• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شعبان کی پندرھویں رات

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس کے جواب میں یہ بات عرض ہے کہ علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ ۲۷/رجب المرجب کو مبعوث بہ رسالت ہوئے پہلی وحی ۲۷ رجب ہی کو سورہ علق کی صورت میں پیغمبر اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ۔یہ رمضا ن کا مہینہ تو نہیں تھا۔میرے بھائی اس مسلے کو سمجھنے کے لیے کہ مختلف تعبیروں کے درمیان تطبیق کیسے ہوگی۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی تفسیر جس کا حوالہ میں نے دیا ہے اس کو پڑھیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ورنہ آپ کہتے پھریں گے کہ رجب المرجب میں سورہ علق کی آیات نازل ہونا قرآنی نصوص کے مخالف ہے کیونکہ قرآن کریم رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے، نہ کہ رجب المرجب میں۔
آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ باتفاق العلماء نبی کریمﷺ رجب میں مبعوث ہوئے ہیں۔ بالفاظِ دیگر نزول قرآن رجب میں شروع ہوا ہے۔
ازراہِ کرم اسے ثابت کردیں!

حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان المبارک میں مبعوث ہوئے ہیں، اور نزول قرآن کی ابتداء لیلۃ القدر (رمضان المبارک) میں ہوئی ہے:
إنا أنزلناه في ليلة القدر
شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بھائی صاحب پہلے اس کو پڑھیں۔
جہاں تک آپ نے آیت کریمہ ﴿ إنا أنزلنه في ليلة مباركة إنا كنا منذرين ﴾ کی تفسیر نصف شعبان کی رات سے کی ہے، تو یہ تفسیر قرآنی نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
کیونکہ قرآن کریم رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے، نہ کہ شعبان میں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ ۔۔۔ ١٨٥ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
﴿ إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةِ ٱلْقَدْرِ‌ ١ ﴾ ۔۔۔ سورة القدر
اب اس کو پڑھیں۔
اس کے جواب میں یہ بات عرض ہے کہ علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ ۲۷/رجب المرجب کو مبعوث بہ رسالت ہوئے پہلی وحی ۲۷ رجب ہی کو سورہ علق کی صورت میں پیغمبر اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ۔یہ رمضا ن کا مہینہ تو نہیں تھا۔میرے بھائی اس مسلے کو سمجھنے کے لیے کہ مختلف تعبیروں کے درمیان تطبیق کیسے ہوگی۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی تفسیر جس کا حوالہ میں نے دیا ہے اس کو پڑھیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ورنہ آپ کہتے پھریں گے کہ رجب المرجب میں سورہ علق کی آیات نازل ہونا قرآنی نصوص کے مخالف ہے کیونکہ قرآن کریم رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوا ہے، نہ کہ رجب المرجب میں۔
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم -

پہلی بات تو یہ کہ فضیلت کے اعتبار سے اگر کسی مہینے کو دوسرے مہینوں پر فوقیت حاصل ہے تو وہ صرف رمضان کا مہینہ ہے- اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس مہینے میں ہی قرآن کے نزول کا آغاز ہوا -جیسا کہ قرانی آیات سے بھی ثابت ہے - قرآن میں کسی اور مہینے کا نام لے کر اس کی فضیلت بیان نہیں کی گئی ما سواے "رمضان المبارک" کے -الله کا ارشاد پاک ہے کہ :

شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ انزِلَ فِيہ الْقُرْآنُ سوره البقرہ ١٨٥
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے-


اگر رجب کے مہینے میں قرآن کریم کا نزول کا آغاز ہوتا یا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو نبوت عطا ہوتی تو قرآن کریم یا صحیح احادیث مبارکہ سے اس کی ضرور دلیل یا کوئی اشارہ ملتا - لیکن ضعیف اور من گھڑت روایات کو چھوڑ کر ، رجب کے مہینے کی کوئی خاص فضیلت نہیں سواے اس کے کہ اس کو چار حرمت والے مہینوں میں شامل کیا گیا ہے -

وہ روایت جس میں رجب کے مہینے میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا پیغمبری کے لئے معبوث ہونے کا ذکر ہے :

’’حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیس کا روزہ رکھے اللہ تعالی اس کیلئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال ) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ وسلم کیلئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے ۔‘

