• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ الفلق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سورۃ الفلق

(( یَا عُقْبَۃ بْنَ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ إِنَّکَ لَمْ تَقْرَأْ سُوْرَۃً أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَلَا أَبْلَغُ عِنْدَہ مِنْ: قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ ))
مسند أحمد، رقم: ۱۷۳۴۹، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ صحیح۔
'' حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹا رہا میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے سورۃ ھود اور سورۃ یوسف پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عقبہ بن عامر! یقینا تو نے ایسی سورت نہیں پڑھی جو اللہ تعالیٰ کو قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ سے زیادہ محبوب اور اس کے ہاں زیادہ مؤثر ہے۔ ''
تشریح:
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ o مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ o وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِِذَا وَقَبَ o وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ o وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِِذَا حَسَدَ o} [الفلق]
'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، ہر اس چیز کی برائی سے جو اس نے پیدا کی ہے اور اندھیری رات کی برائی سے، جب اس کا اندھیرا پھیل جائے اور گرہ لگا کر ان میں پھونکنے والیوں کی برائی سے (بھی) اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔ ''
الفلق: بمعنی صبح اور بعض کے نزدیک بمعنی مخلوق ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ اس کی تمام مخلوق کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگے۔
کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق فلق جہنم کا ایک گھر ہے جسے جب کھولا جائے گا تو تمام جہنمی اس کی گرمی کی تیزی اور حدت کی وجہ سے چیخ پڑیں گے۔
بعض کے نزدیک اس سے مراد جہنم کا وہ گہرا گڑھا ہے جس پر پردہ پڑا ہوا ہے چنانچہ جب اس پردے کو ہٹایا جائے گا تو جہنم اس کی گرمی کی تیزی کی وجہ سے چیخ و پکار شروع کردے گی۔
بعض کے ہاں یہ جہنم کا ایک نام ہے اور بعض کے ہاں ہر وہ چیز مراد ہے جو دوسری چیز سے پھوٹے اور نکلے مثلاً حیوان، صبح، گٹھلی، پانی وغیرہ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فلق بمعنی صبح کو ترجیح دی ہے۔
مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ: یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات خواہ جہنم ہو یا ابلیس یا اس کی اولاد وغیرہ ہو اس سے پناہ مانگنا۔ بعض کے نزدیک رات کا وہ حصہ مراد ہے جس میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بعض رات کا چلا جانا مراد لیتے ہیں۔
بعض مفسرین ''غَاسِق'' کا معنی چاند بتاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دیکھا اور فرمایا:
(( یَا عَائِشَۃ اسْتَعِیْذِيْ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّ ھٰذَا، فَإِنَّ ھٰذَا ھُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۸۱۔
'' اے عائشہ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ یہی وہ غاسق ہے جب چھپ جاتا ہے۔ (تو اندھیرا کردیتا ہے)۔ ''
وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ: اس سے وہ جادوگرنیاں مراد ہیں جو گرہ میں جادو پڑھ کر پھونک مارتی ہیں۔
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِِذَا حَسَدَ: حسد کا مفہوم یہ ہے کہ حاسد اپنے لیے نعمت کے حصول کی خواہش کرے یا نہ کرے مگر جس پر حسد کر رہا ہے اس سے اللہ کی نعمت کے زوال کا خواہش مند ہو۔
حسد بہت بری چیز ہے اور حاسد اللہ تعالیٰ کی نعمت کا دشمن ہوتا ہے۔
بعض دانا لوگ بیان کرتے ہیں کہ حاسد اپنے رب تعالیٰ سے پانچ اشیاء میں مقابلہ کرتا ہے:
(۱) ...غیر پر جو بھی نعمت کی گئی اسے ناپسند کرتا ہے۔
(۲) ...اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہیں کیونکہ اس کا ذہن یہی ہوتا ہے کہ یہ تقسیم اس طرح درست نہیں تھی۔
(۳) ...اللہ تعالیٰ کے کام اور فعل کی مخالفت کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ تو اپنا فضل جسے چاہے عطا کرے مگر یہ اللہ کے فضل کے ساتھ بخیلی سے کام لیتا ہے۔
(۴) ...اللہ تعالیٰ کے دوستوں کی رسوائی اور ذلت اور ان سے نعمت کے چھن جانے کا خواہش مند ہے۔
(۵) ...اللہ کے دشمن ابلیس کی مدد کرتا ہے۔
یہ سورت معوّذات میں سے ایک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أُنْزِلَ ... أَوْ أُنْزِلَتْ ... عَلَيَّ آیَاتٌ لَمْ نُرْ مِثْلَھُنَّ قَطُّ: اَلْمُعَوَّذَتَیْنِ۔ ))
أخرجہ مسلم في فضائل القرآن ما یتعلق بہ، باب: فضل قراء ۃ المعوذتین، رقم: ۱۸۹۱۔ صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۸۲۔
'' مجھ پر ایسی آیات نازل ہوئیں ہیں جن کی مثل کبھی نہیں دیکھی گئی۔ (ان سے مراد) معوذتین (یعنی قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ہیں)۔ ''
