• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شــیــعہ سـے مــتــعــلــق ائــمــہ دیــن کــی رائــے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
شــیــعہ سـے مــتــعــلــق ائــمــہ دیــن کــی رائــے

شیعہ کا اعتماد منقطع¹ روایات پر ہے جن میں اکثر مشہور جھوٹے لوگوں کی وضع کردہ ہوتی ہیں ، مثلًا شیعہ کے یہاں ابومخنف² لوط بن یحییٰ اور ہشام کلبی³ کی روایات بھی قابل اعتماد ہیں۔

یونس بن عبد الاعلیٰ⁴ روایت کرتے ہیں کہ اشہب⁵ نے کہا ، امام امام مالکؒ سے جب روافض کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :

« لَا تُكَلِّمْهُمْ وَلَا تَرْوِ عَنْهُمْ فَإِنَّهُمْ يَكْذِبُونَ »

’’ شیعہ سے بات کیجئے نہ ہی ان سے روایت کیجئے ، اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ‘‘

حرملہ⁶ کہتے ہیں میں نے امام شافعیؒ کو یہ فرماتے سنا۔

« لَمْ أَرَ أَحَدًا أَشْهَدَ بِالزُّورِ مِنَ الرَّافِضَةِ »

’’ میں نے شیعہ سے زیادہ جھوٹی گواہی دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔ ‘‘

مؤمل بن اہاب⁷ کہتے ہیں میں نے یزید بن ہارون⁸ کو سنا فرماتے تھے :
نكتب عَنْ كُلِّ صَاحِبِ بِدْعَةٍ إِذَا لَمْ يَكُنْ دَاعِيَةً إِلَّا الرَّافِضَةَ، فَإِنَّهُمْ يَكْذِبُونَ
’’ ہر بدعتی کی روایت قبول کی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ وہ بدعت کا داعی نہ ہو البتہ شیعہ کی روایت مقبول نہیں کیونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ‘‘

محمد بن سعید اصفہانی⁹ فرماتے ہیں میں شریک¹⁰ کو یہ کہتے سنا :
أَحْمِلُ الْعِلْمَ عَنْ كُلِّ مَنْ لَقِيتُ إِلَّا الرَّافِضَةَ، فَإِنَّهُمْ يَضَعُونَ الْحَدِيثَ، ويتخذونه دينا
’’ جس آدمی سے ملو اس سے علم حاصل کرلو البتہ شیعہ سے علم حاصل نہ کرو اس لیے کہ وہ حدیثیں وضع کرتے ہیں اور پھر انہیں دین بنا لیتے ہیں۔ ‘‘

ابو معاویہ¹¹ کا قول ہے میں نے سنا اعمش¹² فرماتے ہیں :
أَدْرَكْتُ النَّاسَ وما يسمونهم إلا الكذابين، يعني أصحاب المغيرة بن سعيد
’’ لوگ اصحاب مغیرہ¹³ بن سعید کو کذاب کا نام دیتے ہیں اور کذاب کی شہادت بالاتفاق مردود ہے۔ ‘‘

جو شخص کتب جرح وتعدیل کو بغور پڑھنے کا عادی ہے اسے معلوم ہے کہ ان کتب کے مصنفین کے نزدیک لوگوں کے ہر طبقہ میں شیعہ زیادہ تر معروف بالکذب ہوتے ہیں ، بخلاف ازیں خوارج دینی حدود سے تجاوز کرجانے کے باوجود اصدق الناس ہوتے ہیں ، اس کی حد یہ ہے کہ ان کی نقل کردہ روایت کو اصح الحدیث کہا جاتا ہے¹⁴ ، شیعہ یہ کہہ کر خود اپنی دروغ گوئی کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ ہمارا دین¹⁵ تقیہ ہے۔ ‘‘ اسی کا نام نفاق ہے ، اس کے باوصف وہ مومن ہونے کے دعویدار ہیں اور سابقین صحابہ کو ارتداد و نفاق¹⁶ سے متہم کرتے ہیں۔