تحقیق:

اولاً :یہ روایت موقوف ہے(یعنی یہ رسولﷺ کا فرمان نہیں ہے بلکہ صحابی رضی اللہ عنہ کا قول ہے) ۔

ثانیاً :اس میں شھر بن حوشب نامی راوی اگرچہ صدوق ،حسن الحدیث ہے مگر کثیر الارسال ،والاوھام بھی ہے ۔ اسی طرح شھر بن حوشب سے روایت کرنے والا راوی مطر بن طھمان بھی صدوق ہے ،مگر کثیر الخطاء ہے۔ ابن سعدکہتے ہیں : یہ حدیث میں ضعیف ہے ۔یحی بن سعید، مطر الوراق کی برے حافظے میں ابن ابی لیلی سے تشبیہ دیتے تھے ۔امام ابو زرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کو صالح اس انداز میں کہا کہ گویا کہ ان کو لین الحدیث کہہ رہے ہو۔

امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک حجت نہیں اور جب یہ کسی حدیث میں اختلاف کرے تو قابلِ حجت نہیں۔

امام نسائی فرماتے ہیں: قوی نہیں ہے ۔

امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیالیکن فرمایا یہ کبھی کبھی خطا کرتا ہے ۔

امام عجلی فرماتے ہیں کہ: یہ صدوق ہے ۔

ابن عدی نے اسے ضعفاء میں لاکر اس کی احادیث کی مثالیں دیں اور فرمایا :اس راوی کے ضعف کے باوجو داس کی احادیث کو جمع کیا جائے گا ،اور لکھا جائے گا ۔

امام دارقطنی کہتے ہیں :یہ قوی نہیں ہے ۔امام الساجی کہتے ہیں : صدوق ہے، وہم کرتا ہے ۔

حافظ امام ابن حجرفرماتے ہیں: صدوق ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا ہے ۔اور اس کی حدیث عطا بن ابی رباح سے ضعیف ہے ۔

حوالہ جات کے لئے دیکھئے:[تہذیب الکمال :5994،طبقات ابن سعد :،تاريخ الكبير: 7/1752،ضعفاء النسائی : 567 ،ضعفاء العقيلی :213، الجرح والتعديل: 8 /1319 ،الكامل لابن عدی: 3 /140 ،ثقات ابن حبان:435/5، سير أعلام النبلاء:5/ ،452ميزان الاعتدال: 4/ 8587 )]

معلوم ہوا کہ یہ اگرچہ صدوق راوی ہے اور اس کی روایت متابعت وغیرہ میں چل سکتی ہے مگر ساتھ ہی یہ کثیر الخطا بھی ہے ۔

اس روایت کو بھی کثیر علماء نے ضعیف قرار دے رکھا ہے ۔نیز امام ذھبی نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :ھذا حدیث منکر جدا ، بل کذب ، فقد ثبت فی الصحیح ما معناہ : ان صیام شھر رمضان بعشرۃ اشھر ، فکیف یکون صیام یوم واحد یعدل ستین شھرا ؟ ھذا باطل ۔۔۔ (انسان العیون للحلبی: باب حجۃ الوداع ،385/3، کشف الخفاء : حرف المیم ، 2/307،)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ہمارے کلیہ حدیث کے استاد ہیں شیخ عبد الباری بن حماد الانصاری ، انہوں نے اس ضمن میں ایک تحریر لکھی تھی ، جس میں شعبان کی پندرھویں رات کے متعلق وارد احادیث کی تحقیق پیش کی گئی ہے ، اس میں نتیجہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تمام روایات صرف ضعیف ہی نہیں بلکہ سخت ضعیف ہیں ، اس لیے ان کو حسن لغیرہ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم ۔
افادہ عام کی خاطر مذکورہ تحریر یہاں ارسال کی جارہی ہے :
بسم الله الرحمن الرحيم
علل أحاديث ليلة النصف
من شعبان وبيان شدة ضعفها
الحديث الأول:
أخرجه ابن ماجه (1390)، والبالسي في جزئه (82)، وابن عساكر في تاريخ دمشق (18 / 326) من طريق أبي الأسود النضر بن عبدالجبار قال: حدثنا ابن لهيعة، عن الزبير بن سليم، عن الضحاك بن عبد الرحمن، عن أبيه، قال: سمعت أبا موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم عن أبي موسى الأشعري عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ينزل الله عز وجل ليلة النصف من شعبان إلى سماءِ الدنيا فيغفرُ لكلِّ مسلمٍ إلا لمشرك أو مُشاحِن.
وهذا إسناد ضعيف جدا لثلاث علل:
1ـ جهالة عين الزبير بن سُليم. قال الحافظ الذهبي: شيخ لا يعرف، ما روى عنه غير ابن لهيعة حديثه في نزول ليلة النصف. ميزان الاعتدال (2 / 67)
2ـ ضعف ابن لهيعة نفسه، فهو مشهور أن في حديثه ضعفا، خصوصا في غير رواية العبادلة عنه.
3ـ أنه اضطرب في روايته:
فمرة يرويه عن الزبير بن سُليم كما تقدم.
ومرة يرويه عن الضحاك بن عبد الرحمن، عن أبيه، قال: سمعت أبا موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ومرة يرويه عن الضحاك بن أيمن، عن الضحاك بن عبدالرحمن بن عرزب، عن أبي موسى الأشعري.
ولم يقل عن أبيه.
أخرجه ابن ماجه (1390) من طريق الوليد بن مسلم عن ابن لهيعة به.
والضحاك بن أيمن هو الكلبي، قال الحافظ الذهبي: شيخ لابن لهيعة، لا يُدري من ذا، له في ليلة نصف شعبان. ميزان الاعتدال (2 / 322)