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ کُنْتُ اَقُوْدُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم نَاقَتَہٗ فِی السَّفَرِ فَقَالَ لِیْ یَاعُقْبَۃُ: أَلَا أُعَلِّمُکَ خَیْرَ سُوْرَتَیْنِ قُرِئَتَا؟ فَعَلَّمَنِيْ: {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ} قَالَ: فَلَمْ یَرِنِيْ سَرُرْتُ بِھِمَا جِدًّا فَلَمَّا نَزَلَ لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ صَلَّی بِھِمَا، صَلَاۃَ الصُّبْحِ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الصَّلَاۃِ اِلْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: (( یَا عُقْبَۃ کَیْفَ رَأَیْتَ؟ ))
صحیح سنن أبي داود، رقم: ۱۲۹۸۔
'' کیا میں تجھ کو بہترین پڑھی گئی دو سورتیں نہ سکھاؤں؟ (حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ سکھائیں۔ عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بہت زیادہ خوش ہوتے ہوئے دیکھا، چنانچہ جب صبح کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو صبح کی نماز میں یہی دونوں سورتیں پڑھیں، جب نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے عقبہ! اب تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا اب بھی یہ معمولی سورتیں ہیں۔ ''
اس حدیث میں ان دو سورتوں کی عظیم فضیلت ذکر ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ ہر روز کئی مرتبہ اور کئی احوال میں پڑھی جاتی ہیں مثلاً پانچوں نمازوں کے بعد، صبح اور شام کے وقت، سوتے وقت، بیماری کی حالت میں ان کا دم بھی کیا جاتا ہے، اور شیطان سے پناہ کے وقت۔ ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
نمازوں کے بعد:
حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:
(( أَمَرَ نِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ أَقْرَأَ بِالْمُعَوَّذَتَیْنِ فِيْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۳۲۴۔ صحیح أبي داود، رقم: ۱۳۶۳۔
'' میں ہر نماز کے بعد معوذتین پڑھا کروں۔ ''
نمازوں کے بعد کے اذکار میں سورۃ اخلاص اور ان سورتوں کا ذکر بھی شامل ہے لیکن صبح اور مغرب کی نماز کے بعد ان کو تین تین مرتبہ پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
صبح و شام کا ذکر:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ خُبَیْبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: خَرَجْنَا فِيْ لَیْلَۃٍ مُطِیْرَۃٍ وَظُلْمَۃٍ شَدِیْدَۃٍ، نَطْلُبُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِیُصَلِّيْ لَنَا، فَأَدْرَکْنَاہٗ، فَقَالَ: (( أَصَلَّیْتُمْ؟ )) فَلَمْ أَقُلْ شَیْئًا، فَقَالَ: (( قُلْ۔ )) فَلَمْ أَقُلْ شَیْئًا، ثُمَّ قَالَ: (( قُلْ۔ )) فَلَمْ أَقُلْ شَیْئًا، ثُمَّ قَالَ: (( قُلْ۔ )) فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا أَقُوْلُ؟ قَالَ: (( قُلْ: {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ} وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ، حِیْنَ تُمْسِیْ وَحِیْنَ تُصْبِحُ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ تَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ۔))
سورۃ الإخلاص، الآیۃ: ۱۔ صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۸۲۹۔
'' حضرت عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم بارش والی اور سخت تاریکی کی ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھائیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے نماز ادا کرلی ہے؟ میں نے کچھ نہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو! میں خاموش رہا اور کچھ نہ کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو! میں خاموش رہا۔ پھر فرمایا: کہو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کیا کہوں؟ فرمایا: شام اور صبح کے وقت {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ o} اور معوذتین (سورۃ فلق اور الناس) پڑھا کرو یہ تجھ کو ہر چیز سے کفایت کرجائیں گی۔ ''
کفایت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورتیں تجھ سے ہر قسم کی برائی دور کریں گی یا یہ مفہوم ہے کہ ان کے علاوہ جو دوسری پناہ مانگنے والی دعائیں وغیرہ ہیں، ان کی بجائے یہ تجھے کافی ہوجائیں گی۔
سوتے وقت کا ذکر:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
(( یَا عُقْبَہ بْنَ عَامِرٍ، أَلَا أُعَلِّمُکَ سُوْرًا مَا أُنْزِلَتْ فِيْ التَّوْرَاۃِ وَلَا فِيْ الزَّبُوْرِ وَلَا فِيْ الْاِنْجِیْلِ وَلَا فِيْ الْفُرْقَانِ مِثْلُھُنَّ؛ لَا یَأْتِیْنَ عَلَیْکَ لَیْلَۃٌ إِلاَّ قَرَأَتَھُنَّ فِیْھَا {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌo} وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِo} وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo}۔ ))
مسند أحمد، رقم: ۱۷۳۸۳، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ صحیح۔
