• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب براء ت کی حقیقت

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
673
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
شب براء ت کی حقیقت

الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلٰمَ دِیْناً)) [المائدۃ:۳]
’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیااور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((أَمْ لَھُمْ شُرَکَآئُ شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ وَلَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ))[الشوری:۲۱]
’’کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے)شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے (احکام )دین مقرر کر دئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی)ان میں فیصلہ کر دیا جاتا ۔یقینا ان ظالموں کے لئے ہی درد ناک عذاب ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھاسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد)) [متفق علیہ]
’’جس نے ہمارے دین میں نئی چیز گھڑ لی وہ مردود ہے‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد)) [مسلم]
’’جس شخص نے ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے ، وہ مردود ہے۔‘‘
حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے ہر خطبہ جمعۃ المبارک میں کہا کرتے تھے:
((أما بعد:فان خیر الحدیث کتاب اللّٰہ ،وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ،وشر الامور محدثاتھا ،وکل بدعۃ ضلالۃ))[مسلم]
’’بے شک بہترین بات اللہ کی کتاب ہے،اور بہترین ہدایت نبی کریمﷺ کی ہدایت ہے،اور بد ترین امور بدعات ہیں،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے ہمیں فصیح وبلیغ وعظ کیا جس سے دل کانپ اٹھے اور آنکھیں بہنے لگیں۔پس ہم نے کہا: یا رسول اللہ ! گویا کہ یہ الوداع کرنے والے کاوعظ ہے،پس آپ ہمیں کوئی وصیت کیجئیے!تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((أوصیکم بتقوی اللّٰہ ، والسمع والطاعۃ، وان تأمر علیکم عبد فانہ من یعش منکم فسیری اختلافا کثیرا ،فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی ،تمسکوا بھا،وعضوا علیھا بالنواجذ ،وایاکم ومحدثات الأمور،فان کل محدثۃ بدعۃ،وکل بدعۃ ضلالۃ))[رواہ اہل السنن]
’’میں تمہیں اطاعت و فرمانبرداری اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں،اگرچہ تم پر کسی غلام کو ہی امیر مقرر کر دیاگیا ہو،تم میں سے جوشخص بھی زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات کو دیکھے گا ،میرے بعد میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا،اور اس کو مضبوطی سے تھام لینا،دین میں نئی نئی چیزیں گھڑنے سے بچو! بیشک ہر نئی گھڑی ہوئی چیز بدعت ہے ،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اس معنی کی اور بہت ساری آیات اور احادیث موجود ہیں جو اس بات پرواضح دلالت کرتی ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس امت کے لئے اپنے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تمام کر دی۔اور اس وقت تک نبی کریم ﷺ کوفوت نہیں کیاجب تک انہوں نے پیغام الہی کو لوگوں تک پہنچا نہیں دیا اور اپنے اقوال وافعال سے سے اس کو واضح نہیں کر دیا۔اور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی وضاحت کر دی کہ ہر وہ چیز جو دین میں نئی گھڑ لی گئی ہو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے ،اگرچہ نیک ارادہسے ہی کیوں نہ گھڑی گئی ہو۔صحابہ کرام اور علماء عظام نے اس بات کو سمجھ لیا اور بدعات کا انکار کرتے ہوئے ان سے بچتے رہے۔
انہی بدعات میں سے ایک بدعت ’’شب برا ء ت کو محفل منانایا اس دن کا مخصوص روزہ رکھنا ‘‘ بھی ہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس کے ثبوت کی کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہو۔اس کی فضیلت میں بعض ضعیف احادیث وارد ہیں جو ناقابل اعتماد ہیں۔اور اس رات کو نماز پڑھنے کے بارے میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں سب موضوع اور من گھڑت ہیں۔جیسا کہ کثیر علماء نے اس پر متنبہ کیا ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ جمہور علماء کے نزدیک نصف شعبان کی رات کو محافل منعقد کرنا بدعت ہے کیونکہ اس کی فضیلت میں جتنی بھی احادیث آئی ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا پھر موضوع اور من گھڑت۔
حافظ ابن رجب ؒ اپنی کتاب ’’لطائف المعارف‘‘میں لکھتے ہیں کہ عبادات میں ضعیف احادیث پر اس وقت تک عمل نہیں کیا جاسکتا جب تک وہ عبادت صحیح احادیث سے ثابت نہ ہو،اور یہی قاعدہ واصول شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی ذکر کیا ہے۔جبکہ اس رات کو محفل منانے کے متعلق کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے لہذا ضعیف احادیث سے حکم ثابت نہیں ہوتا۔
اور تمام علماء کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ متنازع مسائل کو قرآن وسنت پر پیش کیا جائے،جن مسائل کی قرآن وسنت یا ان دونوں میں سے ایک تصدیق کردے ان مسائل کو مان لیا جائے اور جن مسائل کو قرآن وسنت رد کر دے ان کو چھوڑ دیا جائے۔اور جن مسائل کے بارے میں قرآن وسنت میں کچھ بھی وارد نہیں ہے وہ بدعات ہیں جن سے بچنا واجب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((یَأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ اْلآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً))[النسائ:۵۹]