الحديث الثاني:
أخرجه الإمام أحمد (26018)، والترمذي (739)، وابن ماجه (1389) من طريق الحجاج بن أرطاة، عن يحيى بن أبي كثير، عن عروة، عن عائشة قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه و سلم ليلة فخرجت فإذا هو بالبقيع فقال: «أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله» ، قلت: يا رسول الله، إني ظننت أنك أتيت بعض نسائك، فقال: «إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب».
قال الترمذي: «حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج» ، وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث، وقال: يحيى بن أبي كثير لم يسمع من عروة، والحجاج بن أرطاة لم يسمع من يحيى بن أبي كثير ".
وهذا أيضا شديد الضعف لثلاث علل:
1ـ الانقطاع بين يحيى بن أبي كثير وعروة بن الزبير فإنه لم يسمع منه.
2ـ الانقطاع بين الحجاج بن أرطاة ويحيى بن أبي كثير فإنه لم يسمع منه.
3ـ ضعف الحجاج بن أرطاة فإنه سيء الحفظ.
وروي من أوجه أخرى من حديث عائشة رضي الله عنها:
أـ أخرجه البيهقي في الدعوات الكبير (530) من طريق خلف بمن محمد، حدثنا صالح بن محمد، محمد بن عباد حدثني حاتم بن إسماعيل المدني، عن نضر بن كثير، عن يحيى بن سعد، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، رضي الله عنها في حديث طويل فيه: هل تدرين ما في هذه الليلة؟ قالت: ما فيها يا رسول الله؟ فقال: فيها أن يكتب كل مولود من مولود بني آدم في هذه السنة، وفيها أن يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنة، وفيها ترفع أعمالهم، وفيها تنزل أرزاقهم"، فقالت: يا رسول الله، ما أحد يدخل الجنة إلا برحمة الله؟ فقال: "ما من أحد يدخل الجنة إلا برحمة الله". قلت: ولا أنت يا رسول الله؟ فوضع يده على هامته، فقال: "ولا أنا، إلا أن يتغمدني الله منه برحمة" يكررها ثلاث مرات.
وإسناده ضعيف جدا:
فيه: خلف بن محمد الخيام البخاري، أبو صالح،.قال أبو يعلى الخليلى: خلط، وهو ضعيف جدا، روى متونا لا تعرف. الإرشاد ("المنتخب منه" 3/ 972)، وميزان الاعتدال (1/ 662)
ب ـ أخرجه البيهقي في شعب الإيمان (3/ 385 : 3557) من طريق ابن ابي كريمة عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قالت كانت ليلة النصف من شعبان ليلتي وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم عندي فلما كان في جوف الليل فقدته ..
وابن أبي كريمة هو سليمان بن أبي كريمة قال ابن عدي: عامة أحاديثه مناكير. الكامل في ضعفاء الرجال (3/ 262)
ج ـ أخرجه البيهقي في فضائل الأوقات (27)، والدعوات (531) من طريق سعيد بن عبدالكريم الواسطي عن أبي النعمان السعدي عن أبي الرجاء العطاردي عن أنس بن مالك، عن عائشة رضي الله عنها.
وفيه قال: يا حميراء أما تعلمين أن هذه الليلة ليلة النصف من شعبان إن لله في هذه الليلة عتقاء من النار بقدر شعر غنم كلب. قلت: يا رسول الله وما بال شعر غنم كلب؟ قال: لم يكن في العرب قبيلة قوم أكبر غنما منهم، لا أقول ستة نفر: مدمن خمر، ولا عاق لوالديه، ولا مصر على زنا، ولا مصارم، ولا مضرِّب، ولا قتات.
وإسناده ضعيف جدا: فيه سعيد بن عبد الكريم. قال الأزدي: متروك. ميزان الاعتدال (2/ 149)
وفيه أبو النعمان السعدي فيما يظهر أنه المعني بقول البيهقي: في هذا الإسناد بعض من يُجهل. الدعوات (2/149)

