محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَايَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا۰ۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۰ۭ فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَفَ۰ۭ وَاَمْرُہٗٓ اِلَى اللہِ۰ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۲۷۵
سودخوار آدمی قیامت کے دن اسطرح اٹھیں گے جس طرح وہ اٹھتا ہے ۱؎ جسے جن نے لپٹ کے خبطی بنادیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا کہ سودا کرنا بھی تو سود ہی جیسا ہے ۔ حالانکہ خدا نے سودا حلال کیا ہے اور سود حرام کیا ہے ۔ پھر جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہنچ گئی اور وہ (سود کھانے سے) بازآیا تو جو کچھ وہ پہلے لے چکا ہے، وہ اس کا ہوااورحکم اس کا خدا کی طرف ہے اور جوکوئی پھر(سود) لے تو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں۔ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔۲؎(۲۷۵)
۱؎ انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے بعد سود کی حرمت کا ذکر کیا، تاکہ معلوم ہو کہ سود خواری باہمی تعاون کے جذبے کو روک دیتی ہے اور سودخواری کے جواز کے معنی انسانی ہمدردی سے فقدان وضیاع کے ہیں۔ ان آیات میں نہایت بلیغ انداز سے سودخوار کی حالت نفسی کی تشریح کی ہے کہ وہ اس طرح فنا فی المال رہتے ہیں، جس طرح کوئی آسیب کی لپیٹ میں آگیا ہو۔ ایک ہی دھن ہے اور ایک ہی خیال یعنی وہ حرص وآز کے اس درجہ پر پہنچ گیے ہیں کہ جہاں دماغی توازن برقرار نہیں رہتا۔ گویا ان کا دماغ بجز سرمایہ کے کسی چیز پر غور کرنے کا اہل نہیں۔ آپ دیکھیں گے قرآن کریم نے کس درجہ سچی تصویر پیش کی ہے ۔ سود خوار مہاجن اور یہودی صحیح معنوں میں مسرت وسعادت سے محروم رہتا ہے ۔وہ گودولت کے خزانے جمع کرلیتا ہے مگر طمانیت قلب جو صرف قناعت سے حاصل ہوتی ہے، کھو بیٹھتا ہے ۔ وہ ہروقت ایک سوچ اور فکر میں ڈوبا رہتا ہے ۔ اس کے لیے ''اسامی'' کا وجود ہی ایک معصیت رہ جاتا ہے ۔ وہ سوچتا رہتا ہے ۔ کہیں اسامی مرنہ جائے ۔ کہیں دیوالہ نہ نکال دے۔ غریبوں کے خون میں ہاتھ رنگنا اس کے لیے بہترین مشغلہ ہے ۔ وہ دوسروں کے لیے روپیہ ضرور جمع کرجاتا ہے مگر اپنے لیے اس کے پاس سوائے کفاف وخساست اور کچھ نہیں ہوتا۔ کیا یہ جنون نہیں؟سود خوار کی حالت نفسی
۲؎ اور یہ خرابی اس لیے پیدا ہوئی کہ تجارت وسود میں جو فرق تھا وہ نظر انداز کردیا گیا۔ خدانے تجارت کی تواجازت دی ہے مگر سود کو حرام قرار دیا ہے ،اس لیے کہ اس سےبہت سی خرابیاں پید اہوتی ہیں اور انسان اپنے بہترین جوہر تعاون کو کھودیتا ہے ۔سود اور تجارت
{سَلَفَ}گزرچکا۔حل لغات