- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
اہل علم نے علماء کی شاذ آراء اور تفردات سے عدم تعرض کا حکم دیا ہے لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاذ قول ہے کیا؟ تفردات کی تعریف کیا ہو گی؟
علم قراء ات، علم حدیث اور علم فقہ میں شاذ کی اصطلاح مختلف معانی میں استعمال ہوئی ہے۔ ہم یہاں فقہ اور اصول فقہ کی روشنی میں اس اصلاح پر گفتگو کر رہے ہیں۔
جمہور اہل علم خیال ہے کہ شاذ ہونے کا تعلق قائل سے ہے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق قول سے ہے۔
جمہور کہتے ہیں کہ شاذ قول وہ ہے کہ جس کا قائل جماعت کے مقابلے میں تنہا یا اکیلا ہو۔ یعنی علماء کی ایک جماعت کی رائے کچھ ہے جبکہ ایک عالم دین کی رائے ان جمہور کے برعکس ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شاذ قول وہ ہے جو حق کے خلاف ہو، چاہے وہ جماعت کا ہی کیوں نہ ہو۔ چونکہ ابن حزم رحمہ اللہ کے اقوال پر عموما شذوذات اور تفردات کے فتوے لگائے گئے تو انہیں یہ مسئلہ پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اکیلے کا قول حق کے موافق اور دلیل پر مبنی ہے تو یہ شاذ نہیں ہے اور جمہور یا جماعت علماء کا قول اگر حق کے خلاف یا کمزور دلیل پر ہے تو یہ شاذ قول ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب
اگر تو ابن حزم رحمہ اللہ کی بات مان لی جائے تو مسئلہ واضح ہو جاتا ہے لیکن اگر جمہور کی بات کو لیا جائے تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اکیلا ہونا کسی کے غلط ہونے کی دلیل بن سکتا ہے؟ یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن حزم رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کے بعض اقوال جو کہ ان کے تفردات شمار ہوتے تھے لیکن بعد میں عوام کی ایک جماعت نے ان پر عمل شروع کر دیا یا علماء نے اس کے مطابق فتوی دے دیا تو کیا اس کے بعد ایک عرصہ اس قول کو شاذ یا تفرد شمار کرنے کے بعد اس پر علماء کے فتوی یا عوام کے عمل سے وہ شاذ یا متفرد قول کی تعریف سے نکل جاتا ہے۔
علم قراء ات، علم حدیث اور علم فقہ میں شاذ کی اصطلاح مختلف معانی میں استعمال ہوئی ہے۔ ہم یہاں فقہ اور اصول فقہ کی روشنی میں اس اصلاح پر گفتگو کر رہے ہیں۔
جمہور اہل علم خیال ہے کہ شاذ ہونے کا تعلق قائل سے ہے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق قول سے ہے۔
جمہور کہتے ہیں کہ شاذ قول وہ ہے کہ جس کا قائل جماعت کے مقابلے میں تنہا یا اکیلا ہو۔ یعنی علماء کی ایک جماعت کی رائے کچھ ہے جبکہ ایک عالم دین کی رائے ان جمہور کے برعکس ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شاذ قول وہ ہے جو حق کے خلاف ہو، چاہے وہ جماعت کا ہی کیوں نہ ہو۔ چونکہ ابن حزم رحمہ اللہ کے اقوال پر عموما شذوذات اور تفردات کے فتوے لگائے گئے تو انہیں یہ مسئلہ پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اکیلے کا قول حق کے موافق اور دلیل پر مبنی ہے تو یہ شاذ نہیں ہے اور جمہور یا جماعت علماء کا قول اگر حق کے خلاف یا کمزور دلیل پر ہے تو یہ شاذ قول ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب
اگر تو ابن حزم رحمہ اللہ کی بات مان لی جائے تو مسئلہ واضح ہو جاتا ہے لیکن اگر جمہور کی بات کو لیا جائے تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اکیلا ہونا کسی کے غلط ہونے کی دلیل بن سکتا ہے؟ یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن حزم رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کے بعض اقوال جو کہ ان کے تفردات شمار ہوتے تھے لیکن بعد میں عوام کی ایک جماعت نے ان پر عمل شروع کر دیا یا علماء نے اس کے مطابق فتوی دے دیا تو کیا اس کے بعد ایک عرصہ اس قول کو شاذ یا تفرد شمار کرنے کے بعد اس پر علماء کے فتوی یا عوام کے عمل سے وہ شاذ یا متفرد قول کی تعریف سے نکل جاتا ہے۔
Last edited: