• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شم ہا مفورش یا اسم الاعظم

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
سوره الرعد آیت ٤٣ ہے

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ كَفى بِاللَّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ


یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں۔ آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے والا کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے
۔

اس آیت میں کتاب کا علم سے مراد اہل کتاب ہیں جس کی تائید دوسری آیات سے بھی ہوتی ہے مثلا الْأَعْرَافِ ١٥٧ میں ہے

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الذين يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ


جو اس امی ،رسول ،نبی کی اتباع کرتے ہیں جس کے لئے التَّوْرَاةِ اور الْإِنْجِيلِ میں جو ان کے پاس ہے، لکھا پاتے ہیں


یہود کے مطابق الله کا اسم اعظم ، جس کو شم ہا مفورش کہا جاتا ہے ٧٢ حروف پر مشتمل ہے- اس کا استخراج عبرانی تورات میں کتاب خروج باب ١٤ آیت ١٩ سے ٢١ سے کیا جاتا ہے کیونکہ ان تین اہم آیات کے عبرانی حروف ٧٢، ٧٢، ٧٢ ہیں لہذا اللہ کا اسم ٧٢ پر مشتمل ہے جس کی مدد سے بحر احمر کو موسی نے پھاڑا اور خشک رستہ بنا آیات ہیں




וַיִּסַּע מַלְאַךְ הָאֱלֹהִים, הַהֹלֵךְ לִפְנֵי מַחֲנֵה יִשְׂרָאֵל, וַיֵּלֶךְ, מֵאַחֲרֵיהֶם; וַיִּסַּע עַמּוּד הֶעָנָן, מִפְּנֵיהֶם, וַיַּעֲמֹד, מֵאַחֲרֵיהֶם

וַיָּבֹא בֵּין מַחֲנֵה מִצְרַיִם, וּבֵין מַחֲנֵה יִשְׂרָאֵל, וַיְהִי הֶעָנָן וְהַחֹשֶׁךְ, וַיָּאֶר אֶת-הַלָּיְלָה; וְלֹא-קָרַב זֶה אֶל-זֶה, כָּל-הַלָּיְלָה

וַיֵּט מֹשֶׁה אֶת-יָדוֹ, עַל-הַיָּם, וַיּוֹלֶךְ יְהוָה אֶת-הַיָּם בְּרוּחַ קָדִים עַזָּה כָּל-הַלַּיְלָה, וַיָּשֶׂם אֶת-הַיָּם לֶחָרָבָה; וַיִּבָּקְעוּ, הַמָּיִם


اُس وقت خدا وند کا فرشتہ اسرائیلی خیمہ کے پیچھے گیا۔ اس لئے بادل کا ستون لوگوں کے آگے سے ہٹ گیا اور اُن کے پیچھے آ گیا۔

اس طرح بادل مصریوں کے خیمہ اور اِسرائیلیوں کے خیمہ کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ بنی اسرائیلیوں کے لئے روشنی تھی لیکن مصریوں کے لئے اندھیرا۔ اِس لئے مصری اس رات اِسرائیلیوں کے قریب نہ آسکے۔

موسیٰ نے اپنا ہاتھ بحر قلزم کے اوپر اٹھا ئے اور خدا وند نے مشرق سے تیز آندھی چلا ئی۔ آندھی تمام رات چلتی رہی سمندر پھٹا اور ہوا نے زمین کو خشک کیا۔


یہودی تصوف کے مطابق موسی نے ٧٢ حروف پر منبی اسم الاعظم کے حروف ادا کیے اور سمندر پھٹ گیا اور بحر احمر میں سے خروج کیا یہودی تصوف کی کتاب، کتاب سفر یطذیرہ (کتاب الخلق ) میں اس کا ذکر ملتا ہے جو ایک قدیم کتاب ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح حروف الله نے بولے اور ان سے تخلیق ہوتی گئی

.اسم الاعظم کا ٧٢ حروف کا عقیدہ اسلامی شیعہ کتب میں بھی موجود ہے

الكافي از الكليني – ج 1 – ص ٢٣٠ ،٢٣١ باب ما أعطى الأئمة عليهم السلام من اسم الله الأعظم کی روایات ہیں

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم


محمد بن یحیی اور دیگر ، احمد بن محمد سے ، وہ علی بن الحکم سے وہ محمّد بن الفضیل سے کہتے ہیں مجھ کو شريس الوابشي نے خبر دی کہ امام جعفر علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک الله کا اسم اعظم ٧٣ حروف کا ہے اور اس میں سے اصف کے پاس ایک حرف تھا جس کو اس نے بولا تو اس کے اور بلقیس کے درمیان زمین دھنس گئی کہ اس کا ہاتھ تخت پر لگا پھر زمین واپس ویسی ہی ہوئی جیسی کہ تھی پلک جھپکتے میں – اور ہمارے پاس اسم الأعظم کے ٧٢ حروف ہیں اور ایک حرف الله نے ہم سے چھپایا ہے جو علم الغیب میں اس کے ہے ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم


محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، عن الحسين بن سعيد ومحمد بن خالد ، عن زكريا بن عمران القمي ، عن هارون بن الجهم ، عن رجل من أصحاب أبي عبد الله عليه السلام لم أحفظ اسمه قال سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول : إن عيسى ابن مريم عليه السلام أعطي حرفين كان يعمل بهما وأعطي موسى أربعة أحرف ، وأعطي إبراهيم ثمانية

أحرف ، وأعطي نوح خمسة عشر حرفا ، وأعطي آدم خمسه وعشرين حرفا ، وإن الله تعالى جمع ذلك كله لمحمد صلى الله عليه وآله وإن اسم الله الأعظم ثلاثة وسبعون حرفا ، أعطى محمدا صلى الله عليه وآله اثنين وسبعين حرفا وحجب عنه حرف واحد


محمد بن يحيى، احمد بن محمّد سے وہ الحسين بن سعيد اور محمد بن خالد سے وہ زكريا بن عمران القمي سے وہ هارون بن الجهم سے وہ أبي عبد الله عليه السلام کے اصحاب سے نقل کرتے ہیں جن کا نام یاد نہیں ہے کہ ابی عبد الله امام جعفر کو سنا کہا بے شک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو دو حرف عطا کیے گئے جن سے وہ عمل کرتے اور موسی علیہ السلام کو چار حرف ملے اور ابراہیم کو آٹھ اور نوح کو پندرہ اور آدم کو ٢٥ حروف ملے اور الله نے ان سب کو محمّد صلی الله علیہ و الہ کے لئے جمع کر دیا اور بے شک الله کا نام ٧٣ حرفی ہے محمد صلی الله علیہ وسلم کو ٧٢ حروف ملے اور ایک ان سے چھپا لیا گیا


بعض شیعہ کتب کے مطابق یہ کلمات علی رضی الله عنہ نے بولے تھے جو سلیمان کے دربار میں موجود تھے زمان و مکان کی قید سے آزاد علی کا تصرف بیان سے باہر ہے

کتاب بصائر الدرجات کی روایت ہے

وعن ابن بكير، عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: كنت عنده، فذكروا سليمان وما أعطي من العلم، وما أوتي من الملك.

فقال لي: وما أعطي سليمان بن داود؟ إنما كان عنده حرف واحد من الاسم الأعظم، وصاحبكم الذي قال الله تعالى: قل: كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب. وكان ـ والله ـ عند علي [عليه السلام]، علم الكتاب.

فقلت: صدقت والله جعلت فداك


ابن بکیر ابی عبد الله امام جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس تھا پس سلیمان اور ان کو جو علم عطا ہوا اس کا ذکر ہوا اور جو فرشتہ لے کر آیا پس انہوں (امام جعفر) نے مجھ سے کہا اور سلیمان بن داود کو کیا ملا ؟ اس کے پاس تو الاسم الأعظم کا صرف ایک ہی حرف تھا اور ان کے صاحب جن کے لئے الله تعالی کہتا ہے : قل كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب الرعد: 43 اور وہ تو الله کی قسم ! علی علیہ السلام کے پاس ہے علم الکتاب


تفسير القمي ج1 ص368 کے مطابق

عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين


ابی عبد الله سے روایت ہے کہ قال الذي عنده علم الكتاب یہ امیر المومنین (علی) ہیں


ربط
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اسم اعظم



یہودی تصوف کی ایک اہم قدیم کتاب شر قومہ ہے. اس کتاب کا بیشتر حصہ مکاشفات پر مبنی ہے جس میں سب سے اہم فرشتہ متطروں ہے جو ربی یشماعیل پر آنے والے واقعات کو القاء کرتا ہے اور ربی یشماعیل کے شاگرد اور ربی عقبه اس کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں. کتاب شر قومہ تجسیم الہی کی طرف مائل ہے اور اس میں خدا کے جسم کے اعضا اور انکی پیمائش دی گئی ہے. کتاب میں لکھا ہے کہ

Everyone who knows the measure of the Creator is sure to be a son of the World to Come, and will be saved from the punishment of Gehinnom, and from all kind of punishments and evil decrees about to befall the world, and will be saved from all kind of witchcraft, for He saves us, protects us, redeems us, and rescues me from all evil things, from all harsh decrees, and from all kinds of punishments for the sake of His Great Name.” Shiur Qomah 1:2




