• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
شوہر پر بیوی کا کتنا خرچ واجب ہے؟ اور اگر شوہر جائز خرچ میں بھی کنجوسی کرے توکیا بیوی شوہر کی اجازت کے بنا اسکا مال لے سکتی ہے؟



بیوی کا خرچ اسکے شوہر پہ واجب ہے،اور اس خرچ کی مقدار مقرر نہیں،جس قدر بیوی،بچوں کی جائز ضرورت ہو اتنا خرچ دینا واجب ہے،اور اگر شوہر پیسے ہونے کے باوجود بھی پورا خرچ نہ دے تو بیوی اور اولاد ضرورت کہ تحت اسکی اجازت کے بنا اس کا مال لے سکتے ہیں،لیکن خرچ میں شوہر کے حالات کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے

اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں۔!

لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِۦ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُۥ فَلْيُنفِقْ مِمَّآ ءَاتَىٰهُ ٱللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَآ ءَاتَىٰهَا ۚ سَيَجْعَلُ ٱللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا(سورہ الطلاق،آئیت نمبر-7)

ترجمہ:
لازم ہے کہ وسعت والا اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔


تفسیر:
١۔لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۔۔۔: اس سے معلوم ہوا کہ نفقہ میں بیوی کی حالت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ خاوند کی حالت کے مطابق نفقہ واجب ہوگا ۔ اگر خاوند وسعت والا اور مال دار ہے تو اس کے مطابق خرچ کرے گا اور اگر وہ تنگدست ہے تو اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس میں سے اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرے۔

٢۔سَيَجْعَلُ ٱللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا:
اس میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو خاوند حسب مقدور وہ خرچے پورے کرتے ہیں جو انکے ذمے ہیں اور ان میں بخل نہیں کرتے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے تنگی کے بعد آسانی کو کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا فرما دے گا ۔” سیجعل “ میں ” سین “ استقبال کے علاوہ تاکید کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔” عسر “ اور ” یسرا “ دونوں میں تنوین تنکیر کے لیے ہے ،
یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس آسانی پیدا کرنے کی بیشمار صورتیں ہیں ، تنگی خواہ کسی قسم کی ہو اللہ تعالیٰ اس میں آسانی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ تنگی میں اپنی طاقت کے مطابق دریغ نہ کرے ،
اللہ تعالیٰ دے گا ،
جیسا کہ فرمایا :
(فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ) (الانشراح : ٥، ٦)”
پس بیشک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے ، بیشک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے “۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
اچھے طریقے سے عورتوں کو کھلانا ،پلانا اور ان کو لباس مہیا کرنا تم پہ فرض ہے،
(صحیح مسلم، کتاب الحج:1218)


حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور ( لوگوں کو ) نصیحت کی اور انہیں سمجھایا۔ پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس ( ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے ( اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے ) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں ( تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا ہے ) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علیحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو،
سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھا سلوک کرو“۔
(سنن ترمذی، حدیث نمبر_1163)


یعنی انکو اچھا کھانا کھلاؤ اور اچھا لباس پہناؤ،اسکا یہ مطلب نہیں کہ گنجائش سے زیادہ انکو مہنگے سوٹ یا مہنگے کھانے کھلاؤ،بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق اچھا کھلاؤ پلاؤ،انکی ضروریات کو پورا کرو،


لیکن اگر کوئی شوہر استطاعت کے باوجود بھی جان بوجھ کر کنجوسی کرے اور بیوی بچوں کو جائز خرچ بھی نا دے ،تو شوہر کی اجازت کے بنا ضرورت کے مطابق اسکا مال لینا جائز ہے،چاہے وہ چوری چھپے اسکی جیب سے نکالنا پڑے

اسکی دلیل یہ حدیث ہے''!!

حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا جو کہ
ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں،
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے۔
وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو،
تو کیا اگر میں ان کے مال سے چھپا کر کچھ لے لیا کروں تو کوئی حرج ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے لیے اور اپنے بیٹوں کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اتنا لے سکتی ہو جو تم سب کے لیے کافی ہو جایا کرے۔
(صحیح البخاری، حدیث نمبر_2211)



(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
 
Last edited:
Top