الحديث الثالث:
أخرجه الدارمي في الرد على الجهمية للدارمي (136)، والبزار في مسنده (1 / 206) وأحمد بن علي المروزي في مسند الصديق (104) من طريق عبد الملك بن عبد الملك، عن مصعب بن أبي ذئب، عن القاسم بن محمد بن أبي بكر، عن أبيه، أو عن عمه، عن جده أبي بكر، رضي الله عنه، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ينزل ربنا تبارك وتعالى ليلة النصف من شعبان، فيغفر لكل نفس إلا مشرك بالله ومشاحن».
وإسناده ضعيف جدا أيضا:
قال ابن عدي: عبد الملك بن عبد الملك معروف بهذا الحديث ولا يرويه عنه غير عمرو بن الحارث وهو حديث منكر بهذا الإسناد. الكامل في ضعفاء الرجال (5/ 309)
وقال أبو حاتم الرازي عن رجال إسناده: لا يُعرف منهم إلا القاسم بن محمد.
وقال الإمام البخاري: عبد الملك بن عبد الملك عن مصعب بن أبى ذئب عن القاسم عن ابيه، روى عنه عمرو بن الحارث، فيه نظر، حديثه في أهل المدينة. التاريخ الكبير (5/ 424)
وقال البزار في مصعب بن أبي ذئب: لا نعلمه سمع من القاسم وليس بالمعروف ونسبه في روايته فهريا. لسان الميزان ت أبي غدة (5/ 269)
وقال ابن حبان: عبد الملك بن عبد الملك: عن مصعب بن أبى ذئب: يروى عن القاسم عن أبيه، روى عنه عمر بن الحارث، منكر الحديث جدا، يروى ما لا يتابع عليه، فالأولى في أمره ترك ما انفرد به من الاخبار. المجروحين - ابن حبان (2/ 136)
وقال العقيلي بعد أن أخرجه: وفى النزول في ليلة النصف من شعبان أحاديث فيها لين، والرواية في النزول في كل ليلة أحاديث ثابتة صحاح، فليلة النصف من شعبان داخلة فيها إن شاء الله. الضعفاء(3 / 29)

الحديث الرابع:
أخرجه ابن ماجه (1388) من طريق ابن أبي سبرة، عن إبراهيم بن محمد، عن معاوية بن عبد الله بن جعفر، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا كانت ليلة النصف من شعبان، فقوموا ليلها وصوموا نهارها، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا، حتى يطلع الفجر ".
قال البوصيري: فيه ابن أبي سبرة واسمه أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبي سبرة قال أحمد وابن معين يضع الحديث. مصباح الزجاجة (2/ 10(

