کیا شادی کرنا لازمی اور فرض یا واجب ہے؟ یا پھر تمام عمر بغیر شادی کے بھی رہا جا سکتا ہے جیسے کہ آج کل کچھ لوگ ساری عمر شادی نہیں کرتے۔ اور کیا شادی میں کسی مجبوری کے بغیر تاخیر بھی کر سکتے ہیں مثلا 30 ، 35 سال کی عمر میں شادی کرنا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
قال عبد الله: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم شبابا لا نجد شيئا، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء»
(صحیح بخاری: (5066) اور مسلم: (1400))
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نوجوانو! جس کے پاس نکاح کی ضروریات کی استطاعت ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی نظریں جھکانے اور شرمگاہ کو تحفظ دینے کا قوی ذریعہ ، اور جو استطاعت نہ رکھے تو وہ روزوں کی پابندی کرے؛ کیونکہ روزے شدت شہوت کو توڑ دیتے ہیں)"
دوسری حدیث
عن سهل بن سعد، أن امرأة جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله جئت لأهب لك نفسي، فنظر إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصعد النظر إليها وصوبه، ثم طأطأ رأسه، فلما رأت المرأة أنه لم يقض فيها شيئا جلست، فقام رجل من أصحابه، فقال: يا رسول الله إن لم يكن لك بها حاجة فزوجنيها، فقال: «هل عندك من شيء؟» فقال: لا والله يا رسول الله، قال: «اذهب إلى أهلك فانظر هل تجد شيئا؟» فذهب ثم رجع فقال: لا والله يا رسول الله ما وجدت شيئا، قال: «انظر ولو خاتما من حديد» فذهب ثم رجع، فقال: لا والله يا رسول الله ولا خاتما من حديد، ولكن هذا إزاري - قال سهل: ما له رداء - فلها نصفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما تصنع بإزارك، إن لبسته لم يكن عليها منه شيء، وإن لبسته لم يكن عليك شيء» فجلس الرجل حتى طال مجلسه ثم قام فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم موليا، فأمر به فدعي، فلما جاء قال: «ماذا معك من القرآن؟» قال: معي سورة كذا، وسورة كذا، وسورة كذا - [ص:193] عدها - قال: «أتقرؤهن عن ظهر قلبك؟» قال: نعم، قال: «اذهب فقد ملكتكها بما معك من القرآن»
(صحیح بخاری: (5030) اور مسلم: (1425)
ترجمہ :
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: "اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے آئی ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی جانب اوپر سے نیچے دیکھا پھر اپنا سر جھکا دیا، تو جب خاتون نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اٹھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس میں چاہت نہیں ہے تو پھر میری شادی اس سے کر دیجیے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس [حق مہر کے لیے ]کچھ ہے؟) تو اس نے کہا: "نہیں اللہ کے رسول میرے پاس کچھ نہیں ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ گھر جا کر دیکھو کوئی چیز مل جائے) تو وہ آدمی چلا گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا: "نہیں اللہ کے رسول! مجھے کچھ نہیں ملا" آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ جا کر دیکھو چاہے کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی ہو) تو وہ آدمی پھر جا کر واپس آ گیا اور کہنے لگا: " نہیں اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ میری یہ لنگی ہے-حدیث کے راوی سہل کہتے ہیں ان کے پاس اوپر والی چادر نہیں تھی اور انہوں نے کہا اس میں سے آدھی اسے دیے دیتا ہوں" تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنی لنگی سے کیا کرو گے، اگر تم پہنو گے تو اس کے تن پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ پہنے گی تو تمہارے تن پر کچھ نہیں ہو گا) یہ سن کر آدمی کافی دیر تک بیٹھا رہا ، پھر وہ کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دیکھا کہ وہ جا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلانے کا حکم دیا ، جب وہ قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس قرآن کتنا ہے؟) تو وہ شخص سورتیں گنوانے لگا کہ فلاں فلاں سورتیں ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا یہ تمام سورتیں زبانی پڑھتے ہو؟) تو اس نے کہا: جی ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس سے تمہیں یاد قرآن کے بدلے میں کر دیا ہے)
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد للہ یہ دونوں حدیثیں آپس میں متناقض نہیں ہیں، بلکہ ہر حدیث اپنے خاص سیاق اور تناظر میں آئی ہے؛ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تمام نوجوانوں اور دیگر شادی کی رغبت رکھنے والوں کے کیلیے عمومی خطاب ہے اور اس خطاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شادی کے لیے اخراجات کی استطاعت لازمی ہیں تا کہ خاوند اپنے کندھوں پر نفقہ، لباس اور رہائش کی صورت میں پڑنے والی ذمہ داری کو اچھے انداز سے نبھا سکے۔
حدیث کے عربی الفاظ میں لفظ: "الباءة" سے مراد شادی کی ضروریات ہیں، تو صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ شادی محض ایک بندھن نہیں ہے کہ حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کی جائے اور بس ، بلکہ شادی ایک ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کا بوجھ مردوں کی عورتوں پر سرپرستی کی صورت میں ہوتا ہے۔
"نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نکاح کرنے سے عاجز ہو تو وہ روزے رکھے؛ کیونکہ روزہ شہوت کم کر دیتا ہے اور شیطان کی چالوں کو کم کرتا ہے، لہذا روزہ بھی عفت اور آنکھیں جھکا کر رکھنے کے اسباب میں شامل ہے"
مجموع فتاوى ابن باز" (3 /329)
كما أن في قوله صلى الله عليه وسلم : ( مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ) دليلا على أن المشروع لمن استطاع الباءة وتكاليف النكاح ، أن يبادر إلى النكاح .