گویا وہ اس مثل کے مصداق ہیں :

« رَمَتْنِیْ بِدَائِھَا وَانْسَلَّتْ »

’’ وہ اپنی بیماری مجھ پر پھینک کر کھسک گئیَ ‘‘

عقلیات میں شیعہ کا اعتماد آج کے معتزلہ کی تصانیف پر ہے ، انکار تقدیر اور سلب صفات میں شیعہ معتزلہ کے ہم نوا ہیں ، بخلاف ازیں کوئی معتزلی سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ کی خلافت سے منکر نہیں ، بلکہ جمہور معتزلہ ان کی عزت اور عظمت کے قائل ہیں ، شیعہ متکلمین مثلًا ہشام¹⁷ بن حکم ، ہشام جوالیقی¹⁸ اور یونس بن عبد الرحمٰن القمی¹⁹ صفات الٰہی کا اثبات کرتے تھے اور تجسیم کا عقیدہ رکھتے تھے۔

[ المنتقى من منهاج الاعتدال و نقض کلام اھل الرفض والاعتزال وھو مختصر منهاج السنة النبوية للإمام العلامة ابن تيمية رحمه الله ۔ الحافظ ابو عبد الله محمد بن عثمان الذھبی ص : 71-75 تعلیق محب الدین الخطیب ۔ "]

___________________________________

¹ سند میں انقطاع کا معنی یہ ہیں کہ اس کا تسلسل ٹوٹ جائے اور ایک یا دو راوی محذوف ہوں ، مثلًا ایک شخص ایسے شخص سے روایت کرے جو اس سے پہلے ہوا ہے اور اس نے اس کا زمانہ نہیں پایا ، تاہم وہ جھوٹ موٹ اس سے روایت کرنے کا مدعی ہے ، یا اس نے کسی اور شخص کے واسطہ سے روایت کی اور چونکہ وہ شخص معروف بالکذب تھا اس لئے اس کا نام دانستہ سلسلہ سند سے حذف کر دیا تاکہ اس روایت کا جھوٹا ہونا عوام میں مشہور نہ ہو۔

² ابومخنف شیعہ رواۃ میں مقابلتًا کم درجہ کا ضعیف راوی ہے ، اور اس میں ضعف کم پایا جاتا ہے ، تاہم محدث ابن عدی اس کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ یہ کٹر شیعہ اور راوی اخبار ہے۔ ‘‘ حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں : ’’ یہ ایک قصہ گو شخص ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ، ابو حاتم نے اس کی روایت قبول نہیں کی۔ ‘‘ فیروز آبادی نے بھی اپنی کتاب ’’ القاموس المحیط ‘‘ میں یونہی لکھا ہے : کہا جاتا ہے ، کہ لوط بن یحییٰ ابومخنف 157ھـ میں فوت ہوا۔

³ ہشام کا نام و نسب ابوالمنذر ہشام بن محمد بن سائب المتوفی 204ھـ ہے ، یہ قصہ گو اور ماہر انساب تھا اس کے بارے میں امام احمدؒ کا قول سب سے زیادہ سچا ہے ، فرماتے ہیں : ’’ یہ قصہ گو اور ماہر انساب ہے ، میں نہیں خیال کرتا کہ کوئی اس سے حدیث روایت کرتا ہو ، یہ ان اخبار و انساب کا مرجع ہے ، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ، جہاں تک حدیث رسول کا تعلق ہے ، مسلمان اس سے زیادہ دانشمند ہیں ، کہ وہ اس کے دھوکہ میں آئیں۔ ‘‘

کلبی کے بارے میں محدث ابن عساکر نے حسب ذیل رائے کا اظہار کیا ہے : ’’ کلبی شیعہ ہے اور اعتماد کے قابل نہیں۔ ‘‘

⁴ یہ اپنے زمانے میں امام مصر اور وہاں کے جید فاضل تھے 264ھـ میں وفات پائی۔

⁵ اشہب بن عبد العزیز قیسی المتوفی ( 140-204) یہ ائمہ مصر میں سے تھے اور امام مالک اور لیث بن سعد کے شاگرد تھے۔