’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تواسے لوٹاؤ،اللہ کی طرف اور رسول کی طرف،اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔یہ بہت بہترہے اورباعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ ‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْیئٍ فَحُکْمَہٗ اِلٰی اللّٰہِ))[الشوری:۱۰]
’’اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔‘‘
تیسری جگہ فرمایا:
((قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ))[آل عمران:۳۱]
’’کہہ دیجئیے !اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو،خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
چوتھی جگہ فرمایا:
((فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی أنفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما))[النسائ:۶۵]
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی !یہ ایماندار نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں،پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔‘‘
اس معنی کی اور بہت ساری آیات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن وسنت کے مخالف امور کو بغیر دل میں تنگی محسوس کئے رد کرناواجب ہے ۔اور یہی ایمان کا تقاضا اور مومن کے لئے دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:(( وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً))’’یہ باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ ‘‘
حافظ ابن رجب ؒ اپنی مذکورہ کلام کے بعد فرماتے ہیں کہ اہل شام میں سے بعض تابعین نصف شعبان کی رات (شب برا ء ت)کی تعظیم اور اس رات کی عبادت کیا کرتے تھے جیسے خالد بن معدان،مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہ ۔بعد میں لوگوں نے ان تابعین کی طرف دیکھتے ہوئے اس رات کی تعظیم شروع کر دی۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کویہ فضیلت بعض اسرائیلی روایات میں ملی جس پر انہوں نے عمل کرنا شروع کر دیا۔جب یہ بدعت عام ہو گئی تو لوگوں میں اختلاف پڑ گیابعض اہل بصرہ نے اس کو قبول کر لیا اور اس پر عمل شروع کر دیا جبکہ کثیر علماء حجاز نے اس کا انکار کیا جیسے عطا اور ابن ابی ملیکہ وغیرہ ۔عبد الرحمن بن زید بن اسلم نے فقہاء مدینہ سے نقل کیا ہے (اور یہی مالکیہ کا مذہب ہے)کہ نصف شعبان کی رات محفل منعقد کرنا یا اس رات کی عبادت کرنا بدعت ہے۔علماء شام کے اس سلسلے میں دو قول ہیں:
(۱)کہ اس رات کو مساجد میںعبادت کرنا مستحب ہے۔ خالد بن معدان اور لقمان بن عامر وغیرہ اس رات کو اچھے کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر مسجد میں قیام کیا کرتے تھے۔اور اسحاق بن راھویہ نے ان کی موافقت کرتے ہوئے کہا کہ باجماعت قیام کرنا بدعت نہیں ہے۔
(۲) کہ اس رات کو قیام ،قصص یا دعا کے لئے مسجد میں جمع ہونا مکروہ ہے۔جبکہ کسی شخص کا اکیلے اپنے لئے نماز پڑھنا مستحب ہے ،یہ امام اوزاعی ؒ کا قول ہے اور یہی درستگی کے زیادہ قریب ہے ۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔۔۔انتھی کلام ابن رجب
مذکورہ دلائل سے ثابت ہو گیا کہ شب براء ت کی فضیلت نہ تو نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام ثسے ثابت ہے۔امام اوزاعی ؒ کا اکیلے نماز پڑھنے کو مستحب قرار دینا اور حافظ ابن رجب ؒ کا اس قول کو اختیار کرنا غریب اور ضعیف ہے ۔کیونکہ کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ دین میں کوئی نئی چیز گھڑ لے جو ادلہ شرعیہ سے ثابت نہ ہو،برابر ہے کہ بدعت کو گھڑنے میں کوئی منفرد ہو یا پوری جماعت ہو ،اعلانیہ ہو یا خفیہ۔کیونکہ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
((من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد))[متفق علیہ]
’’جس نے ہمارے دین میں نئی چیز گھڑ لی وہ مردود ہے‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد))[مسلم]
’’جس شخص نے ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے ، وہ مردود ہے۔‘‘
امام ابو بکر طرطوشی ؒاپنی کتاب ’’الحوادث والبدع ‘‘میںفرماتے ہیں:کہ ابن وضاح نے زید بن اسلم سے نقل کیا ہے کہ ہمارے مشائخ اور فقہاء اس رات یا حدیث مکحول کی طرف کوئی توجہ نہیں کیاکرتے تھے اور اس رات کی کوئی فضیلت نہیں جانتے تھے۔ابن ابی ملیکہ کو کہا گیا کہ زیاد نمیری اس رات کی فضیلت میں کہتا ہے کہ اس رات کا اجر لیلۃ القدر کے برابر ہے ،تو انہوں نے کہا! اگر میں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سن لیا اور میرے پاس لاٹھی ہو تو ضرور اس کی پٹائی کر دوں گا۔امام شوکانی ؒ ’’الفوائد المجموعہ‘‘میں لکھتے ہیں کہ
((یاعلی، من صلیّٰ مائۃ رکعۃ لیلۃ نصف من شعبان یقرأ فی کل۔۔۔۔))
حدیث تمام طرق سے موضوع اور باطل ہے اور اس کے رواۃ مجہول ہیں۔فقہاء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس رات کی فضیلت میں جتنی روایات بھی مروی ہیں سب موضوع اور باطل ہیں،اور نبی کریم ﷺ پر بہتان اور جھوٹ ہیں۔
امام نووی ؒ اپنی کتاب ’’المجموع‘‘میں فرماتے ہیں کہ’’ صلاۃ الرغائب ‘‘جو رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو مغرب سے عشا تک بارہ رکعت نماز ادا کی جاتی ہے ،اور نصف شعبان کی رات کو سو رکعت نماز ادا کرنا یہ بدعت ہے جس کا انکار کیا گیا ہے۔
اس رات کی بدعات کے رد میں علماء کے اتنے زیادہ اقوال ہیں کہ ان سب کو اس مختصر سے پمفلٹ پر لکھنا محال ہے ،لیکن امید ہے کہ حق کے طالب کو اتنے دلائل سے ہی تسلی وتشفی ہو جائے گی ۔مختصرا نصف شعبان کی رات (شب براء ت )کو محفل منانا یا اس دن کا مخصوص روزہ رکھنا یا اس رات کو عبادت کرنا بدعت ہے اور نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
ماخوذ از فتاوي سماحۃ الشیخ/ عبد العزیز بن عبد اللّٰہ بن باز ؒ
 
Top