الحديث الخامس:
أخرجه إسحاق بن راهويه في مسنده (3 / 981 :1702) من طريق إبراهيم بن عمر الأنباري، أنه سمع الوضين بن عطاء، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله يطلع ليلة النصف من شعبان فيغفر الذنوب لأهل الأرض إلا لمشرك أو مشاحن وله في تلك الليلة عتقاء عدد شعر مسوك غنم كلب» . قال إسحاق: فسره الأوزاعي أن المشاحن المبتدع الذي يفارق أمة.
ضعيف جدا لعلتين:
1ـ أنه معضل فالوضين بن عطاء هو الدمشقى من الذين عاصروا صغار التابعين، فبينه وبين النبي صلى الله عليه وسلم رجلان على الأقل.
2ـ إبراهيم بن عمرو أو عمر الصنعاني من صنعاء دمشق، يروي عن الوضين قال الحافظ ابن حجر: مستور. يعني مجهول الحال. تهذيب الكمال (2/ 160) وتقريب التهذيب (224)

فاجتماع الإعضال والجهالة يشتد بهما ضعف الحديث.

الحديث السادس:
حديث كثير بن مرة - أحد التابعين -: إن الله يطلع ليلة النصف من شعبان إلى العباد فيغفر لأهل الأرض إلا رجل مشرك أو مشاحن.
وأكثر ما يروى من طريق مكحول عنه وهو حديث مضطرب الإسناد جدا:
رُوي: من قول كثير بن مرة غير مرفوع. كما عند عبد الرزاق في المصنف (7923).
ومرة: عنه مرفوعا كما في مصنف عبدالرزاق (7924)، و ابن أبي شيبة (29859).
ومرة كثير بن مرة عن عوف بن مالك مرفوعا. وفي إسناده ضعيفان. مسند كما في مسند البزار (7/ 186)
ومرة: كثير بن مرة الحضرمي عن معاذ بن جبل مرفوعا.
كما في مسند الشاميين (1/ 130 : 205).
ومرة: عن كثير بن مرة عن يزيد بن جارية مرفوعا. كما في معجم الصحابة لابن قانع (3/ 227)
ومرة: عن كثير بن مرة عن عائشة رضي الله عنها مرفوعا. كما في أخبار مكة للفاكهي (3/ 85 :1839)
وأخرجه ابن حبان في صحيحه (5665)، والطبراني في المعجم الأوسط (6776) من طريق أبي خليد عتبة بن حماد، عن الأوزاعي، وابن ثوبان، عن أبيه، عن مكحول، عن مالك بن يخامر عن معاذ بن جبل، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يطلع الله إلى خلقه في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن».
قال الطبراني: لم يرو هذا الحديث عن الأوزاعي، وابن ثوبان إلا أبو خليد عتبة بن حماد، تفرد به عن الأوزاعي: هشام بن خالد "
وقال أبو حاتم الرازي: هذا حديث منكر بهذا الإسناد، لم يرو بهذا الإسناد غير أبي خليد، ولا أدري من أين جاء به! قال ابن أبي حاتم: ما حال أبي خليد؟ قال: شيخ. العلل (5 / 322)
قال عبدالرحمن بن زيد بن أسلم: «لم أدرك أحدا من مشيختنا ولا فقهائنا يلتفتون إلى ليلة النصف من شعبان , ولم ندرك أحدا منهم يذكر حديث مكحول , ولا يرى لها فضلا على ما سواها من الليالي». البدع لابن وضاح (ص 92)

الحديث السابع:
أخرجه البزار في مسنده (16 / 161 :9268) والخطيب في تاريخ بغداد (16 / 416) من طريق عبد الله بن غالب حدثنا هشام بن عبدالرحمن عن الأعمش عن أبي صالح , عن أبي هريرة رضي الله عنه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان ليلة النصف من شعبان يغفر الله لعباده إلا لمشرك أو مشاحن.
إسناده منكر، لتفرد مجهول بإسناد من أصح الأسانيد.
هشام بن عبدالرحمن مجهول.
والراوي عنه عبد الله بن غالب هو العبادانى، مجهول الحال قال الحافظ ابن حجر: مستور .

