بھائی صاحب پہلے اس کو پڑھیں۔
جہاں تک آپ نے آیت کریمہ ﴿ إنا أنزلنه في ليلة مباركة إنا كنا منذرين ﴾ کی تفسیر نصف شعبان کی رات سے کی ہے، تو یہ تفسیر قرآنی نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
کیونکہ قرآن کریم رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے، نہ کہ شعبان میں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ۔۔۔
١٨٥ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
﴿ إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةِ ٱلْقَدْرِ
١ ﴾ ۔۔۔ سورة القدر
اب اس کو پڑھیں۔
اس کے جواب میں یہ بات عرض ہے کہ علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ ۲۷/رجب المرجب کو مبعوث بہ رسالت ہوئے پہلی وحی ۲۷ رجب ہی کو سورہ علق کی صورت میں پیغمبر اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ۔یہ رمضا ن کا مہینہ تو نہیں تھا۔میرے بھائی اس مسلے کو سمجھنے کے لیے کہ مختلف تعبیروں کے درمیان تطبیق کیسے ہوگی۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی تفسیر جس کا حوالہ میں نے دیا ہے اس کو پڑھیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ورنہ آپ کہتے پھریں گے کہ رجب المرجب میں سورہ علق کی آیات نازل ہونا قرآنی نصوص کے مخالف ہے کیونکہ قرآن کریم رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے، نہ کہ رجب المرجب میں۔
السلام علیکم و رحمت الله -
محترم -
پہلی بات تو یہ کہ فضیلت کے اعتبار سے اگر کسی مہینے کو دوسرے مہینوں پر فوقیت حاصل ہے تو وہ صرف رمضان کا مہینہ ہے- اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس مہینے میں ہی قرآن کے نزول کا آغاز ہوا -جیسا کہ قرانی آیات سے بھی ثابت ہے - قرآن میں کسی اور مہینے کا نام لے کر اس کی فضیلت بیان نہیں کی گئی ما سواے "رمضان المبارک" کے -الله کا ارشاد پاک ہے کہ :
شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ انزِلَ فِيہ الْقُرْآنُ سوره البقرہ ١٨٥
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے-
اگر رجب کے مہینے میں قرآن کریم کا نزول کا آغاز ہوتا یا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو نبوت عطا ہوتی تو قرآن کریم یا صحیح احادیث مبارکہ سے اس کی ضرور دلیل یا کوئی اشارہ ملتا - لیکن ضعیف اور من گھڑت روایات کو چھوڑ کر ، رجب کے مہینے کی کوئی خاص فضیلت نہیں سواے اس کے کہ اس کو چار حرمت والے مہینوں میں شامل کیا گیا ہے -
وہ روایت جس میں رجب کے مہینے میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا پیغمبری کے لئے معبوث ہونے کا ذکر ہے :
’’حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیس کا روزہ رکھے اللہ تعالی اس کیلئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال ) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور
یہ وہ دن ہے جس میں جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ وسلم کیلئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے ۔‘
تحقیق:
اولاً :یہ روایت موقوف ہے(یعنی یہ رسولﷺ کا فرمان نہیں ہے بلکہ صحابی رضی اللہ عنہ کا قول ہے) ۔
ثانیاً :اس میں شھر بن حوشب نامی راوی اگرچہ صدوق ،حسن الحدیث ہے مگر کثیر الارسال ،والاوھام بھی ہے ۔ اسی طرح شھر بن حوشب سے روایت کرنے والا راوی مطر بن طھمان بھی صدوق ہے ،مگر کثیر الخطاء ہے۔ ابن سعدکہتے ہیں : یہ حدیث میں ضعیف ہے ۔یحی بن سعید، مطر الوراق کی برے حافظے میں ابن ابی لیلی سے تشبیہ دیتے تھے ۔امام ابو زرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کو صالح اس انداز میں کہا کہ گویا کہ ان کو لین الحدیث کہہ رہے ہو۔
امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک حجت نہیں اور جب یہ کسی حدیث میں اختلاف کرے تو قابلِ حجت نہیں۔
امام نسائی فرماتے ہیں: قوی نہیں ہے ۔
امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیالیکن فرمایا یہ کبھی کبھی خطا کرتا ہے ۔
امام عجلی فرماتے ہیں کہ: یہ صدوق ہے ۔
ابن عدی نے اسے ضعفاء میں لاکر اس کی احادیث کی مثالیں دیں اور فرمایا :اس راوی کے ضعف کے باوجو داس کی احادیث کو جمع کیا جائے گا ،اور لکھا جائے گا ۔
امام دارقطنی کہتے ہیں :یہ قوی نہیں ہے ۔امام الساجی کہتے ہیں : صدوق ہے، وہم کرتا ہے ۔
حافظ امام ابن حجرفرماتے ہیں: صدوق ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا ہے ۔اور اس کی حدیث عطا بن ابی رباح سے ضعیف ہے ۔
حوالہ جات کے لئے دیکھئے:[تہذیب الکمال :5994،طبقات ابن سعد :،تاريخ الكبير: 7/1752،ضعفاء النسائی : 567 ،ضعفاء العقيلی :213، الجرح والتعديل: 8 /1319 ،الكامل لابن عدی: 3 /140 ،ثقات ابن حبان:435/5، سير أعلام النبلاء:5/ ،452ميزان الاعتدال: 4/ 8587 )]
معلوم ہوا کہ یہ اگرچہ صدوق راوی ہے اور اس کی روایت متابعت وغیرہ میں چل سکتی ہے مگر ساتھ ہی یہ کثیر الخطا بھی ہے ۔
اس روایت کو بھی کثیر علماء نے ضعیف قرار دے رکھا ہے ۔نیز امام ذھبی نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :ھذا حدیث منکر جدا ، بل کذب ، فقد ثبت فی الصحیح ما معناہ : ان صیام شھر رمضان بعشرۃ اشھر ، فکیف یکون صیام یوم واحد یعدل ستین شھرا ؟ ھذا باطل ۔۔۔ (انسان العیون للحلبی: باب حجۃ الوداع ،385/3، کشف الخفاء : حرف المیم ، 2/307،)