⁶ حرملہ بن یحییٰ نجیبی المتوفی 243ھـ یہ امام شافعی کے تلمیذ خاص اور مصر میں یکتائے روزگار فاضل تھے ، انہوں نے امام مالک کے تلمذ خاص ابن وہب سے تقریباً ایک لاکھ روایات اخذ کیں۔

⁷ مؤمل بن اہاب ربعی المتوفی 254ھـ ان سے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کی ہے۔

⁸ یزید بن ہارون واسطی مشہور حافظ حدیث اور امام احمد کے استاد تھے ، ان کی مجلس درس میں ستر ہزار طلبہ ہوا کرتے تھے ، یہ 206ھـ میں فوت ہوئے۔

⁹ محمد بن سعید اصفہانی مشہور محدث شریک کے تلامذہ میں سے تھے ، امام بخاری نے ان سے روایت کی ہے ، یہ 220ھـ میں فوت ہوئے۔

¹⁰ شریک بن عبد الله نخعی المتوفی ( 95-177 ) کوفہ کے قاضی اور عبد الله بن مبارک کے شیوخ میں سے ہیں ، یہ محدث ثوری اور امام ابوحنیفہ کے معاصر اور رفیق تھے۔

¹¹ ابو معاویہ محمد بن حازم المتوفی 195ھـ یہ نابینا ہونے کے باوصف بہت بڑے فاضل تھے ، یہ اعمش کے تلامذہ میں سے تھے۔

¹² اعمش کا اصلی نام سلیمان بن مہران ہے ، ان کی تاریخ وفات ( 64-148 ) ہے ، یہ بہت بڑے حافظ اور قاری تھے سفیان بن عیینہ اعمش کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ یہ بہت بڑے حافظ قاری اور عالم تھے ، صداقت بیانی کی وجہ سے ان کو المصحف کہا جاتا تھا۔ ‘‘

¹³ مغیرہ بن سعید کوفی مشہور رافضی کذاب تھا ، اسے 119ھـ میں خالد عبد الله قسری کے عہد امارت میں سولی دیا گیا تھا ، یہ آیت : { اِنَّ اللهَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالاِحْسَانِ } کی تحریف کرکے اسے غلط معانی پہنایا کرتا تھا یہ سیدنا علیؓ کی الوہیت کا عقیدہ رکھتا تھا ، اور سیدنا علیؓ کے رفقاء کے سوا ابوبکرؓ و عمرؓ اور جملہ صحابہؓ کی تکفیر کرتا تھا۔ یہ ایک یہودی عورت سے کچھ پڑھا کرتا تھا ، جب دریافت کیا گیا کہ تم کیا پڑھتے ہو تو کہنے لگا ’’ میں جادو سیکھتا ہوں ‘‘ ائمہ اہل بیت اس دروغ بیانی اور دین اسلام میں کفر و الحاد کے ارتکاب کی بنا پر اس سے اظہار براءت کیا کرتے تھے۔

¹⁴ کیونکہ خوارج کے نزدیک جھوٹ بولنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور ابدی جہنمی ہے ، یہی وجہ ہے کہ خوارج ظالم ہونے کے باوجود جھوٹ نہ بولتے تھے۔ ( خالد گرجاکھی )

¹⁵ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں رقمطراز ہیں کہ حسن بن مثنیٰ بن حسن بن سبط بن علی بن ابی طالب رضی الله عنہ نے ایک رافضی سے کہا :

《 ’’ اگر ہمارا بس چلے تو ہم تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے اور تمہاری توبہ قبول نہیں کریں گے ‘‘ یہ سن کر ایک شخص بولا : ’’ آپ ان کی توبہ کیونکر قبول نہ کریں گے ‘‘۔ حسن مثنیٰ نے فرمایا : ’’ ہم ان سے تمہاری نسبت زیادہ واقف ہیں۔ اگر یہ چاہیں تمہاری تصدیق کر دیں اور اگر چاہیں تکذیب کر دیں۔ ان (شیعہ) کا خیال ہے کہ تقیہ میں ان سب باتوں کی گنجائش ہے۔ مقام افسوس ہے کہ تقیہ کی رخصت مسلمان کو اضطراری صورت میں حاصل ہوتی بے۔ مثلًا وہ سلطان سے ڈرتا ہو تو اپنے ضمیر کے خلاف بات کہہ کر اپنی جان بچاوے تقیہ میں عظمت و فضیلت کا کوئی پہلو موجود نہیں ، فضیلت کا موجب یہ امر ہے کہ ہر قیمت پر آدمی حق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور سچی بات کہہ دے۔ والله تقیہ کی بنا پر الله کے کسی بندے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ الله کے بندوں کو گمراہ کرتا پھرے 》 ( تاریخ دمشق از ابن عساکر 165/4 )

¹⁶ اہل سنت کے ایک عالم سید ابراہیم نے ایک شیعہ مجتہد محمد مہدی سبزواری کو بتاریخ 14 صفر 1347ھـ ایک خط لکھا سید ابراہیم نے اپنے خط میں ایک شیعہ عالم بہاؤ الدین عاملی کا شکوہ کیا تھا کہ اس نے تفسیر بیضاوی کے حاشیہ میں آیت : « يَحْلِفُوْنَ بِاللّـٰهِ مَا قَالُوْاۖ وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِـمْ » کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ آیت سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ اور دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ، سید ابراہیم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا : اگر سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ اور دیگر صحابہؓ جن کی تعداد رسول الله ﷺ کی وفات کے وقت ایک لاکھ سے بھی زائد تھی ، پانچ چھ یا سات کے سوا سب کا~فر منافق اور مرتد ہوئے ، تو وہ دین جاہلیت کا اعلان کرتے اور وہ مرتدین کے خلاف نبرد آزما نہ ہوتے ، مقام حیرت ہے کہ 23 سال تک کا~فر آپ کے مصاحب رہے اسی طرح طویل مدت تک ایک کا~فرہ بیوی آپ کی زوجیت میں رہی ، اور آپ کو پتہ نہ چل سکا ، حالانکہ الله تعالیٰ نے آپ کو اولین و آخرین کا علم عطا کر رکھا تھا۔ ‘‘

مہدی سبزواری نے 4 ربیع الآخر کو اس کا حسب ذیل جواب دیا : ’’ آُپ نے شیعہ کا قول نقل فرمایا ، جواباً عرض ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کا کفر ( معاذ الله ) بت پرستوں کی طرح حقیقی و واقعی نہیں ، بلکہ حکمی کفر ہے ، مزید برآں شیعہ اس کے بات کے قائل نہیں کہ سیدہ عائشہؓ اور صحابہؓ رسول الله کی زندگی میں کا~فر ہوگئے تھے ، بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ آپ کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔ ( العیاذ بالله )۔

مذکورہ بالا بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بہاؤ الدین آملی کا یہ قول دروغ گوئی پر مبنی ہے ، کہ مذکورۃ الصدر آیت سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ اور دیگر صحابہؓ کے بارے میں نازل ہوئی ، تاہم عاملی اور سبز واری اس امر میں باقی شیعہ کے ہم نوا ہیں کہ صحابہؓ اگر آپ کی وفات سے قبل نہیں تو بعد میں ضرور مرتد ہوگئے تھے ، ہم کہتے ہیں کہ اگر شیعہ کے افکار و معتقدات کا انکار کفر ہے ، تو بلاشبہ اس اعتبار سے صحابہؓ کو کا~فر کہنا درست ہے۔ سید ابراہیم اور مجتہد سبزواری کی مراسلت کے لئے دیکھئے ، مجلّہ الفتح جمادی الآخرہ 1366ھـ ۔

