- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
ہمارے معاشروں میں تعویذ گنڈا اور جادو ٹونا بہت عام ہو گیا اور بلاشبہ یہ ایک کفریہ اور شرکیہ عمل ہے لیکن لوگ حسد، کینہ، بغض، نفرت اور دشمنی کی وجہ سے اس میں کفریہ اور شرکیہ عمل میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں جادوگروں اور عاملوں کی بھرمار ہے، اسی طرح اللہ کے فضل سے جھاڑ پھونک کرنے والے اہل علم کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
آسیب، سحر اور عین یہ تین چیزیں ہیں۔ آسیب تو یہ ہے کہ کسی نے کوئی جادو ٹونا نہیں کروایا لیکن کسی سبب سے کوئی شریر جن یا جننی کسی انسان سے چمٹ گئی یا اسے نقصان پہچانے لگی۔ اس کا عموما سبب یہ ہوتا ہے کہ عمار، یعنی وہ جن جو گھروں میں رہتے ہیں، انہیں کسی انسان سے لاشعوری طور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ غصہ اور ردعمل میں اس انسان کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا کوئی شخص جنات قابو کرنے کے لیے چلے کاٹتا ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ یا کوئی جن کسی انسان پر عاشق ہونے کی وجہ سے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اس کی شادی میں رکاوٹ بن رہا ہوتا ہے۔ یا پھر کسی خاص قسم کی خوشبو لگانے سے کوئی جن کسی انسان کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ یا بعض اوقات نیک لوگوں کی نیکی میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے بھی یہ جنات شرارتیں کرتے ہیں تا کہ انہیں پریشان کر کے کم سے کم نیکی کرنے کی طرف مائل کریں۔ وغیرہ ذلک
سحر یہ ہے کہ کسی رشتہ دار، دوست، پڑوسی یا دشمن نے حسد، بغض، نفرت کی وجہ سے تعویذ گنڈا یا جادو ٹونا کروا دیا۔ اس عمل میں جادوگر عموما کفریہ اور شرکیہ عمل کے ذریعہ شیاطین جنات کی مدد حاصل کرتا ہے اور انہیں شیاطین جنات کو جس پر جادو کیا جاتا ہے، اس کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے جادوگر جادو کروانے والے سے ایک رقم وصول کرتا ہے۔ اور عین سے مراد نظر کا لگ جانا ہے اور نظر کا لگ جانا برحق ہے اور یہ اپنوں کی بھی لگ سکتی ہے۔ ان تینوں کا علاج الگ الگ ہے جو کہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم اس وقت یہ بحث کرنے جا رہے ہیں کہ بعض دم کرنے والے اہل علم بعض اوقات شرعی دم کرتے ہیں لیکن ان کے دم کے نتائج برآمد نہیں ہوتے تو اس کی کیا وجوہات ہیں یا شرعی دم کو پر اثر بنانے والی کیا چیزیں ہوتی ہیں۔ ذیل میں ہم چھ چیزیں نقل کر رہے ہیں جنہیں دم کرنے والے مختلف علماء نے اپنے تجربات سے نقل کیا ہے۔
پہلی چیز عامل کا متقی اور عالم ہونا ہے۔ ایک عامل یعنی جھاڑ پھونک کرنے والا جس قدر زیادہ علم اور تقوی کا حامل ہو گا، اسی قدر اس کے دم میں اثر ہو گا۔ اور انسان کی زندگی میں جس قدر علم اور تقوی کم ہو گا، اسی قدر اس کے دم کا اثر بھی کم ہو گا۔ بہترین بارش بہترین فصل پیدا کرتی ہے۔
