• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سچ

شمولیت
ستمبر 14، 2011
پیغامات
114
ری ایکشن اسکور
576
پوائنٹ
90
اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آگئی. اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا

" تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟"

میں نے تڑپ کر کہا !

" میں سچ لکھوں گا اماں اور سچ کا پرچار کروں گا. لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں. میں انھیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا."

میری ماں فکر مند سی ہو گئی. اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئیلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا!

" اگر تو نے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا ' دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا. ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے."

از اشفاق احمد، صبحانے فسانے ،عنوان اماں سردار بیگم ، صفحہ نمبر ١٩
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا
میرا خیال ہے کہ یہاں ’’دوسرے لوگوں‘‘ سے ’’عوام الناس‘‘ مراد ہیں، جو ’’انفرادی زندگی‘‘ جیتے ہیں۔ جن کے عیوب کی پرداہ داری کا حکم ہے۔

اس کے برعکس ’’عوامی حیثیت‘‘ کے حامل لوگ جو دوسروں پر کسی طرح بھی ’’اثر انداز‘‘ ہونے کی ’’اہلیت‘‘ رکھتے ہیں، ان سے متعلق سچ بولنا نہ صرف جائز اور ضروری بلکہ بسا اوقات فرض بن جاتا ہے۔ جابر سلطان کے سامنے ’’کلمہ حق‘‘ کہنا تو جہاد کے برابر ہے۔ یہ کلمہ حق ظاہر ہے، حکمران کی ذات سے متعلق وہ ’’ بدنما سچ‘‘ ہوتا ہے، جسے حکمران اپنی رعایا سے چھپانا چاہتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی جملہ خامیوں کا تعلق ایسے ہی ’’سچ‘‘ سے ہوتا، جسے سب کو بتلانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی سرکاری اہلکار رشوت لیتا ہے، کوئی پولس والا مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے، کوئی وزیر قومی راز دشمنوں کو فروخت کرتا ہے، کوئی ’’دینی رہنما‘‘ دین کی غلط تشریح کرکے ملت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی پروڈیوسر، رائٹر شیاطین کے کاز کو پروموٹ کرنے والے ڈرامے تخلیق کرتا ہے، کوئی این جی او خد مت خلق کی آڑ میں اسلام دشمنی یا ملک دشمنی سے متعلق کسی خفیہ ایجنڈا کو دانستہ یا نادانستہ قوت فراہم کرتی ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ تو ایسے لوگوں سے متعلق اس’’سچ‘‘ سے قوم کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

بلا کسی استثنیٰ کہ عوام کو یہ تلقین کرنا کہ ’’دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا‘‘ درحقیقت متذکرہ بالا اقسام کے سماج دشمنوں کو دانستہ یا نا دانستہ ’’پروٹیکشن‘‘ فراہم کرنا ہے۔ اشفاق صاحب کے مداحوں سے معذرت کے ساتھ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ وہ اس بات پر ضرور غور کریں کہ اشفاق صاحب نے اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ ’’ ناچنے گانے کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی انڈسٹری‘‘ (شو بز انڈسٹری) کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔ جس کے ’’انعام‘‘ میں یہود و نصاریٰ کے اداروں نے ان کی کتابوں اور تحریروں کو ’’اسپانسر‘‘ کیا اور انہیں ’’اپنے نصاب‘‘ میں شامل کیا۔ حالانکہ اردو ادب میں ان سے اچھے اچھے کہانی نویس، افسانہ نگار اورڈرامہ نگار موجود ہیں، لیکن انہیں ’’عالمی ادب‘‘ کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے کبھی بھی ’’تسلیم ‘‘ نہیں کیا کیونکہ ان لکھاریوں نے ان کی ’’کاز‘‘ کی کوئی خدمت نہیں کی۔ آخر میں موصوف صوفی کا روپ دھار کر مزے مز کے قصے سناتے رہے اور عوام کو بے وقوف بناتے رہے۔۔۔ شب کو مئے خوب سی پی، صبح کو توبہ کرلی + رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ واضح رہے کہ موصوف نے اپنی سابقہ شوبز کی شیطانی زندگی سے کبھی سچ مچ کی توبہ نہیں کی۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آپ کو کیسے پتہ کہ انہوں نے سچ مچ کی توبہ نہیں کی؟
دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم انسان کسی کے اُخروی انجام کے بارے میں کوئی بات قطعی طور پر نہیں کر سکتے۔ البتہ ظاہری اعمال کی بنیاد پر کسی ’’پبلک فیگر‘‘ کے بارے میں بآسانی رائے زنی کرسکتے ہیں کہ اس کی زندگی اسلامی شریعت پر پورا اترتی ہے یا نہیں۔ اشفاق احمد مرحوم نے آخری وقت تک "شوبز انڈسٹری" سے اپنی برسہا برس کی عملی وابستگی پر کبھی بھی کھلم کھلا ندامت کا اظہار نہیں کیا، جس طرح انہوں نے کھلم کھلا نسوانیت کو فروخت کرکے پیسے کمانے والی اس فحش اور غیر اسلامی انڈسٹری سے عملا" وابستہ رہے تھے۔ جب کوئی پبلک فیگر کھلم کھلا گناہ آلود زندگی گزارتا ہے تو اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اسے توبہ بھی اسی طرح کھلم کھلم کرنا چاہئے تاکہ جو اس کے مداح ہیں، وہ اس کے اعمال کی پیروی کرنے سے گریز کریں۔