¹⁷ ہشام بن حکم مشہور زندیق ، ابو شاکر الدیصانی کا غلام اور اس کا تربیت یافتہ تھا۔ ابوشاکر ہی سے اس نے الحاد و زندقہ اور تجسیم کی تعلیم پائی۔ جب ابو شاکر مرگیا تو یہ کسی اور ملحد استاد کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا۔ اتفاقا اس کی ملاقات ایک جہمی العقیدہ شخص سے ہوگئی۔ ہشام تجسیم کا عقیدہ رکھتا تھا اس کے عین برخلاف جہمی شخص نفی صفات کا قائل تھا۔ تاہم الحاد و زندقہ اور غلو فی البدعت میں دونوں ایک دوسرے کے ہمنواء تھے۔ برآمکہ مجوس کے آتشکدہ کے متولی چلے آتے تھے۔ جب انہیں ہشام کا پتہ چلا تو وہ اسے بے حد چاہنے لگے۔ روپیہ پیسے سے اس کی مدد کی اور اس کی ذہانت کو اپنی اغراض کے لیے استعمال کرنے لگے۔ شاید برآمکہ کی وجہ سے ہشام شیعہ سے وابستہ ہوگیا۔ جس سے برآمکہ کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح غالی شیعہ کو اس کا تعاون حاصل رہے گا اور وہ نو عمر لوگوں کو تشیع کے جال میں پھنسا سکیں گے علاوہ ازیں وہ اکابر شیعہ سے مل کر برامکہ کے بڑے بڑے کام نکالے گا۔ شیعہ مذہب کے مختلف عنصر کے لوگ پائے جاتے تھے ہشام کے عہد اقتدار ہی میں خلیفہ ہارون رشید اپنی خواب غفلت سے چونکا اور برامکہ شعوبیہ اور زنادقہ کو سزا دینے کے درپے ہوا۔ نتیجہ کے طور پر برامکہ زوال پذیر ہوگئے۔ ان واقعات کے دوران ہشام کہیں چھپ گیا اور لوگوں سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی موت 199ھ میں واقع ہوئی۔ ہشام کے عقائد کے لیے دیکھیے (مختصر تحفہ اثنا عشریہ ص 63 )

¹⁸ ہشام بن سالم جوالیقی۔ اس کا لقب حلاف ہے۔ یہ کہا کرتا تھا کہ خدا کی ایک صورت ہے اور اس نے حضرت آدم کو اپنی صورت کے مطابق پیدا کیا تھا۔ اس کا قول ہے کہ اللہ تعالی سر سے لے کر ناف تک کھوکھلا ہے اور ناف سے قدم تک ٹھوس ہے۔ جرح و تعدیل کے شیعہ علماء اسے ثقہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سابق الذکر ہشام بن حکم کا معاصر تھا۔

¹⁹ یونس بن عبد الرحمن القمی علی بن یقطین کا مولی تھا۔ یہ ہشام بن عبد الملک کے عہد خلافت میں پیدا ہوا۔ یہ امام موسی رضا اور خلیفہ مامون کا معاصر تھا اور فاسد عقائد رکھتا تھا۔ شیعہ روایت کرتے ہیں کہ محمد بن دائودیہ نے موسی رضا کو بلاکر یونس کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ امام موسی نے جوابا تحریر فرمایا : " اللہ اس پر اور اس کے اصحاب پر لعنت کرے اللہ تعالی اس سے اور اس کے اصحاب سے بیزار ہے "۔ ایک مرتبہ امام موسی رضا نے یونس کی تالیف کردہ کتاب زمین پر دے ماری اور فرمایا : " یہ زانی اور زانیہ کے بیٹے کی تصنیف ہے ، یہ زندیق کی کتاب ہے "۔ جب امام موسی رضا خلیفہ مامون کی دعوت پر خراسان تشریف لے گئے تو یونس نے ان کے بارے میں کہا : " اگر وہ اس معاملہ میں بخوشی یا ناخوشی داخل ہوگئے تو وہ باغی ہیں "۔ بایں ہمہ وہ شیعہ کے نزدیک ثقہ اور ان کے لیے سرمایہ افتخار ہے اور وہ اس کی بریت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔
 
Top