ہر وہ شخص جو الخالق کی پیمائش جانتا ہوگا وہ بلا شبہ آنے والی دنیا کا بیٹا ھو گا، اور جہنم کی آگ سے نجات پائے گا، اور ہر طرح کی سزا سے اور ان مصائب سے جو دنیا پر آنے والے ہیں، اور پر طرح کے جادو سے، کیونکہ وہ (الخالق) اس سے بچائے گا، محفوظ رکھے گا، نکالے گا، اور مجھ کو شر سے بچائے گا، سخت احکامات اور ساری سزاؤں سے اپنے اسم اعظم کی وجہ سے شر قومہ ١ میں



اسلام میں دوسری صدی میں عراق میں ایک گمراہ شخص بنام مغیرہ بن سعید (المتوفی ١١٩ ھ) گزرا ہے. یہ ایک سیاسی و مذہبی شخص تھا. ابن حزم اس کے بارے میں الملل میں لکھتے ہیں

یہ کوفی تھا. اس کو خالد بن عبدللہ کے حکم پر زندہ جلایا گیا. یہ کہا کرتا تھا کہ اسکا رب ایک جوان آدمی جیسا ہے اور اس کے اعضا کی تعداد حروف ابجد کے برابر ہے. مشھور کذّاب جابر بن یزید الجعفی ، مغیرہ کے بعد اس کا پیامبر تھا. مغیرہ نے اپنے حواریوں کو حکم دے رکھا تھا کہ شیعہ کے امام محمّد بن عبدللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب، یعنی حسن رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پوتے ہیں. مغیرہ نے یہ دعوی بھی کیا کہ جبریل اور میکائیل نے رکن (کعبہ) اور مقام (ابراہیم) کے درمیان محمّد بن عبدللہ کی بیعت کی ہے . اس نے تاویل[14] قرآن کو بھی ایجاد کیا. اس نے یہ کہا کہ قرآن میں عدل سے مراد علی، احسان سے مراد فاطمه، ذوی القربی سے مراد حسن اور حسین ہیں اور الفحشاء و المنکر سے مراد ابوبکر اور عمر ہیں



ابو الحسن الشعری مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں لکھتے ہیں[15]

والفرقة الرابعة منهم المغيرية أصحاب المغيرة بن سعيد يزعمون أنه كان يقول أنه نبي وأنه يعلم اسم الله الأكبر، وأن معبودهم رجل من نور على رأسه تاج وله من الأعضاء والخلق مثل ما للرجل وله جرف وقلب تنبع منه الحكمة وأن حروف أبي جاد على عدد أعضائه قالوا: والألف موضع قدمه لاعوجاجها وذكر الهاء فقال: لو رأيتم موضعها منه لرأيتم أمراً عظيماً يعرض لهم بالعورة وبأنه قد رآه لعنه الله، وزعم أنه يحيي الموتى بالاسم الأعظم ….. فكان أول من خلق منها محمداً صلى الله عليه وسلم


(شیعوں کا) چوتھا گروہ المغیریہ ہے یعنی مغیرہ بن سعید کے ماننے والے. ان کا یہ خیال تھا کہ مغیرہ نبی تھا اور اسماعظم جانتا تھا. انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ان کا معبود نوری ہے اور انسان جیسا ہے جس کے سر پر تاج ہے . اس کے اعضا انسان جیسے ہیں . اس کا پیٹ اور دل ہے جس سے حکمت نکلتی ہے اور اس کے انتے ہی اعضا ہیں جتنے حروف ابجد ہیں. تھوڑا ترچھا الف معبود کا قدم ہے اور ھ کے لئے انہوں نے دعوی کیا کہ اگر تم نے اس کو دیکھا تو گویا ایک امر عظیم دیکھا! اس سے ان کا مطلب پوشیدہ اعضا ہیں. یہ ملعون کہتا تھا کہ اس نے ان کو دیکھا ہے. اس نےاسم اعظم کو جاننے کا بھی دعوی کیا جس سے یہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے .. اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ محمّد صلی الله علیہ وسلم پہلی تخلیق ہیں


سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ[16]

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم .


الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے صرف ایک حرف کو ادا کیا گیا تھا کہ اسکے اور ملکہ شیبا کے درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا. ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتر حروف ہیں . الله نے علم غیب میں ایک ہم سے پوشیدہ رکھا ہے…



طبقات الصوفیہ ص ٢٧ میں ابراہیم بن ادھم کی حکایت ہے کہ

سمعت أبا العباس، محمدَ بن الحسن بنِ الخشاب، قال: حدثنا أبو الحسن عليُّ بن محمد بن أحمد المصري، قال: حدثني أبو سعيد أحمدُ بن عيسى الخَرَّاز، قال: حدثنا إبراهيم بن بَشَّار، قال: ” صحبت إبرهيم بن أدهم بالشام، أنا و أبو يوسف الغَسُولى، و أبو عبد الله السنِّجارى. فقلت: يا أبا إسحاق! خبِّرني عن بَدْءِ أمرك، كيف كان ” – قال: ” كان أبي من ملوك خُراسان. و كنت شاباً فركبت إلى الصَّيد. فخرجت يوماً على دابَّة لي، و معي كلب؛ فأَثَرْت أرنباً، أو ثعلباً؛ فبينما أنا أَطْلُبه، إذ هتف بي هاتف لا أراه؛ فقال: يا إبراهيم: إلهذا خلقتَ؟! أم بهذا أُمِرت؟!. ففَزِعتُ، و وقفتُ، ثم عدتُ، فركضتُ الثانية. ففعل بي مثلُ ذلك، ثلاثَ مرات. ثم هتف بي هاتف، من قَرَبُوس السَّرْج؛ و الله ما لهذا خُلِقتَ! و لا بهذا أُمِرتَ!. فنزلت، فصادفت راعياً لأبي، يرعى الغنم؛ فأخذت جُبَّتَه الصوفَ، فلبِستها، و دفعت إليه الفرس، و ما كان معي؛ و توجهت إلى مكة. فبينما أنا في البادية، إذا أنا برجل يسير، ليس معه إناءٌ، و لا زادٌ. فلما أَمْسَى، و صلّى المغربَ، حرَّكَ شفتيه، بكلامٍ لم أفْهَمه؛ فإذا أنا بإناءٍ، فيه طعامٌ، و إناءٍ فيه شرابٌ؛ فأكلتُ، و شربتُ. و كنتُ معه على هذا أيَّاماً؛ و علمني ” اسمَ اللهِ الأعظمَ ” . ثم غاب عني، و بقيتُ وحدي. فبينما أنا مُسْتَوْحش من الوحدة، دعوتُ اللهَ به؛ فإذا أنا بشخص آخِذٍ بحُجْزَتي؛ و قال: سَلْ تُعْطَهْ. فَراعَني قولُه. فقال: لا رَوْعَ عليك! و لا بَأْسَ عليك!. أنا أخوك الخَضْر. إن أخي داود، عَلّمك ” اسمَ اللهِ الأعظم ” ، فلا تَدْعُ به على أحد بينك و بينه شَحْنَاء، فتُهْلِكه هَلاكَ الدنيا و الآخرة؛ و لكن ادْعُ الله أن يُشَجِّع به جُبْنَك، و يُقوّيَ به ضَعفَك، و يُؤْنِسَ به وَحْشتَك، و يجدِّدَ به، في كل ساعة، رَغبتَك. ثم انصرف وتركني. “


إبراهيم بن بَشَّار بیان کرتے ہیں کہ میں إبرهيم بن أدهم کے ساتھ شام میں تھا میرے ساتھ أبو يوسف الغَسُولى، اور أبو عبد الله السنِّجارى بھی تھے . پس میں نے ان سے اس طریقہ پر ان کی ابتداء کے بارے میں پوچھا یہ سب کیسے ہوا؟ انہوں نے بتایا : میرے والد خراسان کے بادشاہوں میں سے تھے اور میں جوان تھا شکار کے لئے نکلا. پس ایک دن اپنی سواری پر نکلا اور میرے ساتھ (شکاری) کتے تھے میں ایک خرگوش یا لومڑی کے پیچھے گیا ابھی پکڑنے والا تھا کہ ہاتف غیبی نے پکارا اور کہا اے ابراہیم کیا اس کام کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے؟ کیا اسکا حکم کیا گیا ہے؟ میں خوفزدہ ہوااوررکا اور انتظار کیا پھر دوسری بار چلا پھر ایسا ہی ہوا تین دفعہ. اب ہاتف کی آواز زین سے آئی الله کی قسم ! کیا اس کام کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے؟ کیا اسکا حکم کیا گیا ہے؟ میں سواری سے اترا، اور اپنے باپ کے لئے کام کرنے والے چرواہے کے پاس آیا اسکا اون کا جبّہ پہنا ، گھوڑوں کو جو کچھ میرے پاس تھا وہ سب واپس کیا اور مکّہ کا رخ کیا. جب میں بیابان میں رستے میں ایک بھٹکتا انسان تھا ، نہ کوئی برتن تھا اور نہ ہی کچھ اور پس شام ہوئی اور میں نے مغرب کی نمازپڑھی میرا ہونٹ ہلا اور ایسا کلام ادا ہونے لگا جو میں نہیں سمجھ سکا، پس یکایک میرے آگے برتن تھا جس میں کھانا تھا اور برتن تھا جس میں مشروب تھا پس میں نے کھایا اور پیا اور ان دنوں وہ برتن میرے پاس رہے اور مجھے اسم الله الأعظمَ سکھایا پر مجھ سے کھو گیا اور باقی رہ گیا. پس میں اپنی وحشت میں ایک تھا میں نے اس سے الله کو پکارا پس ایک شخص نے مجھے پکڑا اور کہا مانگو عطا کیا جائے گا، میں ڈرا اس کلام سے، کہا: مت ڈرو، کوئی برائی نہیں! میں تمہارا بھائی خضر ہوں. بے شک میرے بھائی داود نے تم کو اسم الله الأعظمَ سکھایا تھا پس اس نام کو اس لئے استمال نہ کرنا کہ جس سے تمہارا جھگڑا ھو تو تمہاری دنیاو آخرت ہلاک ہو جاۓ گی لیکن اس سے الله کو پکارنا تمہیں شجاعت ملے گی، کمزوری میں طاقت ملے گی ، وحشت میں مونست ملے گی اور ہر پل تمہاری لگن میں اضافہ ھو گا. یہ کہ کر وہ چلا گیا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابو یزید البسطامی (المتوفی ٢٦١ ھ) کہتے ہیں[17]

وقيل له: علمنا الاسم الاعظم.قال: ليس له حد، إنما هو فراغ قلبك لوحدانيته، فإذا كنت كذلك، فارفع له أي اسم شئت من أسمائه إليه


اس سے کہا گیا: ہمیں اسم الله الأعظمَ سکھائیں. بولے: اس کی کوئی حد نہیں یہ تو تیرے قلب کی یکسوئی پر مبنی ہے، پس جب یہ ھو تو کسی بھی نام سے پکارو جوالله کے نام ہیں



مُردوں کے ذریعے غیب بینی یہودیوں میں



حشر دوم کے بعد، جب یہودیوں پر مصائب آئے اور وقت گزرتا گیا تو یہودیوں میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں علم روایت ضائع نہ ھو جائے اور فریسی دور ( ٥٣٦ ق م سے ٧٠ ب م) سے متعلق علم کھو جائے. اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوۓ ربی یہودا ھناسی ( جن کو یہودا شہزادہ بھی کہا جاتا ہے) نے مشنا ٢٢٠ ب م میں مرتب کی. اس کے بعد مشنا کی شرح تقریبا ٤٠٠ ب م میں فلسطین میں لکھی گئی جس کو آج یروشلم تلمود بولتے ہیں. دوسری شرح ٤٠٠ ب م سے ٦٠٠ ب م تک بابل میں لکھی گئی اور اس کو بابلی تلمود بولتے ہیں. ٥٧٠ ب م میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی. لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور کے یہود کے بارے میں جاننے کے لئے سب سے معتبر ذریعہ مشنا اور اس کی شرح تلمود ہے. یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مردے انسانوں کے احوال سے واقف ہوتے ہیں تلمود میں احوال القبور بیان کیے گئے ہیں کہ[18]


It once happened that a pious man gave a denarius to a a bagger on the new year eve in the time of drought. His wife upbraided him so he went and spent the night in the cemetery. He heard two spirits conversing. One said to the other come friend let us wonder in the world and hear behind the curtain, what visitation is to befall the world. The other spirit replied I cannot because I am buried in a matting of reeds. But do you go and report me what you hear. She went and having wandered about, returned. The other asked, what did you hear friend, behind the curtain? She replied I heard that if one sows in the first rainfall the hail will smite it. This man there upon went and sowed in the second rainfall. The hail destroyed everybody’s crops but not his. The following year he spent the new year’s night in the cemetery, and heard the same two spirits conversing. One said to the other come let us wonder in the world and hear behind the curtain what visitation is to befall the World? The spirit replied have I not told you friend that I cannot because I am buried in a matting of the reeds? But do you go and come and tell me what you hear? She went and wandered about and returned the other spirit asked what did you hear behind the curtain that if one sows the second rainfall it be smitten by the blast. This man went and sowed the first rainfall. What everybody else sowed was smitten by the blast, but not his. His wife asked him, how is that last year every bodies crop was destroyed by hail, but not yours and this year everybody’s crop is blasted except yours? He told her the whole story[19]


ایک بارایسا ہوا کہ ایک نیک آدمی نے نئے سال کے موقع پر فقیر کو دینار دیا جبکہ خشک سالی کا دور تھا ۔ اس کی بیوی نے اس پر ملامت کی اور وہ گھر سےچلا گیا کہ رات قبرستان میں گزارے ۔ اس نے وہاں دو روحوں کو باہم مخاطب سنا ۔ ایک روح نے دوسری روح سے کہا کہ آو دوست دنیا میں گھومیں اور پردہ کے پیچھے سے سُنیں ۔ دوسری روح نے جواب دیا میں یہ نہیں کر سکتا کیونکہ میں ایک چٹائی کے تنکے کے جوڑوں میں دفن ہوں ۔ لیکن تم جاؤ اور مجھے جو سنو اس کی رپورٹ دو ۔ پہلی روح گئی اور واپس آئی ۔ دوسری روح نے پوچھا کہ دوست پردہ کے پیچھے کیا سنا؟ اس نے جواب دیا میں نے سنا ہے کہ پہلی بارش کے اولے فصل تباہ کریںگے ۔ یہ شخص وہاں سے واپس گیا اور دوسری بارش میں بویا ۔ اولوں نے ہر ایک کی فصل کو تباہ کیا لیکن اس کونقصان نہ ہوا ۔ اگلے سال اس شخص نے پھر نئے سال کی رات قبرستان میں گزاری اور دوبارہ دو روحوں کو باہم مخاطب سنا ایک روح نے دوسری روح سے کہا کہ آو دوست دنیا میں گھومیں اور پردہ کے پیچھے سے سُنیں کہ دنیا والوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟ روح نے جواب دیا یہ نہیں کر سکتا کیونکہ میں ایک چٹائی کے تنکے کے جوڑوں میں دفن ہوں ؟ لیکن تم جا کر پتا کرو اور مجھے بتاو کیا تم نے سنا؟ وہ گئی اور گھومتی پھرتی رہی اور پہلی روح نے پوچھا کہ کیا آپ پردے کے پیچھے گئے ؟ بولی: دوسری بارش میں جو بوئے گا وہ تباہ ہوگا ۔ یہ شخص لوٹ آئا اور پہلی بارش میں بویا. لیکن جنہوں نے دوسری بارش میں بویا تھا وہ سب مارے گیے ۔ اس کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ گزشتہ سال ہر شخص کی فصل تباہ ہوئی، مگر تمہاری فصل بچ گئی اور اس سال ہر شخص کی فصل مُرجھائی سوائے تمہاری؟ اس شخص نے پوری کہانی بیوی کو بتائی


تلمود میں ایک دوسری حکآیت بھی بیان ہوئی ہے

Zeiri left a some of money incharge of his land lady. During the time he went to the school of his master and returned, she died. He followed her to the cemetery and asked her where is the money? She replied go and take it from beneath the door’s socket in such and such place and tell my mother to send my comb and tube of eye paint through so-and-so who will arrive here tomorrow[20].




زیری نے اپنے گھر کی مالکہ کے پاس کچھ پیسے رکھوائے. اس دوران جبکہ وہ مدرسہ میں استاد کے پاس تھا مالکہ کا انتقال ہو گیا. وہ اسکے پیچھے قبرستان تک گیا اور اس (میّت) سے پوچھا کہ مال کہا ہے؟ بولی جاؤ جا کر دروازے کے ساکٹ میں فلاں جگہ سے نکال لو اور میری ماں کو بولو کہ کنگھا اور سرمہ فلاں کے باتھ بھیج دے جوکل آے گا


ایک اور حکایت سننے اور سر دھنیے

The father of Samuel was entrusted with some money belonging to orphans at the time he passed away, Samuel was not with him. People called after him, son of consumer of the orphans’ money. He went after his father to the cemetery and said to them, I want Abba. They replied there are many of that name here. He said to them, I want Abba, the father of Samuel where is he? They answered he has gone up to the heavenly seminary where the Torah is studied. In the meantime he noticed a former colleague named Lev, who was seated a part. He asked him, why do you sit a part? Why have you not gone up to the heavenly seminary? He replied I was told, the number of years you did not attend the seminary of R. Aphes, and caused him grief on that account, he will not permit you ascend to the heavenly seminary. In the meanwhile his father arrived and Samuel noticed that he wept and laughed. He said to him why do you weep? He answered because you will soon come here. And why do you laugh? Because you are very highly esteemed, let them allow Levi to enter and they permitted him to enter. He asked his father, where is the orphans money? He replied go and take it from the enclosure of the mill. The upper and lower sums of money belong to us. The middle sum belongs to the orphans. He asked his father why did you act in this manner. He replied should thieves come to steal they would steal ours. Should the earth destroy, it would destroy ours[21].



سیموئیل کے باپ کو کچھ پیسوں کا نگہبان بنایا گیا تھا جو یتیموں کے لئے تھے. سیموئیل کے باپ کی وفات ہوئی اور اس وقت سیموئیل اس کے ساتھ نہیں تھا ۔ لوگ اس کے بعد سیموئیل کو یتیم کا مال کھانے والے کا بیٹا کہتے۔ سیموئیل اپنے والد کے قبرستان گیا اور کہا، مجھے ابّا چاہیے ہیں ۔ ارواح نے جواب دیا یہاں اس نام کے بہت سے ہیں ۔ سیموئیل نے کہا میں سیموئیل کا باپ چاہتا ہوں ، وہ کہاں ہے؟ ارواح نے جواب دیا کہ وہ آسمانی مدرسے کے لئے جہاں تورات کا مطالعہ ہے چلے گئے ہیں ۔ اس دوران سیموئیل نے محسوس کیا ایک سابق ساتھی لاوی کی روح بھی وہاں ہے . سیموئیل نے اس سے پوچھا آپ کیوں دور بیٹھے ہیں؟ کیوں آپ آسمانی مدرسہ نہیں گئے ؟ اس نے جواب دیا مجھے بتایا گیا ہے کہ، میں ربی افس کےمدرسے میں کئی سال غیر حاضر رہا اور اس بنا پر، وہ مجھے اجازت نہیں دے رہےکہ میں آسمانی مدرسے کے لیے چڑھ جاؤ، یہ غم اسی وجہ سے ہے ۔ اسی اثنا میں سیموئیل کے والد پہنچے اور سیموئیل نے محسوس کیا کہ وہ روتے اور ہنستے تھے ۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے کہا؟ انہوں نے جواب دیا، کیونکہ تم جلد یہاں آؤ گے ۔ اور آپ کیوں ہنستے ہیں؟ کیونکہ تمہاری یہاں بہت عزت ہے تم لاوی کو داخل کرنے کے لیے اجازت دلاؤ. اور انہوں نے اجازت دے دی ۔ سیموئیل نے اپنے والد سے پوچھا کہ یتیموں کی رقم کہاں ہے؟ کہا: جاؤ دیوار سے لے لو ۔ پیسے کی بالائی و زیریں رقوم ہم سے تعلق رکھتی ہیں ۔ درمیانی رقم سے یتیموں کا تعلق ہے ۔ سیموئیل نے پوچھا : کیوں آپ اس انداز میں عمل کرتے تھے ۔ انہوں نے جواب دیا چور، چوری کرنے کے لیۓ آیئں تو وہ ہمارا مال چوری کریں ۔ زمین تباہ کرے تو یہ ہمارے مال کو تباہ کرے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
غیر یہودیوں کےلئے جہنم میں عذاب کی حکایت بیان کی گئی

A tradition exist to the effect that the sufferers in Gehinnom enjoyed a respite every Sabbath. It is mentioned in a dialogue between the Roman governor, Tineius Rufus and R. Akiba[22]. The Roman asked, how is the Sabbath different from any other day? The Rabbi retorted, how are you a Roman official different from any other man? Rufus said the Emperor was pleased to honour me; and Akiba replied: Similarly the Holy One the blessed be He, was pleased to honour the Sabbath. How can you How can you prove that to me? Behold the river Sabbatyon carries stones as it flows all the days of the week but it rests on Sabbath. To a distant place you lead me! Akiba said, Behold a necromancer can prove it because the dead ascend all the days of the week but not on Sabbath. You can test my statement by your father. Later on Rufus had occasion to call up his father’s spirit. It ascended everyday of the week but not on Sabbath. On Sunday he caused him to ascend and asked, have you become a Jew since your death? Why did you come up every day of the week but on the Saturday? He replied Whoever does not observed the Sabbath with you on Earth does so voluntarily, but here he is compelled to keep the Sabbath.[23].


ایک روایت موجود ہے کہ سبت کے دن ، جہنم میں کچھ مہلت ملتی ہے۔ اس حکایت کا رومی گورنر ٹانییوس روفس اور ربی عقبہ کے درمیان ایک مکالمے میں ذکر کیا گیا ہے ۔ رومی گورنر نے پوچھا: کس طرح سبت کا دن کسی بھی دوسرے دن سے مختلف ہے؟ ربی عقبہ بولے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک رومن اہلکار کسی دوسرے انسان سے مختلف ہے؟ روفس نے کہا کہ بادشاہ میری عزت افزائی کرکے راضی ہے ۔ ربی عقبہ نے جواب دیا: اسی طرح پاک ،مبارک ذات (الله) اس سبت کی عزت سے راضی ہے ۔ روفس نے کہا کس طرح ؟ کس طرح یہ ثابت کر سکتے ہیں ؟ ربی نے جواب دیا ایسے کہ سبباتیاون ہر روز ، پتھروں کے ساتھ بہتاہے لیکن سبت کو نہیں ۔ (اس بحث میں آپ مجھے )ایک دور دراز جگہ لے گئے، عقبہ بولے! میری بات کی تایید ایک ساحر کر سکتا ہے کہ مردے آسمان پر ہفتہ کے تمام ایام چڑھ سکتے ہیں سواۓ سبت کے. آپ روفس اپنے والد سے پتا کر سکتے ہیں ۔ بعد ازاں روفس کا اپنے باپ کی روح سے رابطہ کرنے کا موقع ملا ۔ یہ ہر روز چڑھ سکتی تھی سواۓ سبت کے ۔ روفس نے اپنے باپ سے پوچھا، آپ اپنی موت کے بعد سے کیا یہودی بن چکے ہیں؟ آپ ہفتہ میں ہر روز آئے لیکن سبت کو کیوں آئے تھے؟ انہوں نے جواب دیا جو شخص سبت کے دن زمین پر مناتا ہے، تو وہ یہ رضاکارانہ طور پر کرتا ہے، لیکن یہاں وہ سبت کا دن رکھنے پر مجبور ہے ۔


