• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سود خود خون کا دریا اور پتھر

طیب علی

مبتدی
شمولیت
جنوری 14، 2014
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
18

مولانا امیر حمزہ کی خاص تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ مدینہ منورہ ہے، مسجد نبوی ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ہے۔ میرے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ فجر کی نماز کے بعد بعض اوقات صحابہ رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہوتے اور فرماتے۔ ”کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بتلائے.... آج تو میرے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو خود خواب دیکھا، لہٰذا حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خواب سنایا۔
اللہ اللہ! میرے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بھی وحی اور الہام ہے۔ رب کا پیغام ہے، بیداری میں دیکھے ہوئے منظر سے کہیں بڑھ کر وہ منظر ہے جس منظر کو میرے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہے۔ اس لئے کہ مولا کریم نے دکھلایا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں نیند کی آغوش میں ہے مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور پاکیزہ، مطہر اور اطہر روح مقدس نے پرواز شروع کی ہے۔ پھر جو کچھ میرے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو قارئین کرام! میرے تشریحی ترجمہ میں اس کا ایک منظر ملاحظہ ہو جسے امام بخاری کتاب التعبیر میں لائے ہیں۔ فرمایا! ”میرے پاس دو آنے والے (جبریل اور میکائیل) آئے۔ مجھے مختلف مناظر دکھلاتے دکھلاتے ایک دریا پر لے آئے۔ یہ دریا خون کی طرح سرخ تھا۔
اس دریا میں ایک آدمی تیر رہا تھا۔ اس دریا کے کنارے پر بھی ایک آدمی کھڑا دیکھا جس کے پاس بہت سارے پتھر پڑے تھے۔ تیرنے والا خونی دریا میں تیرتا رہتا (جب تھک جاتا اور تنگ آ جاتا) تو کنارے پر آتا (تاکہ اس خونی دریا سے باہر نکل سکتے) تو کنارے پر کھڑا آدمی اس کے چباڑے کھولتا اور ایک پتھر اس کے منہ میں ڈال دیتا“۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! وہ دو (جبریل و میکائیل) جو مجھے مختلف مناظر دکھلا رہے تھے۔ مذکورہ منظر کے بارے میں بتلایا کہ وہ خونی دریا میں تیرنے والا سود خور تھا۔ سود اور خون کا آپس میں انتہائی گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق کو میرے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مولا کریم نے دکھلایا ہے۔
لوگو! گندم جب روٹی بن کر منہ میں نوالہ بنتی ہے۔ پیٹ میں چورہ چورہ ہوتی ہے تو جگر کے ذریعے خون بنتی ہے وہ خون سارے جسم کے لئے زندگی کا باعث ہوتا ہے۔ ہر قسم کا اناج آخر انسانی جسم میں خون ہی بنتا ہے۔ باغوں کے پھل خون ہی بنتے ہیں۔ درہم و دینار بالآخر خون ہی بنتے ہیں۔ مکان پلازے اور دکانیں روپے پیسے کی شکل میں فروخت ہوتی ہیں تو وہ روپے پیسے بھی بالآخر خون ہی بنتے ہیں۔
ایک شخص کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ پیسے نہیں ہیں۔ کرم دین اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتا ہے مگر مطلوبہ رقم نہیں ہے۔ عبدالرحمان کسی مصیبت میں پھنس گیا اس سے نکلنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ عبداللہ مکان بنانا چاہتا ہے مگر پیسے نہیں ہیں۔ اب وہ کیا کرتا ہے اپنے گاﺅں کے ایک مالدار کے پاس جاتا ہے یا شہر میں اپنی مارکیٹ کے ایک تاجر کے پاس جاتا ہے۔ اس سے پیسے ادھار مانگتا ہے وہ کہتا ہے لے جاﺅ مگر ہزار روپے پر ماہانہ ایک سو روپیہ سود ہو گا۔ ضرورت کا مارا ہوا اس امید پر کہ میں ایک دو ماہ میں پیسے دے دوں گا۔ ہزار روپیہ سود پر لے لیتا ہے پہلے مہینے کی یکم تاریخ کو سو روپیہ دے دیتا ہے۔ پھر اگلے مہینے الغرض! اس مہینے۔ اس مہینے اصل رقم ہزار دے دوں گا اور سودی قسطوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ مگر نہیں دے سکتا.... یوں دس مہینے گزر جاتے ہیں۔