دوسری چیز مریض، جسے عربی میں مصاب بھی کہتے ہیں، کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت رکھنا ہے۔ اگر کسی عامل کا دم مریض کو فائدہ نہیں دے رہا تو سارا الزام عامل کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بعض اوقات مریض میں دم کے اثرات کو قبول اور جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی یا کوئی رکاوٹ حائل ہوتی ہے۔ فصل کے لیے صرف بارش کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ زمین بھی اس قابل ہونی چاہیے کہ پیداوار دے سکے۔ اگر زمین بنجر یا سخت ہے تو بارش اسے فائدہ نہیں پہنچا جا سکتی۔ ہمارے ایک عامل دوست نے بتلایا کہ انہوں نے ایک خاتون کو ہفتوں دم کیا لیکن دوران دم تو کچھ تکلیف کم ہو جاتی تھی لیکن جب وہ گھر جاتی تھیں تو تکلیف دوبارہ لوٹ آتی تھی۔ بعد ازاں معاملہ یہ کھلا کہ وہ بینک انٹرسٹ کھاتی ہیں جس کی وجہ سے دم کے اثرات ان تک نہیں پہنچ رہے تھے۔ بلاشبہ حرام کھانا انسانی جسم تک کلام الہی کے انوارات اور برکات کے پہنچنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر مریض متقی اور شریعت پر عمل کرنے والا ہے تو اس پر دم کا اثر زیادہ اور جلدی ہوتا ہے اور مریض جتنا شریعت سے دور یا اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہو، اس میں دم کو قبول کرنے کے اثرات اسی قدر سست اور کم ہوتے ہیں۔
عامل اور مریض کے علاوہ تیسری چیز دم کے لیے آیات اور اوراد کا انتخاب ہے اور اس کے لیے عاملین کے علم اور تجربے سے فائدہ لینا چاہیے۔ مثلا اگر تو مریض کو اذیت دینے والا جن یہودی ہو تو اس پر وہ آیات زیادہ اثر کرتی ہیں جو یہود پر لعنت کے بارے میں ہیں۔ اگر ہندو جن ہے تو اس پر مشرکین پر سختی اور توحید کی آیات بہت اثر کرتی ہیں۔ اگر تو کوئی جن مرتد ہے تو پھر ارتداد والی آیات فائدہ دیتی ہیں۔ اسی طرح اگر جادوگر یا جنات کے دل میں عرب ڈالنا ہو تو آیات رعب کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر مسلط جن کو حاضر کرنا ہو تو آیات حضور کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر جن کو ہلاک کرنا مقصود ہو تو آیات احراق کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر جن کو مسلمان کرنا ہو تو اسلام کے پیش کرنے والی آیات تلاوت کی جاتی ہیں۔ اگر مریض کو خوف اور ڈر محسوس ہوتا ہو تو ایسی آیات کی تلاوت کی جاتی ہیں جن میں اہل ایمان کے لیے کسی خوف یا حزن کے نہ ہونے کا ذکر ہے۔
چوتھی مریض کا جن ہے۔ جس طرح انسان اپنی قوت اور برداشت میں مختلف ہوتے ہیں یعنی کوئی پہلوان ہے اور کوئی مریل، اسی طرح کا معاملہ جنات کا بھی ہے۔ بعض مریضوں پر جو جنات مسلط کیے جاتے ہیں، ان کی قوت برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ عامل ان پر ایک دو گھنٹے دم کر کے تھک جاتے ہیں اور جن یہ تاثر دیتا ہے کہ اسے کچھ نہیں ہو رہا حالانکہ اسے اذیت ہو رہی ہوتی ہے لیکن وہ عامل کو دھوکا دیتا ہے۔ بہت سے عاملین نے یہ بیان کیا ہے کہ جب انہوں نے مسلسل دم کا دورانیہ بڑھایا یعنی چار یا چھ گھنٹے مسلسل دم کیا تو جن کی قوت برداشت جواب دے گئی اور اس نے اقرار کیا کہ اثر تو مجھے شروع ہی سے ہو رہا تھا لیکن وہ میرے لیے قابل برداشت تھا۔ اس لیے جن کی قوت برداشت بھی بعض اوقات بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر مریض کا جن عامل کو یہ چیلنج کرے کہ مجھے کچھ نہیں ہو رہا یا ہو گا تو وہ جھوٹا ہے۔ بس اگر عامل ہمت کرے کہ اسے 5 سے 6 گھنٹے مسلسل دم کر سکے تو ان شاء اللہ جن کا تکبر اور غرور خاک میں مل جائے گا۔ جنات اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک ایک مریض کے لیے عاملوں کے اتنا ٹائم نہیں ہے لہذا تھوڑی دیر برداشت کر لو اور عامل خود ہی مایوس ہو کر چھوڑ دے گا۔ اس لیے وہ برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسے عامل کہتے ہیں کہ جن کا سٹیمنا کتنا ہے، یہ جاننے کی کوشش کرو۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر عامل کے ہاتھ میں ہر بیماری کی شفاء نہیں رکھی جیسا کہ ہر طبیب کے ہاتھ میں ہر بیماری کا علاج نہیں ہوتا ہے۔ اور عامل اپنے علم اور تجربے میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ لہذا ایک خاص وقت میں اگر کسی عامل سے فائدہ نہ ہو رہا ہو تو اپنا عامل تبدیل کر کے دیکھیں۔ اس سے بھی بعض لوگوں کو فائدہ ہو جاتا ہے۔
چھٹی بات یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالی انسان پر کوئی آزمائش کچھ خاص وقت تک لیے باقی رکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ انسان جسمانی بیماری کا علاج کرواتے نہیں تھکتا لیکن شفاء نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالی کی طرف امر نہیں ہے یا قضا نہیں ہے۔ اس لیے اگر دم کے اثر کرنے کے تمام مذکورہ بالا اسباب موجود ہوں اور پھر بھی دم اثر نہ کر رہا ہو تو اسے اللہ کی ایک تقدیر یا قضا یا فیصلہ سمجھے اور اللہ سے کثرت سے اس آزمائش کے ٹل جانے کی دعا کرے اور صبر سے کام لے لیکن دم کو ترک نہ کرے۔ اس صورت میں صبر، صبر اور صبر کے ساتھ دعا، دعا اور دعا ہی ایک ایسی صورت ہے جو آپ کو اس آزمائش سے نجات دلا سکتی ہے۔
آسیب، سحر اور عین یہ تین چیزیں ہیں۔ آسیب تو یہ ہے کہ کسی نے کوئی جادو ٹونا نہیں کروایا لیکن کسی سبب سے کوئی شریر جن یا جننی کسی انسان سے چمٹ گئی یا اسے نقصان پہچانے لگی۔ اس کا عموما سبب یہ ہوتا ہے کہ عمار، یعنی وہ جن جو گھروں میں رہتے ہیں، انہیں کسی انسان سے لاشعوری طور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ غصہ اور ردعمل میں اس انسان کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا کوئی شخص جنات قابو کرنے کے لیے چلے کاٹتا ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ یا کوئی جن کسی انسان پر عاشق ہونے کی وجہ سے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اس کی شادی میں رکاوٹ بن رہا ہوتا ہے۔ یا پھر کسی خاص قسم کی خوشبو لگانے سے کوئی جن کسی انسان کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ یا بعض اوقات نیک لوگوں کی نیکی میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے بھی یہ جنات شرارتیں کرتے ہیں تا کہ انہیں پریشان کر کے کم سے کم نیکی کرنے کی طرف مائل کریں۔ وغیرہ ذلک