تلمود میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ روحانی مخلوق غیر مرئی ہیں, لیکن ایک عمل کے بعدانہیں دیکھ سکتے ہیں[24]

Who wishes to perceive their footprints should take sifted ashes and sprinkle them around his bed. In a morning he will see something resembling the footprints of cock. Who wishes to see them should take ……. Roast it in fire, pulverize it then fill his eyes with it and he will see them.. rabbi did that.. [25].


جو ان کے قدموں کے نشان دیکھنا چاہتا ھو اسے چاہیئے کہ چھنی ہوئی راکھ لے اور اسے اپنے بستر کے ارد گرد چھڑکے ۔ صبح میں اس کو کچھ مرغ کے پا ؤں سے ملتے جلتے نشانات نظر آیئں گے ۔ جو ان کو دیکھنا چاہے وہ لے … (ان چیزوں کو ) آگ میں بھونے اور اس کو پیسے اور اس کے اجزاء کو اپنی آنکھیں پر ملے .. وہ ان روحانی مخلوقات کو دیکھیں گے… ایک ربی ایسا کیا تھا…


مُردوں اور روحوں سے غیب بینی مسلمانوں میں

ارواح ، مسلمانوں کو راہ دکھاتی ہیں، شاہ والی الله (المتوفی ١١٧٦ ھ) انتباہ فی سلاسل اولیاء الله میں ص ١١٣/١١٤

لکھتے ہیں

کشف القبور کا طریقہ:


ذکر کشف قبور جان کہ ذکر کشف قبور کے واسطے اول جب مقبرہ میں ائے دوگانہ ان بزرگ کی روح کے واسطے پڑھے سوره فتح یاد ھو پہلی رکعت میں پڑھے اور دوسری میں سوره الخلاص اورنہیں تو ہر رکعت میں پانچ پانچ بار اخلاص پڑھے اور پھر قبلہ کیطرف پیٹھ کرکے بیٹھے اورایک بار آیتہ الکرسی اور بعضی سورتیں جو زیارت کے وقت پڑھتے ہیں جسے سوره الملک اور اسکے بعدہ قل کہے بعد فاتحہ کے گیارہ بار سورہ الخلاص پڑھے اور ختم کرے اورتکبیر کہے بعدہ سات دفعہ طواف (قبر) کرے اور اسمیں تکبیر پڑھے اور شروع دائیں طرف سے کرے اورپھر پاؤں کی طرف رخسار رکھے اور نزدیک میّت کے منہ کے بیٹھے اور کہے یارب اکیس دفعہ بعدہ اول طرف آسمان کے کہے یا روح الروح جب تک کہ النشراح پائے یہ ذکر کرے انشاء الله تعالی کشف قبور و کشف الارواح حاصل ھوگا

اشرف علی تھانوی اپنی کتاب اعمال القرانی میں ص ٥٤ پر روحانی اشخاص کو دیکھتے کا نسخہ بتاتے ہیں

جو شخص دفینہ و خزانہ پر مطلع ہونا چاہے تو ان آیتوں کو تانبے کے برتن پر مشک و زعفران سے لکھے پھر ہلیلہ زرد و آب طوبہ میوہ سبز سے اس کے حروف دھو کر سیاہ مرغی کا پتہ یا سیاہ بطخ کا پتہ اور پانچ مثقال سرمہ اصفہانی لے کر اس پانی میں ملا کر خوب باریک پیسے حتیٰ کہ وہ باریک سرمہ ھو جآوے اور رات کے وقت پیسا کرے تاکہ اس پردھوپ نہ پڑے جب سرمہ بن جائے کانچ کی شیشی میں رکھ کر اور آبنوس کی سلائی سے اسکا استعمال اسطرح کرے کہ اول جمعرات کے دن روزہ رکھے جب نصف شب کاوقت ھو درود شریف پڑھے اور آیات موصوفہ ستربار پڑھے اور ستر بار استغفار پڑھے پھر ستر مرتبہ درود شریف پڑھے اوراسی سلائی سے دونوں آنکھوں میں تین تین بار سلائی اس سرمہ کی لگاوے اور داہنی آنکھ میں پہلے لگاوے اسطرح سات جمعرات تک کرے کہ دن میں روزہ رکھے اور رات کو درود شریف و آیات پڑھے اور سرمہ لگاوے اس شخص کو اشخاص روحانیہ نظر آویں گے ان سے جو کچھ پوچھنا ھو پوچھ لے
 
Top