمد( ﷺ ) کی عداوت بھی حرام ہے۔
رہی آپ کی پیش کردہ روایات تو عرض ہے کہ ہم اہل سنت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معصوم نہیں سمجھتے، لہٰذا ان کے قول و عمل کو کتاب و سنت پر پیش کر کے قبول و رد کرتے ہیں۔ ان کی بشری لغزشوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ان پر نفاق یا ارتداد کی تہمت لگانے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو فقط گمان ہی ہے کہ انہوں نے بغض علی میں بدعت ایجاد کی ہوگی۔ لیکن خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اگر کسی شخص کے بارے میں ذلیل ہونے کا فتویٰ دے دیں، تو اس کے بغض علی میں مبتلا ہونے سے بھلا کون انکار کرے گا۔ کیونکہ مقولہ مشہور ہے:
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
علامہ طبرسی علماء شیعہ سے اپنی کتاب احتجاج میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
((ذھب من کنت اعتضد بھم علیٰ دین اللہ من اھل بیتی و بقیت بین حضر قریبتی العھد بجاھلیۃ عقیل و عباس))
"
میرے اہل بیت کے وہ لوگ جاتے رہے جن کی قوت کا خدا کے دین میں مجھے بھروسہ تھا اور
اب صرف دو ذلیل و خوار قریب زمانہ جاہلیت کے رہ گئے ہیں، یعنی عقیل (رضی اللہ عنہ) اور عباس (رضی اللہ عنہ)"
[احتجاج طبرسی، جلد اول ، ص 450، مطبوعہ ایران، 1424ھ]
لیجئے، اپنے مذہب کا ماتم کیجئے اوراپنے اکابرین پر مرثیئے نوحے پڑھئے۔ خود اہل بیت آپ حضرات کی زبان درازیوں اور چیرہ دستیوں سے نہیں بچے، تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھلا کیسے بچتے۔ اب اپنی کتابوں میں، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبانی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسے الفاظ ملاحظہ کر لینے کے بعد، ہمیں یقین ہے کہ آپ بغض علی کی وعید والی صحیح مسلم کی حدیث کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر فٹ کرنے کی کوشش کر کے دیانت داری کا ثبوت تو ہرگز نہیں دیں گے۔
اب جواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے فضائل اپنی کتب سے پیش کرنا مت شروع کر دیجئے گا۔آپ کے مجتہد ملاباقر مجلسی نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل تشیع کے مذہب کا فیصلہ، روایات کی روشنی میں، "حیوۃ القلوب" میں کر دیا ہے ، فرماتے ہیں:
((بدانکہ درباب احوال عباس و مدح و ذم او احادیث متعارض است و اکثر علماء بخوبی او میل نمودہ اند و آنچہ از احادیث ظاھر میشود آنست کہ اودر مرتبہ کمال ایمان نہ بودہ است))
"جاننا چاہئے کہ عباس رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں اور ان کی تعریف و برائی کے بارے میں احادیث متعارض ہیں اور اکثر علماء ان کی اچھائی کا رجحان رکھتے ہیں، لیکن احادیث سے جو ظاہر ہوتا ہے ، یہی ہے کہ مرتبہ ایمان میں کامل نہیں تھے۔"
لیجئے، اب اہل بیت کے ایمان میں بھی شکوک پیدا ہو گئے۔
جو ذلیل اور حقیر لوگ، اہل بیت سے محبت کے دعوے کے باوجود، ان کے بارے، ایسی ذلت آمیز باتیں کرنے سے نہ شرمائیں اور اہل بیت کے ایمان کے فیصلے کرتے پھریں، ان سے ایسی شرم کی توقع کرنا کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان کا جائز مقام دیں گے، عبث ہے۔
لہٰذا بہرام صاحب، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے زبان درازی اور نکتہ چینیوں سے قبل اپنے گریبان میں جھانکئے۔ اور تھوڑی دیر کو ٹھہر کر سوچیں کہ آج ہم چودہ سو سالوں بعد فقط سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اللہ کے رسول ﷺ سے اتنی محبت کرتے ہیں، تو وہ نفوس قدسیہ جنہوں نے ہر اچھے برے وقت میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا، ان پر پہلے ایمان لائے، اور ان کے ساتھ مل کر جنگیں لڑیں، سفر و حضر میں ان کے ساتھی رہے، روزانہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک چہرے کی زیارت کرتے رہے، وہ سب کے سب مرتد اور منافق ہو گئے؟ جن کے حق میں خود رسول اللہ ﷺ دعائیں کرتے رہے، انہیں کوئی دعا بھی نہ لگی۔ قرآن کو اپنے سامنے اترتا دیکھتے تھے اور ان کے دل نرم نہ ہوتے تھے؟ اپنی آنکھوں سے معجزات ملاحظہ کرتے تھے اور پھر بھی ایمان ان کے دلوں میں نہیں جاتا تھا؟ کیسا عجیب عقیدہ ہے، جو نہ عقل کی میزان میں پورا اترتا ہے، نہ تاریخ سے میل کھاتا ہے، نہ شیعہ سنی کتب روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
جس عظیم ہستی سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی اور وہ بھی ایسی بیٹی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہیں، نکاح کر دیں۔ اسی ہستی پر آپ صبح و شام لعنتیں بھیجیں اور گالم گلوچ کریں۔ یہ کیسی اہل بیت کی محبت ہے؟ وہ نفوس قدسیہ جنہیں وہ اپنی بیٹیاں دیتے رہے، جن کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھتے رہے، انہیں سے بغض رکھنا، آپ کے تکمیل ایمان کا لازمہ ٹھہرا۔
جہاں تک سنیوں کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر نام نہ رکھنے کی بات ہے، تو یہ قطعاً غلط ہے ۔ ایک اور دھاگے میں ایسے کئی نام پیش کئے جا چکے ہیں، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام کی بنیاد پر رکھے گئے۔ ملاحظہ کیجئے:
معاویہ نام کی تاریخی حیثیت
لہٰذا یا تو ثابت کیجئے کہ آج تک سنیوں میں کوئی معاویہ نہیں ہوا۔ اور یا پھر اپنے بودے استدلالات سے تائب ہو جائیں۔ اور بلاوجہ اس دھاگے کو طول دینے سے احتراز کریں۔ حضرت معاویہ کی شخصیت پر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو علیحدہ دھاگا کھولیں اور ایک وقت میں ایک موضوع پر بات کریں۔