• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سیدنا خبیب رضی اللھ عنہ

۳ھ؁ میں غزوہ رجیع ہوا، رسول اکرم ﷺ نے عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو دس آدمیوں پر امیر بنا کر تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا: عسفان ا ور مکہ کے درمیان میں بنی ہذیل کا ایک قبیلہ لحیان رہتا تھا، اس کو خبر ہوگئی ۔ اس کے سو تیر اندازوں نے اس مختصر جماعت کو گھیر لیا، سات آدمی اسی جگہ لڑ کر شہید ہوگئے، تین شخص جن میں سے سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے زندہ بچے، یہ تینوں جان بخشی کے عہد و پیمان پر پہاڑی سے نیچے اترے، تیر اندازوں نے کمانوں کے تانت کھول کر ان کے ہاتھ باندھے، ایک غیرت مند مسلمان اس بے عزتی کو گوارانہ کر سکا، اور مردانہ وار لڑ کر جان دے دی، اب صرف دو شخص باقی رہ گئے، ان کو لے جا کر مکہ کے بازار میں فروخت کر دیا۔
اسلام کے اس یوسف کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا، جسے غزوہ بدر میں سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ ہی نے قتل کیا تھا، عقبہ بن حارث نے اپنے گھر میں لا کر قید کیا، ہاتھ میں ہتھ کڑیاں تھیں، اور موہب کو نگرانی پر مقرر کیا، عقبہ کی بیوی کھا نا کھلاتے وقت ہاتھ کھول دیا کرتی تھی، کئی مہینہ قید میں رہے، اشہر حرم گزر گئے ، تو قتل کی تیاریاں ہوئیں، سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے مو ہب سے تین باتوں کی درخواست کی تھی، آب شیریں پلانا، بتوں کا ذبیحہ نہ کھلانا ، قتل سے پہلے خبر کر دینا، یہ آخری درخواست عقبہ کی بیوی سے بھی کی تھی، قتل کا ارادہ ہوا، تو اس نے ان کو آگاہ کر دیا، انہوں نے طہارت کے لیے اس سے استرہ مانگا، اس نے لا کردے دیا، اس کا بچہ کھیلتا کھیلتا ان کے پاس چلا آیا، ا نہوں نے اس کو اپنی ران پر بٹھایا، ماں کی نظر پڑی ، تو دیکھا ننگا استرہ ان کے ہاتھ میں ہے، اور بچہ ان کے زانو پر ہے، یہ منظر دیکھ کر وہ کانپ اٹھی ۔ سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، تمہارا کیا خیال ہے، کہ میں اپنے خون کا اس بچہ سے انتقام لوں گا، حاشایہ ہماری شان نہیں، سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کی باتوں کا اس پر خاص اثر ہوا، کہتی تھی ، کہ میں نے خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر کسی قیدی کو نہیں دیکھا، میں نے بارہا ان کے ہاتھ میں انگور کا خوشہ دیکھا، حالانکہ اس زمانے میں انگور کی فصل بھی نہ تھی، اس کے علاوہ وہ بندھے ہوئے تھے، اس لیے یقینا وہ خدا کا دیا ہوا رزق تھا، جو خزانہ غیب سے ان کو ملتا تھا۔
سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کے قتل میں مشرکین نے بڑا اہتمام کیا، حرم سے باہر تنعیم میں ایک درخت پر سولی کا پھندا لٹکایا گیا، آدمی جمع کیے گئے، مرد، عورت، بوڑھے، بچے، امیر و غریب، وضیع و شریف غرض ساری خلقت تماشائی تھی، جب لوگ عقبہ کے گھر سے ان کو لینے کے لیے آئے تو فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ، دو رکعت نماز پڑھ لوں، زیادہ پڑھوں گا، تو تم کہو گے ، کہ موت سے گھبرا کر بہانہ ڈھونڈ رہا ہوں، نماز سے فارغ ہو کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں یہ دعا زبان پر تھی۔
اَللّٰھُمَّ احْصِھِمْ عَدَدًاوَّاقْتُلْھُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْھُمْ اَحَدًا۔
اے میرے پروردگار! تو ان کو شمار کرے، اور ان کو ایک ایک کر کے قتل کر، اور ان میںسے کسی کو نہ چھوڑ۔
پھر یہ شعر پڑھتے ہوئے سولی کے نیچے پہنچے :
و لست ابالی حین اقتل مسلما
اگر میں مسلمان رہ کر مارا جاؤں تو مجھے غم نہیں
علی ای جنب کان للہ مصرعی
کہ کس پہلو پر خدا کی راہ میں پچھاڑا جاتا ہوں
و ذلک فی ذات الالہ وان یشا
جو کچھ ہو رہا ہے خدا کی محبت میں ہو رہا ہے
یبارک علی او شال شاو ممزع
اگر وہ چاہے تو ان کٹے ہوئے ٹکڑوں پر برکت نازل کرے گا۔
مولانا قاضی سلیمان صاحب منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے اشعار میں سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کے مفہوم کو یوں ادا فرماتے ہیں:
جب نکلتی جان ہے اسلام پر
تب نہیں پرواہ مجھ کو جان کی
کیوں نہ دوں کامل خوشی سے اپنی جان
چاہیے مجھ کو رضا رحمان کی
آرزو پنہاں میرے سینہ میں تھی
اس دل مشتاق پر ارمان کی
آنکھ کر لیتی زیارت وقت نزع
داعی حق ھادی ایمان کی
اے خدا پہنچا میرا ان کو سلام
جان جن پر میں نے ہے قربان کی
