• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرت النبیﷺ

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
سرکار دو عالمﷺ کااخلاق

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کا ایک خادم زاہر نامی تھا ایک روز حضورﷺ نے اسے بازار میں دیکھا۔ وہ اس وقت اپنا سامان فروخت کر رہا تھا۔ اس کی شکل بھی اچھی نہ تھی۔ سرکار دو عالمﷺ چپکے سے تشریف لائے اور پیچھے سے اس کو اپنے سینہ سے لگا لیا۔ اس شخص نے حضورﷺ کو نہیں دیکھا تھا وہ کہنے لگا۔
"اَرۡسِلۡنِيۡ مَنۡ هٰذَا؟"
ترجمہ: كون صاحب ہو ؟مجھے چھوڑ دو۔
پھر اس نے مڑ کر دیکھا، رحمت عالمﷺ کو پہچان لیا اور حضورﷺ کے سینہ مبارک سے اپنی پشت کو رگڑتا رہا، حضورﷺ فرماتے رہے۔
"مَنْ يَّشْتَرِىۡ الۡعَبۡدَ؟"
ترجمہ: اس غلام کو کون خریدے گا؟
اس نے عرض کی یا رسول اللہﷺ اگر حضورﷺ مجھے بیچیں گے تو آپﷺ کو میری بہت کم قیمت ملے گی۔ حضورﷺ نے فرمایا :
"وَ لٰكِنۡ عِنْدَ اللهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ"
ترجمہ: لیکن آپ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھوٹے نہیں ہیں۔
یا حضور ﷺ نے یہ جملہ فرمایا۔
"وَلٰكِنْ اَنۡتَ عِنْدَ اللهِ غَالٍ"
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو آپ رضی اللہ عنہ گراں قیمت ہیں۔
(سبل الہدیٰ، جلد 7 ، صفحہ 81-180 ، شمائل الرسول، صفحہ 82)
ابن عساکر اور ابو یعلیٰ علیہما الرحمۃ صحیح راویوں کے واسطہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن حریرہ پکایا اور لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی حاضر تھیں۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ رضی اللہ عنہا بھی کھائیں۔ انہوں نے کھانے سے انکار کیا۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہا کھائیں نہیں تو میں یہ حریرہ آپ رضی اللہ عنہا کے چہرہ پر مل دوں گی۔ انہوں نے پھر بھی کھانے سے انکار کیا۔ میں نے اس حریرہ میں ہاتھ ڈالے اور اسے لے کر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے چہرہ پر مل دیا۔ حضور ﷺ نے میرا سر اپنی ران مبارک پر رکھا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرح اس حریرہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے چہرہ پر لیپ کر دیں۔ چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے میرے چہرہ پر وہ حریرہ مل دیا۔ ہم دونوں کو اس حالت میں دیکھ کر حضورﷺ خوب ہنسے۔
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت جس کا نام ام ایمن تھا بارگاہ رسالت ﷺمیں حاضر ہوئی، عرض کی میرا خاوند حضورﷺکو بلا رہا ہے۔ حضور ﷺ نے پوچھا وہ کون ہے؟ وہی جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے ؟ اس نے عرض کی ہاں یا رسول اللہﷺ وہی ہے۔ لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی سفیدی نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں اس کی دونوں آنکھوں میں سفیدی ہے۔ اس نے عرض کی نہیں بخدا نہیں۔ نبی کریمﷺ نے اس کی وجہ سمجھائی کہ کیا کوئی ایسا شخص ہے جس کی آنکھوں کا کوئی حصہ سفید نہ ہو؟
ایک اور خاتون آئی اس نے عرض کی یا رسول اللہﷺ مجھے سواری کیلئے اونٹ عطا فرمائیں۔ حضورﷺ نے حکم دیا اس کو اونٹ کے بچے پر سوار کر دو۔ اس نے عرض کی یا رسول اللهﷺ میں اسے کیا کروں گی وہ مجھے نہیں اٹھا سکے گا۔ حضور ﷺ نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا۔ ہر اونٹ کیا اونٹ کا بچہ نہیں ہوتا؟ اس قسم کی خوش طبعیاں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ حضور ﷺ کا معمول تھا۔