اب وہ ہزار روپیہ سودی قسطوں میں تو دے چکا مگر اصل ہزار روپیہ اس کے سر باقی ہے۔ اب وہ قسطیں دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگلے دس ماہ قسطیں دیئے بغیر ہی گزر گئے۔ اب رقم دو ہزار ہو گئی اور ماہانہ قسط بھی دو سو روپے ہو گئی۔ یوں اگلے دس ماہ میں یہ رقم چار ہزار روپے ہو گئی۔ جی ہاں! اگر یہ رقم ایک لاکھ لی گئی تھی تو وہ چار لاکھ ہو گئی.... اگر یہ دس لاکھ لی گئی تھی تو چالیس لاکھ ہو گئی.... اب وہ چالیس لاکھ کہاں سے دے؟ جس مکان میں رہتا تھا.... اب اس کا تقاضا ہوا، اس کی رجسٹری اور تمام کاغذات اشٹاموں پر دستخط اور انگوٹھے وغیرہ لگوا کر پہلے ہی دھر لئے گئے تھے کہ یہ سارا کچھ گارنٹی کے طور پر ہے مگر جب وہ پیسے نہ دے سکا تو اب یہ مکان سود کی رقم دینے والے کے نام ہو گیا۔
سود پر رقم لینے والا مکان سے فارغ ہو گیا.... اف اللہ! مگر .... مگر.... یارو! مگر.... یہ مکان تو 20 لاکھ کا ہے۔ باقی بیس لاکھ کہاں سے دے گا۔ کرائے کے گھر میں بیٹھ کر اب سود لینے والا پریشان ہے۔ اس کی بیٹی جوان ہے، سود لینے والے کی نظر اس پر پڑ گئی ہے۔ دس لاکھ میں وہ بیٹی خرید لیتا ہے۔ اس بیٹی کو سود خور آگے پندرہ لاکھ کی بیچ دیتا ہے۔ سود لینے والا اب کرائے کے گھر میں بیٹھا۔ بیٹی سے محروم جو کماتا ہے اس سے روکھی سوکھی کھا کر باقی رقم سود خور کو دے آتا ہے کہ بیوی اور باقی بیٹیاں بھی بک نہ جائیں۔ سود خور اس قدر پتھر دل ہے کہ اسے کوئی رحم نہیں آتا۔ اس کا کاروبار ہی یہی ہے۔ ایسے سینکڑوں لوگ اس کے ہاتھوں تڑپ رہے ہیں۔ ان کے دیئے ہوئے سود سے وہ ایک مالدار آدمی ہے۔
اس کا ایک پلازہ اسلام آباد میں ہے، کراچی میں جائیداد ہے، لاہور میں کوٹھیاں ہیں، پشاور میں پوری مارکیٹ اس کی ہے۔ کوئٹہ میں جائیداد ہے، بچے دبئی کے محل میں رہتے ہیں۔ بیوی کے دونوں بازو سونے کی چوڑیوں اور کنگنوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مرسیڈیز گاڑیاں ہیں، یہ سیٹھ صاحب ہے۔ معاشرے میں بڑا معزز بنا پھرتا ہے، الیکشن بھی لڑ لیتا ہے، ممبر بھی بن جاتا ہے۔ سیاسی پارٹی کو فنڈ بھی دیتا ہے۔ اس کا بڑا مقام ہے.... اس کے اردگرد جو تنخواہ دار بدمعاش ہیں وہ جب ڈبل کیبن گاڑیوں میں بیٹھ کر اسلحہ لہراتے ہوئے سود کی قسطیں لینے جاتے ہیں تو دینے والوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔
ایک دن اس ہٹے کٹے کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ یہ مر جاتا ہے، اس کے محل میں مولوی قرآن پڑھ رہے ہیں۔ کھجور کی گٹھلیوں پر ورد کر رہے ہیں۔ چنے کھا رہے ہیں، انواع و اقسام کے کھانے ہیں، دعائیں ہیں اور نہ جانے کیا کیا؟ اللہ اللہ! یہ لوگوں کا خون پینے والا، اپنے خون میں اضافہ کرنے والا، بیوی بچوں کے خون میں سود شامل کرنے والا.... اس کی بیوی بچوں کے رخسار یوں ہیں جیسے انار ابھی نچڑ پڑے گا.... مگر ان میں ان فاقہ کش لوگوں کا خون ہے، جو سود دینے والے ہیں۔ ان پچکے گال والوں کا خون ہے جو سود کی قسطیں دینے والے ہیں۔
ان کے حسن اور رعنائی میں ان مفلوک الحال لوگوں کا خون ہے جن کے چہرے قسطیں دیتے دیتے زرد ہو گئے.... اب جب ان پر ظلم کرنے والا مر گیا تو آگے اس کا حال کیا ہے....؟ قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ کر لیا یہ سود خور خون کے دریا میں پھینک دیا گیا ہے۔ اس کی بیوی بچے عیش کر رہے ہیں اور یہ ضرورت مند غریبوں کے چوسے اور پیئے ہوئے خونی دریا میں غرق ہو رہا ہے....
فرشتہ اس کے منہ میں پتھر ٹھونس ٹھونس کر بتلاتا ہے کہ تیرا پیٹ قیامت تک ان پتھروں سے بھرتا رہے گا.... ہزاروں سال، لاکھوں سال کروڑوں سال.... اللہ کو معلوم ہے کب قیادت آئے گی، پھر روز قیامت کے 50 ہزار سال.... اور پھر اس کے بعد جہنم۔ اللہ کی پناہ! یہ ہے سود خور کا انجام.... یہ ہے کمینے خون خوار کا انجام.... وہ سود خور کہ دنیا میں جس کا پیٹ نہ بھرتا تھا اب پتھر دل کا پیٹ پتھروں سے تو بھرے گا۔ اے اللہ! سود خوروں کو توبہ کی توفیق دے دے۔ آمین
Jamat ud Dawa Media Eye (Audio-Video-Youtube)
http://goo.gl/mrx6n3
 
Top