محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
سَلْ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ كَمْ اٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ اٰيَۃٍؚبَيِّنَۃٍ۰ۭ وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۲۱۱ زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۰ۘ وَالَّذِيْنَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۭ وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۲۱۲
بنی اسرائیل سے پوچھ کہ کس قدر ہم نے ان کو کھلے نشان دیے تھے اور جس نے خدا کی نعمت کو پاکے بدل ڈالا تو اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔(۲۱۱) دنیا کی زندگی پر کافر فریفتہ کیے گیے ہیں اور ایمان داروں پر ہنستے ہیں حالانکہ قیامت کے دن پرہیز گار ان کے اوپر ہوں گے اور خدا جس کو چاہے بے حساب رزق دے۔۱؎ (۲۱۲)
۱؎ ابتدائے اسلام میں مسلمان بیچارے غریب اور مفلس تھے۔ رؤسائے قریش انھیں دیکھ دیکھ کر ہنستے اور کہتے کیا وہ لوگ ہیں جو دنیا کو بدل دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں غربت وافلاس ایک جرم تھا ناقابل عفو۔ قرآن حکیم نے بتایا کہ ان کے پاس گودولت دنیا کی فراوانی نہیں مگر ان کے دل ایمان کی دولت گرانمایہ سے مالامال ہیں۔گو وہ بیش قیمت ملبوسات سے محروم ہیں مگررضائے الٰہی کا پرفخر تاج انھیں کے سروں پر زیب دیتا ہے۔گو اس وقت احتیاج قلت مال ان کے لیے تکلیف دہ ہے مگرجنات ونعیم اور کوثر وتسنیم کی نعمتیں انھیں شاہان فقر کے حصہ میں آئیں گی اور تم جو سرداریوں کے مالک اورخزانوں کے سمیٹنے والے ہو، خدا کی بادشاہت میں مفلس وقلاش ٹھہرائے جاؤگے۔تمہارے ہاتھ میں ایک حبہ نہیں ہوگا۔ تمہارا کبر وغرور تمھیں بے حد ذلیل ورسوا کردے گا۔ تم دیکھوگے کہ وہ جو مطاعن واستہزاء کی آماجگاہ ہیں آج سلام وتحیات کے تحفے وصول کررہے ہیں اور تم ہرطرف سے لعن وطعن سن رہے ہو۔شاہان فقر
تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوکہ دولت کی کثرت معیارِ عروج وصداقت ہے ،حالانکہ یہ غلط ہے۔ اللہ کی بخششوں کا کوئی خاص معیار نہیں۔ وہ جسے چاہے دولت کے انبار بخش دے اور جس سے چاہے چشم زدن میں چھین لے۔ بڑے بڑے قابل وشریف اور معزز بھوکوں مرتے ہیں اور جوکمینے اور ذلیل ہیں، ان کی تجوریاں بھری رہتی ہیں۔ اسی طرح کفار وفساق کے خزانے معمور ہیں اور مومن ومسلم کوڑی کوڑی کا محتاج ہے۔یہ اس کی بے نیازیاں ہیں کہ وہ بلاحساب ومعیار کے دیتا ہے ۔ جس کو چاہے دے۔ جتنا چاہے دے، اسکا ہاتھ روکنے والا کون ؟ البتہ اس چیز کو سلباً یا ایجاباً معیارِ حق وباطل نہ سمجھنا چاہیے۔ ایک اللہ کا پیارا بندہ سلیمان علیہ السلام ایسی حکومت بھی حاصل کرسکتا ہے اور مسیح ایسا فقیر پیٹ پرپتھر بھی باندھ سکتا ہے اور کونین کی بادشاہتیں بھی حاصل کرسکتا ہے، اس لیے وہ جن کے پاس دولت ہے مگر ایمان کی دولت سے محروم ہیں، مغرور نہ ہوں اور وہ مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور وہ جو ایمان کے گنج گراں مایہ سے بہرہ ور ہیں، وہ قلت وفقر کی شکایت نہ کریں اور کفر کے غنا کو دیکھ کر جلیں نہیں ، اس لیے کہ نہ دینے میں اسے دیر لگتی ہے اور نہ چھیننے میں۔معیارِ عروج وصداقت