قال علماء اللجنة : " المبادرة بالزواج للشاب هو السنة لمن استطاع تكاليف الزواج ، والقيام بالحقوق الزوجية " انتهى من "فتاوى اللجنة الدائمة" (18 /6) .
راجع جواب السؤال رقم : (9262) .
جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (جس کے پاس نکاح کی ضروریات کی استطاعت ہے تو وہ شادی کر لے) یعنی جس شخص کے پاس شادی کی ضروریات اور اخراجات پوری کرنے کی استطاعت ہو تو وہ فوری شادی کر لے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"شادی کے اخراجات اٹھانے اور ازدواجی حقوق ادا کرنے کی استطاعت رکھنے والے شخص کے لیے فوری شادی کرنا سنت ہے " انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (18 /6)
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جبکہ دوسری حدیث میں کسی خاص شخص کا معاملہ ہے کہ ایک غریب شخص نے شادی اور عفت کا ذریعہ اختیار کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی شادی ایک ایسی خاتون سے فرما دی جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر پیش کرنے کے لیے آئی تھی۔ تو اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر خاوند دین دار ، اللہ تعالی کے بارے میں صحیح عقیدہ اور نظریہ رکھتا ہو اور عورت کی صورت حال بھی ایسی ہی ہو تو محض غربت شادی کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی، کیونکہ ایسی صورت میں اللہ تعالی کے اس فرمان کو مد نظر رکھنا ہو گا:
(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)
ترجمہ: تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالی کشادگی والا علم والا ہے۔ [النور:32]
چنانچہ اللہ تعالی پر مکمل توکل، عفت کی جستجو اور اللہ تعالی سے فضل کی امید اور طلب کے ساتھ امید ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالی اپنے فضل سے غنی فرما دے اور اپنی طرف سے ڈھیروں رزق عطا فرمائے۔
كما روى الترمذي (1655) وحسنه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ : الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ ) وحسنه الألباني في "صحيح الترمذي" .
وقد بوّب الإمام البخاري رحمه الله للحديث بقوله : " بَاب تَزْوِيجِ الْمُعْسِرِ ؛ لِقَوْلِهِ تَعَالَى : ( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ) " ، قال الحافظ رحمه الله : " قَوْله : لِقَوْلِهِ تَعَالَى : ( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاء يُغْنِهِمْ اللَّه مِنْ فَضْله ) هُوَ تَعْلِيل لِحُكْمِ التَّرْجَمَة , وَمُحَصِّله أَنَّ الْفَقْر فِي الْحَال لَا يَمْنَع التَّزْوِيج , لِاحْتِمَالِ حُصُول الْمَال فِي الْمَآل " انتهى .
قال علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس: " رغبهم الله في التزويج ، وأمر به الأحرار والعبيد، ووعدهم عليه الغنى ، فقال : ( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ) .
وعن ابن مسعود قال : " التمسوا الغنى في النكاح "
"تفسير ابن كثير" (6 /51)
جیسے کہ ترمذی: (1655) میں ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن بھی قرار دیا ہے کہ:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ تعالی پر حق ہے: مجاہد فی سبیل اللہ، مکاتب [آزادی کا خواہاں]غلام جو اپنی قیمت ادا کرنا چاہتا ہے، اور نکاح کرنے والا شخص جو عفت چاہتا ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عنوان لکھتے ہوئے کہا ہے: "باب ہے تنگ دست کی شادی کے متعلق؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔"
حافظ ابن حجر اس کے تحت لکھتے ہیں کہ: "
(إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ یہ در حقیقت عنوان کا سبب اور علت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر ابھی فی الوقت مال میسر نہیں ہے تو یہ شادی کے لیے مانع نہیں؛ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ بعد میں انہیں دولت مل جائے" ختم شد
علی بن ابو طلحہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "اللہ تعالی نے جوانوں کو شادی کی ترغیب دلائی اور آزاد و غلام سب کو شادی کا حکم دیا اور پھر شادی پر انہیں دولت مند کرنے کا وعدہ بھی دیا، اور فرمایا: (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ۔"
ایسے ہی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "نکاح کے ذریعے دولت تلاش کرو"
"تفسیر ابن كثیر" (6 /51)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ماخوذ از : الاسلام سوال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