• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینئرایڈووکیٹ، سپریم کورٹ انسانی حقوق اور قانونِ توہین رسالت!

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سینئرایڈووکیٹ، سپریم کورٹ انسانی حقوق اور قانونِ توہین رسالت!

جناب محمد اسمٰعیل قریشی​
جب سے امریکہ میں نئی قدامت پرست عیسائی حکومت (Neo-Con)برسراقتدار آئی ہے صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش نے اپنی حکومت کو ساری دنیاکے حقوق انسانی کا علم بردار اور نگران (Watch Dog) ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ سب سے پہلے ہم اس امر کا جائزہ لیں گے کہ حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا علمبردار کون ہے؟
سال۱۹۴۸ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی حقوق انسانی کا اعلان کیا جن کے چند متعلقہ آرٹیکل یہ ہیں کہ
”ہرانسان آزاد پیدا ہوا ہے، ہر شخص کوآزادی اور تحفظ ِجان و مال کاحق حاصل ہوگا، ہر انسان کو بلا امتیازِ رنگ و نسل اور قوم یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوگاکہ وہ کسی انسان کے ساتھ ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کرے۔“
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تاریخ کی کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی یہ شہادت موجود ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے آج سے چودہ سال قبل پیغمبر اسلام نے فرمانِ الٰہی کی تعمیل میں انسان کو انسان کی اور ہر طرح کی غلامی سے آزاد کردیا۔ اسے تحفظ ِجان و مال کی ضمانت عطا کی اور اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے الوداعی خطاب میں آزادی اور حقوقِ انسانی کا وہ ہمہ گیر چارٹر کرہٴ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کوعطا فرمایا جس کے سامنے انگلستان کا میگناکارٹا، فرانس کا معاہدئہ عمرانی، امریکہ کا بل آف رائٹس (Bill of Rights)اور یو این اوکا موجودہ عالمی حقوقِ انسانی کا منشور سب نقش ِناتمام نظر آتے ہیں جس کا دیگر مذاہب ِعالم کے اکابرین نے برملا اعتراف کیا ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مشرق ہو یا یورپ، جب کبھی اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں نے حکمرانی کی ہے، اسلام کے اس ہمہ گیر حقوق انسانی کے چارٹر کی مکمل پاسداری نہ صرف سٹیٹ پالیسی کے طور پر،بلکہ اسے اپنے دین و ایمان کا بنیادی عقیدہ سمجھتے ہوئے کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسلام کے عالمی منشور کی بات تو بہت اونچی ہے۔ یورپ اور خاص طور پر امریکہ کے ان نام نہاد علم برداروں نے حقوقِ انسانی کوجس طرح پامال کیا ہے، اس کی مثال بھی تاریخ کے کسی دور میں چنگیز خان کی ہلاکت آفرینوں اور اسپین کی رسوائے زمانہ کلیسائی عدالتوں کی مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ خون آشام کارروائیوں کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ امریکہ نے گوانتاناموبے کے بے گناہ زندانیوں کو جس طرح قیدو بند کی بھیانک صعوبتیں دی ہیں اور انہیں کسی عدالت کے سامنے اپنی شکایتیں تک پہنچانے کا حق بھی دینے سے انکار کردیا۔ اس طرح اس نے انسانی حقوق و انصاف کے پرخچے اُڑا دیئے ہیں۔ یہ سلسلہٴ دراز یہیں تک ختم نہیں ہوا، عراق کے جیتے جاگتے شہروں کوبے لگام نیوکلیئر طاقت کے زور پر کھنڈروں کے قبرستان میں تبدیل کردیا گیاہے۔ وہاں کے ابوغریب جیل میں بچے، بوڑھے، جوان اور دوشیزاوٴں کے ساتھ جس طرح بہیمانہ، شرم ناک اور لرزہ خیز جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ان پر خونخوار درندوں کوچھوڑ دیا جاتا رہا ہے، اس پرانسانیت ہمیشہ ماتم کناں رہے گی!!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’نیوکون‘ امریکہ کو اس کی پروا نہیں کہ وہ حقوقِ انسانی کی عالمی عدالت کا اشتہاری ملزم ہے۔ سب سے زیادہ ڈھٹائی کی اور حیران کن بات یہ ہے کہ حقوقِ انسان کی اس کھلی توہین کے باوجود اسی امریکہ کے جمہوریت نواز ہیومن رائٹس بیورونے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے نام سے سالِ گذشتہ کے آخر میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جو سال ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس رپورٹ میں مسلمان ملکوں کی اچھی طرح خبرلی گئی ہے اور خاص طور پر پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں پر انتہائی تشویش کااظہار کیاگیا ہے۔ ان میں نمایاں طور پر قانونِ توہین رسالت، حدود آرڈیننس اور خواتین کے خلاف قوانین کو ہدفِ تنقید بنایاگیا ہے۔ غالبؒ نے غالباً اسی موقع کے لئے کہا تھا: ”خامہ انگشت بدنداں ہے، اسے کیا لکھئے؟“ اس رپورٹ میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ اقلیت اور خواتین کے وہ کون سے حقوق ہیں جو ان قوانین کی وجہ سے پامال ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی کس اقلیت کو قانونِ توہین رسالت یا حدود آرڈیننس کے ذریعہ اس کے مذہب میں دخل اندازی کی گئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ بظاہر یوں معلوم ہوتاہے کہ رپورٹ کے فاضل مصنّفین کو خود اپنے ملک یا برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوں کے قانونِ توہین مذہب اور وہاں کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلوں کا علم نہیں۔ امریکہ جو ایک سیکولر ریاست ہے وہاں ’بلاس فیمی لاء‘ (Blasphemy Law) یعنی توہین مسیح کاقانون موجود ہے۔ وہاں کی سپریم کورٹ نے واضح طور پر مشہور موکس کیس (Mockus Case)کے بارے میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ امریکہ کے صدر مملکت، اس کی کانگریس کے اراکین ، عدلیہ اور انتظامیہ سب بائبل مقدس پر اپنے عہدوں کاحلف لیتے ہیں۔ وہاں کی ریاستوں کی آبادی اسلام یا بدھ مت کی مذہبی اقلیت کی نہیں بلکہ عیسائی مذہب کی پیروکار ہے۔ مسیحیت کی وجہ سے ریاست کی اجتماعی قوت برقرار ہے، ان حالات میں کسی کو خدائے مسیحیت (اصل الفاظ: (God of Christcan religion ie Jesuschrist جناب مسیح کی شان میں گستاخی کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس کی وجہ سے مملکت کی بنیادوں میں رخنہ اندازی ہوسکتی ہے، اس لئے بلاس فیمی لاء کسی صورت میں بنیادی حقوقِ انسانی کے ہرگز خلاف نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ برطانیہ میں قانونِ توہین مسیح  وہاں کا کامن لاء (Common Law) ہے جس کے لئے پہلے سزاے موت تھی اور اس جرم پر عربوں کو آگ میں زندہ جلا دیا جاتاتھا۔ لیکن چونکہ اب وہاں سزاے موت کا قانون موقوف ہے، اس لئے بلاس فیمی کے سنگین جرم کی انتہائی سزا سزاے عمر قید کردی گئی ہے۔ انگلستان میں راقم الحروف کے قیام کے دوران (۱۹۸۶ء) لندن کے ایک میگزین’گے نیوز‘ کے ایڈیٹر کو توہین مسیح  کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔ ایڈیٹر نے اپنی صفائی میں یہ دلیل دی تھی کہ اس کی نیت کبھی بھی توہین مسیح  کی نہیں تھی اور نہ ہوسکتی تھی بلکہ اس میگزین میں شائع شدہ نظم صرف تفریح ِطبع کے لئے لکھی گئی تھی۔ عدالت کے فیصلہ میں کہا گیا کہ بلاس فیمی میں نیت اور ارادے کونہیں دیکھاجائے گا بلکہ یہ دیکھا جاتاہے کہ کیا ان الفاظ سے توہین مسیح کے جرم کا اظہار ہواہے؟ جیوری کی رائے کہ ان الفاظ سے توہین مسیح ظاہر ہوئی ہے، اس لئے اسے یہ سزا دی گئی ہے، اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی گئی جو خارج کردی گئی۔ پھر اس کے خلاف انگلستان کی سب سے بڑی عدالت کوئینز بنچ(Quens Bench) میں یہ مقدمہ گیا جہاں بھی سال ۱۹۹۰ء میں ابتدائی عدالت کا فیصلہ برقرار رہا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ برطانیہ میں دیگر مقدمات کے فیصلوں کے ایک اور مقدمہ میں یہ بھی فیصلہ دیاگیا ہے کہ توہین مسیح کے علاوہ کسی اور مذہب (مثلاً اسلام) کے رہنما اور پیغمبر کی گستاخی کو’بلاس فیمی‘ تصور نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ اوربرطانیہ کی ریاستوں میں مسلمان اور دیگرمذاہب کے پیروکار وہاں کے شہری ہیں لیکن بلاس فیمی کی موجودگی سے وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔پھر کیا صرف اسلامی مملکت پاکستان جہاں کا سپریم لاء قرآن اور سنت ہے ، اس کے لئے ہی یہ امر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہاں نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی پر کوئی سزا نہ دی جاسکے)، جبکہ پاکستان کے اس قانون میں نہ صرف نبی کریم کی توہین بلکہ دیگر انبیا کرام کی توہین پر بھی سنگین سزا قرار دی گئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راقم الحروف کے مقدمہ ’محمداسمٰعیل قریشی بنام حکومت ِپاکستان‘ کی سماعت کے دوران تمام مکاتب ِفکر کے علما کے متفقہ بیان کے بعد بلا س فیمی لاء قرآن وسنت اور اجماعِ اُمت کے عین مطابق ہے۔ یہ فیصلہ فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان نے سال ۱۹۹۰ء میں صادر کیا ہے۔ اس کی اپیل بھی سپریم کورٹ سے خارج کردی گئی ہے۔ اوریہ قانون اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی منظور کیا ہواہے۔اس کے بعد امریکہ کے کسی ڈیپارٹمنٹ کو یہ اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ یہاں پرلاگو قانونِ توہین رسالت اوراس کے بارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلہ پرنکتہ چینی کرے اورانہیں ہیومن رائٹس کے خلاف قراردے۔ جبکہ بلاس فیمی لاء خود امریکہ کے اندرنیزبرطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں موجود ہے۔ ایسی رپورٹ کی وجہ سے یہاں کی نوے فیصد اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام امریکہ کے شہریوں کے جذباتِ حریت اور احترامِ انسانیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن ان شہریوں کو امریکہ کے مسلمانوں پر صریح ظلم کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ اسی طرح موجودہ برسراقتدار حکومت کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ایسی کارروائیوں سے اپنے خلاف نفرت کو انگیز کرے۔ (اس موضوع پر محدث کے درج ذیل تحقیقی مضامین کا مطالعہ مفید ہوگا۔

(ادارہ)
 
Top