حضرت امام احمد علیہ الرحمۃ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ایک دفعہ میں ایک سفر میں حضورﷺ کے ہمرکاب تھی۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اور میرا بدن ہلکا پھلکا تھا۔ حضورﷺ نے لوگوں کو کہا کہ تم آگے چلے جاؤ وہ سب آگے چلے گئے پھر حضور ﷺ نے مجھے فرمایا آؤ آپس میں دوڑ لگائیں۔ میں نے حضور ﷺ کے ساتھ دوڑ لگائی۔ میں آگے نکل گئی۔ حضور ﷺ خاموش ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد میں فربہ ہو گئی وہ واقعہ میں بھول گئی۔ پھر ایک مرتبہ ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھی۔ حضور ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا تم آگے چلے جاؤ۔ جب لوگ آگے چلے گئے تو حضور ﷺ نے مجھے فرمایا آؤ دوڑ لگائیں۔ چنانچہ اس دفعہ حضور ﷺ آگے نکل گئے۔ آپ ﷺہنستے رہے فرمایا :
"ہٰذِہٖ بِتِلۡكَ"
ترجمہ: کہ اب بدلہ چکا دیا گیا۔
امام ترمذی علیہ الرحمۃ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک بوڑھی عورت حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی، کوئی بات دریافت کی۔ سرکار دو عالمﷺ نے از راہ مذاق اسے کہا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ سرور عالمﷺ نماز ادا کرنے کیلئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ اس بوڑھی عورت نے رونا شروع کیا، خوب روئی یہاں تک کہ حضور کریم ﷺ تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہﷺ جب سے حضور ﷺ نے اس بوڑھی عورت کو یہ فرمایا ہے کہ:
"لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَجُوۡزٌ"
ترجمہ:کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔
اس وقت سے یہ زار و قطار رو رہی ہے۔ حضور ﷺ یہ سن کر ہنس پڑے، فرمایا: بیشک جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی۔
"وَ لٰكِنَّ اللهَ قَالَ اِنَّا أنْشَانٰهُنَّ اِنْشَاءً فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا"
ترجمہ: لیکن الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ہم نے پیدا کیا ان کی بیویوں کو حیرت انگیز طریقہ سے۔ پس ہم نے بنا دیا انہیں کنواریاں۔ (دل و جان سے) پیار کرنے والیاں ہم عمر۔
امام بخاری علیہ الرحمۃ نے "ادب" میں حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ایک سفر میں مجاہدین کے ساتھ جو بوجھ تھا وہ بہت گراں محسوس ہونے لگا۔ سرور عالم ﷺ نے مجھے فرمایا کہ تم اپنی چادر بچھاؤ۔ چنانچہ انہوں نے اپنا بوجھ اس میں ڈال دیا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔
"اِحۡمِلۡ فَاَنۡتَ سَفِیۡنَۃٌ"
ترجمہ:اسے اٹھا لو تم تو کشتی ہو۔
یعنی کشتی میں سارا بوجھ سما جاتا ہے اور وہ اٹھا لیتی ہے۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رحمت عالم ﷺنے مجھے سفینہ فرمایا تو اس کے بعد سات اونٹوں کے بوجھ تک اگر مجھ پر لاد دیا جاتا تو وہ مجھے بھاری معلوم نہ ہوتا۔
حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے وہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ایک دفعہ میں حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ امام حسن و حسین حضورﷺ کی پیٹھ پر ہیں، حضورﷺ فرما رہے ہیں۔
"نِعْمَ الْجَمَلُ جَمَلُكُمَا وَنِعْمَ الْعِدْلَانِ اَنْتُمَا"
ترجمہ: تمہارا اونٹ بہترین اونٹ ہے اور تم دونوں بہترین سواری ہو۔
(سبل الہدیٰ، جلد 7 ، صفحہ 187)
یہ بھی سرور عالم ﷺ کی خوش طبعی کا نمونہ ہے اور اس کے علاوہ اس میں حسنین کریمین کی منقبت بھی ہے۔ اور اس سے ایک فقہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی انسان میں ایسی خوبیاں ہوں جو کسی جانور میں ہوتی ہیں تو بطور تشبیہ اس جانور کے نام کا اطلاق انسان پر بھی ہو سکتا ہے۔
 
Top