• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شکریہ قرآن: ایک بھلائی ہوئی کتاب !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
----- شکریہ قرآن: ایک بھلائی ہوئی کتاب -------
ایک مسجد میں ایک امام نے خطبہ دیا۔ اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے:
”غوث پیروں کے پیرہیں، وہ دستگیر ہیں، علی مشکل کشا ہیں، وہ مولا اور مدد گار ہیں“۔
اپنی اس بات کے سپورٹ میں انھوں نے کئی طرح کی بے تکی کہانیاں سنائیں۔ خطبہ کے بعد وہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ نماز میں انھوں نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی :

﴿ربناانت مولانا فانصرناعلی القوم الکافرین)
یعنی اے ہمارے رب تو ہمارا مولا ہے، پس کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد فرما۔ (البقرہ: 286)

میں سوچنے لگا کہ اچانک امام کو یہ کیا ہوگیا کہ ابھی تو وہ علی اورغوث کو مولیٰ اور مدد گار کہہ رہا تھا اور ابھی اللہ تعالی کو مولیٰ اورمددگار پکار رہا ہے۔

بہت غور و خوض کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ در حقیقت وہ قرآن نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ قرآن کے نام پر وہ کچھ رٹے رٹائے الفاظ دہرا رہا تھا۔ اس نے ساری توانائی قصہ گوئی میں صرف کردی تھی۔ قرآن فہمی کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں بچا تھا۔ مجھے اس غریب امام سے زیادہ اس کے اساتذہ پرترس آیا، جنھوں نے اسے کچھ بھی نہیں سکھایا تھا۔

جہالت کا خاتمہ:

ہرطرح کی بدعت وخرافات کی جڑجہالت میں ہے۔

جہالت تاریکی ہے اورعلم روشنی۔ مسلمانوں کو گمراہی اورضلالت سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے درمیان علم کا چرچاعام ہو۔

قرآن میں ہے:

﴿ انما یخشی اللہ من عباد ہ العلماء﴾

یعنی اللہ کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
بھلائی ہوئی کتاب:

مسلمانوں کے درمیان خصوصاً نام نہاد علما کے درمیان قرآن ایک بھلائی ہوئی کتاب بن کررہ گیا ہے۔ مسلمان قرآن جلانے کے معاملہ پرتوخوب ہنگامہ کرتے ہیں اورخود اپنی مسجدوں اورمدارس میں قرآن کی جگہ قصہ گوئی کو ترجیح دیتے ہیں۔

لوگوں نے دو طرح سے قرآن کو بھلا دیا ہے۔ ایک گروہ تووہ ہے جو خطیب کہلاتا ہے،یہ طبقہ اپنے خطبوں میں کہانیاں سناتا ہے اوراپنے اکابرین و اولیا اور پیرو مرشد کی داستانیں بیان کرتا ہے۔ دوسراطبقہ نام نہاد مصنفین کا ہے جواپنی تحریروں میں خطیبوں کی باتوں کو گلوری فائی کرتاہے۔

مسلمانوں نے قرآن کو کس حد تک بھلا دیا ہے اس کی ایک بہترین مثال ”مقاصد شریعت“ نامی کتاب ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں 150 سے زیادہ ریفرنسز آئے ہیں لیکن اس میں قرآن سے صرف ایک ہی ریفرنس پیش کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان قرآن فراموشی کا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ خود شریعت کی کتاب میں قرآن کوئی جگہ نہیں پارہا ہے۔

قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن پیغمبر اللہ تعالیٰ سے شکایت کرے گا اورکہے گا کہ :

”میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو بھلا دیا تھا۔“:
"And the messenger, Lord, my people did indeed discard the Quran" (25-30)

قرآن کیوں بھلا دیا گیا ؟ :

قرآن کا بیان سادہ ہے اوراس کے مطالبات بھی سادہ ہیں۔ قرآن یکسو ہوکرلوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ قرآن ایک ایسے دین کوپرموٹ کرتا ہے جس میں کوئی آمیزش نہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے لوگ قرآن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

لوگ مبنی برسیاست، مبنی براولیا، مبنی برمنفعت دین چاہتے ہیں۔ لوگ ایسا دین چاہتے ہیں جس میں ان کے اپنے خوابوں کی تعبیرموجود ہو۔ جس میں خود ان کے اپنے امنگوں کی فیڈنگ ہوتی ہو۔ لوگوں کو ایسے دین میں دلچسپی نہیں جس میں سب کچھ اللہ ہواورانسان کی اپنی حیثیت بندہ کی ہوجائے۔ نام نہاد دینداری کا دعوی کر نے والے لوگ بھی اللہ کے دین کو ایزاٹ از قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، وہ بھی دین کے نام پر بے د ینی کی دھوم مچاتے ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے انھیں سماج میں اونچا مقام حاصل ہوجا تا ہے۔

قرآن فراموشی کی اس فضا میں اگرآپ خالص دین کی بات کریں تو کوئی آپ پر توجہ نہیں دے گا۔ ایسے شخص کی بات لوگوں کو دیوانوں کی بات معلوم ہوگی۔ ایسے شخص کی کوئی مدد بھی نہیں کی جاتی کیونکہ وہ ایک ایسے دین کو لے کراٹھتا ہے جس میں اللہ کومرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کی اپنی حیثیت بندے کی ہوجاتی ہے۔اور کوئی بندہ بنناپسند نہیں کرتا۔

ایج آف قرآن:

ایک ایسے وقت میں جب حاملین قرآن، قرآن کو مسترد کردیں تو خداترس مسلمانوں پرلازم ہے کہ وہ اپنی ذاتی کاوشوں سے صحابہ کو نمونہ بنا کردنیا میں ایج آف قرآن برپا کریں۔ وہ خود قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں، وہ گھروں میں قرآنی نشستیں منعقد کریں، وہ قرآن اوری انٹیڈ مضامین کو پڑھیں اور پڑھائیں، وہ ایسے لوگوں کا سپورٹ کریں جو اپنی باتوں کے لیے اللہ کی کتاب سے دلیل لائیں۔

تبلیغ دین کا سادہ انداز:

سعودی عرب کے بارے میں ایک صاحب نے ایک واقعہ سنایا۔ ایک بچہ ایک دکان پرجاتا ہے اورکچھ سامان خریدتا ہے۔ وہ اپنے مطلوبہ سامان کو لے کر آگے بڑھتا ہے تودکانداراسے دوبارہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سنو، پھرآنا، میرے پاس یہ بھی ہے، میرے پاس وہ بھی ہے، وغیرہ۔ بچہ اس کے جواب میں کہتا ہے” ما عندکم ینفد وما عند اللہ باق“ یعنی سنو، جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔ یہی دین کی تبلیغ کا سادہ انداز ہے۔

جہالت تاریکی ہے اورعلم روشنی۔

اللہ ہمارے دلوں اور گھروں کو علم کی روشنی سے منور کردے آمین یا رب العالمین

طالب دعا منور حسین ناگرا —
 
Top