الحديث الثامن:
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان (5 / 362 :3555) والحسن الخلال في المجالس العشرة الأمالي من طريق جامع بن صبيح الرملي، حدثنا مرحوم بن عبد العزيز، عن داود بن عبدالرحمن، عن هشام بن حسان، عن الحسن، عن عثمان بن أبي العاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا كان ليلة النصف من شعبان نادى مناد: هل من مستغفر فأغفر له، هل من سائل فأعطيه فلا يسأل أحد شيئا إلا أُعطي إلا زانية بفرجها، أو مشرك"
وهذا منكر لتفرد جامع بن صبيح به من هذا الوجه مع ضعفه، أو جهالته.
انظر: لسان الميزان (2 / 93)
وحديث هشام بن حسان، عن الحسن فيه مقال لكونه يرسل عنه وعن عطاء.
والحسن مدلس وقيل: لم يسمع من عثمان بن أبي العاص. تهذيب الكمال (19/409)

الحديث التاسع:
أخرجه عبدالرزاق في مصنفه (7927) قال: وأخبرني من سمع البيلماني يحدث عن أبيه، عن ابن عمر قال: "خمس ليال لا ترد فيهن الدعاء: ليلة الجمعة، وأول ليلة من رجب، وليلة النصف من شعبان، وليلتي العيدين "
وإسناده ضعيف جدا أيضا:
1ـ محمد بن عبد الرحمن ابن البيلمانى الكوفى منكر حديث واتهمه بعض النقاد.
2ـ أبو عبد الرحمن ابن البيلمانى المدنى ضعيف أيضا.
3ـ الجهالة بالواسطة بين ابن البيلماني وعبدالرزاق.

الحديث العاشر:
أخرجه الطبراني في المعجم الكبير (22 / 223 : 590)
من طريق الأحوص بن حكيم، عن حبيب بن صهيب، عن مكحول، عن أبي ثعلبة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يطلع الله على عباده ليلة النصف من شعبان فيغفر للمؤمنين ويمهل الكافرين، ويدع أهل الحقد بحقدهم حتى يدعوه»
وإسناده ضعيف جدا، فإن الأحوص بن حكيم قال الساجي: ضعيف عنده مناكير.
وحبيب بن صهيب مجهول
قال الدارقطني عن هذا الحديث: مضطرب، غير ثابت. العلل (6 / 323)

الحديث الحادي عشر:
أخرجه الحسن الخلال في "المجالس العشرة الأمالي" (الحديث3) من طريق عبدالعزيز بن موسى، عن سيف بن محمد الثوري، عن الأحوص بن حكيم، عن أبي أمامة الباهلي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يهبط الله عز وجل إلى سماء الدنيا إلى عباده في ليلة النصف من شعبان، فيطلع إليهم، فيغفر لكل مؤمن ومؤمنة، وكل مسلم ومسلمة، إلا كافرا أو كافرة، أو مشركا أو مشركة، أو رجلا بينه وبين أخيه مشاحنة، ويدع أهل الحقد لحقدهم».
إسناده موضوع فيه سيف بن محمد الثوري متهم بوضع الحديث.
الخلاصة:
يتبين مما سبق أن أحاديث فضل ليلة النصف من شعبان شديدة الضعف، ومع تعددها لا يتقوى بعضها ببعض لكونها من رواية المتهمين، أو المجهولين، أو لنكارتها، أو لتعدد أسباب الضعف فيها.
من كلام العلماء حول ليلة النصف من شعبان:
قال عبدالرحمن بن زيد بن أسلم - وهو من أتباع التابعين -: «لم أُدرك أحدا من مشيختنا ولا فقهائنا يلتفتون إلى ليلة النصف من شعبان, ولم ندرك أحدا منهم يذكر حديث مكحول, ولا يرى لها فضلا على ما سواها من الليالي». البدع لابن وضاح (ص 92)
وقال ابن دحية: قال أهل التعديل والتجريح: وليس في حديث ليلة النصف من شعبان حديث يصح. فتحفظوا عباد الله من مفتر يروي لكم حديثا يسوقه في مَعرِض الخير، واستعمالُ الخير ينبغي أن يكون مشروعا من الرسول صلى الله عليه وسلم، فإذا صح أنه كذِبٌ خرج من المشروعية، وكان مستعملُه من خَدَمة الشيطان، لاستعماله حديثا على رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يُنزل الله به من سلطان. ما وضح واستبان في فضائل شهر شعبان (1 / 43)
وقال الشيخ الوالد رحمه الله: لم يثبت في قيامها وصيامها بعينها شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه رضي الله عنهم. اتحاف الخلان (ص13).
والله تعالى أعلم
كتبه: عبد الباري بن حماد الأنصاري
 
Last edited:
Top