اگر آپ کے علم میں اشفاق صاحب کی ایسی کوئی تحریر یا انٹرویو ہو جس میں انہوں نے اپنے گناہ آلود سابقہ زندگی پر ندامت کا اظہار کیا ہو تو ضرور شیئر کیجئے۔ اللہ مرحوم کی خطاؤں کو معاف کرے اور ہمیں ان کے غیر اسلامی نقش قدم پر چلنے سے بچائے۔ آمین

نوٹ: ’’سچ مچ کی توبہ نہیں کی‘‘ سے میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میڈیا کے ذریعہ یہ غلط تاثر دیا جارہا ہے کہ موصوف آخری دنوں میں ’’صوفی‘‘ (بمعنی دیندار مسلمان) بن گئے تھے۔ گناہ آلود زندگی گزارنے والی مشہور شخصیت اعلانیہ توبہ کر کے راہ راست پر آیا کرتی ہے تب ہی عوام کو پتہ چلتا ہے کہ انہون نے اپنی زندگی کا رُخ تبدیل کرلیا ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
گناہ آلود زندگی گزارنے والی مشہور شخصیت اعلانیہ توبہ کر کے راہ راست پر آیا کرتی ہے تب ہی عوام کو پتہ چلتا ہے کہ انہون نے اپنی زندگی کا رُخ تبدیل کرلیا ہے۔
بجا فرمایا۔ عصر حاضر میں ہم نے کتنے ہی مشہور موسیقار / گلوکار / کرکٹ کھلاڑیوں کو اعلانیہ اظہار ندامت کرتے دیکھا جس پر ان کے مداحین نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ، پھر اس "اعلانیہ اظہار" کو ذرائع ابلاغ کے سہارے کونے کونے میں پہنچایا۔
مگر اس قسم کا واضح اظہار ، اسلامی نظریہ حیات سے کھلا یا خفیہ علمی / نظریاتی یا عملی اختلاف رکھنے والی کسی ادبی شخصیت کے ذریعے ، میرے علم میں تو کم از کم اب تک نہیں آیا۔

گو کہ میرا نظریہ ہے کہ ایک ادیب یا شاعر کو براہ راست تبلیغ اسلام کے کاز کا پابند نہیں بنایا جا سکتا لیکن اصولی بات ہے کہ اسلام کا کوئی بھی نام لیوا ، مذہب کے اساسی اصولوں سے سمجھوتا نہیں کرتا ۔۔۔
ابن صفی کی جاسوسی تحریروں میں مبالغہ یا معاشرہ / شخصیات / طبقہ جات کی نشترزنی سہی ، لیکن خود ان کا بھی دعویٰ ہے اور ہمارا بھی ماننا ہے کہ اسلام کے طے شدہ "بنیادی" اصولوں سے گریز یا فرار کی راہ انہوں نے کبھی نہیں دکھائی بلکہ "نہی عن المنکر" کے ساتھ "امر بالمعروف" کی بھی اپنے انداز میں ہمیشہ ہی اشاعت کی۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مگر اس قسم کا واضح اظہار ، اسلامی نظریہ حیات سے کھلا یا خفیہ علمی / نظریاتی یا عملی اختلاف رکھنے والی کسی ادبی شخصیت کے ذریعے ، میرے علم میں تو کم از کم اب تک نہیں آیا۔
اشفاق احمد مرحوم صرف ایک ادیب نہیں تھے بلکہ ’’بیوٹی انڈسٹری‘‘ کے ایک فعال رکن بھی تھے جو اپنی ہیروئن کے برمحل ٹھمکے کی داد ٹی وی اسکرین پر ذوق و شوق سے دیا کرتے تھے۔ (ابتسامہ)