'' کیا میں تجھے ایسی سورتیں نہ سکھلاؤں کہ ان جیسی سورتیں نہ تورات، نہ زبور، نہ انجیل اور نہ ہی قرآن میں نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ ہر رات ان سورتوں کو پڑھنا (وہ سورتیں یہ ہیں) قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ، قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہر رات ان کو پڑھا کرتا تھا اور میرا یہ حق ہے کہ میں ان کو ترک نہ کروں (کیونکہ) مجھے ان کے (پڑھنے) کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر رات جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو معوذات کو پڑھ کر اپنے آپ پر پھونک مارتے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
(( أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ إِذَا أَوٰی إِلَی فِرَاشِہٖ کُلَّ لَیْلَۃٍ جَمَعَ کَفَّیْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِیْھِمَا فَقَرَأَ فِیْھِمَا {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌo} وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِo} وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo} ثُمَّ یَمْسَحُ بِھِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِہٖ، یَبْدَأُ بِھِمَا عَلیٰ رَأْسِہٖ وَوَجْھِہٖ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہٖ، یَفْعَلُ ذٰلِکَ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب فضائل القرآن، باب: فضل المعوذات، رقم: ۵۰۱۷۔
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات کو جب (سونے کے لیے) اپنے بستر پر جاتے تو دونوں ہتھیلیاں ملا کر ان میں پھونکتے اور یہ سورتیں پڑھتے: قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ، قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ پھر اپنے سارے بدن پر جہاں تک ہوسکتا ان کو پھیرتے۔ پہلے سر اور منہ پر اور سامنے کے بدن پر ہاتھ پھیرتے اور ایسا تین بار کرتے۔ ''
بیماری کی حالت میں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
(( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ إِذَا اشْتَکٰی یَقْرَأُ عَلیٰ نَفْسِہٖ بِالْمُعَوَّذَاتِ وَیَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجْعُہُ کُنْتُ أَقْرَأُ عَلَیْہِ وَأَمْسَحُ بِیَدِہِ رَجَائَ بَرَکَتِھَا۔))
أخرجہ البخاري في کتاب فضائل القرآن، باب: فضل المعوذات، رقم: ۵۰۱۶۔
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے تو جب (مرض الموت) آپ کی بیماری سخت ہوگئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی برکت کے خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر پھیرتی۔ ''
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
وَعَنْھَا أَیْضًا: (( أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَنْفُثُ عَلیٰ نَفْسِہٖ ... فِيْ الْمَرَضِ الَّذِيْ مَاتَ فِیْہِ ... بِالْمُعَوَّذَاتِ، فَلَمَّا ثَقُلْ کُنْتُ أَنْفُثُ عَنْہُ بِھِنَّ، وَأَمْسَحُ بِیَدِہِ نَفْسَہٗ لِبَرَکَتِھَا۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الطب، باب: الرقي بالقرآن والمعوذات، رقم: ۵۷۳۵۔
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس بیماری میں جس میں وفات پائی معوذات پڑھ کر اپنے آپ پر پھونکتے تھے تو جب آپ بوجھل ہوگئے تو میں معوذات (سورتیں) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھونکتی اور آپ کے ہاتھ کی برکت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی۔ ''
امام زہری سے سوال ہوا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیسے پھونکتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ اپنے ہاتھوں پر پھونک مارتے اور دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتے۔
کسی خوف کے وقت اور کائناتی تغیر کے وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معوذتین کے ساتھ پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جُحفہ (جگہ کا نام) اور ابواء (جگہ کا نام) کے درمیان جارہا تھا اچانک ہمیں ہوا اور سخت اندھیرے نے ڈھانپ لیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ کے ساتھ پناہ مانگنا شروع ہوگئے۔ اور فرمایا:
(( یَا عُقْبَۃُ، تَعَوِّذْ بِھِمَا فَمَا تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بِمِثْلِھِمَا قَالَ وَسَمِعْتُہٗ یَؤُمُّنَا بِھِمَا فِی الصَّلَاۃِ۔ ))
صحیح سنن أبي داود، رقم: ۱۲۹۹۔
'' اے عقبہ! ان دونوں سورتوں کے ساتھ پناہ مانگ (کیونکہ) کسی پناہ مانگنے والے نے ان دونوں سورتوں جیسی کسی اعلیٰ چیز کے ساتھ پناہ نہیں مانگی ہوگی۔ ''
یعنی مخلوق کے شر، جادو، حسد، جن و انس میں سے میں جو شیاطین ہیں، ان کے شر اور وسوسوں سے بچنے کے لیے یہ سورتیں بہترین ہیں۔
تفسیر ابن کثیر، ص: ۶۱۳/۴۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۷۷/۲۰۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ خیرا۔
 
Top