طبری اور سیرت ابن ہشام جلد دوم اور رحمۃ للعالمین جلد اول میں ہے، کہ سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو جب سولی کے تختہ پر چڑھایا گیا، تو ایک سخت دل نے سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کے جگر کو چھیدا، اور پوچھا کہو اب تو تم بھی پسند کرتے ہو گے کہ محمد (ﷺ) پھنس جائے اور میں چھوٹ جاؤں، سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا، کہ خدا خوب جانتا ہے، کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا، کہ میری جان بچ جانے کے لیے نبی کریم ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے، پھر ان سے کہا گیا، کہ تم اسلام چھوڑ دو، تمہیں آزاد کر دیا جائے گا، سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ خدا کی قسم! اگر تمام دنیا کی سلطنت بھی میرے سامنے پیش کر دو، تب بھی اسلام نہیں چھوڑ سکتا، مشرکین نیزوں سے چھیدتے جاتے ، اور اس قسم کے سوال و جواب کرتے جاتے، آخر عقبہ بن حارث اور مغیرہ عبدری نے گلے میں پھندا ڈالا، اور ہمیشہ کے لیے ان کو راحت کی نیند سلا دیا۔
یہ کیسا عجیب منظر تھا، اسلام کے ایک غریب ا لوطن فرزند پر کیسے ظلم و ستم ہو رہے تھے، بطحا ئے کفر کا خونی و قاتل ، توحید کے فرزند کو کس طرح ذبح کر رہا تھا، یہ سب کچھ تھا، لیکن مجسمہ اسلام اب بھی پیکر صبرو رضا بنا ہوا تھا، اور بغیر کسی اضطراب کے نہایت سکون کے ساتھ جان دے دی۔
رسول اکرم ﷺ کو اس فاجعہ عظمیٰ کی خبر وحی کے ذریعہ ہوئی، تو فرمایا اے خبیب رضی اللہ عنہ ! تجھ پر سلام ا ور عمروبن ربیعہ ضمری کو اس شہید وفا کی لاش کا پتہ لگانے کے لیے مکہ بھیجا، عمرو رات کے وقت سولی کے پاس ڈرتے ڈرتے گئے، درخت پر چڑھ کر رسی کاٹی، جسد اطہر زمین پر گرا، چاہا کہ اتر کر اسے ا ٹھا لیں، لیکن یہ جسم زمین کے قابل نہ تھا، فرشتوں نے اٹھا کر اس مقام پر پہنچا یا، جہاں شہیدان راہ وفا کی روحیں رہتی ہیں، عمرو بن ربیعہ کو سخت حیرت ہوئی، بولے کیا زمین تو نہیں نگل گئی۔
قتل کرتے وقت مشرکین نے انہیں قبلہ رخ نہیں رکھا تھا، لیکن جو چہرہ قبلہ کی طرف پھر چکا تھا وہ کسی دوسری طرف کیونکہ پھر سکتا تھا، مشرکین نے بار بار پھیرنے کی کوشش کی ، مگر ناکام رہے۔
سعد بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عمال میں سے تھے، ان کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھی یک بارگی بے ہوش ہو جایا کرتے تھے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے وجہ پوچھی، تو بولے مجھے نہ کوئی مرض ہے نہ کچھ شکایت ہے، جب سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی پر چڑھایا گیا، تو میں اس مجمع میں موجود تھا مجھے جس وقت خبیب رضی اللہ عنہ کی باتیں یاد آجاتی ہیں، میں کانپ کر بیہوش ہو جاتا ہوں، مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا۔سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ ہی کی طرح کا ایک اور واقعہ سنیئے۔ (رحمتہ للعالمین ، ج۱)
سیدنا حبیب بن زید مازنی انصاری رضی اللہ عنہ استقلال و استقامت کے پہاڑ تھے، ان کے ہر ہر عضو کو کاٹا گیا، لیکن اسلام کے دامن رحمت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا، ان کا مختصر واقعہ یہ ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو مسیلمہ کذاب کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا، اس نے سیدنا حبیب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تم محمدﷺ کو کیا سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا وہ ہمارے سچے رسول ا ور نبی برحق ہیں، تو مسیلمہ کذاب نے کہا، جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا، کہ میرے متعلق تم کیاکہتے ہو؟ یعنی میں بھی رسول ہوں، میری رسالت کی تم گواہی دو، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بہرا ہوں، تمہاری بات میرے کانوں میں نہیں پہنچتی، مسیلمہ کذاب نے خفا ہو کر جلا دوں کو حکم دیا، کہ اس کا ایک ایک جوڑ کاٹتے جاؤ، اور ہر ایک جوڑ پر میری رسالت کا اقرار کراؤ اگر میری رسالت کی گواہی دے، تو چھوڑ دو، اور اگر محمد ﷺ کے رسول ہونے کی گواہی دے، تو اس کی بوٹی بوٹی بنا دو، چنانچہ وہ جلاد اپنی بات کہتے رہے، ا ور سیدنا حبیب رضی اللہ عنہ ا شھد ان محمد رسول اللہ کہتے رہے، آخر ان کے جسم مبارک کے تین سو ساٹھ ٹکڑے کر دیے گئے، لیکن رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی پر آخر دم تک نہایت استقلال و استقامت کے ساتھ قائم رہے رضی اللہ عنہ ۔
بشکریہ محمد آصف مغل بھائی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
رضي الله عنهم وأرضاهم أجمعين
 
Top