سحر یہ ہے کہ کسی رشتہ دار، دوست، پڑوسی یا دشمن نے حسد، بغض، نفرت کی وجہ سے تعویذ گنڈا یا جادو ٹونا کروا دیا۔ اس عمل میں جادوگر عموما کفریہ اور شرکیہ عمل کے ذریعہ شیاطین جنات کی مدد حاصل کرتا ہے اور انہیں شیاطین جنات کو جس پر جادو کیا جاتا ہے، اس کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے جادوگر جادو کروانے والے سے ایک رقم وصول کرتا ہے۔ اور عین سے مراد نظر کا لگ جانا ہے اور نظر کا لگ جانا برحق ہے اور یہ اپنوں کی بھی لگ سکتی ہے۔ ان تینوں کا علاج الگ الگ ہے جو کہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم اس وقت یہ بحث کرنے جا رہے ہیں کہ بعض دم کرنے والے اہل علم بعض اوقات شرعی دم کرتے ہیں لیکن ان کے دم کے نتائج برآمد نہیں ہوتے تو اس کی کیا وجوہات ہیں یا شرعی دم کو پر اثر بنانے والی کیا چیزیں ہوتی ہیں۔ ذیل میں ہم چھ چیزیں نقل کر رہے ہیں جنہیں دم کرنے والے مختلف علماء نے اپنے تجربات سے نقل کیا ہے۔
پہلی چیز عامل کا متقی اور عالم ہونا ہے۔ ایک عامل یعنی جھاڑ پھونک کرنے والا جس قدر زیادہ علم اور تقوی کا حامل ہو گا، اسی قدر اس کے دم میں اثر ہو گا۔ اور انسان کی زندگی میں جس قدر علم اور تقوی کم ہو گا، اسی قدر اس کے دم کا اثر بھی کم ہو گا۔ بہترین بارش بہترین فصل پیدا کرتی ہے۔
دوسری چیز مریض، جسے عربی میں مصاب بھی کہتے ہیں، کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت رکھنا ہے۔ اگر کسی عامل کا دم مریض کو فائدہ نہیں دے رہا تو سارا الزام عامل کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بعض اوقات مریض میں دم کے اثرات کو قبول اور جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی یا کوئی رکاوٹ حائل ہوتی ہے۔ فصل کے لیے صرف بارش کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ زمین بھی اس قابل ہونی چاہیے کہ پیداوار دے سکے۔ اگر زمین بنجر یا سخت ہے تو بارش اسے فائدہ نہیں پہنچا جا سکتی۔ ہمارے ایک عامل دوست نے بتلایا کہ انہوں نے ایک خاتون کو ہفتوں دم کیا لیکن دوران دم تو کچھ تکلیف کم ہو جاتی تھی لیکن جب وہ گھر جاتی تھیں تو تکلیف دوبارہ لوٹ آتی تھی۔ بعد ازاں معاملہ یہ کھلا کہ وہ بینک انٹرسٹ کھاتی ہیں جس کی وجہ سے دم کے اثرات ان تک نہیں پہنچ رہے تھے۔ بلاشبہ حرام کھانا انسانی جسم تک کلام الہی کے انوارات اور برکات کے پہنچنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر مریض متقی اور شریعت پر عمل کرنے والا ہے تو اس پر دم کا اثر زیادہ اور جلدی ہوتا ہے اور مریض جتنا شریعت سے دور یا اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہو، اس میں دم کو قبول کرنے کے اثرات اسی قدر سست اور کم ہوتے ہیں۔
عامل اور مریض کے علاوہ تیسری چیز دم کے لیے آیات اور اوراد کا انتخاب ہے اور اس کے لیے عاملین کے علم اور تجربے سے فائدہ لینا چاہیے۔ مثلا اگر تو مریض کو اذیت دینے والا جن یہودی ہو تو اس پر وہ آیات زیادہ اثر کرتی ہیں جو یہود پر لعنت کے بارے میں ہیں۔ اگر ہندو جن ہے تو اس پر مشرکین پر سختی اور توحید کی آیات بہت اثر کرتی ہیں۔ اگر تو کوئی جن مرتد ہے تو پھر ارتداد والی آیات فائدہ دیتی ہیں۔ اسی طرح اگر جادوگر یا جنات کے دل میں عرب ڈالنا ہو تو آیات رعب کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر مسلط جن کو حاضر کرنا ہو تو آیات حضور کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر جن کو ہلاک کرنا مقصود ہو تو آیات احراق کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اگر جن کو مسلمان کرنا ہو تو اسلام کے پیش کرنے والی آیات تلاوت کی جاتی ہیں۔ اگر مریض کو خوف اور ڈر محسوس ہوتا ہو تو ایسی آیات کی تلاوت کی جاتی ہیں جن میں اہل ایمان کے لیے کسی خوف یا حزن کے نہ ہونے کا ذکر ہے۔
