عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
العربیہ ڈاٹ نیٹ
لیبیا کے سابق مرد آہن معمر قذافی کے باغی جنگجوؤں کے ہاتھوں وحشیانہ انداز میں قتل کی طرح شام کے صدر بشار الاسد کو بھی ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور انھیں قتل کرنے کے لیے باغی جنگجوؤں اور فوجیوں پر مشتمل جیش الحر کے یونٹوں کو برطانیہ کے خصوصی دستے تربیت دے رہے ہیں۔
اس بات کا انکشاف برطانوی اخبارات میں شائع شدہ رپورٹس میں کیا گیا ہے۔ البتہ شام اور لیبیا کے حالات میں فرق یہ ہے کہ لیبیا میں فرانس کے خصوصی فوجی دستوں نے باغیوں کو تربیت دی تھی اور فرانسیسی ایجنٹوں نے بہ نفس نفیس معمر قذافی کے قتل کی کارروائی میں حصہ لیا تھا مگر شام میں فرانس کی جگہ برطانیہ نے لے لی ہے۔
برطانوی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق برطانیہ کے ایس اے ایس، ایس بی اے اور خصوصی رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے دستے شام میں موجود ہیں۔ وہ مزاحمت کاروں کو جدید ہتھیاروں کو چلانے کا استعمال سکھا رہے ہیں اور وہ صدر بشار الاسد اور ان کے حامی جنگی سرداروں کو قتل کرنے کے لیے باغیوں کے قاتل اسکواڈز کو تربیت دے رہے ہیں۔
برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل ڈیوڈ رچرڈز کا کہنا ہے کہ شام میں برطانوی فوجیوں کی محدود مداخلت کے لیے منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف اور ڈیلی اسٹار نے لکھا ہے کہ برطانیہ خود کو مشرق وسطیٰ میں ایک مکمل کھلاڑی سمجھتا ہے ۔وہ لیبیا میں فوجی مداخلت کے معاملے پر بھی سب سے آگے تھا اور وہاں لڑائی میں تیس ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
ٹیلی گراف نے ہفتے کے روز ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ امریکا، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی شام کی جیش الحر اور القاعدہ کی مزید مدد کے لیے تجویز سے خود کو ایک فاصلے پر رکھنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ قبل ازیں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی 6 غیر مسلح شہریوں کو قتل کرنے کے لیے شر پسندوں کی مدد کر رہی ہیں۔ جیش الحر شہریوں کے قتل اور شامی فوجیوں کو پکڑنے کے اعترافات کر چکی ہے۔
سی آئی اے کے پروپیگنڈا کو پھیلانے کے لیے اس کے آلہ کار کے طور پر کام کرنے والے چینل وائس آف امریکا کے مطابق ''اس وقت شام میں امریکا کی مداخلت انتہائی ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ انتہا پسند اسلامی عناصر شام میں مزید فعال کردار حاصل کر رہے ہیں''۔