گو کہ میرا نظریہ ہے کہ ایک ادیب یا شاعر کو براہ راست تبلیغ اسلام کے کاز کا پابند نہیں بنایا جا سکتا

(×) بالکل درست کہا۔ میں بھی اسی بات کا قائل ہوں۔ لیکن میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ ایک ادیب کو صرف ادیب کے طور پر ہی پورٹریٹ کیا جائے۔ اُسے ’’صوفی" کے پردے میں اسلام کا نمائندہ نہ بنایا جائے، جیسا کہ بعض مسلمان ادیب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی ادیب مسلمان بھی ہے تو اس کی کسی بھی تحریری رائے یا نصیحت کو اسلام کی کسوٹی پر بھی ضرور پرکھا جانا چاہئے۔ جیسے پاکستانیوں کو (جن کی بھاری اکثریت مسلمان ہے) اشفاق احمد مرحوم کی یہ ’’نصیحت‘‘ کہ ’’ سچ صرف اپنے بارے میں بولو۔ ’’دوسروں‘‘ کے بارے میں سچ نہ بولو۔‘‘
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
(×) بالکل درست کہا۔ میں بھی اسی بات کا قائل ہوں۔ لیکن میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ ایک ادیب کو صرف ادیب کے طور پر ہی پورٹریٹ کیا جائے۔ اُسے ’’صوفی" کے پردے میں اسلام کا نمائندہ نہ بنایا جائے، جیسا کہ بعض مسلمان ادیب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی ادیب مسلمان بھی ہے تو اس کی کسی بھی تحریری رائے یا نصیحت کو اسلام کی کسوٹی پر بھی ضرور پرکھا جانا چاہئے۔ جیسے پاکستانیوں کو (جن کی بھاری اکثریت مسلمان ہے) اشفاق احمد مرحوم کی یہ ’’نصیحت‘‘ کہ ’’ سچ صرف اپنے بارے میں بولو۔ ’’دوسروں‘‘ کے بارے میں سچ نہ بولو۔‘‘
مگر ۔۔۔۔ ایک کنڈیشن کے ساتھ !! اور وہ آپ بھی جانتے ہیں :)
مجلہ محدث کے کسی شمارے میں ہیومین کلوننگ پر ایک سیر حاصل مضمون یا مباحثہ شائع ہوا تھا۔ اور ۔۔۔ عصر حاضر کا یہ ایک ایسا متنازعہ اچھوتا موضوع ہے کہ ۔۔۔ اسلامیات کے حوالے سے اس پر کسی ہارڈ اینڈ فاسٹ فتویٰ کی اجازت اگر صرف سرسری دینی علم رکھنے والے سائینسدانوں کو نہیں دی جا سکتی تو ان موقر و معتبر علمائے کرام کو بھی نہیں ہونی چاہیے جو معاصر تکنالوجی کے اسرار و رموز سے ناواقف صرف اور صرف دینیات پر اتھاریٹی رکھتے ہوں ۔۔۔ گفتگو اور پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے دونوں طبقہ جات کا باہمی اتفاق ضروری ہے۔ غالباَ ایسے ہی کچھ اصول کے پیش نظر وہ مباحثہ پیش ہوا تھا۔
اور بعینہ یہی اصول کسی ادیب کے کاز یا اس کی تخلیق کو جانچنے کا بھی پیمانہ بننا چاہیے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مگر ۔۔۔۔ ایک کنڈیشن کے ساتھ !! اور وہ آپ بھی جانتے ہیں :)
مجلہ محدث کے کسی شمارے میں ہیومین کلوننگ پر ایک سیر حاصل مضمون یا مباحثہ شائع ہوا تھا۔ اور ۔۔۔ عصر حاضر کا یہ ایک ایسا متنازعہ اچھوتا موضوع ہے کہ ۔۔۔ اسلامیات کے حوالے سے اس پر کسی ہارڈ اینڈ فاسٹ فتویٰ کی اجازت اگر صرف سرسری دینی علم رکھنے والے سائینسدانوں کو نہیں دی جا سکتی تو ان موقر و معتبر علمائے کرام کو بھی نہیں ہونی چاہیے جو معاصر تکنالوجی کے اسرار و رموز سے ناواقف صرف اور صرف دینیات پر اتھاریٹی رکھتے ہوں ۔۔۔ گفتگو اور پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے دونوں طبقہ جات کا باہمی اتفاق ضروری ہے۔ غالباَ ایسے ہی کچھ اصول کے پیش نظر وہ مباحثہ پیش ہوا تھا۔
اور بعینہ یہی اصول کسی ادیب کے کاز یا اس کی تخلیق کو جانچنے کا بھی پیمانہ بننا چاہیے۔
آپ تو مجھے وہی باتیں بتلا رہے ہیں، جو میں اکثر لوگوں سے کہتا رہتا ہوں۔ اصولی طورپر آپ کے خیالات و نظریات مجھ سے یا میرے آپ سے ملتے جلتے ہیں۔ لہٰذا ان ’’اصولوں‘‘ پر ہمارا آپس ڈیبیٹ کرتے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ (ابتسامہ)

میں صرف اس دھاگہ کے اصل متن پر آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں، جس سے مجھے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے شدید اختلاف ہے۔ اور میری رائے میں کسی مسلمان ادیب کی جانب سے اپنے مسلمان قارئین کو اس قسم کی نصیحت اور مسلمان حلقوں میں اس طرح کی نصیحتوں کا مسلسل ابلاغ قابل گرفت ہے۔ آپ صرف اس ’’نصیحت‘‘ کے حوالے سے ہماری رہنامئی فرمائیں کہ:

١۔ آیا یہ نصیحت اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے یا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
٢۔ اگر یہ نصیحت اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے تو کیا اس تحریر پراس لئے گرفت یا تنقید نہیں ہونی چاہئے کہ اسے اشفاق احمد جیسے بڑے ادیب نے لکھا ہے؟
٣۔ اگر یہ نصیحت اسلامی تعلیم کے خلاف ہے تو کیا ہم مسلمانوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ ادب کے فروغ کے شوق میں ایک مسلم ادیب کے غیر اسلامی قول کا مسلسل ابلاغ کرکے کچے اذہان کو دین سے دور لے جانے کی دانستہ یا نادانستہ مہم میں حصہ لیں۔ کیا اس قسم کی مہم کا جواب دے کر اس طرح کی مہم کے بین السطور مقاصد کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے؟

امید ہے کہ نظری بحث سے ہٹ کر آپ ان سوالات کا عملی جواب دینا بھی پسند کریں گے۔
" اگر تو نے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا ' دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا. ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے."۔۔۔۔از اشفاق احمد، صبحانے فسانے ،عنوان اماں سردار بیگم ، صفحہ نمبر ١٩
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اور بعینہٖ یہی اصول کسی ادیب کے کاز یا اس کی تخلیق کو جانچنے کا بھی پیمانہ بننا چاہیے۔
اگر کسی شعر یا ادبی شہ پارہ کو ادبیت کے حوالے سے جانچنا ہو تو اس میں غیر ادبی عالم کی بجائے ادباء وشعراء کی رائے کو ہی فوقیت ہوگی۔

لیکن!

اگر ان پر شرعی حوالے سے بات ہو تو علماء کی رائے ہی فیصلہ کُن ہوگی۔

مثلاً اعضاء کی پیوند کاری کے حوالے سے اگر طریقہ کار پر بحث ہو تو ڈاکٹر حضرات کی بات کی اہمیت ہوگی۔
لیکن اگر جواز وعدم جواز کی بات ہو تو ظاہر ہے کہ یہ فیلڈ علماء کرام ہے، وہی کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
Top