چوتھی مریض کا جن ہے۔ جس طرح انسان اپنی قوت اور برداشت میں مختلف ہوتے ہیں یعنی کوئی پہلوان ہے اور کوئی مریل، اسی طرح کا معاملہ جنات کا بھی ہے۔ بعض مریضوں پر جو جنات مسلط کیے جاتے ہیں، ان کی قوت برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ عامل ان پر ایک دو گھنٹے دم کر کے تھک جاتے ہیں اور جن یہ تاثر دیتا ہے کہ اسے کچھ نہیں ہو رہا حالانکہ اسے اذیت ہو رہی ہوتی ہے لیکن وہ عامل کو دھوکا دیتا ہے۔ بہت سے عاملین نے یہ بیان کیا ہے کہ جب انہوں نے مسلسل دم کا دورانیہ بڑھایا یعنی چار یا چھ گھنٹے مسلسل دم کیا تو جن کی قوت برداشت جواب دے گئی اور اس نے اقرار کیا کہ اثر تو مجھے شروع ہی سے ہو رہا تھا لیکن وہ میرے لیے قابل برداشت تھا۔ اس لیے جن کی قوت برداشت بھی بعض اوقات بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر مریض کا جن عامل کو یہ چیلنج کرے کہ مجھے کچھ نہیں ہو رہا یا ہو گا تو وہ جھوٹا ہے۔ بس اگر عامل ہمت کرے کہ اسے 5 سے 6 گھنٹے مسلسل دم کر سکے تو ان شاء اللہ جن کا تکبر اور غرور خاک میں مل جائے گا۔ جنات اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک ایک مریض کے لیے عاملوں کے اتنا ٹائم نہیں ہے لہذا تھوڑی دیر برداشت کر لو اور عامل خود ہی مایوس ہو کر چھوڑ دے گا۔ اس لیے وہ برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسے عامل کہتے ہیں کہ جن کا سٹیمنا کتنا ہے، یہ جاننے کی کوشش کرو۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر عامل کے ہاتھ میں ہر بیماری کی شفاء نہیں رکھی جیسا کہ ہر طبیب کے ہاتھ میں ہر بیماری کا علاج نہیں ہوتا ہے۔ اور عامل اپنے علم اور تجربے میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ لہذا ایک خاص وقت میں اگر کسی عامل سے فائدہ نہ ہو رہا ہو تو اپنا عامل تبدیل کر کے دیکھیں۔ اس سے بھی بعض لوگوں کو فائدہ ہو جاتا ہے۔
چھٹی بات یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالی انسان پر کوئی آزمائش کچھ خاص وقت تک لیے باقی رکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ انسان جسمانی بیماری کا علاج کرواتے نہیں تھکتا لیکن شفاء نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالی کی طرف امر نہیں ہے یا قضا نہیں ہے۔ اس لیے اگر دم کے اثر کرنے کے تمام مذکورہ بالا اسباب موجود ہوں اور پھر بھی دم اثر نہ کر رہا ہو تو اسے اللہ کی ایک تقدیر یا قضا یا فیصلہ سمجھے اور اللہ سے کثرت سے اس آزمائش کے ٹل جانے کی دعا کرے اور صبر سے کام لے لیکن دم کو ترک نہ کرے۔ اس صورت میں صبر، صبر اور صبر کے ساتھ دعا، دعا اور دعا ہی ایک ایسی صورت ہے جو آپ کو اس آزمائش سے نجات دلا سکتی ہے۔