- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,473
- پوائنٹ
- 964
اسلامی احکام و قوانین میں جستجو رکھنے والا ہر مسلمان جانتا ہے اسلام کے مختلف کبیرہ گناہوں کے ارتکاب پر مختلف حدود (سزائیں ) ہیں ۔ مثلا چور کا ہاتھ کاٹنا ، جادوگر کو قتل کرنا ، فساد پھیلانے والوں کے مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹنا ، وغیرہ
انہیں میں سے ایک ہے حد رجم جو کہ شادی شدہ زانی مرد یا عورت کے لیے مقرر ہے ۔ سورہ نور میں اللہ تعالی نے شروع میں اس حوالے چند حدود کا ذکر کیا ہے شوق رکھنے والے حضرات مطالعہ کر سکتے ہیں ۔
فیس بک آج ایک ویڈیو نظر آئی ہے جس میں ایک عورت کو( جوظاہ رہے شادی شدہ ہوگی اور اس نے بدکاری کا بھی ارتکاب کیا ہوگا ) سزائے رجم دی جارہی تھی ۔
اس سخت سزا کا تصور پہلے ذہن میں موجود تھا لیکن آنکھوں سے دیکھ کر تو رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔
اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں پختہ ہوتی گئی آج فحاشی وعریانی کیوں معاشرے کو آگ کی طرح لپیٹ میں لیے جاری ہے ۔
غیر مسلم ممالک کی تو خیر کیا بات کرنی ہے لیکن اب مسلمانوں کے اندر مسخ فطرتوں والے ایسے ناعاقبت اندیش پیدا ہوگئے ہیں جو اس کام کو گویا کوئی فخریہ پیشکش سمجھتے ہیں ۔
روزانہ کی بنیاد پر بے شمار اس طرح کے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کے ساتھ زیادتی کی ، بدکاری کی وغیرہ وغیرہ ۔
سرکاری لوگ آئے روز ان چیزوں کا سد باب کرنے کے لیے رسمی قسم کے بیانات داغتے رہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں حکومت کیطرف سے صرف ایک دفعہ
اس طرح کے اخلاقی بونوں کو سرعام علی رؤوس الأشہاد سزا دے دی جائے
اور ساتھ اعلان کردیا جائے کہ جو آئندہ ایسا کام کرے گا اس کی بھی یہی سزا ہے ۔
اور میڈیا والے اس کی نشر و اشاعت میں اسی طرح حصہ لیں جس طرح فحاشی وعریانی کو فروغ دینے میں لیتے ہیں
تو پھر دیکھ لیں یہ معاشرتی غلاظت کتنی جلدی ختم ہوتی ہے ۔
آپ ویڈیو دیکھیں اور ذرا تصور کریں کہ جن کی آنکھوں کےسامنے یہ منظر ایک دفعہ گزر جائے گا (یقینا حفظ بھی ہوجائے گا ) کیا وہ کبھی اس طرح کا کام کرنے کی جرأت کرے گا ؟
ایک بات ذہن میں رکھیں اگر ویڈیو دیکھ کر آپ کے ذہن میں طریقہ رجم یا اس کے متعلقہ دیگر شبہات آتے ہیں تو یہ سارے اعتراضات اس ویڈیو پر یعنی ان لوگوں پر ہی ہیں ۔ اس میں اسلام کی بیان کردہ حد رجم پر کوئی اعتراض نہین کیا جاسکتا بالکل ایسے ہی جیسے کوئی نماز صحیح نہ پڑھے تویہ اس کی اپنی ذاتی غلطی ہے اس میں شریعت کی طرف سے فریضہ صلاۃ پر کوئی حرف نہیں آئے گا ۔
ویڈیو میں ایک عورت کو سزا دی جارہی ہے بعض ناظرین کے ذہن میں آئے گا کہ مرد کدھر ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مرد شادی شدہ نہ ہو (غیرشادی شدہ کی سزا اسی کوڑے اور ایک سال جلاوطنی ہے ) یا دیگر اسے شبہات ہوں جن کی وجہ سے اس پر حد نافذ ہونے کی شروط پوری نہ ہوتی ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو ماعز الأسلمی رضی اللہ عنہ اور غامدیہ عورت رضی اللہ عنہا والے جوواقعات پیش آئےتھے ان میں صرف اکیلے اکیلے کو ہی سزا دی گئ تھی ۔
عورت کا اطمینان و سکون دیکھ کر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا غامدیہ عورت والا واقعہ یاد آرہا تھا کہ جس نے خود آکر بار بار اپنے گناہ کا اقرار کیا اور حد رجم نافذ کرنے کی درخواست کی ۔۔۔ جب اس عورت کو رجم کیا جارہا تھا تو دوران رجم کسی صحابی نے غصے میں آکر اس کےبارے میں چند نا مناسب کلمات کہہ دیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
والذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له» (مسلم برقم 1695 )
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نےاتنی (خلوص کے ساتھ ) توبہ کی ہے اگر حرام ٹیکس(یہاں سے اس گناہ کی سنگینی کا بھی پتہ چلتا ہے )کھانے والا بھی ایسی توبہ کرلے تو بخش دیا جائے ۔
ایک اور روایت میں ہے :
لقد تابت توبة لو قسمت بين أهل المدينة لوسعتهم، أو نحو هذا. ( مسند البزار ج 10 ص 331 )
اس نے اتنی ( خلوص سے توبہ کی ہے ) کہ اگر سب اہل مدینہ میں تقسیم کردی جائے تو ان کے لیےکافی ہوجائے ۔
انہیں میں سے ایک ہے حد رجم جو کہ شادی شدہ زانی مرد یا عورت کے لیے مقرر ہے ۔ سورہ نور میں اللہ تعالی نے شروع میں اس حوالے چند حدود کا ذکر کیا ہے شوق رکھنے والے حضرات مطالعہ کر سکتے ہیں ۔
فیس بک آج ایک ویڈیو نظر آئی ہے جس میں ایک عورت کو( جوظاہ رہے شادی شدہ ہوگی اور اس نے بدکاری کا بھی ارتکاب کیا ہوگا ) سزائے رجم دی جارہی تھی ۔
اس سخت سزا کا تصور پہلے ذہن میں موجود تھا لیکن آنکھوں سے دیکھ کر تو رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔
اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں پختہ ہوتی گئی آج فحاشی وعریانی کیوں معاشرے کو آگ کی طرح لپیٹ میں لیے جاری ہے ۔
غیر مسلم ممالک کی تو خیر کیا بات کرنی ہے لیکن اب مسلمانوں کے اندر مسخ فطرتوں والے ایسے ناعاقبت اندیش پیدا ہوگئے ہیں جو اس کام کو گویا کوئی فخریہ پیشکش سمجھتے ہیں ۔
روزانہ کی بنیاد پر بے شمار اس طرح کے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کے ساتھ زیادتی کی ، بدکاری کی وغیرہ وغیرہ ۔
سرکاری لوگ آئے روز ان چیزوں کا سد باب کرنے کے لیے رسمی قسم کے بیانات داغتے رہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں حکومت کیطرف سے صرف ایک دفعہ
اس طرح کے اخلاقی بونوں کو سرعام علی رؤوس الأشہاد سزا دے دی جائے
اور ساتھ اعلان کردیا جائے کہ جو آئندہ ایسا کام کرے گا اس کی بھی یہی سزا ہے ۔
اور میڈیا والے اس کی نشر و اشاعت میں اسی طرح حصہ لیں جس طرح فحاشی وعریانی کو فروغ دینے میں لیتے ہیں
تو پھر دیکھ لیں یہ معاشرتی غلاظت کتنی جلدی ختم ہوتی ہے ۔
آپ ویڈیو دیکھیں اور ذرا تصور کریں کہ جن کی آنکھوں کےسامنے یہ منظر ایک دفعہ گزر جائے گا (یقینا حفظ بھی ہوجائے گا ) کیا وہ کبھی اس طرح کا کام کرنے کی جرأت کرے گا ؟
ایک بات ذہن میں رکھیں اگر ویڈیو دیکھ کر آپ کے ذہن میں طریقہ رجم یا اس کے متعلقہ دیگر شبہات آتے ہیں تو یہ سارے اعتراضات اس ویڈیو پر یعنی ان لوگوں پر ہی ہیں ۔ اس میں اسلام کی بیان کردہ حد رجم پر کوئی اعتراض نہین کیا جاسکتا بالکل ایسے ہی جیسے کوئی نماز صحیح نہ پڑھے تویہ اس کی اپنی ذاتی غلطی ہے اس میں شریعت کی طرف سے فریضہ صلاۃ پر کوئی حرف نہیں آئے گا ۔
ویڈیو میں ایک عورت کو سزا دی جارہی ہے بعض ناظرین کے ذہن میں آئے گا کہ مرد کدھر ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مرد شادی شدہ نہ ہو (غیرشادی شدہ کی سزا اسی کوڑے اور ایک سال جلاوطنی ہے ) یا دیگر اسے شبہات ہوں جن کی وجہ سے اس پر حد نافذ ہونے کی شروط پوری نہ ہوتی ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو ماعز الأسلمی رضی اللہ عنہ اور غامدیہ عورت رضی اللہ عنہا والے جوواقعات پیش آئےتھے ان میں صرف اکیلے اکیلے کو ہی سزا دی گئ تھی ۔
عورت کا اطمینان و سکون دیکھ کر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا غامدیہ عورت والا واقعہ یاد آرہا تھا کہ جس نے خود آکر بار بار اپنے گناہ کا اقرار کیا اور حد رجم نافذ کرنے کی درخواست کی ۔۔۔ جب اس عورت کو رجم کیا جارہا تھا تو دوران رجم کسی صحابی نے غصے میں آکر اس کےبارے میں چند نا مناسب کلمات کہہ دیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
والذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له» (مسلم برقم 1695 )
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نےاتنی (خلوص کے ساتھ ) توبہ کی ہے اگر حرام ٹیکس(یہاں سے اس گناہ کی سنگینی کا بھی پتہ چلتا ہے )کھانے والا بھی ایسی توبہ کرلے تو بخش دیا جائے ۔
ایک اور روایت میں ہے :
لقد تابت توبة لو قسمت بين أهل المدينة لوسعتهم، أو نحو هذا. ( مسند البزار ج 10 ص 331 )
اس نے اتنی ( خلوص سے توبہ کی ہے ) کہ اگر سب اہل مدینہ میں تقسیم کردی جائے تو ان کے لیےکافی ہوجائے ۔